Mysticism and Science

Articles

تصوف اور سائنس

ڈاکٹر رشید اشرف خان

زیر مطالعہ عنوان گفتگو یعنی ’’ تصوف اور سائنس‘‘ بظاہر مفکر یگانہ مہد ی افادی کے الفاظ میں ’’ گول چیز میں چوکھنٹی ‘‘ کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔یعنی دو متضاد چیزوں کا یکجا ہونا یا بقول امام الہند مولانا ابولکلام آزادعلمی اصطلاح میں ’’اجتماع النقیضین‘‘ ۔ تصوف کا موضوع خالص روحانیت ہے جب کہ سائنس کا نقطۂ پرکار مادیت ہے۔ اگر ہم اپنے زاویۂ نظر کو عالی ظرفی ، وسیع النظری اور باریک بینی سے اپنی نگاہوں کے سامنے لائیں اور قدرے عمیق نظر سے دیکھیں تو ہم بھی شاید اس عالم طلائی کی خیالی دنیا کا جلوہ دیکھ سکیں گے جس کا نظارہ ایک انگریز شاعر نے اپنی شہرۂ آفاق نظمTHE ELDORADOمیں دکھایا ہے۔ یعنی اس کے تخیل نے ایک ایسا تصوراتی خاکہ پیش کیا ہے جہاں پورا شہر سونے میں نہایا ہوا تھا۔جہاںہر چیز سونے کی تھی۔ اس مثال کی مدد سے ہم نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف میں روحانیت کے ساتھ ساتھ کسی قدر مادیت بھی ہے اور سائنس خالص مادیت ہی نہیں بلکہ اس میں روحانیت کی آمیزش بھی ہے۔
تصوف کو انگریزی زبان میں Mysticism اور ہندی بھاشا میں رہسواد کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ عربی اور فارسی زبان کا لفظ ہے ۔تصوف کی تاریخ ۱۴۳۶ سال پرانی ہے ۔اس زمانے میں صوفی پیدائشی نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا فطری رجحان قرآن کریم کو سننے سمجھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریروں اور سنتوں پر عمل کرنے کے باعث تعلیمات قرآنی میں ڈھل جانے کی وجہ سے ہوجاتا تھا ۔ سیدھی سادی زندگی ، دنیوی معاملات میں میانہ روی ، اقوال و افعال میں شفافیت ، عبادت الٰہی کا شغف ، اوامرونواہی کا احتساب، خوف الٰہی، اور حقوق العباد کا خیال اور جہنم سے نجات کا تصور یہ تمام باتیں ایک سچے صوفی کی پہچان تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک بس اتنے ہی اصول تصوف کے تھے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابۂ کرام ، تابعین اور تبع تابعین تک ایک سچے صوفی کی مندرجہ ٔ بالا شناختیں کم وبیش قائم رہیں مگر افسوس کہ دائم نہ رہ سکیں۔ عشق الٰہی جو ایوان تصوف کا بنیادی پتھر تھا رفتہ رفتہ دنیاداری اور ریاکاری کی نذر ہوگیا۔ علامہ اقبال نے اس ملمع کاری کو اس طرح سے پیش کیا ہے

رہنے دے جستجو میں ، خیالِ بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدۂ حکمت پسند کو
جس کی بہار تو ہو ، یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے ، یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کُشتۂ نظارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی میں چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے

’’تصوف ‘‘ شروع شروع میں صرف ایک طریقۂ کار یا لائحۂ عمل تھا جس میں صرف عبادت وریاضت پر زیادہ زور دیا جاتا تھا اور اس کے احکام ومسائل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ان احکام و مسائل کو مختلف درجات یا مراحل میں تقسیم کیا گیا ۔ ان مراحل کی شرائط کی روشنی میں جو صوفی عمل پیرا ہوتا تھا تواس صوفی کو اصطلاح صوفیہ میں سالک ( بمعنی چلنے والا) طریقے کو (مسلک) راستہ اور مقامات کو منزل مانا جاتا تھا۔ اس ضمن میں خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی فرماتے ہیں

بہ مَے سجادہ رنگیں کن ، گَرَت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بُوَد ز راہ رسمِ منزلہا

(یعنی اگر پیر مغاں تجھ سے یہ کہے کہ اپنے مصلے کو شراب میں ڈبو کر بھگا دو تو مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے کیوں کہ تو راہ تصوف میں چلنے والا صوفی (سالک ) ہے جومنزلوں کے طور طریقوں سے بے خبر نہیں ہوتا )

جب تصوف عرب سے ہندوستان آیا تو یہاں صوفی مبلغین اسلام کی اچھی خاصی تعداد پیدا ہوگئی ۔جب علوم کی تدوین و کتابت شروع ہوئی اور اہل تصوف نے زہد ورع اور افعال واعمال پر محاسبے کے طور طریقوں پر کتابیں لکھیں جیسا کہ علامہ قشیری نے اپنے رسالہ میں اور شیخ سہر وردی نے اپنی مشہور کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ میں لکھا ہے کہ بعض دوسرے اکابر صوفیہ آئے تو علم تصوف ملت اسلامیہ میں ایک مرتب اور مدّون علم کی حیثیت سے سامنے آیا۔

ہندوستان آنے کے بعد تصوف دو خاص حصوں میں بٹ گیا ۔ اسلامی تصوف و غیر اسلامی تصوف ۔ اسلامی تصوف کی بنیاد قرآن کریم ، سنت نبی ، احادیث صحیحہ اور صحابۂ کرام کے اقوال پر تھی جب کہ غیر اسلامی تصوف میں ویدانت اوربھکتی تحریک کے اصول شامل کردیے گئے۔ کرم، یوگ اور مایا کے ہندو نظریات تصوف میں دخیل ہونے کے بعد فلسفہ کی اس شاخ کو وسعت تو بے شک بڑھی اور ہزاروں ہندوؤں نے اسے اپنالیالیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تصوف کے اس روپ کو ناپسند بھی کرتے تھے ۔

صوفیاے کرام اور ان کی سائنسی بصیرت کے ضمن میں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ آج سے صدیوں پہلے سائنسی ایجادات یا علوم سائنس کے طور طریقے نہ تو معلوم تھے اور نہ ان کی طرف کچھ زیادہ توجہ کی گئی تھی لیکن ہم لاشعوری طور پر ان سے واقف بھی تھے اور روزمرہ زندگی میں ان کا استعمال بھی ہوتا تھا ۔ مثال کے طور پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علم العلمان علم الادیان و علم الابدان ، تو اس وقت آپ نے دو سائنسی علوم یعنی علم الٰہیات (Theology)اور علم الابدان (Physical Science)کی خصوصی اہمیت کا اعلان فرمایا تھا ۔ علم الٰہیات کے ذیل میں قرآن کریم مع جملہ علوم القرآن ، علوم الحدیث اور سنن رسول سبھی آجاتے ہیں ۔ اسی طرح علم الابدان، علوم معرفت الانسان (Physiology)علوم حفظان الصحت(Hygiene)بشریات (Anthropology)علم النفس(Psychology)نیز جملہ سماجی علوم(Social Science)اور ماحول کے تعلق سے جانداروں کے توضیحی مطالعہ (Ecology)کا مجموعہ ہے۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود شہر علم تھے لہٰذا مذکورہ ٔ بالا علوم سے کما حقہ واقف ہونا آپ کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اور پھر اپنی سنت کے ذریعے مسلمانوں کو مخاطب کرکے وقتاََ فوقتاََ سائنسی علوم سے آشنا کیا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ احادیث کی شکل میں منضبط کر لیے گئے۔
آج دنیا سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے ۔دنیا کے بڑے بڑے ماہرین فلکیات اور ماہرین طبیعات نے جو جدید انکشافات کیے ہیں ،وہ انکشافات آج سے تقریباََ چودہ سو سال قبل احادیث نبویہ میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔جس کی دو مثالیں یہاں پیش کرنا غیر ضروری نہ ہوگا۔

حدیث نمبر۱: { عن ابی موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
لاتقوم الساعتہ حتیٰ یکون القرآن عارا ویتقاالزمان}

’’ جب تک قرآن کریم کو باعث عار نہ سمجھا جانے لگے لگا اور زمانہ جلدی جلدی گزرنے اور اس کے گوشے سمٹنے نہ لگیں گے اس وقت تک قیامت برپا نہ ہوگی‘‘

(مجمع الزوائد: حدیث نمبر ۱۲۴۳۷، جلد نمبر ۷ ص ۳۲۴)

مذکورہ حدیث کے عربی متن میںلفظ ’’ تقارب‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں کا قریب ہونا۔اس میں جہاں ایک طرف زمانے کی اضافی حیثیت یعنی(Relative)کی طرف اشارہ ملتا ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی ہے کہ زمانۂ قدیم میں جن کاموں میں لمبے عرصے گزرجاتے تھے وہی کام مستقبل میں نہایت کم عرصے میں انجام دیے جانے لگیں گے،جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ آج سائنس اور ٹکنالوجی ہر شعبۂ حیات میں غیر معمولی ترقی کر چکی ہے۔یہ حدیث دور حاضر کے ذرائع حمل و نقل اور سرعت رفتا رکی غماز ہے۔اس حدیث میں’’ تقارب الزمان ‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانے کے تغیرات کا انکشاف کیا ہے۔

حدیث نمبر۲: {عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی علیہ وسلم قال تغسل
الاناء اذا ولغ فیہ الکلب سبع مرات اولھن او اخراھن بالتراب}

’’ اگر تمھارے برتن کو کتا چاٹ جائے تو وہ سات مرتبہ دھونے سے پاک ہوگا ،جن میں پہلی دفعہ مٹی سے دھویا جائے‘‘

( ترمذی شریف ،ابواب الطہارۃ ص ۶۸)

عہد رسالت میں ایسی ادویات کا نام ونشان تک نہ تھا جوجراثیم پر اثر انداز ہوسکیں لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کے جراثیم کو ختم کرنے کے لیے مٹی سے برتن دھونے کا حکم فرمایا۔حضور صلی علیہ وسلم کی سائنسی بصیرت کا اعتراف اس وقت ہوا جب سائنسی تحقیق نے مٹی میں Tetraliteاور Tetracyclineجیسے اجزا کی نشان دہی کی۔یہ اجزا جراثیم کش دواؤں کے لیے بطور خاص استعمال ہوتے ہیں۔کتوں کے چاٹے ہوئے برتن کے ذریعے ان کے جراثیم انسانوں پر اثر انداز ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے،اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی سے برتن دھونے کی تاکید کی ہے۔یوروپ کے بعض انگریزمحققین نے اس موضوع پر کئی تحقیقی مضامین قلم بند کیے جس میں اس حدیث کا اعتراف بڑی شدت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
بہ خوف طوالت صرف ایک مثال پر اکتفا کی جاتی ہے جو اس ثبوت کے لیے کافی ہے کہ خانقاہوں اور عبادت گاہوں میں قیام کرنے والے صوفیاے کرام ، فخر روحانیت وخدا شناس ، شاہان بے تاج وتخت تھے۔مذکورہ مثال پر مشتمل میر تقی میرؔ کاشعر درج ہے:

فقیرانہ آئے ، صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے

جسے اللہ کی معرفت حاصل ہوگی پھر اسے دنیا نہیں ڈھونڈ سکتی۔وہ اپنے خالق حقیقی کی زندگی میں بھر پور جذب ہوجاتاہے۔تصوف اور سائنس کے حوالے سے عہد رسالت کے دو صوفی سائنس دانوں لبیب بن سعد اور حبیب بن سعد کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگا جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ معظمہ میں تھے اور بعد میں آپ کے ساتھ مہاجر بن کرمدینہ پہنچے۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے ۔ صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ علم نجوم(Astronomy)سے خاطر خواہ دلچسپی رکھتے تھے۔علم ریاضی میں کافی درک حاصل تھا۔ان نجومیوں کا وطیرہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بہ غرض تجارت دور دراز کا سفر کرتے یا برائے غزوات تشریف لے جاتے تو یہ حضور اکرم کی خاص اجازت سے قافلے یا لشکر اسلامی کے ساتھ بطور بدرِقہ(Escort)ضرور جاتے تھے اور اندھیری رات میں اپنی خانہ ساز دوربینوں (Binoculors) کی مدد سے پتہ لگا لیتے تھے کہ رات میں ستاروں کی مدد سے راستہ کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے ؟ قمر در عقرب کب ہوگا، اچھی بری ساعتیں کون سی ہیں ۔چاند گہن اور سورج گہن(کسوف وخسوف) Eclipseکب ہوگا۔ان کے اثرات مخلوق الٰہی پر کیا کیا اور کس طرح پڑتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ قدرت ، دنیاوی علوم اور اپنے خاص احکام میں ہمیشہ سے ایک خط امتیاز (Line of Demarcation)کھینچتی چلی آئی ہے تاکہ دنیا کی نگاہ میں خدا اور بندگان خدا کے افعال میں تعینِ حدود نظر آسکے ۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ دشمنان اسلام نے ایک دفاعی جنگ کا اعلان کیا ۔پہلے تو سرکار دوعالم نے رفعِ شر کی کوشش کی ،جسے دشمنان اسلام نے بزدلی سمجھااور اپنے موقف پر اڑے رہے تب حضور نے حضرت علی کو بلایا اور فرمایا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اللہ کا پیغام لائے ہیںکہ علی کی قیادت میں جنگ کی جائے۔حضور کا یہ فیصلہ سن کر دونوں نجومی بھائیوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ ساعت جنگ کے لیے بہت منحوس ہے ۔اگر اس وقت کوچ کیا گیا تو خدا ناخواستہ لشکر اسلام کی شکست یقینی ہے ۔ایک نحس ستارہ ہمارے لشکر پر مخالف نظر رکھتا ہے ۔ حضور نے ان کی بات ان سنی کردی اور حضرت علی سے فرمایا: بسم اللہ مجریھا باذن اللہ مرسٰھا۔دونوں نجومی شکست کے خوف سے لشکر کے ساتھ نہیں گئے اور اپنے حجرے میں بیٹھ کر زائچے بناتے رہے۔ایک وقت ایسا آیا جب دونوں نجومی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کرکے سجدۂ الٰہی میں گر گئے اور کہا یا رسول اللہ مبارک ہو حضرت علی بہ حیثیت فاتح مع لشکر تشریف لارہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا جبرئیل امین نے پہلے ہی یہ خوش خبری سنادی ہے مگر تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا؟ انھوں نے عرض کیا کہ وہ منحوس ستارہ جو دوسال کی مدت میں اپنی جگہ سے ہٹنے والا تھا لیکن جوں ہی ہمارا لشکر روانہ ہوا وہ ستارہ دو دنوں میں اپنے مقام سے ہٹ گیا۔بس ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب ہماری فتح یقینی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ میںنے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ علم نجوم فی نفسہ برا نہیں ہے اسے ضرور سیکھو لیکن اسے عقیدے سے نہ ٹکراؤ ورنہ الحاد اور بے دینی کی طرف لے جائے گا۔

عرب ممالک کے علاوہ ایران اور ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھی تصوف کا اسلامی فلسفہ تیزی سے مقبول ہوا ۔ ایک ہندو مصنفDr. N.K. Singh نے لکھا ہے کہ ایک ہندوستانی صوفی حضرت شیخ ابوسعد ابوالخیر نے ایک حقیقی صوفی کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:
“That is the true Man of God, who sits in the midst of his fellowmen, and rises up and eats and sleeps and buys and sells and gives and takes in the bazaars amongst other folk, and yet is never for one moment forgetful of God” .

(Dr. N. K. SINGH: SUFIS of India, Pakistan and Bangladesh. Vol. One
First Edition – 2002. (Preface) PP. X – XI.)

شیخ ابو سعد ابوالخیر کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ طوطیِ ہند حضرت ابوالحسن یمین الدین امیر خسروؔ کے نمایاں افادات کا ذکر ضروری ہے۔ جنھوں نے حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ کے نامور مرید کی حیثیت سے شہرت دوام حاصل کی۔حضرت امیر خسروؔ کے تعلق سے حسن الدین احمد لکھتے ہیں:

’’ اگر سطحی طور پر دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر خسروؔ کی صوفیانہ منش شاعرانہ طبیعت اور دربارداری کے درمیان تضاد ہے، لیکن اس زمانے کے حالات اور امیر خسروؔ کے خاندانی ماحول پر نظر رکھی جائے ، ان کی زندگی کے تنوع کا تجزیہ کیا جائے اور جس انداز سے انھوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نبھایا اسے پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ان کی زندگی میں مکمل ہم آہنگی تھی‘‘

( مضمون: امیر خسرو کے درباری تعلقات ، مطبوعہ ماہنامہ آجکل نئی دہلی ، نومبر ۱۹۷۴ء ص ۴۴)

فارسی ، اردو اور سبک ہندی کے ادیب وشاعر ہونے کی وجہ سے امیر خسروؔ کاجو بلند مرتبہ ہے وہ تو ہے ہی لیکن موسیقی اور ساز وآواز کی دنیا میں انھوں نے جو کمالات دکھائے اور اختراعات کیں ان سے بھی صرف نظر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں نقی محمد خاں خورجوی لکھتے ہیںـ:

’’امیر خسروؔ نے سب سے پہلے عجمی موسیقی کے انداز پر ترانہ ، قول نقش ونگارِ گل وغیرہ گانے ایجاد کیے۔ باوجودیکہ اسلام میں علما نے موسیقی کو ناجائز قرار دیا تھا لیکن ایک گروہ صوفیوں کا ہر زمانے میں ایسا ہی رہا ہے جو تصوِ فانہ غزلیں گا کر روحانی سرور حاصل کیا کرتے تھے‘‘

( مضمون: امیر خسرو ؔ کی موسیقی، مطبوعہ ماہنامہ آجکل نئی دہلی نومبر ۱۹۷۴ء ص ۱۶)

ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امیر خسروؔ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور وہ شاعر سے زیادہ ایک صوفی بھی تھے ۔ سماع کی وجہ سے موسیقی کے بھی دلدادہ تھے شاعری اور موسیقی کا شمار فنون لطیفہ میں ہوتا ہے لیکن انھیں سائنس داں اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے آلات موسیقی کی اختراعات کیں ۔ اگر آلات موسیقی ایجاد و اختراع کو آپ فنون لطیفہ کا سر ٹیفکٹ دیں گے تو پھر گراموفون ، ریڈیو ، ٹیلی فون، موبائیل اور کمپیوٹر وغیرہ سبھی فن لطیف کے خاندانی رشتہ دار بن جائیں گے ۔لہٰذا سماع وغیرہ میں کام آنے والے سبھی آلے فن لطیف کے مددگار ومعاون تو بنیں گے لیکن وہ اپنے مقام پر آلات سائنس(Scientific Devices) ہی کہلائیں گے۔
آلات موسیقی دراصل سائنسی اصولوں پر بنائے گئے ہیں اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے جنھیں دو خاص گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (۱) باد سازی(Wind Instrument) (۲) زہی ساز(Bow Instrument) پہلی قسم میں ساز بین ، بانسری ، فلوٹ وغیرہ ہیں جب کہ دوسری قسم میں خنجری وغیرہ ہیں ۔ انھیں میں ضربی ساز (Pluck Percussion) بھی ہیں۔ ضربی سازوں میں سِتار بہت مشہور ہے اور اس کے مؤجد حضرت امیر خسروؔ تھے۔ اس ساز میں راگ پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ امیر خسرو نے اپنی کتاب ’’ قِران السعدین‘‘ اور ’’نہہ سپہر‘‘ میں آلات موسیقی اور ان کے استعمال کے بارے میں ایسی باتیں لکھی ہیں جو ایک ماہر فن ہی لکھ سکتا تھا۔ امیر خسرو نے ایرانی عود اور وینا کے استفادے کے بعد سہ تار کی تشکیل کی ۔ امیر خسرو کی علم موسیقی میں مہارت کا ایک واضح ثبوت اس قطعے میں ملتا ہے جو ’’ اربعہ عناصر دواوین خسرو ‘‘ میں موجود ہے ۔ ’’خسروی سِتار ‘‘ کی ابتدائی شکل وہ کشمیری سِتار ہے جو صوفیانہ موسیقی (کلاسیکی موسیقی کشمیر) میں استعمال ہوتی ہے۔ اس حوالے سے عظمت حسین خاں میکش کا یہ اقتباس کافی اہمیت کا حامل ہے:

’’ صدیوں پہلے جب ہماری موسیقی نے الفاظ کا جامہ پہنا تو دُھرپد کی ابتدا ہوئی (جو موسیقی کی ایک صنف ہے ) جس میں دیوتاؤں کی استُتھی(تعریف)ہوتی تھی یا مذہبی واقعات کا ذکر ہوتا تھا لیکن دُھرپد شروع کرنے سے پہلے راگ کے وستار (پھیلاؤ) کے لیے چند الفاظ وضع کیے گئے جن میں عبادت یا پرارتھنا کا مفہوم یا تاثر تھا اس اندازکو ’’ الاپ جاری‘‘ کہا گیا ۔ حضرت امیر خسرو نے قوت ایجاد سے کام لے کر ’’الاپ جاری ‘‘ میں بھی ایک نئی چیز پیدا کردی جس کا نام ’’ترانہ‘‘ تھا ۔ ’’ خیال‘‘ گانے والے کے لیے ترانہ گانا بھی ضروری ہے ، کیوں کہ خیال اور ترانہ ، دونوں امیر خسرو کی مو سیقی سے منسوب ہیں‘‘

( مضمون : ترانہ اور خسرو۔ مطبوعہ قومی راج بمبئی ، خسرو نمبر نومبر ۱۹۷۵ء ص ۵۶)

قول اور قوالی بھی امیر خسرو کی ایجاد ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر خسرو اپنی سائنسی اختراعات کی بنا پر ساز وآواز دونوں میں مجتہدانہ شان رکھتے تھے۔

اب ہم مولانا محمد جلال الدین رومیؔ کی عالمی شہرت یافتہ مثنویِ معنوی کی بنیاد پر ان کے صوفیانہ خیالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنس سے متعلق ان کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں مولانا روم کے سائنسی نظریات کو سمجھنے کے لیے ان کے فارسی کلام کا عام فہم اردو ترجمہ بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تجارب اجسام(The Gravity of Bodies) کا نظریہ انگریز سائنس داں اسحاق نیوٹن نے۱۶۶۶ء میں پیش کیاتھا کہ درخت سے نیچے گرنے والا سیب آخر زمین ہی کی طرف کیوں آتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں قوت کشش(Gravity) پائی جاتی ہے یہی واقعہ تمام اجسام کے ساتھ پیش آسکتا ہے
۔ اس ضمن میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ:
’’ اس مسئلہ کی نسبت تمام یورپ کا بلکہ تمام دنیا کا خیال ہے کہ نیوٹن کی ایجاد ہے ، لیکن لوگوں کو سن کر یہ حیرت ہوگی کہ سیکڑوں برس پہلے یہ خیال مولانا روم نے ظاہر کیا تھا‘‘

( سوانح مولانا روم : دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۱۰ء ص ۱۵۳)

مولانا جلال الدین رومی نے نیوٹن سے سیکڑوں سال قبل جس قانون قدرت کو اپنی مثنوی میں پیش کیا ہے اس کے فارسی اشعاراور اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:

فارسی اشعار
جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش
جُفت جُفت و عاشقانِ جفت خویش
ہَست ہر جُفتے ز عالم جُفت خواہ
راست ہم چوں کہر با و برگ کاہ
آسماں گوید زمیں را مرحبا
با تو اَم چوں آہن و آہن ربا

اردو ترجمہ
تیرے حکمِ خاص سے جتنے ہیں اجزائے جہاں
ہم نوا کی جستجو میں غرق مثلِ عاشقاں
ہم نوا سب کو سکھائیں ہم نوائی کا سبق
جیسے بجلی اور پتی گھاس کی مانگے ہیں حق
آسماں دیتا ہے شاباشی زمینِ پست کو
جیسے آہن دیکھ لے آہن ربائے مست کو

اگر کوئی شخص حکیم کامل مولانا جلال الدین رومی کی روح پُر فتوح سے ان کے شاگرد علامہ اقبال کی طرح سوال کرے کہ یہ بتایئے کہ فضائے بسیط میں زمین کس طرح نظر آتی ہے تو پیر رومی ، مرید ہندی کو مخاطب کرکے فرمائیں گے کہ:

فارسی اشعار
گُفت سائل ، چوں بماندِ این خاک داں
درمیانِ این محیطِ آسماں
ہم چو قندیلے معلّق در ہَوا؟
نے بَر اسفل می رَوَد نَے بر عُلا
آں حکیمش گفت کز جذبِ سما
از جہاتِ شش (چھ) ، بماند اندر ہَوا
چوں ز مقناطیس قبّہ ریختہ
درمیاں ماند آہنے اویختہ
اردو ترجمہ
پوچھا سائل نے کہ قبلہ راز کیوں پوشیدہ ہے
یہ زمیں کیوں وسعتِ افلاک میں پاشیدہ ہے
کس لیے ہے وہ معلّق مثل قندیلِ ہَوا؟
نیچے جانے کو ہے راضی اور نہ اوپر راستہ
بولے اس سے یہ حکیمِ دیدہ ور سن تو ذرا
ہے چہوں جانب سے بے چاری کشش میں مبتلا
سوچ لے گنبد بنایا تو نے مقناطیس کا
اور بیچوں بیچ اک لوہے کا تختہ ہو پڑا

مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دور حاضر میں بہتوں کا مشاہدہ اور قیاس ہے کہ بالعموم ہماری نئی نسلوں کے پاس نہ وہ جنون عشق الٰہی ہے نہ شعور نعت نبی۔ دین وایمان کی وہ روح ، سائنسی بصیرت اور عبادتوں کا خضوع و خشوع دیکھنے کو نہیں ملتا جو ہمارے سیدھے سادے فرشتہ صفت بزرگوں میں پایا جاتا تھا۔ بالخصوص جب یہ ماحول ان تمام ممالک میں ہو، جو ’’اسلامی ‘‘ کہلاتے ہیں یا ان علاقوں اور خطہ ہائے زمین میں ہو جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاََ زیادہ ہے۔ مادیت ، گندی سیاست ، غلط روایات ، تخریب اخلاق ، خوف خدا کی کمی اور جذباتی بے راہ روی نے ہم سے اُس اطمینان قلب اور ذہنی یک سوئی کو چھین لیا ہے جو صحت مند فلسفۂ تصوف کی جان تھی۔ اب تو صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ موبائل ، انٹر نیٹ ، کمپیوٹر ،ٹی وی اور اسی طرح دوسرے سائنسی آلات کی مدد سے صوفیانہ خیالات اور تجربات کی عملی تبلیغ دانش مندانہ طورپرکی جائے ۔ممکن ہے کہ یہ طریقۂ کار کسی قدر کامیاب ثابت ہو۔