Murcha A short Story by Mushtaq A Mushtaq

Articles

مورچہ

مشتاق احمد مشتاق

ٹرین محل نما بڑے سے اسٹیشن پر آکر رکی؛ مسافر تیزی سے اپنی اپنی بوگیوں سے نکلے، اورنکلتے ہی بھیڑ کا روپ دھار کر اسٹیشن کے باہری دروازے سے ہجوم در ہجوم ٹیکسی، بس اور آٹورکشا میں سوار ہوکرشہر کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے اس بے چہرہ بھیڑ میں وہ بھی تھا – رنگ گندمی اتنا گہرا کہ جلد سے خون کی لالی صاف جھلک رہی تھی، شباہت ایسی کہ مانو مغربی کہانی کا کوئی کردار ہو،ساتھ میں دو کیمرے جس میں سے ایک اس کے گلے میں جھول رہا تھا جس سے وہ مناظر کو تصویر کرنے کا کام لیتا اور دوسرا جو اس کی بیگ میں بند تھا اس سے وہ فلم بندی کا کام کرتا – بیگ اپنی پشت پر لادے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ایک ٹیکسی میں جا بیٹھا، ٹیکسی تیر کی طرح اپنے ہدف کی طرف چل پڑی اور وہ اپنی بھوری بھوری آنکھوں سے شہر کو کسی دریا کی طرح بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا – ٹیکسی بڑے سے پر شکوہ ہوٹل کے پارکینگ زون میں رکی اس نے پرس سے کچھ روپے نکال کر ڈرائیور کے ہاتھ میں تھمائے
اور تیزی سے گیٹ پر کھڑے آدمی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کاونٹر پے بیٹھے مینجرکو اپنا شناختی کارڈ دیا مینجر نے کاغذی کاروائی کرتے ہوئے پوچھا
“کس سلسلے میں آئے ہو؟؟
“سیلانی آدمی ہوں سیرو سیاحت کی غرض سےآیا ہوں”اس نے جواب دیا،،؛ یہ یہاں اپنا نام ایڈریس اور موبائل نمبر لکھ دو؛ مینجر نے رجسٹر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا- نام ایڈریس اور موبائل نمبر رجسٹر پر درج کرنے کے بعد وہ ویٹر کے ہمراہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا-، کمرے میں پہنچ کر ویٹر کو کچھ روپے دیتے ہوئے چائے ناشتہ لانے کو کہا اور بڑی تیزی سے
باتھ روم میں داخل ہو گیا…….. کچھ دیر بعد وہ چائے کی چسکی لیتے ہوئے ویٹرسےکہہ رہا تھا،” مجھے ایک ایسا آدمی چاہیے جو کچھ دنوں کے لیے جب تک میں یہاں ہوں میرے ساتھ رہے اور مجھے یہاں کے جھگڑے دکھائے”جھگڑے دکھائے” ویٹرچونک سا گیا، “سر جھگڑا بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے ارےممبئی آئے ہو تو گیٹ وے آف انڈیا دیکھو، چوپاٹی دیکھو، حاجی علی کی درگاہ، ممبادیوی کا مندر ، نئیں تو گورےگاوں جاو فلم انڈسٹری دیکھو”نہیں مجھےیہاں کےجھگڑےدیکھنا ہے، اس نے کرخت لہجے میں کہا، اور جھگڑوں کا سبب معلوم کرکےاسے اپنے کیمرے میں قید کرناہے”اچھا ڈاکومنٹری فلم بنانی ہے تمہیں “ویٹر نے چہکتے ہوئے کہا” ایسا بولونا سر- ٹھیک ہے ابھی تم آرام کرو، اپن ارینج کرتا ہے،جیسا تم بولتا ہے ویسیچ آدمی مارننگ میں ادھر تمھارے پاس ہویگا – جو تم کو اکھّا ممبئی کے جھگڑے دکھائے گا-
 “مینٹل ہے سالا ” ویٹر نے دبے لہجے میں کہا –
” چلو ابھی گڈبائے سر، سویرے-مورننگ میں ملتے ادھرچ،
ویٹر کے جا تے ہی اس نے بیگ سے لیپ ٹاپ نکال کرآن کیا، لیپ ٹاپ کی ڈارک اسکرین پر روشنی کے ساتھ کچھ رنگ ابھرے میل باکس اوپن ہوگیا اور پھر اس کی انگلیاں کی بورڈ پر کسی مشاق رقاصہ کی طرح تھرکنے لگیں ، انگلیوں کی حرکت سے اسکرین پر حرف ابھرے اورایک دوسرے سے جڑ کر تحریر ہونے لگے”میں پوری دنیا میں اپنے کام کو انجام دیتے ہوئے آخری سرے تک آگیا ہوں – یہ میرا آخری پڑاؤ ہے صرف دس دن اور کام فنیش گڈلک”سینڈ، کی، دبائی اور اسکرین، کو کی بورڈ پر تیزی سے جھکا دیا،دوسری صبح اس نے غسل کیا چائے ناشتہ کرنے کے بعد ایک طائرانہ نظر گھڑی کی جانب کی جو دس بجنے کا اعلان کر رہی تھی،
اس نے الماری میں رکھا بیگ اٹھایا اور اس میں سے ایک بڑا سا  فائے ڈی کیمرہ نکال کر اس میں بیٹری لگائی کیمرہ کو آن کیا اور کیمرے میں لگی اسکرین کو گھورنے لگا
اسی اثنا میں ڈور بیل کی آواز گونجی اس نے کیمرہ آف کیا اور دروازے کی طرف بڑھ کر دروازہ کھول دیا،سامنے ویٹر اس کےمطلوبہ شخص کے ساتھ موجود تھا؛-ویٹر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا”یہ رہا وہ آدمی جو تمہیں اکھا ممبئی گھمائے گا اور تمہارے مطلب کا چیز، بولے تو،،، جھگڑا؛؛ جھگڑا دکھائے گا، سارے لفڑے بازوں کا کچا چٹھا ہے اس کی پاس  ہے ممبئی کے ہر سیانےکو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ھیکہ کون سا سیانا کب سیان پتی کرے گا،سیان پتی بولے تو جھگڑا؛؛ ویٹر جیسے ہی چپ ہوا اس نے فوراً اپنی جیب سے پاکٹ نکالا اور ہزار ہزار کے دس نوٹ ویٹر کو دیتے ہوئے کہا “تھینک یو اب تم جا سکتے ہو” ویٹر جوابی کلمات کہہ کر وہاں سے خوشی خوشی چلا گیا، ویٹر کے جاتے ہی اس نے گائیڈ سے استفہامیہ انداز میں کہا “میرے خیال سے؛ ویٹر نےتم کو سمجھا دیا ہوگا؛ کہ تمہیں کیا کرنا ہے” جی سر”تو پھر لے چلو، مجھے ایسی جگہوں پر جہاں جھگڑتے ہوتے ہوں- او کے سر گائیڈ نے پر جوش انداز میں کہا؛؛؛ اور کچھ ہی دیر میں ان کی ٹیکسی سڑک پر دندناتی ہوئی بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں آکر رکی، گائیڈ اور وہ ٹیکسی سے اترے اس نے کیمرہ آن کیا اور دور تک پھیلے ہوئے مناظر قید کرنے لگا، دوکانیں قطار در قطار سڑک کے دونوں جانب دور تک دیوار کی طرح استادہ  تھیں جن میں زندگی گزارنے کے پورے لوازمات موجود تھے-وہ ایک اک منظر کو بڑی خوبی سے اپنے کیمرے میں قید کررہا تھا-کہ اچانک لوگ گھبرا کر بھاگنے لگے، دکانیں بند ہونے لگیں گائیڈ نے ایک آدمی سے بھاگنے کی وجہ دریافت کی؛ ارے کیوں بھاگ رہے ہو کیا، ہوا کیا ہے؟ ج جگگا؛؛؛ جگا دادا نے گلاب کانچیا کا مرڈر کر دیا؛ اتنا بول کر آدمی تیزی سے آگے بڑھا اور بھیڑ کا حصہ بن گیا-؛ ہنگامہ دیکھ کر وہ اور گائیڈ پاس کھڑی ٹیکسی میں بیٹھ گئے؛ یہ جگا اور گلاب کانچیہ کون ہیں ؟ اس نے گائیڈ سے پوچھا؛ اور یہ مرڈر کیوں ہوا-گائیڈ کچھ دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا-جگا اور کانچیہ یہ دونوں بیس پچیس سال پہلے بہت گہرے دوست تھے گاؤں میں مکھیا کے لڑکے سے کسی بات پے جھگڑا ہوا اور یہ لوگ پولیس اور مکھیا کےڈر سے بھاگ کر شہر آگئے لوگوں سے کام مانگا مگر کسی نے کام نہ دیا بھوک جب برداشت سے باہر ہوئی تو قدم برائی کی طرف بڑھے، وقت گزرتا گیا اور ان کے قدموں کی رفتار بڑھتی گئی اور جب لہو بدن میں بجلی بن کر دوڑنے لگا تو ایک لڑکی دونوں کی زندگی میں آئی جس کو پانے کے لئے دونوں الگ ہوگئے؛؛؛؛ ؛؛؛؛
 ؛؛ گائیڈ چپ گیا، ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی گلاب کانچیا کی لاش لیکر گزری اور ایمبولینس کے پیچھے پولیس جیب جگا کو لیکر نکلی؛؛؛؛ اور آج دونوں ختم ہوگئے – – اس نے جیب کو فوکس کیا اور ژوم کرتے کیمرہ آف کردیابہت ؛ اینٹریسٹنگ اچھی کہانی ہے ویرینائس ویریگڈ؛ پیکپ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
 زمین اپنے مدار پر چکر لگاتی رہی؛ رات اور دن کے نام بدلتے رہے؛ اچانک کمرے میں روشنی ہوئی اور اس نے گائیڈ سے کہا؛ ابھی تک ہم نے جتنے بھی جھگڑے شوٹ کئے  سب کے معاملات ایک جیسے ہیں؛ ان میں ایک بھی جھگڑا ایسا نہیں ہے جو مجھے آیٹرک کر سکے یا جس کا سبب جان  کر میری آنکھوں میں خون اتر آئے اور میں اپنے مقصد کو پا سکوں،گائیڈ اس کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا اور اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا،،،،،،،، کچھ دیر بعد وہ پھر گویا ہوا؛ ہر وہ شخص جیسے ہم نے جھگڑتے یا مرتے ہوئے دیکھا ہے سب کی لڑائی اپنے مفاد کیلئے تھی -ایسے جھگڑے تو جنگلوں میں جانوروں کے درمیان روز ہوتے ہیں، کل کا ہمارا لوکیثن کیا ہے – اس نے گائیڈ سے دریافت کیا؛؛گائیڈ نے جواب دیا؛؛ ایشیاء کی سب سے بڑی جھوپڑپٹی دھاراوی؛؛ اس نے سیگریٹ سلگاتے ہوئے کہا؛ او کے ہم کل ملتے ہیں گڈنائٹ؛؛؛ اور ڈھیر سارا دھواں کمرے میں بکھر گیا – سورج نارنجی دوشالہ اوڑھے اپنے افق سے ابھرا ہی تھا کہ اس کا کمرہ فون کی گھنٹی سے گونج اٹھا، اس نے موبائل اٹھا کر
اپنی نیند آلود آنکھوں سے موبائل اسکرین کو دکھا جس پر گائیڈ لکھا ہوا آ رہا تھا اس نے حیرت سے گھڑی کی جانب نظر ڈالی جس میں ساڑھے چھ بجے رہے تھے اس نے کال ریسیو کی کمرے میں گائیڈ کی پتلی آواز ابھری؛ سر آپ فوراً دھاراوی کے نہرو نگر پہنچو؛ اس نے او کے کہا اور تیزی سے بیڈ سے اٹھ گیا،؛ اب سورج سیمابی لبادہ پہنے
اپنے افق سے اوپر اٹھ چکا تھا؛ اور وہ ٹیکسی سے اتر کر
گائیڈ کے ہمراہ دھاراوی کی تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا نہرو نگر کے بھگت سنگھ چوک میں جہاں لوگوں کی بھیڑ تماشائی بنی کھڑی تھی؛ وہ اور گائیڈ بھی ان میں شامل ہوگئے اس نے کیمرہ آن کیا اور اس منظر کو قید کرنے لگا جس میں ایک نوجوان پانچ لوگوں سے لڑ رہا تھا کچھ دیر بعد ان پانچوں میں سے چار اپنی جان سمیٹ کر وہاں سے فرار ہوگئےاورجو ایک بچاتھا
 اس کی گردن نوجوان کے مضبوط بازوں میں پھنسی ہوئی تھی نوجوان نے اسے دبوچے ہوئے چلا کر کہا اگر آج کے بعد تو نے یا تیرے آدمیوں نے اس گھر کی طرف دکھا تو تم میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا؛ اتنا کہہ کر اپنی گرفت میں پھنسے شخص کو چھوڑ دیا؛ گرفت سے چھوٹتے وہ شخص وہاں سے بھاگا اور بھیڑ چھٹ گئی،  نوجوان ایک جھوپڑے کے پاس بیٹھے ساٹھ سال کے بوڑھے اور اس کی بیوی کو دلاسا دینے لگا؛؛؛؛ اس نے کیمرہ بیگ میں رکھا اور گائیڈ سے کہا؛ یہ نوجوان ان لوگوں کو کیوں مار رہا تھا؛ وہ لوگ اس بوڑھیا اور بوڑھے کے گھر پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتے تھے؛ اچھا تو وہ نوجوان ان کا لڑکا ہے؛؛ نہیں ان کا کوئی بھی نہیں ہے بس وہ ان پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکا اور انھیں مار بھگایا؛ اس کے علاوہ کوئی وجہ؛ اس نے پوچھا؛ نہیں اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں؛ گائیڈ نے اتنا کہا اور اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے اپنے کے گلے میں لٹک رہے کیمرے سے اس نوجوان کی تصویر کھینچی لی؛ گائیڈ اس کی خون آلود آنکھیں حیرت سے دیکھنے لگا  اس نے زور سے آواز لگائی پیکپ؛ ہوٹل پہنچ کر اس نے کمرے میں ہی کھانا منگوایا اور گائیڈ کے ساتھ  کھایا، کھانے سے فارغ ہو کر اس نے گائیڈ کے ہاتھ میں ایک پھولا ہوا لفافہ تھماتے ہوئے کہا تم نے اپنا کام بہت اچھے طریقے سے انجام دیا تم مجھے ہمیشہ یاد رہو گے گڈ بائے اب ہم کبھی نہیں ملیں گے اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا روم میں جاکر میل باکس کھول کر لکھا؛؛ میشن فینش ؛؛میری فلائٹ دو روز بعد ہے جلد ملاقات ہوگی ؛ دوسرے دن وہ ٹرین میں بیٹھا اخبار کی سرخی دیکھ رہا تھا ؛ دھاراوی کے نہرو نگر میں رہنے والے ایک نوجوان کا قتل لاش کھاڑی سے برآمد پانچ لوگ گرفتار؛؛مسکراتے ہوئے اس نےاخبار ایک طرف رکھا اور  چور چور کی آواز پر چونکا ایک دس گیارہ سال کا بچہ چور چور کی آواز لگاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرا اس نے بچے سے پوچھا؛ تمہاری کوئی چیز چوری کی ہے اس نے ؛ لڑکے نے جواب دیا، نہیں  اس عورت کا پرس چوری کیا ہے؛وہ عورت تمہاری کون ہے؛ بچے نے معصومیت سے کہا؛؛؛ کوئی نہیں؛بچے کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا، اور ٹرین  گپھا سے نکل کر چنگھاڑ تی ہوئی شہر میں داخل ہوگئی-