Memarandaar Musanfeen

Articles

معماران دارالمصنفین

ڈاکٹر خورشید نعمانی

مولانا شبلی نعمانی دارالمصنفےن کے تخئےل کے خالق تھے اس تخےل کو حقےقت کا عملی جامہ پہنانے والوں مےں مولانا حمےدالدےن فراہی ،مولاناسےد سلےمان ندوی،مولانا عبدالسلام ندوی،اور مولانا مسعود علی ندوی،جےسی قدآور شخصےتےں کارفرما تھےں۔ےہ شخصےتےں دارالمصنفےن کے اصل معماروں مےں سے ہےں لےکن اس کے علمی و ادبی و عملی کارنامے اس کی تاسےس سے آج تک مختلف رفقا کی انتھک کوششوں کا نتےجہ ہےں۔رفقا مےں وہ شخصےتےں زےادہ اہم ہےں جنہوں نے اس ادارہ سے عمر بھر کا پےمان وفا باندھا۔ان کی خدمات امر ہےں۔بعض رفقا تربےت پاکر اور مختصر عرصہ تک ےہاں تک مقےم رہ کر رخصت ہوگئے۔ذےل مےں ان تمام رفقا کے حالات اور ان کی تصانےف کا اجمالاََ ذکر کےا جاتا ہے تاکہ ےہ اندازہ ہوسکے کہ دارالمصنفےن نے صرف کتابےں ہی شائع نہےں کےں بلکہ نوجوانوں کی ذہنی و علمی و ادبی تربےت بھی کی۔
مندرجہ ذےل چار شخصےتوں کو دارالمصنفےن کا معمار ہونے کا شرف حاصل ہے اس لیے ان ہی سے ابتدا کی جاری ہے۔

۱)مولانا حمےدالدےن فراہی (۲۶۸۱ء ۔ ۰۳۹۱ئ)

مولانا حمےدالدےن فراہی مولانا شبلی کے ماموں زادبھائی اور عزےز شاگرد تھے،اردو فارسی و عربی کی تعلےم کے بعد انگرےزی تعلےم بھی حاصل کی اور بی اے کی ڈگری لی۔وہ فطرتاََنہاےت ذہےن ،طباع اور دقےقہ رس تھے لےکن ساتھ ہی ساتھ انتہائی خاموش طبےعت کے مالک ،تنہائی پسند اور گوشہ نشےن تھے۔
۷۹۸۱ءمےں وہ مدرسہ اسلام کراچی مےں مدرس مقرر ہوئے اور کئی سال ےہاں ملازمت کی،مولانا عبےداللہ سندھی سے ان کی ملاقاتےں بھی ےہےں ہوئےں۔دونوں مےں قرآن پاک کے درس اور غور و فکر کا ذوق مشترک تھا۔ےہےں سے ۳۰۹۱ءمےں ان کا فارسی دےوان شائع ہوا،مولانا شبلی کی توجہ خاص سے ان کے ےہاں قرآن پاک کے نظم وبلاغت کے موضوع مےں انہماک پےدا ہوا آپ نے جمھرة البلاغہ نامی رسالہ لکھا جس کا خلاصہ مولانا شبلی نے اپنے قلم سے الندوہ کے دسمبر۵۰۹۱ءمےں شائع کےا۔کراچی کے بعد وہ علی گڑھ کالج مےں عربی کے پروفےسر مقرر ہوئے۔

مولانا حمےدالدےن فراہی کے ذاتی فضل وکمال اور مولانا شبلی سے تعلق خاص کے سبب علی گڑھ کے علمی حلقہ سے ان کے گوناگوں روابط ہوگئے۔مولانا حبےب الرحمٰن خاں شےروانی سے ان کے مراسم خاص ہوگئے وہ مولانا کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہوگئے قرآنی مشکلات کے حل مےں ان سے وہ مشورہ لےنے لگے ۔علی گڑھ کے قےام ہی کے زمانے مےں انہوں نے اقسام القرآن لکھی جو کہ اپنی نوعےت کی اےک منفرد تصنےف تھی۔۸۰۹۱ءمےں مولانا فراہی علی گڑھ سے الہ آباد منتقل ہوگئے اور ےہاں مےورکالج(الہ آباد ےونےورسٹی)مےں عربی کے پروفےسر ہوگئے۔کالج کے درس کے علاوہ باقی وقت تالےف و تصنےف مےں صرف کرتے۔ےہےں سے انہوں نے سورہ مرےم کی تفسےر شائع کی۔مولانا فراہی کے قےام الہ آباد کے دوران کے اہل برادری مےں اےک نئے عربی مدرسہ کی قےام کی تحرےک پےدا ہوئی مولانا شبلی اور مولانا حمےدالدےن فراہی نے اس تحرےک کی عنان اپنے ہاتھ مےں لی اور ۰۱۹۱ءمےں اعظم گڑھ مےں سرائے مےر نامی جگہ پر اےک مدرسہ کی بنےاد رکھی اور مولانا اسکے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔

اوآخر۳۱۹۱ءمےں جب مولانا شبلی نے ندوہ کی معتمدی سے استعفیٰ دےا تو اپنی دےرےنہ آرزو ےعنی اےک دارالمصنفےن کاخےال ان کے ذہن مےں پھر آےا ،پھر اگست ۴۱۹۱ءمےں اپنے عزےز بھائی مولوی محمد اسحٰق کی وفات پر وہ اعظم گڑھ آگئے اور ےہےں قےام طے کےا،دارالمصنفےن کے لیے زمےن وبنگلہ وقف کےا اور عزم وےاس کے عالم کشمکش مےں مولانا حمےدالدےن کو ۴۱ اکتوبر ۴۱۹۱ءکولکھا۔
”افسوس ہے کہ سےرت پوری نہ ہوسکی اور کوئی نظر نہےں آتا کہ اس کام کو پورا کرسکے۔ اور اگر دارالمصنفےن قائم ہوا تو تمہارے سواکون چلائے گا۔“۱

۸۲ اکتوبر۴۱۹۱ءکو اپنے آخری خط مےں لکھتے ہےں:

”برادرم وقت تو ےہ تھا کہ ہم چند لوگ ےکجا ہوتے اور کچھ کام کرتےسےد سلےمان ندوی بھی تعلق موجود ۳ پر راضی نہےں ،ذرا سا اشارہ ہو تو مرے پاس آئےں،مےں خود روک رہا ہوں“۲
اس خط کی تحرےر کے تےن ہی ہفتہ کے بعد مولانا شبلی نے ۸۱ نومبر ۴۱۹۱ءکو انتقال کےا۔مولانا حمےدالدےن وفات سے اےک دن ،اور سےد سلےمان ندوی دو دن قبل ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔سےد صاحب کو حکم دےا۔

”سب چھوڑ کر سےرت “مولانا حمےدالدےن پہنچے تو سکوت طاری ہوچکا تھا،آنکھےں کھول کر صرف بھائی کی طرف دےکھا اور چپ ہوگئے بقول سےد سلےمان ندوی:

”اس خاموش نگاہ حسرت مےں وصےتوں اور فرمائشوں کے ہزاروں معنی پوشےدہ تھے جس کو اہل حق ہی سمجھ سکتے ہےں۔“۴ مولانا شبلی نے انتقال سے قبل جو دو خط مولانا حمےدالدےن کو لکھے تھے وہی مرحوم کی زندگی کا آخری نصب العےن بن گےا۔مولانا شبلی کے انتقال کے تےسرے دن مولانا حمےدالدےن فراہی نے ان کے ارشد تلامذہ کی اےک مےٹنگ بلائی اور ان کی اےک مختصر سی مجلس نعمانےہ بنالی جس کا مقصد مولانا شبلی کے ادھورے کاموں کی تکمےل تھی۔وہ مجلس عاملہ کے صدر نشےن اپنی زندگی کے آخری اےام تک رہے۔مولانا سےد سلےمان ندوی۔ناظم علمی اور مولانا مسعود علی ندوی ناظم انتظامی ،مولانا مسعود علی نے ان کاموں کی تکمےل کے بعد دارالمصنفےن مےں قےام کرنا بھی منظور کےا۔

مولانا شبلی کے انتقال کے بعد مولانا فراہی حےدرآباد چلے گئے۔وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے عصری علوم و فنون کی اردو زبان مےں تعلےم کی تجوےز پےش کی،اس کا خاکہ تےار کےا۔ان کاخےال تھا کہ دےنےات کی تعلےم عربی مےں ہو اور باقی تمام علوم ےہاں تک کہ اصول فقہ بھی اردو مےں پڑھا جائےں۔جامعہ عثمانےہ مےں کتابوں کے ترجمہ اور اصطلاحات وضع کرنے کا جو کام شروع ہوااس مےں مولانا کے مفےد مشورے بھی شامل ہےں۔مولانا حبےب الرحمٰن خاں شےروانی جو جامعہ کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے تو اپنے والانامہ مےں فرماتے ہےں:

”جامعہ عثمانےہ کی بنےاد رکھنے والوں مےں مولانا کے ہاتھ بھی تھے“۱
حےدرآباد مےں قےام مےں خرد نامہ ےعنی مواعظ سلےمان کی تکمےل کی اور چھپوائی پھر”اسباق الخو“کے نام سے عربی صرف وہ نحو کی آسان صورت مےں اردو مےں دو رسالے مرتب کئے”الرائی الفصےح “تصنےف کی اور تفسےر کے بعض مقدمات لکھے اور درس قرآن کا اےک حلقہ قائم کےا۔مولانا کا قےام حےدرآباد مےں ۹۱۹۱ءتک رہا وہاں سے اعظم گڑھ آگئے اور ےہاں مدرستہ الصلاح سرائے مےر کی خدمت مےں لگ گئے ۔۰۳۹۱ءمےں انتقال کےا۔

مولانا شبلی مولانا حمےد الدےن فراہی کو بہت عزےز رکھتے تھے۔مکاتےب شبلی جلد دوم مےں ان کے نام ۷۷خطوط اس بات کے غماز ہےں،سےد سلےمان ندوی رقم طراز ہےں۔
”اپنے ماموں زاد بھائی اور شاگرد مولوی حمےدالدےن صاحب مرحوم سے نہاےت خلوص تھا اور ان کو ہر بات مےں اپنے اوپر ترجےح دےتے تھے ۔کابل سے ترجمہ ابن خلدون کی تحرےک ہوئی تو انہےں کا نام پےش کےا ،علی گڑھ کی عربی پروفےسر ی کے لیے نواب محسن الملک نے لکھا تو انہےں کے لیے کوشش کی اور وہ اسی کوشش سے وہاں کے پروفےسر مقرر ہوئے۔دارلعلوم ، حےدرآباد کی پرنسپلی کے لیے مولانا شبلی کا انتخاب ہوا تو انہوں نے ےہ جگہ مولوی حمےدالدےن صاحب کو دلادی،ان کی فارسی سخن سنجی ،نکتہ آفرےنی اور آخر مےں ان کی قرآن فہمی کے بے حد معترف تھے،مسائل کی تحقےق مےں ان سے مشورے کرتے تھے،ان کے فارسی کلام کی نسبت کہتے تھے کہ ےہ زبان ہے،ان کی مذہبی و علمی وعملی شےفتگی اور پابندی کی بنا پر ان کو دروےش کہتے تھے اور تھے بھی وہ اےسے ہی،عقےدةََ اور عملاََ نمونہ سلف رحمتہ اللہ تعالیٰ ،دےندار،عبادت گزار،تہجد گزار،متقی،متوکل،صابر و قانع،متواضع و خاکسار،غرض مجموعہ اوصاف۔۲

مولانا حمےدالدےن فراہی کے بارے مےں مولانا عبدالماجد درےا آبادی کا ےہ بےان قابل ملاخطہ ہے:
”بڑے سنجےدہ اور مفکر قسم کے آدمی تھے جو کچھ پڑھا وہ محنت اور شوق دونوں سے پڑھا اس لیے
ادےبات فارسی و عربی مےں اپنے معاصرےن سے بازی لے گئے اور ممکن ہے کہ مولانا شبلی سے بھی ،فارسی اور عربی دونوں پر بے تکلف قدرت اہل زبان کی طرح رکھتے تھے۔فارسی مےں شاعر ،صاحب دےوان اور عربی مےں کلام جاہلےت کے گوےا حافظ تھے۔کراچی اور الہ آباد مےں عربی و فارسی کے استاد تھے اور پھر آخر مےں برسوں حےدرآباد کے دارلعلوم نظامےہ کے صدر ےا پرنسپل ،لکھنﺅ مےں مولانا شبلی کے ےہاں ملاقات ہوئی ،آدمی کم سخن و کم آمےز تھے مےں اس وقت ملحد اور وہ سخت دےندار ،البتہ۷۱۹۱ءےا ۸۱۹۱ءمےں حےدر آباد مےں مہےنوں ان کا ساتھ رہا،ہر مسئلے مےں عجب عجب نکتہ آفرےنےاں کرتے ،عثمانےہ ےونےورسٹی کی بنےاد ےں پڑ رہی تھےں،مجلس وضع مصلحات مےں شرےک رہے اور بحث و مباحثے مےں اچھا خاصہ حصہ لےتے۔۱
مولانا سےد سلےمان ندوی نے مولانا حمےدالدےن فراہی کے انتقال پر جوفےات لکھے اور خون کے آنسو روئے ہےں اس کا اےک اقتباس نذر ناظرےن کےا جاتا ہے۔
”آہ۔مولانا حمےد الدےن فراھی“

اس عہد کا ابن تےمےہ ۱۱ نومبر ۰۳۹۱ء(۹۱ جمادی الثانی ۹۴۳۱ئ)اس دنےا سے رخصت ہوگےا جس کی مشرقی و مغربی جامعےت عہدِ حاضر کا معجزہ تھی،عربی کا فاضل ےگانہ ،انگرےزی کا گرےجوےٹ ،زہدوورع کی تصوےر،فضل وکمال کامجسمہ ،فارسی کا بلبل شےراز،عربی کا سوق عکاظ ، اےک شخصےت منفرد،اےک جہان دانش،اےک دنےائے معرفت،اےک کائنات علم،اےک گوشہ نشےن مجمع کمال اےک بے نواسلطان ہنر،علوم ادےبہ کا ےگانہ،علوم عربےہ کا خزانہ ،علوم عقےلد کا ناقد،علوم دےنےہ کاماہر،علوم القرآن کا واقف اسرار،قرآن پاک کا دانائے راز،دنےا کی دولت سے بے نےاز ،اہل دنےا سے مستعفی ،انسانوں کے ردوقبول اور عالم کی داد وتحسےن سے بے پرواہ، گوشہ علم کا متکلف اور اپنی دنےا کا آپ بادشاہ،افسوس کہ ان کا علم،ان کے سےنہ سے سفےنہ مےں بہت کم منتقل ہوسکا۔۲

۲)سےد سلےمان ندوی (۴۸۸۱۔۳۵۹۱)

مولانا سےد سلےمان ندوی کا شمار دارالمصنفےن کے اصل معماروں مےں سے ہوتا ہے اور قےام دارالمصنفےن کے بعد وہ اس کے رہنما،نفس ناطقہ اور روح رواں رہے،دارالمصنفےن اور سےد سلےمان ندوی لازم و ملزوم ہے۔مہدی حسن افادی نے انہےں بجا طور پر”امن سےد الطائفہ“کہا کرتے تھے۔

سےد سلےمان ندوی ۲۲نومبر ۴۸۸۱ءکو دسنہ ،ضلع پٹنہ مےں پےدا ہوئے ،سےد صاحب کے والد سےد ابوالحسن طبےب حاذق تھے،ابتدائی تعلےم اپنے وطن مےں پائی ،اسلام پور،پھلواری شرےف اور مدرسہ امدادےہ دربھنگہ مےں بھی تھوڑے تھوڑے عرصہ تک تعلےم حاصل کرنے کے بعد۱۰۹۱ءمےں دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ مےں داخل ہوئے۔ےہاں سات سال دور تعلےم کی تکمےل کی اور ےہےں سے ان کے علمی و ادبی ذوق کی نشونما اور ترقی ہوئی۔۵۰۹۱ءمےں جب مولانا شبلی ندوہ کے معتمد تعلےم ہوکر لکھنو ¿ آئے تو انہوں نے اس جوہر قابل کو اپنے دامن تربےت مےں لے لےا اور۷۰۹۱ءمےں تعلےم سے فراغت کے بعد وہ وہےں علم کلام اور جدےد عربی ادب کے استاد مقرر ہوئے۔اس زمانہ مےں”دروس الادب“کے نام سے دو عربی رےڈرےں لکھےں جو کہ کافی مقبول ہوئی۔۹۰۹۱ءمےں الندوہ مےں ان کے دو مضامےن ”خواتےن اسلام کی شجاعت“اور اسلامی رسدخانے“کو بڑی مقبولےت حاصل ہوئی۔۰۱۹۱ءمےں عربی کے جدےد الفاظ کی اےک ڈکشنری ”لغات جدےدہ“شائع ہوئی۔اس سال سےرةالنبی کی تالےف مےں وہ مولانا شبلی کے لٹرےری اسٹنٹ کی حےثےت سے بھی کام کرتے رہے۔۱۱۹۱ءسے ۲۱۹۱ءتک وہ الندہ کی ادارت کے فرائض انجام دےتے رہے۔۳۱۹۱ءمےں سےد صاحب مولانا آزاد کے مشہور اخبار ”الہلال“کلکتہ کے اسٹاف مےں شامل ہوگئے۔ اگست ۳۱۹۱ءمےں کانپور کی مسجد کے انہدام کا واقعہ پےس آےا اور انہوں نے اس سے متاثر ہوکر ۲۱ اگست ۳۱۹۱ءکو ”الہلال“مےں ”مشہداکبر“کے عنوان سے اےک دردانگےز مضمون لکھا،حکومت وقت نے ”الہلال“کے اس پرچہ کو ضبط کرلےا،اس سال کے آخر مےں مولانا شبلی کی اےما پر انہوں نے دکن کالج پونہ کی عربی و فارسی کی پروفےسری قبول کرلی۔ان مشاغل کے ساتھ قےام پونہ کے زمانہ مےں اےک اہم تصنےف”ارض القرآن“شروع کی پہلی جلد ترتےب دی اور دوسری جلد کا مواد فراہم کےا۔مولانا شبلی نے سےد صاحب کو خاص طور سے تالےف و تصنےف کے لئے تےار کےا تھا اس لئے جب ان کا وقت آخر ہوا تو سےد صاحب کو تار د ے کر اعظم گڑھ بلاےا اور سےرةالنبی ۔مکمل کرنے کی وصےت کی،استاد کی وصےت کے مطابق۵۱۹۱ءمےں انہوں نے مولانا مسعود علی انتظامی تعاون اور مولانا عبدالسلام کے علمی اشتراک سے دارالمصنفےن کی بنےاد ڈالی ۔ےہ گوےا بغداد کے دارلحکومت کا تخےل ہندوستان کے اےک شہر اعظم گڑھ کی سر زمےن پر نمودار ہوا۔سےد صاحب نے اپنی تصنےف”ارض القرآن “کی پہلی جلد کی اشاعت سے دارالمصنفےن کے کام کی ابتدا کی۔جب ےہ کتاب شائع ہوئی اہل علم کے حلقہ مےں پسندےدگی کی نظر سے دےکھی گئی اور اس سے دارالمصنفےن کے کام کی نوعےت اور سےد صاحب کی تحقےقات اور ان کے علم و نظر کی وسعت کا اندازہ ہوا۔

اس سال انجمن ترقی اردو کا سالانہ اجلاس پونہ مےں ہوا جس کی صدارت سےد صاحب نے کی اس مےں انہوں نے جو خطبہ صدارت پڑھا آگے چل کر اردو کی تارےخ پر تحقےق کرنے والوں کے دلےل راہ بنا۵۱۹۱ءسے ۶۱۹۱ءتک انہوں نے مولانا عبدالباری فرنگی محل کے ساتھ سےاسی تحرےکات مےں بھی حصہ لےا۔
جولائی ۶۱۹۱ء(رمضان المبارک)مےں رسالہ”معارف“کا پہلا شمارہ ان کی ادارت مےں نکلا۔ےہ دارالمصنفےن کا علمی و ادبی آرگن تھا۔معارف اردو کا واحد علمی و ادبی رسالہ ہے جو تارےخ اشاعت سے اب تک بلا ناغہ شائع ہورہا ہے اور اس کی اشاعت مےں کبھی تاخےر نہےں ہوئی۔معارف کی روشنی سے علم کی دنےا آج تک منور ہے۔معارف کی ادارت کے علاوہ وہ استاد مرحود کو مسودات اور سےرةالنبی کی ترتےب و تبوےب مےں بھی مشغول رہے۔دارالمصنفےن کے رفقا کے لیے لائحہ عمل اور اس کے مربےوں اور ہمدردوں کا حلقہ بھی پےدا کرتے رہے۔

۷۱۹۱ءمےں ان کی کتاب”حےات امام مالک“شائع ہوئی ان کو امام مالک سے خاص عقےدت اور ان کی موطاصحےحےن مےں زےادہ پسند تھی گوآخر عمر مےں جزوی مسائل مےں بھی امام ابو حنےفہ کے مسلک کے پابند ہوگئے تھے لےکن امام مالک سے عقےدت قائم رہی۔

۸۱۹۱ءمےں اپنے استاذمرحوم کی سےرةالنبی جلد اول مرتب کرکے ملک کے سامنے پےش کی اس سال ان کی محققانہ کتاب”ارض القرآن“کی دوسری جلد بھی شائع ہوئی۔۰۲۹۱ءمےں مولانا محمد علی کی سرکرگی مےں وفد خلافت مےں لندن کا سفر کےا،لندن جانے سے قبل علامہ شبلی کی سےرةالنبی کی دوسری جلد چھپنے کے لیے دے دی اس کا دےباچہ لندن سے لکھ کر بھےجا ،پہلی جلد نبوت کے پر آشوب غزاوت پر مشتمل تھی۔دوسری جلد نبوت کے سہ سالہ امن کی زندگی کی تارےخ ہے۔ابھی لندن ہی مےں تھے کہ ان کی کتاب ”سےرة عائشہؓ “ شائع ہوئی۔ڈاکٹر اقبال نے ےہ کتاب پڑھی اور سےد صاحب کو تحرےر کےا۔

”سےرة عائشہؓ کے لئے سراپاسپاس ہوں ،ےہ ہدےہ سلےمانی نہےں سرمہ سلےمانی ہے اس کتاب کو پڑھنے سے مےرے علم مےں بہت اضافہ ہوا،خدا تعالیٰ جزائے خےر دے۔“

۲۲۹۱ءتک دارالمصنفےن کی شہرت کو چار چاند لگ گئے تھے ۔۴۲۹۱ءمےں سےرةالنبی جلد سوم شائع ہوئی اس مےں معجزہ کی حقےقت اور اس کے امکان ،وقع پر فلسفہ قدےم،علم کلام اور فلسفہ جدےدہ اور قرآن مجےد کے نقطہ ¿ ہائے نظر سے مبسوط کےا اور اس کے بعد مکالمہ وحی،نزول ملائکہ ،عالم روےا،معراج اور شرح صدر کا بےان ہے اس کی ترتےب،واقعات کی تفتےش و تلاش اور مسائل و نظرےات کی بحث و تحقےق مےں جو محنت وکاوش اور دےدہ رےزی کی گئی ہے اس سے ان کا علمی پاےہ بلند ہوا ۔

۴۲۹۱ءمےں وفد حجاز کی قےادت کی اور مصر کا سفرکےا،اسی سال”خطبات مدراس“شائع ہوئی۔۹۲۹۱ءمےں ہندوستانی اکادمی ،الہ آباد کے زےر اہتمام عرب و ہند کے تعلقات پر لکچر دئےے۔۱۲۹۱ءمےں بمبئی مےں ”عربوں کی جہاز رانی“پر شعبہ تعلےم کی سرپرستی مےں چار خطبے دئےے۔ ۲۳۹۱ءمےں سےرةالنبی کی جلد چہارم شائع ہوئی جس مےں دکھاےا گےا ہے کہ ”نبوت محمدی“نے دنےا مےں عظےم الشان اسلام کا فرض انجام دےا ۔۴۳۹۱ءمےں ان کی مشہور تصنےف”خےام“شائع ہوئی۔اس سال وہ حکومت افغانستان کی دعوت پر تعلےمی مشوروں کے لیے افغانستان گئے۔ ۴۳۹۱ءہی مےں تارےخ ہند کی تدوےن کی اک بڑی اسکےم مرتب کی اور دسمبر ۴۳۹۱ءکے معارف مےں ےہ تجوےز پےش کی کہ ۵۱ جلدوں مےں تارےخ ہند قلمبند کی جائے گی۔

۵۳۹۱ءمےں ان کی مشہور تالےف سےرةالنبی جلد پنجم کی اشاعت ہوئی اس کا موضوع ”عبادات“ہے۔۶۳۹۱ءمےں سےرةالنبی جلد ششم شائع ہوئی اس مےں اسلام کی اخلاقی تعلےمات کی تفصےل ہے۔ےہ سےر ت کے سلسلہ کی بڑی اہم جلد ہے۔

۹۳۹۱ءمےں ان کی کتاب”نقوش سلےمانی “شائع ہوئی جو ان کی تحرےروں اور مقدموں کا مجموعہ ہے جو اردو زبان و ادب سے متعلق ان کے قلم سے نکلے ےہ گوےا پچھلی چوتھائی صدی کی ادبی تحرےکوں کا اےک مرقع ہے۔اسی سال بچوں کے لیے ”رحمت عالم“لکھی گئی جس مےں سلےس اور آسان زبان مےں آنحضرت کی سےرت پاک ہے۔

۰۴۹۱ءکے نومبر مےں علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی نے انہےں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا،اسی سال وہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے بےعت ہوئے اور ان مےں اےک روحانی انقلاب پےدا ہوا۔۲۴۹۱ءمےں انہوں نے اپنے استاذ مولانا شبلی کی سوانح ”حےات شبلی“ شائع کی جو ۶۴۸ صفحات کی کتاب ہے۔ےہ ضخےم کتاب اےک شخص کی سوانح عمری ہی نہےں بلکہ مسلمانان ہند کے پچاس برس کے علمی،ادبی ،سےاسی،تعلےمی،مذہبی اور قومی واقعات کی تارےخ بھی ہے۔سےد صاحب کی ےہ آخری تصنےف ہے۔سےرةالنبی کی ساتوےں جلد کے صرف دو باب ہی لکھ پائے تھے کہ انتقال ہوگےا۔

۶۴۹۱ءمےں رےاست بھوپال کے دارالقضا کے نگراں ہوکر بھوپال چلے گئے اور ۶۴۹۱ءسے اکتوبر۹۴۹۱ءتک وہاں ”قاضی القضاة“کے عہدہ پر سرفراز ہے،وہےں سے حج بےت اللہ کے لئے روانہ ہوگئے۔واپسی پرچند روزہ قےام کے بعد۰۵۹۱ءمےں وہ پاکستان ہجرت کرگئے جہاں ۲۲ نومبر۳۵۹۱ءکو انتقال کےا۔
سےد صاحب کی جامعےت:سےد سلےمان ندوی کی جامعےت سے متعلق علامہ اقبال کی ےہ رائے ملاخطہ ہو۔”آج سےد سلےمان ندوی ہماری علمی زندگی کے سب سے اونچے زےنے پر ہےں۔وہ عالم ہی نہےں امےر العلماہےں ،مصنف ہی نہےں رئےس المصنفےن ہےں،ان کا وجود علم و فضل کا اےک درےا ہے جس سے سےکڑوں نہرےں نکلی ہےں اور ہزاروں سوکھی کھےتےاں سےراب ہوئی ہےں۔“۱

علامہ اقبال سےد سلےمان ندوی کی عملی فضےلت کے کس قدر قائل ہے اس جملہ سے اس کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔”علو م اسلام کے جوئے شےر کا فرہاد آج ہندوستان مےں سوا سےد سلےمان ندوی کے اور کون ہے“۱
مولانا سےد سلےمان ندوی کی شخصےت بڑی جامع تھی ان کے افکار وخےالات نہاےت بلند اور ان کے کاموں کا دائرہ بڑا وسےع تھا۔ان کی تصنےفات سے ان کے موضوعات کے تنوع کا اندازہ لگاےا جاسکتا ہے۔ان کی معلومات کی وسعت اور تلاش و تحقےق کے بارے مےں ان کے شاگرد رشےد اور سےرت نگار مولانا شاہ معےن الدےن احمد ندوی رقم طراز ہےں۔

”مطالعہ کی کثرت اور نادر کتابوں کی تلاش وجستجو نے ان کے دماغ کو مستقل کتب خانہ اور متنوع علمی معلومات کا خزانہ بنا دےا تھا۔ان کی کوئی گفتگو علمی معلومات سے خالی نہ ہوتی تھی،ان کی صحبت سے جو قےمتی معلومات حاصل ہوجاتی تھےں وہ بہت سی کتابوں کے مطالعہ سے حاصل نہےں ہوسکتی تھےں۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے ،معلومات کی وسعت اور تحقےق و تنقےد کا پورا حق اداکرتے اور ان کوئی گوشہ تشنہ نہ چھوڑتے ،مذہبی مباحث سے قطع نظر ادب و تارےخ ان کا خاص دائرہ تھا خالص علمی و تارےخی موضوع پر انہوں نے جو کچھ لکھ دےا ہے اس پر مشکل ہی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔۲

اےک دوسری جگہ پر سےد صاحب کی جامعےت اور مقبولےت کے بارے مےں لکھتے ہےں:
”سےد صاحب کی اےک بڑی خصوصےت قدےم و جدےد کی جامعےت اور ہر طبقہ مےں ان کی مقبولےت تھی۔وہ اگر چہ قدےم تعلےم کے نمائندے تھے اور ان کی تعلےم و تربےت تمام تر پرانے ماحول مےں ہوئی تھی لےکن ان کے قلب مےں بڑی وسعت تھی،وہ جدےد خےالات اور رحجانات اور اس کے طرےقوں سے پوری طرح واقف تھے۔وہ ان سے بھڑکتے نہ تھے بلکہ ان کو صحےح راستہ پر لگانے کی کوشش کرتے تھے۔اس لحاظ سے وہ قدےم و جدےد کا سنگم تھے۔“۳

سےد صاحب کے حالات مےں”معارف“کا اےک خاص نمبر شائع ہوچکا ہے اور ان کی سوانح عمری ”حےات سلےمان مولانا شاہ معےن الدےن احمدندوی ،دارالمصنفےن اعظم گڑھ سے شائع ہوچکی ہے۔
مکاتےب شبلی جلد دوم مےں مولانا سےد سلےمان ندوی کے نام ۲۸ مکتوب ہےں۔
۳)مولانا عبدالسلام ندوی(۲۸۸۱ئ۔۵۹۱ئ)

دارالعلوم ندوة العلما نے اپنے دور کمال مےں جو نامور فرزند پےداکئے ان مےں اےک مولانا مولانا عبدالسلام ندوی بھی تھے ان مےں شعر و ادب اور لکھنے پڑھنے کا ذوق ابتدا ہی سے تھا۔چنانچہ مولانا شبلی کی جوہر شناس نگاہ نے اسی زمانہ مےں انکی صلاحےتوں کا اندازہ کرلےا تھا۔ان کو فطری لگاو ¿ شعر و ادب سے تھا لےکن مذہبےات سے لے کر شعر و ادب تک ہر موضوع پر لکھنے کی ےکساں قدرت تھی۔چنانچہ ان کے مضامےن جس قدر متنوع ہےں وہ مشکل سے کسی دوسرے اہل قلم کے مضامےن مےں نکل سکتے ہےں۔

مولانا عبدالسلام ندوی ۲۸۸۱ءمےں اعظم گڑھ کے اےک گاو ¿ں علاﺅ الدےن پٹی مےں پےدا ہوئے ابتدائی تعلےم حقانی مکتب مےں پانے کے بعد وہ کانپور ،آگرہ اور مدرسہ چشمہ ¿ رحمت غازی پور سے فےضےاب ہوئے۔متوسطات سے تعلےم حاصل کرنے کے بعد ۶۰۹۱ءمےں وہ دارالعلوم ندوةالعلمالکھنو ¿ مےں داخل ہوئے اور فراغت کے بعد ۰۱۹۱ءمےں وہےں عربی ادب کے استاذ مقرر ہوئے۔

مولانا شبلی نے ان کے متعلق پےشن گوئی کی تھی کہ وہ آگے چل کر اےک اچھے مصنف ہوں گے ان کا پہلا مضمون مئی ۶۰۹۱ءکے الندوہ مےں تناسخ پر مولانا شبلی کی اصلاح کے بغےر ان کے تعرےفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔اسی سال ان کو الندوہ کا اسٹنٹ اےڈےٹر بھی مقرر کر دےا،۲۱۹۱ءمےں وہ مولانا ابوالکلام آزاد کی دعوت پر”الہلال“کلکتہ کے اسٹاف مےں شامل ہوگئے۔مولانا شبلی کے انتقال کے بعد جب دارالمصنفےن قائم ہوا تو وہ اعظم گڑھ آئے اور اس ادارہ سے عمر بھر کا پےمان وفا باندھا۔وہ دارالمصنفےن کے رکن اعظم اور مولانا سےد سلےمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی کی طرح اس کے تےسرے معمار اعظم بھی ہےں۔
مولانا کا انتقال ۴ اکتوبر ۶۵۹۱ءکو دارالمصنفےن مےں ہوا اور اپنے استاذ مولانا شبلی مرحوم کے مزار سے متصل ہی سپرد خاک ہوئے۔

مولانا عبدالسلام ندوی کی مشہور تصانےف کے نام ےہ ہےں۔
۱)سوہ ¿ صحابہ(دو جلدےں)(۲) اسوہ ¿ صحابےات(۳)سےرت عمر بن عبدالعزےز ؒ(۴)تارےخ اخلاق اسلامی(۵)تارےخ فقہ اسلامی(۶) شعر الہند(دو جلدےں)(۷) امام رازی (۸) حکمائے اسلام (دو جلدےں)(۹)اقبال کامل(۰۱)ابن خلدون(۱۱)انقلاب الامم