Meer Anees by Mohammad Raza

Articles

میر انیس از دیدگاہ بزرگان

محمد رضا ایلیاؔ

میر،غالب،انیس،اقبال، جوش ،فراق اور فیض اردو شاعری کے اہم ترین نام ہیں۔ انیس نے مرثیہ کی صنف میں جس طرح اپنی خود ساختہ صلا حیت کا لو ہا منوایا ہے وہ مرتبہ دوسرے کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔
میرانیس نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا اور کم عمری ہی میںاپنی صلا حیت کا جوہر دکھا نے شروع کر دیئے تھے۔ لیکن والد کی ہدایت پر کہ’’ اپنی آخرت کیلئے کچھ کرو‘‘ انیس نے غزل کو خدا حافظ کہا اوراپنا سارا کلام صحن کی حوض میں پھینک دیا جو یقینا اردو شاعری پر ستم تھا۔ اسکے بعد انیس نے ساری شاعری اہلبیت علیہم السلام کیلئے وقف کردی اور پھر مڑ کر غزل کی طرف نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انیس کے مرثیوں میں تغزل بدرجہ اتم موجود ہے اور اسی چیز نے انیس کے مرثیوں کو جلا بخشی ہے۔
میر انیس کی پیدائش کے حوالے سے دو روایات موجود ہیںپہلی یکم جنوری ۱۸۰۲ء کی اور دوسری ۱۸۰۳ء کی تاہم زیادہ تر محققین نے ۱۸۰۳ء ہی کو درست قرار دیا ہے۔ انیس کے سن وفات پر تمام محققین کا اتفاق ہے اور انکی وفات ۱۸۷۴ء میں بہتر تہتر برس کی عمر میں ہوئی۔ میر انیس اتر پردیش میںضلع فیض آباد کے محلہ ’’گلاب باڑی‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ انیس کے والد میر خلیق اور دادا میر حسن( مثنوی سحر البیان اور بدر منیر کے خالق) اپنے عہد کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے۔آپ کے مو رث اعلیٰ میر امامی شاہجہاں کے عہد میں ایران سے ہندوستان آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بدولت اعلیٰ منصب پر فائز رہے ۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولا د فصیح و بلیغ اردو زبان بولنے لگی ۔
مسعود حسن رضوی نے میر انیس کاخاکہ یوں کھینچا ہے :
’’میر انیس قدرے دراز قامت ، ٹھوس ، اور متناسب جسامت کے مالک تھے ، خوبصورت کتابی چہرہ ، بڑی بڑی آنکھیں ، صراحی دار گردن ، ذرا بڑی مو نچھیں اور با ریک داڑھی کہ جو دور سے تر شی ہوئی محسوس ہو ۔میر انیس کا یہ سراپا سامعین کو شعر کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا بھی گر ویدہ بنا دیتا تھا ۔ انیس کا پسندہ لباس دو پلی ٹو پی ، لمبا گھیر دار کر تااور شکن دار پا جامہ تھے کہ یہی اس زمانے کے شرفاء اور ذی علم افراد کا لبا س ہوا کر تا تھا ۔ ‘‘
انیس کے بیٹے میر نفیس کے نواسے میر عارف کی ایک تحریری یاداشت سے پتہ چلتا ہے کہ۱۸۵۷ء کے بعد انیس نے محلہ سبزی منڈی چوک لکھنؤ کے عقب میں واقع رہائش گاہ میں۱۹۷ بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی مصرعوں کا یہ مرثیہ ’’ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے ‘‘ایک ہی رات میں تحریر کیا اور گھر کے عشرے میں پڑھا جو انیس کے شاہکار مراثی میں سے ایک ہے۔
انیس نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے۲۳ جولائی۱۸۷۱ء کو ایک وسیع زمین گھر کے قریب ہی تدفین کی خاطر ۱۰۰ روپے میں خرید لی تھی۔ ۱۸۷۴ء میں ۲۴ رمضان المبا ک کو انیس بیمار ہوئے اور ابتدا میں ہونے والا بخار مرض الموت کا سبب بن گیا اور اس طرح یکم دسمبر۱۸۷۴ء کو بوقت مغرب یہ آفتاب شاعری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔غفران مآب کی امام بارگاہ میں محترم سید بندے علی نے ا نیس کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں سبزی منڈی چوک میں اپنے ہی گھر کے باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔ زندگی کے آخری ایام میںایک سلام میر انیس کہہ رہے تھے مگر وہ پورا نہ ہو سکا اور ان کی روح معبود حقیقی سے جاملی وہ کلام مجھے محترم علی احمد دانش سے ایک ملاقات میں دستیاب ہوا جس کی اصل کا پی ان کے پاس ہے اس سلام کا فوٹو میں نے اپنے مو بائل سے لے لیا تھا اور میں شکر گزار ہوں محترم علی احمد دانش کا جو انہوں نے کلام کے علا وہ میر انیس کا قلم اور ان کی ٹوپی وغیرہ کی زیا رت کرائی اور بہت باتیں میر انیس کے متعلق بتائیں جو میرے لیے بہت زیا دہ کارگز ثابت ہوئیں ۔ وہ سلام ملاحظہ ہو
عمر بھر کے آشنا نا آشنا ہوجائیں گے
قبر تک پہنچا کے ہم کو سب جدا ہو جائیں گے
تا لحد دنیا میں ہے فقر و غنا کا امتیاز
قبر میں یکساں سب ہی شاہ و کدا ہو جائیں گے
پھیر کر منھ مجھ سے جس دم سب جدا ہو جائیں گے
میرے مونس خود علی مرتضیٰ ہوجائیں گے
کثرت عصیاں سے کیا ڈر ہے کہ خالق ہے رحیم
مرحلے آسان سب روز جزا ہوجائیں گے
رائیگاں کیا جائیں گے اشک غم سبط رسولؐ
کشت ایماں کے لیے وجہ بقا ہوجائیں گے
اکبر مہر کی صورت دیکھ کر کہتے تھے شاہ
یہ جواں ہوکر شبیہ مصطفی ہوجائیں گے
طے کروں گا دم میں بے خوف و خطر راہ صراط
ہادی و حامی علی مرتضیٰ ہوجائیں گے
اب نہ رؤ ائے سکینہ کہتی تھی زنداں میں ماں
پاس بابا کے چلیں گے جب رہا ہو جائیں
دستور زما نہ کے مطابق انیس نے بھی اپنی شا عری کا آغاز غزل سے کیا تھا ۔ ان کے والد میر خلیق مر ثیہ کی طرح غزل کے بھی استاد ما نے جا تے تھے فیض آباد میں جب تک رند اور رشک کے قیام کے باوجود ۔ میر انیس اپنی غزلوں پر اصلا ح اپنے والد ہی سے لیتے تھے ۔ پہلے حزیں تخلص تھا ۔شیخ امام بخش نا سخ کی فرمائش پر تبدیل کر کے انیس اختیار کیا ۔ انیس فارسی نظم و نثر لکھنے پر بھی قادر تھے عربی ، فارسی ، قرآن و حدیث و تاریخ کے علا وہ فنون شہسواری و سپہ گری کی تعلیم بھی نامی اور قابل فخر اسا تذہ میر نجف علی فیض آبادی ور مفتی حیدر عباس سے حا صل کی ۔
رفعت عبا س زیدی ۱۳؍ دسمبر ۲۰۰۹ کے عالمی اخبا ر میں یوں رقم طراز ہیں :
’’میر ببر علی انیس کے بارے میں میں صرف یہ کہوں گا کہ میں ان کا عا شق ہوں اور میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ انیس دنیا کے تمام شا عروں پر بھاری ہیں ۔ ان کے مر ثیے تو لا جواب ہیں ہی اور ان پہ کچھ لکھنا اتنی مختصر حیات میں ممکن نہیں لیکن میں آج ان کی غزلوں کے اشعار سے آپ کو با خبر کر نا چاہوں گا۔سب سے پہلے میں ان کی زندگی کا وہ پہلا شعر پیش کر رہاہوں جو انہوں نے آٹھ برس کی عمر میں اپنے والد کے دوست معروف شا عر شیخ امام بخش نا سخ کے سامنے سنا یا جس پر ناسخ ششد ر رہ گئے اور پیشنگوئی کر دی ۔ایک دن آئے گا کہ انیس کی زبان اور شا عری کی عالمگیر شہرت ہو گی یہ بچہ سلطنت شعر کابادشاہ بنے گا۔ ‘‘
وہ شعر ملا حظہ فر مائیں :
کھلا باعث یہ اس بیداد کے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
محمد حسین آزاد انیس کی غزل گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ ابتدا میں انہیں بھی غزل کا شوق تھا ۔ ایک موقع پر کہیں مشا عرے میں گئے اور غزل پڑھی اور وہاں بڑی تعریف ہوئی شفیق باپ سن کر تو بہت با غ با غ ہوئے مگر ہو نہار فرزند سے پو چھا کل رات کو کہاں گئے تھے ۔ انہوں نے حال بیان کیا خلیق نے غز ل سنی اور فر مایا اب اس غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں زور طبع صرف کرو جو دین و دنیا کا سر مایہ ہے ۔ سعادت مند بیٹے نے اس دن سے قطع نظر کی اور غزل مذکورہ کی طرح میں سلام کہا ۔‘‘ ( آب حیات ص ۵۱۹، محمد حسین آزاد )
شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے مگر جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔سن ۱۸۴۳ء میں انیسؔ چالیس برس کی عمر میں جب لکھنؤ آئے تھے تو مرزا دبیر کا طوطی بول رہاتھا ہر جگہ پر دبیر کے قصیدے پڑھے جاتے تھے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مر زا دبیر کو کلام کے سمجھنے کی صلاحیت کچھ خا ص لو گوں تک محدود تھی ۔ جیسے علما ء ، اسا تذہ ،، ادبا، طلاب یا وہ جو اردو ، فارسی اور عربی کا علم رکھتے ہوں ایک سادہ عام آدمی ان کے کلام کو سمجھ نہیں سکتا تھا کیوں کہ ان کی شا عری میں عر بی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں کے ملے جلے الفاظ پائے جاتے تھے ۔
وہیں اس ماحول میں انیس نے جن الفاظ کا اپنے کلام میں استعمال کیا وہ عام فہم تھے ۔ انیس نے پہلے لکھنؤکے ماحول کابھر پور جائزہ لیا اور انہوں نے اردو زبان و ادب کو عا م فہم مر ثیہ کی شکل میں ایک نایاب اور بیش بہا تحفہ دیا ۔ بعض لو گوں میں یہ مغالطہ پیدا ہو گیا ہے کہ انیس جب لکھنؤ آئے تو انہوں نے لکھنؤ کے زبان و ادب ، تہذیب و ثقافت (گہوارۂ اردو زبان و ادب )سے کسب فیض کیاجب کہ یہ بالکل غلط ہے میر انیس نے اپنے خاندان اور اپنے گھر کی زبان، طرز زندگی سب کچھ مر ثیہ کی شکل میں اہل لکھنؤ کوبطور تحفہ عطا کیا جس کی وجہ آج لکھنؤ پہنچانا جاتا ہے ۔ اہل لکھنؤ یہ فخر نہ کریں کہ لکھنؤ نے انیس کوشناخت دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انیس نے لکھنؤ کوایک پہچان دی اور وہ سر مایہ جو وہ فیض آباد سے لائے تھے لکھنؤ کے سپرد کر دیا۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ انیس ۴۰ سال کی عمر کے بعد فیض آباد سے لکھنؤ وارد ہوئے تھے۔ ان تمام باتوںکا اعتراف کر تے ہوئے مولانا آزاد کچھ اس طرح بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ملا حظہ کیجئے
’’جس طرح انیس کا کلام لاجواب تھا اسی طرح ہی ان کا پڑھنا بھی بے مثال تھا ۔ ان کے گھرانے کی زبان اردو معلیٰ کے لحاظ سے تمام لکھنؤ میں سند تھی ۔ان کے ذریعہ ہماری نظم کو قوت اور زبان کو وسعت حاصل ہوئی ۔ انیس کا کہنا تھا کہ نہ لکھنؤ کا ان کی زبان سے کوئی تعلق ہے اور ان کی زبان کا لکھنؤ سے کوئی تعلق ہے ۔ (مر ثیہ میں جو زبان استعمال ہوئی ہے )یہ ان کے گھر کی زبان ہے ۔ ‘‘
نجم سبطین اپنے ایک مضمون ’’ شاعری اور کربلا ‘‘میں انیس کے معمولات کا ذکر کر تے ہوئے تحریر کر تے ہیں :
’’ انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جا گتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے ۔ ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کے ذخیرے موجود تھے ۔ نماز صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کر تے تھے ۔ بعد دوپہر بیٹوں اور شا گروں کے کلام کی اصلا ح کر تے تھے ۔ محفل احباب میں عقائد اور علوم وعر فانیات پر گفتگو کرتے تھے ۔میر انیس کے نواسے میر سید علی کا بیان ہے کہ میر انیس کے متعلق آئینہ لے کر مشق مرثیہ خوانی کر نے روایت بالکل غلط ہے نہ کہ کمال ادائیگی دیکھ کر کچھ لوگوں نے از خود یہ سمجھ لیا تھا کہ آئینے کے رو برو مشق کر تے ہوں گے ۔ ‘‘
سعادت خاں نا صرمیر انیس کی غزل کے بارے میں اپنے خیالا ت کا یوں اظہار کرتے ہیں :
’’ عالم شباب میں چندے مشق غزل گوئی رہی ۔ ‘‘ ( تذکرہ خوش معرکہ زیبا ص ، ۳۰۵ ، سعادت خاں ناصر ۔)
آزاد کے مذکورہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پر وفیسر مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں :
’’ اس جملے ( اب اس غزل کو سلام کر و) کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس زمین میں سلام کہو اور دوسرے یہ کہ اب غزل گوئی ترک کرو۔ سعادت مند فرزند نے ان دونوں معنوں میں والد محترم کے حکم کی تعمیل کی یہ کسی نے نہیں لکھا کہ وہ کون سی غزل تھی لیکن میر انیس کی ایک غزل کے چند اشعار اور اس طرح میں ایک سلام ملتا ہے ۔ غزل کے اشعار حسب ذیل ہیں۔ ان سے اندازہ ہو تا ہے کہ شاید یہ وہی غزل ہو ۔ ‘‘
اشارے کیا نگہ ناز دلربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیچمے قضا کے چلے
پکار ے کہتی تھی حسرت سے لاش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
اس طرح میں سلام کے چو دہ اشعار ہیں ان میں سے چند ملا حظہ کیجئے
گنہ کا بو جھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجا لت سے سر جھکا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کار گاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
ملی نہ پھولوں کی چادر تو اہل بیت کرام
مزار شاہ پہ لخت جگر چڑھا کے چلے
اس سلام کا مقطع بہت مشہور ہوا تھا :
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے (۱)
(۱) انیسیات ص ۱۶۲،۱۶۳، پر وفیسر مسعود حسن رضوی ادیب ، اتر پر دیش اردو اکا دمی لکھنؤ ۱۹۸۱ء
ڈاکٹر نیر مسعود نے بھی اپنی کتاب میں ان ہی اشعار سے غزل اور سلام کا حوالہ دیا ہے جو انیس کی غزل گوئی ترک کرنے سے تعلق رکھتے ہیں قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ یہی میر انیس کی آخری غزل ہو گی ۔ تاہم بقول ادیب صا حب :
’’ البتہ میر صا حب کے سلاموں میں ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جو غزل کا باعث ہوسکتے ہیں ۔‘‘
(انیس ص ۴۲ ، پر وفیسر نیر مسعود رضوی ، قومی کا ؤنسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ۔ ۲۰۰۲۔ )
ادیب صا حب کے آخری جملے سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ انیس کے بعض سلاموں میں تغزل کے اشعار شاید پہلے ان کی غزلوں کے اشعار رہے ہوں جنہیں بعد میں انہوں نے سلام کے پیکر میں ڈھال دیا ہو۔ اس خیال کے ابھرنے کا سبب یہ ہے کہ انیس کے کئی سلام اس زما نے کی غزلوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ ان غزلوں کے کئی اشعار سلام کے شعر معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً
ہمراہ آہ سرد بہیں اشک گرم بھی
باراں کا لطف خوب ہے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ
میر انیس کا ایک مشہور سلام ہے :
بین اے مجرئی قاسم کی دلہن کیا جا نے
بیا ہی اک شب کی رنڈاپے کا چلن کیا جانے
اسی زمین میں طالب علی عیشی کی غزل ہے ۔ اس غزل کا مقطع ہے
کیوں نہ کم ربتہ غزل اپنی سمجھو عیشی
نافع کی قدر کو آہوئے ختن کیا جانے
انیس کے مصرعے بھی عیشی کی غزل کے مصرعوں کے طرح اچھے تغزل کے نمونے ہیں ۔ مثلاً
چھد گیا کس کا جگر تیر فگن کیا جانے
مرغ بے بال بھلا سیر چمن کیا جانے
انیس کے زمانے میں شعر گوئی کے دو انداز عام تھے۔ ایک انداز تو وہی قدیمی تھا جس کی روش سے میر تقی میر کو ’’خدائے سخن‘‘ تسلیم کیا گیا تھا، لیکن اس انداز کو دہلوی شعرا سے منسوب کیا جاتا تھا۔یعنی تغزل میں داخلی افکار کی پیشکش جسے عرف عام میں فصاحت کہا جاتا ہے۔ دوسرا انداز وہ تھا جسے لکھنؤ میں ناسخ اور ان کے شاگردوں اور پیرو کار وں نے شہرت کے بام عروج پر پہنچایا تھا اور اس انداز میں الفاظ کی شعبدہ بازی اور صناعی کو زیادہ دخل حاصل تھا۔ انیس کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ انیس کی شعری شخصیت اس دکھاوے کا رد عمل ہے جس شاعری کا اس زمانے میں لکھنؤ میں دور دورہ تھا۔ انیس کا رویہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ انیس صرف دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
یہ فصاحت یہ بلاغت یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحر جمال
انیس کی غزلوں میں سلام کے اچھے اشعار کی نایابی اور سلاموں میں اچھے تغزل کے اشعار دیکھ کر یہ خیال ہو تاہے کہ میر انیس نے جب غزل چھو ڑ دی تو اچھے مصرعے یا اشعار اپنے سلاموں میں کھپا لیے ہوں گے ۔ لیکن اس خیال کی کوئی دوسری شہادت موجود نہیں ہے اور راقم کا خیال بس خیال ہی ہے ۔ میر انیس کی غزل گوئی چھوڑنے کی وجہ جو اوپر بیان کی گئی ہے یعنی والدمحترم کے حکم کی تعمیل لیکن اس کا اصل سبب بقول ادیب صا حب :
وہ غیر معمولی ملکہ شاعری تھا جس کا اظہار غالب نے یوں کیا ہے ۔
بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لیے
بعض غزل گو شا عروں کے سلسلے میں میر انیس کے چند جملے جو آزاد کے حوالے سے درج کیے جاتے ہیں ملا حظہ کیجئے ذوق کے بارے میں آزاد نے انیس کی رائے جاننا چاہی ۔
انیس کا جواب تھا :
’’ فر مایا کہ میاں سید میر کے بعد پھر دلی میں ایسا شاعر کون ہوا ہے ۔ ‘‘
(آب حیات ص نمبر ۵۴۸۔ محمد حسین آزا د)
آزادہی کا بیان ہے کہ انہوں نے میر انیس کے سامنے ذوق کا یہ مطلع پڑھا :
کوئی آوارہ تیر ے نیچے اے گردوں نہ ٹھہرے گا
مگر تو بھی اگر چاہے کہ میں ٹھہر وں نہ ٹھہرے گا
میر انیس نے یہ مصرعہ دو بارہ پڑھوا یا اور کہا
’’ صا حب کمال کی بات یہ ہے کہ لفظ جس مقام پر اس نے بٹھایا ہے اس طرح پڑھا جائے تو ٹھیک ہوتا ہے نہیں تو شعر رتبے سے گر جاتا ہے ۔‘‘
(آب حیات ص نمبر ۴۷۵ ۔ محمد حسین آزاد )
اس سلسلے میں چند واقعات کا ذکر سید امجد علی اشہری نے بھی کیا ہے جسے من و عن نقل کیا جاتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے
میر قربان علی سالک شاگر د مر زا غالب اپنی بیاض میں ۱۸۶۱ ء کی یادداشت لکھتے ہیں :
’’ دو مہینے سے لکھنؤ میں وارد ہوں دلی میں مر زا غالب اور استادذوق کی ہوائیں دیکھتا سنتا تھا مگر یہاں میر انیس اور مر زا دبیر کی معرکہ آرائی کا عالم نرالا ہے ۔ مر زا غالب کو یگانہ فن کے لفظ سے یاد کیا اور ذوق و مومن کی نسبت فرمایا ذوق شاہی دربار کے شاعر اور مومن اپنی طبیعت کے بادشاہ ہیں پھر حکیم مو من خاں کا یہ شعر پڑھا :
نہ کچھ شوخی چلی باد صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
پڑھنے کے بعد ایک چپ سی لگ گئی جیسے کوئی حسین صور ت سامنے ہے اور ہوا اس کی زلف اڑا رہی ہے اور میر صا حب اس کو دیکھ کر کلام کے مزے لے رہے ہیں ۔ ایک روز فر مانے لگے دلی کا کچھ کلام سناؤ میں نے مرزا غالب کی یہ غزل پڑھی ۔
باز یچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تما شا میرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
پھر اپنی غزل پڑھی اس کا ایک شعر یہ ہے :
دنیا میں مجھے خاک اڑانے نے ڈبویا
ہر بار نکل آتا ہے دریا میرے آگے
اس شعر پر فرمایا خوب کہا ہے ۔ یہ کہہ کر فر ما نے لگے لکھنؤ والے ’’روکے ہے‘‘ ،’’کھینچے ہے‘‘ نہیں بولتے ہیں ۔ (حیات انیس ص ۲۵۵، ۲۵۶ ، امجد علی اشہری ۱۹۰۷ ء )
انیس نے ہر لفظ کو اس کے مقام استعمال پر رکھ دیا ۔انہوں نے لفظ کو بر محل اور بہتر محل پراستعما ل کیا ہے تب جاکے الفاظ اورزیا دہ با معنی ہو گئے ۔منظر نگاری میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اہل زبان و ادب کو ان کے سامنے سر بہ سجو د ہو نا پڑے گا۔ انیس اردو ادب کو الفاظ کابر محل استعمال کر نا بتا گئے ۔ الطاف حسین حالیؔ انیسؔ کو فر دوسی کا ہم پلہ بتاتے ہیں :
’’الفاظ کو خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کرنے کو اگر معیار کمال قرار دیا جائے تو بھی میر انیس کو اردو شعرا ء میں سب سے برتر ماننا پڑیگا۔ میر انیس کے ہر نقطہ اور ہر محاورہ کے آگے ہر اہل زبان کو سر جھکا نا پڑتا ہے۔ اگر انیس چوتھی صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہوتے اور اسی سوسائٹی میں پروان چڑھتے جس میں فردوسی پلا بڑھا تھا وہ ہرگز فردوسی سے پیچھے نہ رہتے۔ ‘‘
سید شریف الحسن شریف العلما کے ایک خط کا حوالہ سید مسعود حسن رضوی نے دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ سید شریف العلما اپنے خط مو رخہ ۱۶؍ ذی الحجہ ۱۲۸۷ ھ ؍ ۲۱؍ ما رچ ۱۸۷۱ء میں لکھتے ہیں کہ حیدر آباد میں ایک دن میر انیس نے میر تقی میر کے یہ دوشعر پڑھے ۔
تیری گلی میں ہم نہ چلیں اور صبا چلے
یو نہی خدا جو چاہے تو بندے کا کیا چلے (۱)
(۱) یہ شعر میر کا نہیں درد کا ہے ۔ ادیب ، انیسیات ص ۱۶۴ ۔
تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو
رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے
اس مو قع پر شریف العلما کو سہوہوا ہے ۔ پہلا شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ خواجہ میر درد کا ہے ۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ میر انیس کے ایک معتقد مولوی میر حامد علی نے میر انیس کے سامنے یہ شعر پڑھا
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں داغ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
میر صاحب لیٹے تھے یہ سن کر اٹھ بیٹھے ایک اف کی اور فر مایا کہ اب میں بڑھا پے میں ایسے شعروں کی تاب نہیں لا سکتا اس سن میں ایسے تیر نہیں کھا سکتا پھر میر صا حب نے اس شعرکے سلسلے میں فرمایا کہ پرانے زما نے میں جب کسی بستی پر شاہی عتاب نازل ہوتا تھا تو وہ بستی ویران کر دی جاتی تھی اور اس میں کسی نمایاں مقام پر ایک چراغ جلا دیا جا تا تھا ۔‘‘ (انیسیات ص ۱۶۴، ۶۵۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب ، اترپردیش اردو اکا دمی لکھنؤ ۱۹۸۱۔)
سید علی حیدر نظم طبا طبائی شرح دیوان غالب میں رقمطرا ز ہیں :
’’ میر انیس کے سامنے ایک صا حب نے یہ مصرع پڑھا
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
میر صاحب نے یہ مصرع لگایا
عرق گل ہے مناسب اسے دینا صیا د
اس کا چر چا لکھنؤ میں ہوا اکثر لوگوں نے طبع آزمائی کی ۔‘‘ (شرح دیوان غالب ۱۸۵ ، سید علی نظم حیدر طبا طبائی ۔)
غالب کے نزدیک مر ثیہ گوئی میں میر انیس اور دبیر جیسا کوئی نہ پیدا ہوا تھا نہ ہوگاکتنی دور اندیشی تھی غالب کے اندر یہ بات اس دور میں خوب سے خوب تر سمجھی اور پرکھی بھی جا تی ہے ۔ غالب چونکہ میر انیس سے پا نچ سال بڑے تھے ۔ پھر انہوں نے اس طرح کا اعتراف کیا ہے :
’’اردو زبان نے انیس اور دبیر سے مرثیہ گو پیدا نہیں کئے۔ ایسے مرثیہ گو نہ ہوئے ہیں نہ پیدا ہونگے۔ انیس کا مرتبہ نہایت بلند ہے‘‘ ؔ(یاد گارِ غالب۔واقعات انیس)۔
’’ میر انیس کے مقابلہ میں کسی اور کا مرثیہ کہنا میر انیس نہیں خود مرثیہ کا منہ چڑھانا ہے۔ آج لکھنؤ اور دلی میں میر انیس کی مرثیہ گوئی کو معجزہ کلام مانا جاتا ہے ۔‘‘(حیات انیس امجد اشہری )
غالب نے لکھنؤ کے مجتہد عباس صاحب کے کہنے پر ایک مرثیہ کہنا شروع کیا۔ لیکن تین بند کہنے کے بعد یہ کہہ کر قلم رکھدیا کہ مرثیہ کہنا میرے بس کی بات نہیں۔ غالب کے کلام میں انیس کی تشبیہات، تلمیحات اور استعارے موجود ہیں۔ یہ عظمتِ غالب کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ غالب میں استفادہ کرنے کی صلاحیت عالم کی طرح بدرجہ اتم موجود تھی۔ میر انیس کے یہاں دوسرے شعراء کی قدر دانی غیر معمولی حد تک موجود تھی۔ میر انیس اور غالب ایک دوسرے کے کلام سے خوب واقف تھے اور ایک دوسرے کے دلدادہ تھے۔ میر انیس عمر میں غالب سے پانچ برس چھوٹے تھے اور انکا انتقال غالب سے پانچ سال بعد ہوا۔ غالب کے انتقال پر میر انیس کی ایک رباعی
گلزارِ جہاں سے باغِ جنت میں گئے
مرحوم ہوئے جوارِ رحمت میں گئے
مدّاحِ علی کا مقام اعلیٰ ہے
غالب اسد اللہ کی خدمت میں گئے
افضل حسین ثابت مصنف حیا ت دبیر نے اپنے خط بنام حامد علی بیر سٹر مورخہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۱۲ ، میں میر انیس کا یہ مطلع نقل کیا ہے ۔
نہ روکا ہم کو پھولوں نے چلے خالی ہی گلشن سے
گلوں سے خار ہی بہتر کہ لپٹے آکے دامن سے (۱)
(۱) یادگار حامد ص ۱۸۴،افضل حسین ثابت )
یہ چند اشعار بھی بقول سید مسعود حسن رضوی، میر انیس سے منسوب کیے جاتے ہیں :
دل لے لیا ہے یار نے مٹھی میں بند ہے
کھلتا نہیں پسند ہے یا نا پسند ہے
جب مسیحا دشمن جان ہو تو ہو کیوں کر علاج
کون رہبر ہو سکے جب خضر بہکا نے لگے
رکھ کے منھ سو گیا ان آتشیں رخساروں پر
دل کو چین آیا تو نیند آگئی انگاروں پر
مبصرین کا خیال ہے کہ شیکسپیئر کے زمانہ میں وہ سہولتیں مہیا نہیں تھیں جو چار سو سال بعد برنارڈ شاء کے زمانہ میں عام تھیں اسلئے شیکسپیئر کے یہاں منظر کشی اس تفصیل کے ساتھ نظر نہیں آتی جو تفصیل برنارڈ شاء کے یہاں موجود ہے۔ اس کے برعکس انیس کی منظر کشی برنارڈ شاء سے بڑھ کر ہے۔ تینوں کے یہاں کردار خود بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مصنف بولتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
میر انیس سے منسوب غزل کے اشعار کا بر محل استعمال دوسروں کے اشعار غزل میں لکھنوی اور دہلوی زبان کا فرق اچھے اشعار کی کھل کر تعریف اور مندرجہ روایات کے آئینہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ میر انیس میں غزل کہنے اور مزاج غزل سے منصفی کر نے کا پورا ہنر موجود تھا۔
خواجہ حیدر علی آتش کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ وہ ایسی سچائیوں کا آئینہ بھی بنتے ہیں کہ سننے والوں نے انہیں خرزجاں بنایا ہے۔ آتش جب بھی کسی شخصیت پر تبصرہ کر تے ہیں تو محض سر سری طور پر نہیں بلکہ حقیقت بیانی سے کرتے ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے میر انیس کے بارے میں کہا:
’’کون بیوقوف کہتا ہے کہ تم محض مرثیہ گو ہو۔ واللہ باللہ تم شاعر گر ہو اور شاعری کا مقدس تاج تمہارے سر کے لئے موزوں بنایا گیا ہے۔خدا مبارک کرے بھئی اس میدان میں کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انیس کے مرثیہ پر سیکڑوں غزلوں کے دیوان صدقے کئے جا سکتے ہیں۔‘‘(اساتذہ کے تاثرات ۔ ظفر جعفری )
شیکسپیئر اور جارج برنارڈ شا ء مفروضی اور افسانوی کرداروں پر اپنی خدا داد صلاحتو ں کو کام میں لاتے تھے۔انیس و دبیر اصلی کرداروں کی بات اور ان پر جو گزری ان تما م حالات اور واقعات کی منظر کشی کرتے تھے۔میر انیس حق پر جان قربان کرنے والوں کی بات کرتے تھے ۔میر انیس سورج تھے ان کا مقابلہ مغربی ڈرامہ نگاروں سے تقابل کر نا سر ا سر غلط ہے ۔ میر انیس یقینی طور پر ’’ الہامی شاعر‘‘ہیں اور انہوں نے یقینی طور پر ’’ تائید غیبی ‘‘ کی مدد سے صرف اور صرف ایک اصلی کردار اور اسکے خاندان کی مشکلات اور اسکی حق کی خاطر باطل سے لڑائی اور اپنی اور اپنے سارے خاندان کی قربانی کی منظر کشی کی۔کہاں انیس اور کہاں ہومر، ورجل ، شیکسپیئر اور برنارڈ شاء جنھوں نے دماغی قلابا زیاں کھا کر کئی خاندانوںپر اپنا قلم اٹھایا اور انکے افسانوں کی منظر کشی کی۔؟میر انیس کا مقام مندرجہ بالا تمام افسانہ نگاروں اور ڈرامہ نگاروں سے بر تر ہے۔ اور ’’ بین الاقوامی سطح ‘‘سے بالا تر ہے ۔اگر مشاہیر ادب انیس کا موازنہ فردوسی، ہومر یا شیکسپیئر سے نہ کرتے تو ابولکلام آزاد یہ کہتے ہوئے نظرنہ آتے ہیں :
’’دنیائے ادب کو اردو ادب کی جانب سے میر انیس کے مرثیے اور مرزا غالب کی غزلیں تحفہ تصور کی جائیں۔ ادبیبات اردو اور اردو زبان کو قصرگمنامی سے نکال کر مراثی انیس نے بین الاقوامی سطح پر پہنچا دیا۔‘‘
شمس العلما ء امداد امام اثرایسے شاعر ہیں جنہوںنے اردو تنقید کی زبوں حالی کا احساس دلایا۔ان کی تنقیدی تحریریں اردو میں انقلابی نوعیت پیدا کی ہیں۔ انہوں نے روایتی ادب سے اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ اثر اخلاقیاتی شاعری کو بہتر ین شاعری تسلیم کر تے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری کو اخلاق آموزی کا ایک بہتریں ذریعہ ہونا چاہے لیکن وہیں جب میر انیس کی شا عری کی بات آتی ہے تو یا تقابل کی بات آتی ہے تو امداد اثر کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہیں ؛
’’شعرائے نامی یعنی ہومر ورجل اور فردوسی میں ابو ا لشعرا ہومر ہی ہے۔ جس کے ساتھ انیس کا موازنہ صورت رکھتا ہے۔ ورنہ ورجل جو ہومر کا تتبع ہے انیس کا ہرگز ہم پایہ نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ انکی ہم پائیگی کا استحقاق فردوسی کو حاصل ہے۔ انیس کو فردوس ہند کہنا انیس کی ایک بڑی ناقدر شناسی ہے۔ راقم کی دانست میں انیس کی کریکٹر نگاری ہومر کی کریکٹر نگاری سے بڑھی معلوم ہوتی ہے۔ بلا شبہ و شک میر انیس وہ الہامی شاعر ہیں کہ تائیدغیبی بغیر انیس کا کمال کوئی بنی آدم پیدا نہیں کرسکتا۔ انیس کا موید من اللہ ہونا ایک امریقینی ہے۔‘‘
اگر ہم غور و خوص کریں تو معلوم ہو گا کہ انیس کی شاعری کے دو اہم عنا صر یہ ہیں کہ انھو ں نے مرثیے کو مقامی رنگ میں رنگ دیا۔جسکی وجہ سے مرثیہ فن کے اظہا ر کا ذریعہ بنا اور صرف ایک مسلک کا نمائندہ بن کر محدود نہیں رہ گیا۔دوسرا عنصر بھی شاید اسی کی تو سیع ہے ا و ر وہ یہ ہے کہ اگرچہ و اقعۂ کر بلا ایک مخصو ص دور میں پیش آیا مگر انیس کی شاعری نے اس واقعے کے تمام افراد کو زمان و مکان کی قیو د سے آزاد کر دیا۔غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے اکبر الہ آبادی کہتے ہیں :
’’ انیس کے کلام پر غور کرنا ذوق فہمی، نکتہ سنجی اور زبان شناسی کا فائدہ دیتا ہے۔‘‘
انیس سے پہلے مرثیہ صرف مذہبی و اعتقادی صنف نظم سمجھا جاتا تھا۔ اس میں کوئی نمایاں ادبی اہمیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یہ فخر انیس کا حصہ ہے کہ اردو زبان میں ایسے نئے اور پر مغز باب کاحسن کمال سے اضافہ کیاجس کا ثانی ملنا دشوار کن امر ہے ۔ مرثیے سے پیکری حیثیت سے جو قوت و اثر لطافت و تازگی، سلاست و روانی انیس نے پیدا کردی وہ اب تک متقدموں سے ممکن نہ ہوئی تھی۔انیس کے اوپر خدا وند کریم کا خاص کرم تھا ۔ ان کے اوپر الہام ہو تا تھا ۔ جب شعر کہتے تھے یا پڑھتے تھے تو گویا ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے کوئی ان سے کہہ رہا ہو کہ اے انیس اب یہ اس طرح کا شعر کہو اب اس طرح کے شعر کہو انیس کو الہامی شا عر مانتے ہوئے ڈپٹی نظیر احمد کہتے ہیں ـ:ـ
’’ حق تعالیٰ نے ایک اردو شاعر انیس کو کیسی قدرت عطا فرمائی اور اس کے قلب پاک کو کیا نور بخشا ہے کہ وہ خاصان خدا کے ارواح پاک کی باتوں کو اس پاک وصاف طریقے سے نظم کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے بلکہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہی ارواح پاک بول رہی ہیں اور یہ بات بغیر الہام کے غیر ممکن ہے۔ اسلئے میری رائے میں اور شعراء دنیا میں آکر اپنے کسب علوم سے نامور ہوتے گئے۔ لیکن میر انیس وہیں سے شاعر بناکر بھیجے گئے تھے اور مدارجِ اعلیٰ پر فائز ہوئے۔بہر عنوان مناظر کی نقاشی، میدانِ جنگ کی مصوری محبت کے علاوہ جرأت، ایثار، شرافت،انصاف، حق پسندی،حق گوئی جیسے بلند انسانی جذبوں کی مرقع کشی کے باب میں انیس کے مرثئے ایلیڈ،اینیڈ، رامائن،مہا بھارت اور شاہنامہ مقتدر اور مہتم بالشان لفظوں کے شاہکار میں جن سے اردو شاعری کا اخلاقی و تمدنی درجہ بہ مراتب بلند اور بہ منازل اہم ہوجاتا ہے۔ ‘‘(صحیفہ تاریخ اردو از سیّد محمد مخمور رضوی اکبرآبادی )
انیس نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ ہے زبا ن اور تہذیب کا تحفظ جیسے کہ جوش اور نظیر کا نام انکی لفظیا ت کے حوالے سے بہت لیا جاتا ہے۔ انیس نے ایک مخصو ص تہذیب اور زبان،محاورے اور روزمرّہ کو اپنے مراثی کے ذریعے محظو ظ کرکے اردو ادب اور زبان کی ایک بہت بڑی خدمت کی ہے۔ یہ کام صرف مرثیے جیسی ہی صنفِ سخن کی بدولت ہی ممکن تھا۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ بات کہے کہ غز ل نے بھی یہی کام کیا ہے یقیناکیا ہے مگر غزل میں اجمال ہوتا ا ور مرثیے میں تفصیل اور تفصیل مرثیے کا ایک مستحکم عنصر ہے۔
رام بابو سکسینہ رائے دہندگان میں اپنا نام کچھ اس انداز میں درج کر تے ہیں :
’’ انیس کی شاعری جذبات حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا۔‘‘
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
’’ انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اْتار چڑھائو اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بیجا نہیں ۔‘‘(غبار خا طر ، وہاب اعجا ز خان)
میرانیس کے ہاں مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل ، مثنوی کا تسلسل ، واقعہ اور منظر نگاری اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔ میر انیس نے روز مرہ کی زبان کو استعمال کیا ہے ۔ الفاظ بر محل کی ان کی خو بیوں میں شامل ہے ۔ چاہئے وہ جزیا ت نگاری ہو یامنظر نگاری ہر ایک میں اساتدانہ مہارت نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ مولانا شبلی انیس کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ ان کا کلام صیح و بلیغ ہے۔ زبان صحیح اور روز مرہ بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ انتخاب الفاظ مضمون اور موضوع کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جزئیات نگاری میں اْستادانہ مہارت ، جذبا ت کے بیان کا خاص سلیقہ ، منظر نگاری اور مظاہر قدرت کے بیان میں زور تشبیہات اور استعارات میں جدت اور ندرت ہے۔‘‘
اے دیار لفظ و معنی کے، رئیس ابن رئیس
اے امینِ کربلا، باطل فگار و حق نویس
ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیس
عظمتِ آل محمّد کے مؤرخ، اے انیس
تیری ہر موجِ نفس، روح الامیں کی جان ہے
تو مری اردو زباں کا، بولتا قرآن ہے
جوش ملیح آبادی
حواشی وحوالہ جات
(۱) انیسیات ، مسعود حسن رضوی
(۲)ایک مضمون ۔رفعت عبا س زیدی ۱۳؍ دسمبر ۲۰۰۹ کے عالمی اخبا ر بلا گ
(۳) آب حیات ص ۵۱۹، محمد حسین آزاد
(۴) نجم سبطین اپنے ایک مضمون ’’ شاعری اور کربلا ‘‘
(۵) تذکرہ خوش معرکہ زیبا ص ، ۳۰۵ ، سعادت خاں ناصر ۔
(۶)انیسیات ص ۱۶۲،۱۶۳، پر وفیسر مسعود حسن رضوی ادیب ، اتر پر دیش اردو اکا دمی لکھنؤ ۱۹۸۱ء
(۷)انیس ص ۴۲ ، پر وفیسر نیر مسعود رضوی ، قومی کا ؤنسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ۔ ۲۰۰۲۔
(۸)آب حیات ص نمبر ۵۴۸۔ محمد حسین آزا د
(۹) میر قربان علی سالک شاگر د مر زا غالب اپنی بیاض ، ۱۸۶۱ ء
(۱۰)حیات انیس ص ۲۵۵، ۲۵۶ ، امجد علی اشہری ۱۹۰۷ ء
(۱۱)سید شریف الحسن شریف العلما کا ایک خط
(۱۲)سید علی حیدر نظم طبا طبائی شرح دیوان غالب
(۱۳)حیات انیس امجد اشہری
(۱۴)یاد گارِ غالب۔واقعات انیس
(۱۵)یادگار حامد ص ۱۸۴،افضل حسین ثابت
(۱۶)اساتذہ کے تاثرات ۔ ظفر جعفری
(۱۷)صحیفہ تاریخ اردو از سیّد محمد مخمور رضوی اکبرآبادی
(۱۸)غبار خا طر ، وہاب اعجا ز خان
(۱۹)حیات انیس ص ۲۵۵، ۲۵۶ ، امجد علی اشہری ۱۹۰۷ ء
(۲۰) ایک ملا قات احمد علی دانش کے ساتھ

مضمون نگار سے رابطہ
محلہ پورہ رانی ،نزد،ا قراء پبلک اسکول، قصبہ مبارک پور ،ضلع اعظم گڑھ
9369521135