Life of Shamsur Rahman Farooqui

Articles

شمس الرحمن فاروقی کے سوانحی حالات

ڈاکٹر رشید اشرف خان

خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنے یادگار’’مرثیۂ دہلی مرحوم‘‘ لکھتے وقت کہا تھا:
چپّے چپّے پہ ہے یاں ، گوہریکتا تہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں ، اتنا خزانہ ہرگز
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک نا بغۂ روزگار یا Geniusہیں۔یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ عبقری ، نابغے اور جینیئس بنا نہیں کرتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ کام دستِ مشیّت میں ہوتا ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ قسمت ، حالات ، ماحول اور ذاتی کوشش کو بھی بڑی حد تک اس میں دخل ہے۔
موضع کوریا پار ، ضلع اعظم گڑھ ( موجودہ ضلع مئو) کا نام روشن کرنے والے ادیب، شاعر، دانشور،معلم ، ناقد، مترجم اور صحافی شمس الرحمن فاروقی اسی کوریا پار کے رہنے والے ہیں۔کوریا پار کی تاریخ فاروقی کے والدمحترم کے ان جملوں سے واضح ہوجا تی ہے:
’’کوریا پار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بزرگ جن کانام ’’ کوڑیا شاہ ‘‘ تھا انھیں کے نام سے یہ موضع کوڑیا پار کے نام سے مشہور ہوا۔ ان بزرگ کے بارے میں ایک تاریخی اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ چودھویں صدی کے آخر میں ۱۳۸۸ء میں جب فیروز شاہ تغلق کا انتقال ہواتو دہلی کی بد امنی اور طوائف الملوکی سے عاجز آکر وہاں کے مشائخ اور علما دہلی چھوڑ کر ملک کے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ چنانچہ ابراہیم لودھی کی تخت نشینی ہوئی تو بزرگ کوڑیا شاہ ، اعظم گڑھ پہنچے اور کوڑیا پار میں آباد ہوگئے ‘‘۱؎
شمس الرحمن فاروقی کے آبا واجداد ہندوستان میں فاروقی شیوخ شیخ عبداللہ ابن حضرت عمر فاروق ابن خطّاب کی نسل سے ہیں ۔وہ سب کے سب امر با المعروف اور نہی عن المنکر کے اصول پر تا حیات سختی سے قائم رہے۔ ان کے اکابر حضرت شاہ مولانا اشرف علی تھانوی اور بعد میں ان کے خلیفۂ رشید حضرت شاہ مولانا وصی اللہ کے باقاعدہ مریدین میں سے تھے۔ تذکرہ علماے اعظم گڑھ (مولفہ مولانا حبیب الرحمان قاسمی) میں شمس الرحمن فاروقی کے دادا حکیم مولوی محمد اصغر صاحب کا ذکر خیر بڑے اچھے الفاظ میں ملتا ہے۔ دادیہالی بزرگوں میں مذہبی کٹّر پن تھا اور اس میں کسی قسم کا جھوٹ یا مصالحت کی کوئی گنجائش قطعی نہیں تھی۔اس کے برعکس نانہال میں مذہبی رواداری بھی تھی۔نانا مرحوم بھی پابند صوم وصلوۃ تھے لیکن میلاد کی محفلیںبڑے ذوق وشوق سے منعقد کراتے اور نذر و نیاز میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔فاروقی صاحب کی نانی ضلع بلیا کے ایک معروف گاؤں قاضی پور کی رہنے والی تھیں۔ اس پورے قاضی خاندان میں علوم دینیہ کی شان دار روایت برسوں سے چلی آرہی تھی۔ اپنے دادیہال اور نانیہال کا تعارف پیش کرتے ہوئے فاروقی لکھتے ہیں:
’’ میری نانی حضرت چراغ دہلوی کے خاندان کی تھیں اور ان کے گھر میں بھی علم کے ساتھ ساتھ مذہب کا چرچاتھا ۔ میرے دادا کا گھرانا حضرت مولانا تھانوی کا مرید تھا ۔ میرا نا نیہال تقریباََ سب کا سب حضرت مولانا احمد رضاخاں بریلوی کے حلقۂ ارادت میں تھا۔‘‘۲؎
فاروقی کے والد کانام مولوی خلیل الرحمن فاروقی تھا۔ وہ ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے اپنے سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ انہوں نے عربی فارسی پڑھی ، بی۔اے کیا، ایم۔اے سال اوّل کا امتحان دیا جس میں فیل ہوگئے۔ اس کے بعد ایل ۔ٹی کیا۔ ۱۹۳۹ء میں محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے اور سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ڈپٹی انسپکٹر مدارس اسلامیہ بنادیے گئے جہاں سے ۱۹۷۰ء میں وظیفہ یاب ہوئے۔ انگریزی بہت اچھی جانتے تھے اور بے تکان لکھتے تھے لیکن انگریزی بولتے نہیں تھے۔ عام طور پر ان کالباس پتلون پر شیروانی یا کڑاکے کی سردیوں میں پتلون اور شیروانی پر بڑا کوٹ زیب تن کرتے تھے۔
ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد مولوی خلیل الرحمن فاروقی نے الہ آباد کے محلہ راجہ پور میں ایک عمارت ’’دارالسلام‘‘ کے نام سے بنوائی ۔ عبادت وریا ضت اور تبلیغ دین کے لیے خود کو وقف کردیا ۔اپنی سوانح عمری (خود نوشت) ’’ قصص الجمیل فی سوانح الخلیل ‘‘ مرتب کی لیکن یہ کتاب شمس الرحمن فاروقی نے ۱۹۷۳ء میں چھپوائی کیو نکہ ۱۳فروری ۱۹۷۲ء کو ۶۲ سال کی عمر میں خلیل الرحمن فاروقی صاحب اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
۳۰ستمبر ۱۹۳۵ء کو کالا کانکر ہاؤس ، پرتاپ گڑھ (یوپی) میں شمس الرحمن فاروقی کی ولادت ہوئی جہاں ان کے نانا خان بہادر محمد نظیر صاحب اسپیشل منیجر کورٹ آف وارڈس تھے اور جس مکان میںان کا قیام تھا وہ مہاراجہ پرتاپ گڑھ کی کوٹھی تھی۔ان کی ولادت سے سارے خاندان میں بہت خوشی ہوئی۔ اس لیے کہ وہ دو لڑکیوں یعنی دوبہنوں کے بعد پیدا ہوئے تھے۔شمس الرحمن فاروقی کے کل سات بھائی اور دو بہنیں ہیں جن میں فاروقی بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔
غیر ضروری نہ ہوگا اگر ہم اس موقع پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ شمس الرحمن فاروقی کے نام کے سلسلے میں کیسے کیسے تماشے ہوئے ۔ دراصل فاروقی کے بڑے والد محمد عبداللہ فاروقی کے بڑے صاحب زادے شمس الہدیٰ المتخلص بہ قیسیؔ الفاروقی اس تماشے کا سبب تھے۔ فاروقی لکھتے ہیں:
’’ مجھے قیسیؔ الفاروقی میں الف لام کا دم چھلّا غیر ضروری اور بے جا تصنع لگتا تھا ۔لیکن قیسی ؔ الفاروقی نے میری ادبی زندگی کو بہر حال متا ثر کیا ۔ میں نے اپنا قلمی نام ’’ شمسی رحمانی اعظمی‘‘ اختیار کیا اس لیے کہ خلیل الرحمن اعظمی میرے ممتاز ہم وطن تھے ۔اور ’’ رحمانی‘‘ اس لیے کہ ان دنوں ’’ رحمانی ‘‘ نام والے کئی لکھنے والے معروف تھے۔اور ’’ شمسی ‘‘ اس لیے کہ یہ سب ملا کر ’’شمس الرحمن ‘‘کالازمی نتیجہ تھا ۔( میرے خیال میں) قیسی ؔ صاحب نے مجھے اعظمی ترک کرنے کی صلاح دی جو میں نے قبول کرلی۔ کچھ دن میرا نام ’’شمسی رحمانی ‘‘ ہی رہا ۔ پھر مجھے یہ مقفّیٰ نام اور لفظ’’ رحمن ‘‘ کا بگاڑ بہت برا لگنے لگا اور میں سیدھا سادہ شمس الرحمن فاروقی بن گیا۔‘‘۱؎
شمس الر حمن فاروقی نے اپنی تعلیم کی ابتدا روایت کے مطابق عربی وفارسی سے کی تھی۔ انھیں کوریا پار میں مولوی محمد شریف صاحب نے پڑھایا تھا۔اس کے بعد آپ اعظم گڑھ کے ایک مکتب میں داخل کردیے گئے اس مکتب کانا م باغ پر پیٹو تھا۔ یہاں انھیں دینی تعلیم دی گئی۔ نانیہالی رسم کے مطابق فاروقی کی تسمیہ خوانی ( رسم بسم اللہ) چار برس چار مہینے کی عمر میں ہوئی تھی اور دوسال بعد ناظرہ قرآن پاک ختم کر لیا تھا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد فاروقی کا داخلہ ویسلی ہائی اسکول اعظم گڑھ میں درجہ پنجم میںکرایا گیاجہا ں سے انھوں نے درجہ نہم تک کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء میں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول گورکھپور میں داخل ہوئے اور۱۹۴۹ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے میاں صاحب جارج اسلامیہ انٹر کالج گورکھپور میں داخل ہوئے۔ یہاں خوش قسمتی سے انھیں بڑے لائق و فائق اور شفیق اساتذہ سے سابقہ ہوا۔ان کے سب سے زیادہ پسندیدہ استادغلام مصطفٰے خاں صاحب رشیدی مرحوم تھے جن کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ انگریزی کے استادغلام مصطفٰے خاں صاحب رشیدی مرحوم نے اپنی طلاقت لسانی اور تبحّر علمی اور پھر اچھے طالب علموں سے ان کی دلچسپی اور ان کی مسلسل ہمت افزائی کے ذریعے چند ہی دنوں میں سارے فرسٹ ایئر کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ مجھے اس بات کا فخر رہے گا کہ رشیدی صاحب مجھے اچھے طالب علموں میں شمار کرتے تھے اور میرے اردو ادبی ذوق کو بھی انہوں نے ہمیشہ تحسین کی نگا ہوں سے دیکھا ۔ اپنی اردو تحریریں کبھی کبھی ان کو دکھاتا ۔ ان کے مشورے نہایت ہمدردانہ لیکن باریک بینی سے مملوہوتے تھے اور میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا‘‘۱؎
فاروقی کے دیگر اساتذہ میں مسٹر پی ، آئی کورئین( انگریزی) پرنسپل حامد علی خاں (انگریزی صرف و نحو کے استاد) اردو کے استاد منظور علی صاحب اور شمس الآفاق صاحب تھے۔
انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد فاروقی نے مہارانا پر تاپ کالج گورکھپور میں بی۔اے میں داخلہ لیاجہاں انہوں نے جغرافیہ، اقتصادیات اور مغربی فلسفے کی تاریخ پڑھی۔ کانٹ ، ہیگل اور افلاطون نیز فرائڈ وغیرہ سے واقفیت حاصل کی۔ ۱۹۵۳ء میں بی۔اے کرنے کے بعد فاروقی انگریزی ادب میں ایم۔ اے کرنے کی غرض سے الہ آباد پہنچے۔ ۱۹۵۵ء کا سال فاروقی کے لیے انتہائی مبارک ثابت ہوا۔انھوں نے نہ صرف فرسٹ ڈیویژن میں ایم۔اے کا امتحان پاس کیا بلکہ پوری یونی ورسٹی میں اول مقام کے حق دار پائے گئے اور بطور اعزاز انہیں دو گولڈ میڈل بھی ملے۔
الہ آباد میں فاروقی کے سب سے محبوب استاد پروفیسر ایس۔سی ۔دیب صاحب تھے (جو احتشام حسین ، محمد حسن عسکری اور سید اعجاز حسین کے بھی محبوب استاد رہے ہیں)جن کے بارے میں فاروقی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ دیب صاحب سے میںنے بہت کچھ سیکھا۔علی الخصوص یونانی المیہ نگاروں کی عظمت و وقعت اور کولرج کی باریک بینیاں مجھ پر دیب صاحب کے ذریعے منکشف ہوئیں ۔دیب صاحب کی تعلیم خاصی قدامت پرستا نہ تھی لیکن وہ بر انگیخت(Provoke (بہت کرتے تھے اس واسطے ان کے کلاس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات سننے کو مل جاتی تھی جو بعد میں ایک پورے نظام فکرمیںDevelopہوسکتی تھی‘‘ ۱؎
دیب صاحب کے علاوہ فاروقی کے بالواسطہ خاص استاد میں پروفیسر پی۔ ای دستور ، ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن ، پروفیسر پی ۔سی گپت، پروفیسر وائی سہائے اور پروفیسر فراقؔ تھے۔فاروقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں ڈاکٹر سید اعجاز حسین ،پروفیسر سید احتشام حسین اور ڈاکٹر سید مسیح الزماں کو بھی اپنا استاد سمجھتا ہوں البتہ محمد حسن عسکری کو فاروقی بطور خاص عزیز رکھتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں فاروقی نے لکھا ہے :
’’ عسکری کو پڑھ کر میرے تو چھکے چھوٹ جاتے تھے کہ میں تو اتنا علم رکھتا ہی نہیں ہوں اور نہ اس طرح لکھ سکتا ہوںتو پھر میں تنقید کیا کرسکوں گا ؟ تو میں اس وقت سے عسکری صاحب کا قائل اور مداح ہوں ۔ ان کا عقیدت مند رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میں ہر جگہ ان سے متفق نہیں ہوں مگر ان کا حلقہ بگوش تو یقینا ہوں۔‘‘۲؎
مذکورۂ بالا عظیم ہستیوں کے علاوہ جن کو فاروقی نے اپنا ذہنی رہنما مان لیا تھایا جن سے لاشعوری طور پر ان کی ادبی تخلیق و تحقیق کی راہیں روشن ہوئیں،میری مراد ان مفکرین و مصنفین سے ہے جن سے اوائل عمر ہی سے فاروقی نے استفادہ کیا ۔ کہیں براہ راست اس استفادے کا اعلان کیا اور کہیں ان کے خیا لات و نظریات کو اپنے دل ودماغ میں جذب کرکے ان کی وضاحت یا تنقید وتردید کی مثلاََ
1-Thomas Hardy, 2-Bertrand Russell, 3-A.C. Ward, 4-Andre Gid, 5-William Shakespeare,
تھامس ہارڈی (Thomas Hardy)کے بارے میں فاروقی لکھتے ہیں:
’’ بی۔ اے میں نام لکھایا ہی تھا کہ ہارڈی کے ناولوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ ہارڈی کے نام سے تو میں مجنوں صاحب کے مختصر ناولوں(یا ہندوستانی رنگ اور اردو زبان میں ہارڈی کے بعض ناولوں کی تلخیص) کے ذریعہ آشنا ہوچکا تھا لیکن انگریزی میں پڑھنے کی نوبت نہیں آئی ۔ انگریزی میں اس کا ایک ناول پڑھا تھاکہ مجھ پر یہ بات بالکل عیاں ہوگئی کہ ہارڈی کے ناولوں کی تشکیک ،محزونی، دنیا میں انصاف اور نیکی کے فقدان کا احساس ، انسانی زندگی کے المیاتی ابعاد ۔ غرض کہ ہارڈی تھا کہ مجھے اپنی دنیا میں کھینچے لیے جارہا تھا‘‘ ۱؎
فاروقی اپنی افتاد مزاج اور کچھ اہل خانہ کی عملی تربیت کی بنا پر بہت ہی متین ، سنجیدہ اور بردبار انسان ثابت ہوئے ہیں۔ بچوں کے کھیل کود سے انھیں زیادہ دلچسپی نہیں بلکہ صاف ستھری اورپُر سکون زندگی زیادہ پسند ہے۔ وہ انتہائی با اصول ،پابند وقت اور وسیع المطالعہ شخص رہے ہیں۔مختلف موضوعات پر کتا بیں حاصل کرناانھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی ہے۔
جن لوگوں نے شمس الرحمن فاروقی کو قریب سے دیکھا ہے یا جنھیں فاروقی سے مختلف حیثیتوں سے ملنے جلنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ باوجود خاموش طبع ، کم آمیز اور گوشہ نشین رہنے کے وہ بڑے زندہ دل ، ملنسار اور خوش مزاج انسان ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع اور متنوع ہے ۔ ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت ،شب خون کی اشاعت ،اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں ، تقریروں ، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل ملاقات کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبان ذوق ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کچھ حضرات ان کے نظریات یا ذاتی اسباب کی بنا پر ان کے مخالف بھی ہیں لیکن اپنے تئیں مصلحتاََ یا مجبوراََ ان کے دوست کہلانا پسند کرتے ہیں۔
راقم الحروف اس بات کا دعوے دار نہیںہے کہ وہ فاروقی کے سبھی دیرینہ اور موجودہ احباب سے واقف ہے کہ وہ ہر دوست کی کیفیت ِ مزاج اور مو صوف سے قربت کی نوعیت کا کما حقہ جائزہ لے سکے۔ ان کے بعض قریبی اعزہ کی زبانی نیز ان کی تصانیف اور رسائل کی مدد سے جو معلومات حاصل ہوسکی صرف ربط بیان کے لیے ان کا انتہائی اختصار کے ساتھ تذکرہ کرتا ہے۔اس ضمن میں لا شعوری طور پر اگر کوئی فروگذاشت واقع ہو تو ازراہ کرم آپ اسے راقم کی کم علمی پر محمول فرمائیں یا پھر اس امر کو ’’ دروغ برگردنِ راوی‘‘ کے خانے میں ڈال دیں۔
جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر ہوچکا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے انگریزی ادب کا عمیق مطالعہ کرکے ۱۹۵۵ء میں الہ آباد یونی ورسٹی سے ایم۔ اے کا امتحان دیا۔ اس امتحان میں نہ صرف یہ کہ کامیابی حاصل کی بلکہ ان کا نام Toppersمیں تھا ۔ اس یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی کی غیر تحریری روایت رہی ہے کہ فرسٹ کلاس طالب علموں میں سب سے زیادہ نمبر لانے والے امید وار کو شعبہ میں از خود لکچرشپ مل جایا کرتی تھی کیوں کہ اسے شعبہ کے لیے ایک طرۂ امتیاز سمجھاجاتا تھا ، لیکن برا ہو تنگ نظری ، عصبیت اور دھاندلی کا کہ اتنی شاندار لیاقت رکھنے اور میرٹ لسٹ میں آنے کے باوجود اس قاعدے قانون کو فراموش کرکے ساتویں اور آٹھویں پائیدان تک آنے والوں کو لکچر شپ دے دی گئی۔ ظاہر ہے کہ ارباب اقتدار کی اس حرکت مذبوحی کو دیکھ کر فاروقی کو سخت کوفت ہوئی لیکن وہ ایک با حوصلہ نوجوان تھے لہٰذا ہمت نہیں ہارے ۔ انہیں یہ حکیمانہ قول یا د تھا کہ’’ اگر کوئی تمھیں لیموں دے تو اسے فوراََ لیموں کے شربت میں بدل دو‘‘ ۔ان کا اسی سال ستیش چندرڈگری کالج یوپی میں بحیثیت لکچرر تقر ر ہوگیالیکن جب انھیں شبلی کالج ، اعظم گڑھ نے دعوت دی تو موصوف علامہ شبلی نعمانی سے منسوب اس کالج کی طرف بصد شوق مڑ گئے اور ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک وہاں انگریزی پڑھاتے رہے۔
۱۹۵۸ء ہی کی بات ہے کہ فاروقی نے ہندوستان کے سب سے باوقار پیشے کے لیے مقابلہ جاتی امتحان آئی ۔اے۔ ایس) (I.A.S. میں شرکت کی اور خوش قسمتی سے پہلی کوشش میں کامیاب ہوگئے۔انٹر ویو میں کامیابی کے بعد انھوں نے انڈین پوسٹل سروس جوائن کیا۔ ملازمت کے دوران وہ حکومت ہند کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ۔مثلاََ:
۱۔ چیف پوسٹ ماسٹر جنرل ، بہار (پٹنہ) ۲۔ چیف پوسٹ ماسٹر جنرل ، اترپردیش (لکھنؤ) ۳۔ ڈپٹی ڈائرکٹر پوسٹل مٹیریلس ، پی اینڈ بورڈ (نئی دہلی)۴۔ جوائنٹ سکریٹری ، ڈیپارٹمنٹ آف نان کنونشل انرجی سورسس ہند (نئی دہلی)
اپنی عمر عزیز کے ۳۶ سال بلا تفریق مذہب وملت کمال فرض شناسی ودیانت داری کے ساتھ ملازمت سے ۳۱ جنوری ۱۹۹۴ء کو سبک دوش ہوئے۔جس زمانے میں فاروقی ملازمت میں تھے، ان کے مخلص دوست ڈاکٹر نیر مسعود لکھتے ہیں :
’’فاروقی کانپور میں تعینا ت تھے ایک دن لکھنؤ آئے کسی سخت الجھن میں مبتلا تھے کہنے لگے میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ملازمت سے استعفٰی دے دوں۔ ان سے جب اس فیصلے کا سبب پوچھا تو بتایا کہ ان کے پی ۔ایم۔ جی صاحب ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔انہیں یہ خیال ہونے لگا ہے کہ فاروقی، محکمے میں مسلمانوں کو زیادہ بھرتی کر رہے ہیں۔میںنے پوچھا کیا یہ حقیقت ہے؟ ’’ہاں کسی حد تک‘‘ انھوں نے جواب دیا۔ میرے کاموں میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ بالکل مجھ سے کلر کوں والا برتاؤ کرتے ہیں۔ دیر تک دل کا بخار نکالنے کے بعد واپس چلے گئے۔ اگلی بار آئے تو بہت خوش تھے۔ کہنے لگے۔ اس نے مجھے کلرک سمجھ لیا تھا تو میں نے بھی کلرکوں والی حرکتیں شروع کردیں ۔ اس کے ہر آرڈر میں طرح طرح کی قانونی قباحتیں نکال دیتا تھا اور باربار آرڈر میں تبدیلیاں کراتا تھا۔ عاجز آکر اس نے کہہ دیا ۔ مسٹر فاروقی ، آپ جو مناسب سمجھئے وہ کیجیے۔‘‘۱؎
۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ء کوشمس الرحمن فاروقی کی شادی ضلع الہ آبا کے قصبہ پھول پور کے ایک زمیندار گھرانے میں سید عبد القادر کی بڑی لڑکی جمیلہ خاتون سے ہوئی ۔جمیلہ خاتون الہ آباد یونی ورسٹی کی ایک ہونہاراورذہین طالبہ تھیں۔ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ایک باحوصلہ، ذمہ داراور خوش اخلاق خاتون بھی تھیں۔ وہ الہ آبا د کے حمیدیہ اور قدوائی گرلزکالج جیسے مؤقر ادارے کی پرنسپل بھی رہی ہیں۔فاروقی کی دو لڑکیاں ہیں۔۱۔مہر افشاں، ۲۔ باراں رحمن
(۱) مہر افشاں (پیدائش ۱۹۵۷) ایم۔اے (تاریخ) ڈی فل ( تاریخ) اردو فارسی سے واقف ہیں ۔اردو فارسی سے انگریزی میں اور انگریزی سے اردو میں کئی تراجم کیے ہیں۔ پنسلوانیا یونی ورسٹی میں مہمان پروفیسر رہ چکی ہیں۔ ابتدائی تعلیم کونونٹ میں حاصل کی۔ پرائمری درجات سے ایم ۔اے تک اول درجے سے کامیابی حاصل کی۔ فی الحال امریکہ کی ورجینیا یونیورسٹی میں درس وتدریس کا کام انجام دے رہی ہیں۔
(۲) باراں رحمن ( پیدائش ۱۹۶۵ء) بی۔ایس سی ، ایم۔اے پی ایچ ڈی (انگریزی) اوراردو فارسی سے واقف ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں انگریزی کی پروفیسر ہیں۔
فاروقی کی شریک حیات محترمہ جمیلہ فاروقی جو حقیقی معنوں میں ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ اور ((Morale-Boosterدل بڑھانے والی خاتون تھیں ،اس دنیاے آب وگل میں تقریباََ ۵۲ برس تک ان کے ساتھ رہیں۔جمیلہ فاروقی اچانک بیمارپڑ گئیں۔خیال تھا کہ الہ آباد کے ڈاکٹر انھیںسنبھال لیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ انھیںدہلی کے مشہور بترا ہسپتال میں داخل کیا گیا،کئی ڈاکٹر شب وروز ان کی نگہداشت میں جی توڑ کوشش کر رہے تھے لیکن علالت ایسی تھی کہ کسی طرح افاقہ ممکن نہ تھا۔آخر طے پایا کہ بیگم فاروقی کو الہ آباد لایا جائے۔ مشیت ایزدی میں کیا چارہ ہے ۔آخر کار دہلی سے الہ آبا واپس لائی گئیں جہاں ۱۹؍اکتوبر ۲۰۰۷ء (بروز جمعہ) کو تمام اہل خانہ کو وہ داغِ مفارقت دے گئیں،جس کا اندازہ فاروقی کے ان اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

اس کو وداع کرکے ، میں بے قرار رویا
مانند ابر تیرہ ، زار و قطار رویا
طاقت کسی میں غم کے ، سہنے کی اب نہیں ہے
اک دل فگار اٹھا ، اک دل فگار رویا
اک گھر تمام گلشن ، پھر خاک کا بچھونا
میں گور سے لپٹ کر دیوانہ وار رویا
تجھ سے بچھڑ کے میں بھی اب خاک ہوگیا ہوں
تربت پہ تیری آکر ، میرا غبار رویا
٭٭٭
شمس الرحمن فاروقی کو ان کے چالیس سے زائد اردو انگریزی تصانیف اور کارناموں پر ہندوستان کی کم وبیش سبھی اکیڈمیوں اور ادبی اداروں نے انعامات سے سرفراز کیاہے۔علاوہ ازیں ان کی ادبی قدر قیمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بر صغیر کا سب سے بڑاادبی ایوارڈ’’سرسوتی سمان‘‘جو مالیت کے لحاظ سے بھی سب سے بڑاہے، شمس الرحمن فاروقی کو ’شعر شور انگیز‘‘ کے لیے ملا۔فاروقی اردو کے پہلے ادیب ہیں جنھیں سرسوتی سمان سے نوازا گیا۔
شمس الرحمن فاروقی بنیادی طور پر ایک دانشور ہیں ۔ان کی عالمانہ تصانیف کو پڑھ کر نیز’’شب خون‘‘ جیسے معیاری رسالے کی ترتیب و تزئین کو دیکھ کر ہر کس وناکس اردو اور فارسی ادبیات پر ان کی گرفت کی تعریف کرتا ہے۔رسالہ’’شب خون ‘‘ جون ۲۰۰۵ء تک یعنی کم وبیش چالیس سال تک شائع ہوتا رہا۔اگرچہ اس میں بحیثیت مدیر ،پرنٹر اور پبلشر عقیلہ شاہین کا نام درج ہوتا تھا ، لیکن ترتیب و تہذیب کے ذمہ دار فاروقی تھے اور وہی دراصل پورے رسالے کی نگرانی کرتے تھے۔ ملازمت سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد وہ از اول تا آخر اسے سجاتے سنوارتے تھے۔ تقریباََ ۸۰ صفحات پر مشتمل اس رسالے میںاعلیٰ درجہ کے طبع زاد نثری مضامین کے علاوہ مختلف زبانوں کے تراجم اور ادبی مباحث بھی ہوتے تھے۔ منظومات کے علاوہ چند مستقل عنوانات مثلاََ ’’سوانحی گوشے ‘‘،’’ کہتی ہے خدا خلق‘‘ا ور ابتدائیہ میں ادب عالیہ کا کوئی تعارفی مضمون ضرور ہوتا تھا۔ اس رسالے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ نہ تو کوئی مضمون قسطوں میں چھپتاتھا اور نہ مختلف الگ الگ صفحات پر ۔ صحت کی خرابی اور دوسرے نا گزیر اسباب کی بنا پر فاروقی نے جون تا دسمبر ۲۰۰۵ء میں دوجلدوں پر مشتمل آخری شمارہ نکال کر’’شب خون‘‘ بند کردیا۔
یہ بات تو اپنی جگہ بالکل طے ہے کہ شمس الرحمن فاروقی ایک پیدائشی فنکار ہیں لہٰذا یہ ایک بدیہی امر ہے کہ مطالعۂ کتب ، مشاہدۂ کائنات،خامہ فرسائی ، علمی وادبی مباحث، نزدیک و دور کے اسفار،خطابت اور صحافت ہی ان کے میدان عمل یا کارگاہِ غور وفکر ہیں۔
شعر گوئی اور سخن فہمی فاروقی کو وراثتاََ اپنے بزرگوں سے ملی ہے۔لیکن ان کا کلام سنجیدہ مزاج اور فلسفیانہ خیالات رکھنے والے عالم ودانا سامعین و ناظرین میں نسبتاََ زیادہ مقبول ہے جس کا احساس خود فاروقی کو بھی ہے۔چنانچہ اپنے ایک شعری مجموعہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’انگریزی زبان کے ایک معروف شاعر ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے ایک دوست نے ان سے کہا کہ تمھاری شاعری اتنی مشکل ہے کہ اسے مشکل سے دولوگ سمجھ سکتے ہیں۔ ایلیٹ نے جواب دیا کہ میں انھیں دو لوگوں کے لیے لکھتا ہوں۔‘‘۱؎
شمس الرحمن فاروقی اردو زبان کے ایک سچے عاشق بھی ہیں اور وکیل بھی۔اکثر اردو کے نادان دوست یا مخالفین مخلص یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اردو رسم الخط بدل دیا جائے تو یہ زبان اور ہردلعزیز ہو جائے گی ۔ فاروقی اس تجویز کے سخت خلاف ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ہماری زبان کی بدنصیبی ہی کہی جائے گی کہ اس کا رسم الخط بدلنے کی تجویزیں با ر با ر اٹھتی ہیں ، گویا رسم الخط نہ ہوا کوئی ایسا داغ بدنامی ہوا کہ اس سے جلد از جلد چھٹکارا پانابہت ضروری ہو۔کبھی اس کے لیے رومن رسم خط تجویز ہوتا ہے ، کبھی دیونا گری ۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ رسم خط میں تبدیلی کی بات کہنے والے اکثر خود اہل اردو ہی ہوتے ہیںجس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے ۲۰۰۵ء میں پروفیسر گیان چند جین کی بدنام زمانہ کتاب ’’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ ،دو ادب ‘‘ کے عنوان سے شائع کی تھی ۔ ۳۰۰ صفحات سے کچھ اوپر ضخامت رکھنے والی اس کتاب میں جملہ ۱۴ ابواب ہیں ۔ فاروقی نے اس کتاب کے ایک ایک جزو پر خالص عالمانہ بحث کی ہے اور آنجہانی ڈاکٹر جین کے ایک ایک معاندانہ دعوے کی تردید کی ہے۔فاروقی کا یہ محاکمہ خالص منطقی استدلال پر مبنی ہے ورنہ موصوف یہ نہ لکھتے کہ:
ــ’’ یہ کتاب اردو ہندی تنازع پر نہیں ،بلکہ ہندو مسلم تنازع پر لکھی گئی ہے بلکہ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے اور ابناے وطن کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے کے لیے لکھی ہے۔‘‘۱؎
پوری کتاب کا حرف بہ حرف تجزیہ کرنے کے بعد فاروقی نے اپنے تبصرے کا اختتام یوں کیا ہے:
’’ یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کی ہے۔ یہ ادارہ اردو اشاعت کا ایک معتبر ادارہ ہے۔ اس کے مالک جمیل جالبی کے بھائی ہیں۔ وہی مشہور محقق اور ادبی مؤرخ جمیل جالبی جن کے معتقد ہمارے فاضل مصنف بھی ہیں اور جن کو انھوں نے اپنی کتاب ’’ اردو کی ادبی تاریخیں ‘‘ لکھ کر معنون کی ہے کہ جمیل جالبی ’’ادبی تاریخ کے سب سے اچھے اہل قلم ‘‘ ہیں ۔ حیرت ہے کہ اردوکے صریحاََ خلاف جھوٹ اور اغلاط اور تعصب سے بھری ہوئی یہ کتاب ایک اردو ادارہ سے کیسے اور کیوں شائع ہوئی‘‘ ۲؎
فاروقی کی ایک حیثیت مورخ اردو زبان وادب کی بھی ہے ۔ اس کا بین ثبوت ان کی تحریر کردہ کتاب ’’ اردو کا ابتدائی زمانہ، ادبی تہذیب وتاریخ کے پہلو‘‘ہے یہ کتاب جو دو سو صفحات پر مشتمل ہے اس کا پہلا ایڈیشن اجمل کمال نے ۱۹۹۹ء میں ’’آج کی کتابیں‘‘ نامی ادارہ واقع صدر ، کراچی پاکستان سے شائع کیا تھا ۔ یہی کتاب بہ زبان انگریزی آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس سے چھپ چکی ہے وہاں اس کی سرخی ہے:
Establishing New Facts about Urdu Language & Literature
Shamsur Rahman Faruqi’s
EARLY URDU LITERARY CULTURE AND HISTORY
Published by Oxford University Press
شمس الرحمن فاروقی نے اندرون ملک اور بیرون ملک کی متعددیونی ورسٹیوں اور جلسوںمیںشرکت کی جہاں انہوں نے مختلف ادبی موضوعات پرعالمانہ لکچر دیے اور جلسوں سے بھی خطاب کیا۔طوالت کی خاطر میں صرف بیرون ممالک کے اسفا ر کا سرسری جائزہ پیش کروںگا۔ شمس الرحمن فاروقی نے پہلی بار ۱۹۸۷ء میں برطانیہ اور امریکا کا دورہ کیا جہاں انہوںنے وسکالنسن یونی ورسٹی میں بین الاقوامی ادبی کانفرس میں شرکت کی اور شکاگو یونی ورسٹی میں لکچر دیے۔۱۹۸۰ء میں پاکستان کے شہر لاہور اور کراچی کے ادبی جلسوںسے خطاب کیا ۔۱۹۸۴ء میں امریکا اور کناڈا کا سفرکیا اورٹو رنٹو میں بین الاقوامی ادبی کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد برٹش کولمبیا یونی ورسٹی (وین کور) کیلی فورنیا یونی ورسٹی(برکلے) اور وسکالنسن یونی ورسٹی میں جلسوں سے خطاب کیا۔۱۹۸۴ء ہی میں تھائی لینڈ کے شہر بنکاک کے SAARCکانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔۱۹۸۵ء میں سوویت یونین ماسکو میں ہندوستانی سائنس نمائش میں ہندوستانی وفد کی قیادت کی۔۱۹۸۶ء میں دوبارہ پاکستان کا سفر کیا اور اسلام آباد میں SAARC(دیہی توانائی) میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔۱۹۸۶ء میں امریکا اور کناڈا کا دورہ کیا جہاں انہوں نے چھ امریکی شہروں میں ہندوستانی شاعری میلہ اور ادبی جلسوں سے خطاب کیا۔۱۹۸۷ء میں خلیجی ممالک دوحہ، قطر میں ہند پاک جلسوں میں شرکت کی۔۱۹۸۸ء میں برطانیہ اور امریکا گئے جہاں لندن کے ایک ادبی جلسے سے خطاب کیا علاوہ ازیں پنسلوانیا ، فلاڈلفیا اور کولمبیا یونی ورسٹی نیو یارک میں لکچر دیے۔۱۹۸۹ء میں خلیجی ممالک دوحہ ،قطرہندپاک جلسوں میںشرکت کی،واپسی میں کراچی کے ادبی جلسوں سے خطاب کیا۔۱۹۸۹ء میں پنسلوانیا یونی ورسٹی امریکا میں اردو ادب پر تقاریر کیں۔ ۱۹۹۰ء میں جدید اردو کلاسیکی ادب پر شکاگو میں لکچر دیے۔۱۹۹۳ء میں پنسلوانیا ، شکاگو اور کولمبیا یونی ورسٹیوں میں اپنے خطبات پیش کیے۔۱۹۹۳ء میں مغربی یورپ بلجیم اور ہالینڈ کا سفر کیا۔۱۹۹۳ء میں بنکاک،نیوزی لینڈ اور سنگاپور کا سفر کیا جہاں انہوں نے پوسٹل انتظامیہ کی دولت مشترکہ کانفرنس منعقدہ نیوزی لینڈ میں ہندوستانی نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی اور ’’ آب ِحیات‘‘ کے انگریزی ترجمے میں بحیثیت مشیر ۱۹۹۳ء میں کولمبیا میں کام کیا اور کناڈا کے شہر ٹورنٹو میں ادبی جلسوں کو خطاب کیا۔۱۹۹۵ء انگریزی ترجمے کے ماہر مشیرکی حیثیت سے کولمبیا میں کام کیا اور کیلیفورنیا ،برکلے اور کنکورڈیا کی یونی ورسٹیوں میں ادبی جلسوں میں خطاب کیا۔۱۹۹۵ء میں لندن اور بریڈ فورڈ میں ادبی جلسوں کو خطاب کیا اور آکسفورڈ لائبریری میں نایاب کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ۱۹۹۶ء میں عبرانی یونی ورسٹی یروشلم میں تین لکچر کلاسیکل اردو غزل کی شعریات پر دیے۔نومبر ۱۹۹۶ء میں فاروقی کو ہیبرو یونیورسٹی اسرائیل نے ’’ہندوستانی شعریات ‘‘ کے موضوع پر لکچر کی دعوت دی جس کا معاوضہ کافی خطیرتھا پھربھی فاروقی نے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا ۔ فاروقی نے اسرائیلی دعوت نامے کومسترد کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ انسان دوستی کو نام ونمود اور اعزازات پر مقدم سمجھتے ہیں۔انہوں نے اس عمل سے فلسطین کے ان مظلوموں اور ناداروں کی ایک طرح سے حمایت بھی کی جو صیہونی ظلم واستبداد کا آئے دن نشانہ بنتے ہیں۔
چونکہ اس تصنیف کا مقصد شمس الرحمن فاروقی کی فکشن نگاری عموماََ اور ان کے مشہور ناول ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ کا مطالعہ خصوصاََ پیش کرنا ہے۔لہٰذا گزشتہ چند صفحات میں ان کے سوانحی حالات اختصار کے ساتھ پیش کیے گئے ہیںتاہم اس نکتہ کو پیش نظررکھا گیا ہے کہ فاروقی کی پیدائش سے اب تک کی زندگی کا محاکمہ اس ترتیب سے کیا جائے کہ ان کی گھریلو ، علمی اور عملی زندگی کے وہ اہم واقعات وحالات ضبط تحریر میں آجائیںجو کہ ان کی پرورش و پرداخت اور ذہنی نشو ونمامیں اہمیت کے حامل ہیں۔ان کی شخصیت کے مطالعے کے بعد یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود انھوں نے اردوزبان و ادب پر جو اختصاص حاصل کیا ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو سکا۔صرف اردو ہی نہیں بلکہ دنیا کی دیگر اہم زبانوں اور ان کے ادب سے کما حقہ واقفیت فاروقی کو عبقری شخصیت کا درجہ عطا کرتی ہے۔ انھیں ابتداے عمر ہی سے مطالعے کا شوق تھا۔رفتہ رفتہ یہ شوق ان کے مزاج اور شخصیت کا ایک دائمی جز بن گیا۔ انھوں نے زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کیا وہ اپنی محنت وریا ضت کے دم پر کیا ۔ادب میں تحقیق، تنقید اور تخلیق غرض کہ ہر شعبے میں انہوں نے اہم خدمات انجام دی ہیں۔
٭ ٭ ٭