lehaf by Ismat Chughtai

Articles

لحاف

عصمت چغتائی

 

عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انھوں نے اردو میں ایک بے باک تانیثی رویے اور رجحان کا آغاز کیا اور اسے فروغ بھی دیا۔ عصمت۲۱؍ اگست۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہربدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ لہٰذا ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اسی سبب سے ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایوں کی ایک گرلس کالج میں ملازمت اختیارکی۔ وہ ۱۹۴۲ء میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے بمبئی پہنچیں۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ فلم، صحافت اور ادب ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محورہیں۔ ان کا انتقال ممبئی میں ۲۴؍ اکتوبر۱۹۹۱ء کو ہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے چندن واڑی سری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔
عصمت چغتائی بڑی آزاد خیال اور عجیب و غریب خاتون تھیں۔اُن کی شخصیت اور انسانی رشتوں اور ان رشتوں کے ساتھ عصمت کے رویے اور تعلق کو درشانے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ مختصر واقعات نقل کیے جائیں جنھوں نے عصمت کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ مثال کے طور پر مشہور افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک اپنے ایک مضمون میں ساحر لدھیانوی کے گھر فراق کے اعزاز میں دئے گئے ایک ڈنر جس میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف بھی تھے کا ذکر کرتے ہوئے عصمت کے کردار کی یہ تصویر کھینچتے ہیں:
’’سبھی مرد عورتیں پی رہے تھے۔ عصمت نے ایک آدھ پیگ پینے کے بعد ہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے بہ آواز بلند کہا۔۔۔ ’’میر اجی چاہتا ہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں ، لیکن شاہد زہر کھا لے گا‘‘۔۔۔ مجھے اس ریمارک سے خاصہ دھکا لگا تھا۔ کوئی عورت پی کر بھی ایسا ریمارک نہیں کس سکتی۔ جب تک کہ اپنے شوہر کی بے راہ روی یا کمزوری سے اس کے دماغ میں یہ خیال نہ پیدا ہوا ہو یا پھر شوہر کے علاوہ وہ کسی اور مرد کونہ چاہتی ہو۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: اوپیندر ناتھ اشک۔ ص: ۲۲۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
عصمت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والوں میں قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ انھوں نے عصمت کی وفات سے متاثر ہو کر لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا تھا اس میں عصمت کی آزاد خیالی کو اس واقعے کی روشنی میں پیش کیا :
’’ان کی بڑی بیٹی نے بنگلور میں سول میریج کر لی اور اطلاع دی کہ اس کی ساس سسر مذہبی رسوم کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں آپ بھی آ جائیے۔ بنگلور سے واپس آکے عصمت آپا نے اپنے خاص انداز میں نہایت محظوظ ہوتے ہوئے سنایا کہ صبح صبح میں اٹھ گئی۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ ان کا پنڈت آگیا۔ اب وہ بے چارہ ایک کمرے میں پریشان بیٹھا تھا۔ کہنے لگا مہورت نکلی جا رہی ہے اور یہاں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں پوجا کیسے شروع کروں۔ میں نے کہا اے پنڈت جی آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ میں پوجا شروع کروائے دیتی ہوں۔ بس میں بیٹھ گئی اور میں نے پوجا شروع کروا دی۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا بھلا اپ نے پوجا کس طرح کروائی۔ کہنے لگیں۔ اے اس میں کیا تھا۔ پنڈت نے کہا۔ میں منتر پڑھتا ہوں آگ میں تھوڑے تھوڑے چاول پھینکتے جائیے۔ میں چاول پھینکتی گئی۔ اتنے میں گھر کے اور لوگ بھی آ گئے۔ بس۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: قرۃ العین حیدر۔ ص:۳۷۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
یہ ہے عصمت چغتائی کی سیرت وشخصیت ،کردار اور ان کی فکر کا محور۔ وہ بہت آزاد خیال تھیں۔ وہ تاش دلچسپی سے کھیلتیں اور لگاتار سگریٹ پیتی تھیں۔ انھیں مے نوشی کا بھی شوق تھا۔ ان کے سینے میں مردوں یا اپنے حریفوں سے انتقام کی آگ ہمیشہ جلتی رہی۔ جس سے نفرت ہوئی اس کو کبھی معاف نہیں کیا۔ دراصل انھوں نے اپنے بچپن ہی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ اچھی سے اچھی بیٹی نالائق سے نالائق بیٹے سے کم ترہی سمجھی جاتی ہے چنانچہ ان کی اپنے کسی بھائی سے کبھی نہیں نبھی۔ ہر بھائی سے لڑائی جھگڑے میں ہی ان کا بچپن گزرا۔ بچپن کا یہ نقش ان کے بڑھاپے تک پتھر کی لکیر بنا رہا اور مردوں سے بیر رکھنا ان کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ وہ انتقام کی اسی آگ میں ہمیشہ جلتی رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد خود جل کر راکھ ہو گئیں۔ عصمت چغتائی کی سوچ کا تانا بانا انھیں حادثات و واقعات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں قلم سنبھالا اور اپنے باغی لب و لہجے سے مردوں کی صفوں میں ہل چل مچا دی ۔ساتھ ہی یہ یقین دلانے کی بے باکانہ کوشش بھی کی کہ عورت اپنی محدودیت کے باوجود لامحدود ہے اور مرد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرۂ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ اپنے افسانوں کے مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں شائع کروائے۔ دھانی بانکپن اور شیطان جیسے معروف ڈرامے قلمبند کیے اور تاویل، سودائی اور دوزخی جیسے بے مثال خاکے لکھے۔ ان کی یہ وہ تخلیقات ہیں جو ناول، افسانہ، ڈراما اور خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔
ناول نگاری کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عصمت کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔ انھوں نے زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کے مسائل اور ان کی نفسیات پر لکھا جس پر انھیں گہرا عبورحاصل تھا۔ ان کے زیادہ تر افسانے ایک ایسے المیے پر ختم ہوتے ہیں جو حقیقت سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو سچ بولنا سکھایا اور عورت کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانی کا موضوع بنایا۔ چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں ، سونے کا انڈا، چھوئی موئی، بھول بھلیاں ، ساس، لحاف، بے کار، کلو کی ماں ، اف یہ بچے، چارپائی، جھوٹی تھالی، میرا بچہ، ڈائن، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، تل، لال چیونٹے، پیشہ ور، ننھی کی نانی وغیرہ ان کے مشہور اور یادگار افسانے ہیں۔ ان افسانوںمیں انھوں نے ایک مخصوص قسم کی فضا تخلیق کی ہے جو فضا گھر اور گھریلو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان افسانوں میں عورت کا تصور اس کی بدنصیبی سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس کی پوری زندگی تلخیوں اور پریشانیوں میں گھری معلوم ہوتی ہے اور آخر میں وہ ان دکھوں کی تاب نہ لا کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ عصمت کے زیادہ تر افسانے ایک خاص طبقے اور خصوصی طور پر عورت کے گھریلو ا ور جنسی تعلقات کے اردگرد گھومتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں یکسانیت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے جو قاری کے لیے کبھی کبھی اکتاہٹ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
عصمت صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ ان کے افسانے:جڑیں ، کافر، دو ہاتھ اور ہندوستان چھوڑ دو وغیرہ گہرے تاریخی اور معاشرتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے دو ہاتھ میں محنت کس طبقے کی اہمیت اجاگر کیا ہے۔ دراصل عصمت کا دور ترقی پسندی کا دور تھا جس میں سماجی نا انصافیوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ دیا گیا۔ یوں انھوں نے سماج کے ہر مسئلے اور طبقے پر لکھا لیکن یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عورت کی نفسیات اور جنس کے موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کے حامل تھے۔
عصمت ناول نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈراما نگار بھی تھیں انھوں نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری پر زور دیا۔ ان کے ڈراموں میں ایک بات اور نیلی رگیں بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب بھی ان کے اچھے ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے کردار ہیں۔ ان کی زبان صاف، سادہ اور دل کش ہے۔
عصمت کے تحریر کیے ہوئے خاکے تاویل، سودائی اور دوزخی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خاکوں میں دوزخی کو ادبی دنیا میں کافی مقبولیت ملی۔ جب یہ ماہنامہ ساقی (دہلی) میں شائع ہوا تو منٹو کی بہن نے کہا کہ ’’سعادت یہ عصمت کیسی بے ہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت منٹو نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کروتو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔
بلاشبہ عصمت کی تحریریں موضوعات، اسلوب، کردار اور لب و لہجے کے اعتبار سے تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہار کا پہلا معتبر تجربہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تانیثیت کی پہلی اور مستند دستاویزات ہیں۔


لحاف

جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیواروں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔

معاف کیجئے گا، میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جا رہی ہوں۔ نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل آرام دہ سہی، مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جب لحاف کی پرچھائیں دیوار پر ڈگمگا رہی ہو۔ یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مار کٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ میں کم بخت اتنی لڑاکا کیوں ہوں۔ اس عمر میں جب کہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں میں اپنے پرائے ہر لڑکے اور لڑکی سے جو تم بیزار میں مشغول تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں، تو ہفتے بھر کے لئے مجھے اپنی منہ بولی بہن کے پاس چھوڑ گئیں۔ ان کے یہاں اماں خوب جانتی تھی کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں اور میں کسی سے لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی! ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح محفوظ ہے۔ یہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اسی لئے داماد بنالیا کہ وہ پکی عمر کے تھے۔ مگر تھے نہایت نیک۔ کوئی رنڈی بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہیں آئی۔ خود حاجی تھے اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔ مگر انہیں ایک عجیب و غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا شوق ہوتا ہے، بٹیرے لڑاتے ہیں، مرغ بازی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفر ت تھی۔ ان کے یہاں تو بس طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے جن کا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔

مگر بیگم جان سے شادی کر کے تو وہ انہیں کل ساز و سامان کے ساتھ ہی گھر میں رکھ کر بھول گئے اور وہ بے چاری دبلی پتلی نازک سی بیگم تنہائی کے غم میں گھلنے لگی۔

نہ جانے ان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کر چکی تھی، یا وہاں سے جب وہ ایک نواب بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔ یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا۔ ان کے لئے مرغن حلوے اور لذیذ کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کے درزوں میں سے ان لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور معطر باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔

یا جب سے، جب وہ منتوں مرادوں سے ہار گئیں، چلے بندھے اور ٹوٹکے اور راتوں کی وظیفہ خوانی بھی چت ہو گئی۔ کہیں پتھر میں جونک لگتی ہے۔ نواب صاحب اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ علم کی طرف متوجہ ہوئیں لیکن یہاں بھی انہیں کچھ نہ ملا۔ عشقیہ ناول اور جذباتی اشعار پڑھ کر اور بھی پستی چھاگئی۔ رات کی نیند بھی ہاتھ سے گئی اور بیگم جان جی جان چھوڑ کر بالکل ہی یاس و حسرت کی پوٹ بن گئیں۔ چولہے میں ڈالا ایسا کپڑا لتا۔ کپڑا پہنا جا تا ہے، کسی پر رعب گانٹھنے کے لئے۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کرتوتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر توجہ کریں اور نہ وہ انہیں آنے جانے دیتے۔ جب سے بیگم جان بیاہ کر آئی تھیں رشتہ دار آ کر مہینوں رہتے اور چلے جاتے۔ مگر وہ بے چاری قید کی قید رہتیں۔

پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوئے ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوئے، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجئے پھسل کر گئے کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

گرمی جاڑے بیگم جان حیدر آبادی جالی کارگے کے کرتے پہنتیں۔ گہرے رنگ کے پاجامے اور سفید جھاگ سے کرتے اور پنکھا بھی چلتا ہو۔ پھر وہ ہلکی دلائی ضرور جسم پر ڈھکے رہتی تھیں۔ انہیں جاڑا بہت پسند تھا۔ جاڑے میں مجھے ان کے یہاں اچھامعلوم ہوتا۔ وہ ہلتی جلتی بہت کم تھیں۔ قالین پر لیٹی ہیں۔ پیٹھ کھج رہی ہے۔ خشک میوے چبا رہی ہیں اور بس۔ ربو سے دوسری ساری نوکرانیاں خار کھاتی تھیں۔ چڑیل بیگم جان کے ساتھ کھاتی، ساتھ اٹھتی بیٹھتی اور ماشاءاللہ ساتھ ہی سوتی تھی۔ ربو اور بیگم جان عام جلوؤں اور مجموعوں کی دلچسپ گفتگو کا موضوع تھیں۔ جہاں ان دونوں کا ذکر آیا اور قہقہے اٹھے۔ یہ لوگ نہ جانے کیا کیا چٹکے غریب پر اڑاتے۔ مگر وہ دنیا میں کسی سے ملتی نہ تھیں۔ وہاں تو بس وہ تھیں اور ان کی کھجلی۔

میں نے کہا کہ اس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم جان پر فدا۔ وہ مجھے بہت ہی پیار کرتی تھیں۔ اتفاق سے اماں آگرے گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اکیلے گھر میں بھائیوں سے مار کٹائی ہو گی۔ ماری ماری پھروں گی۔ اس لئے وہ ہفتے بھر کے لئے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ میں بھی خوش اور بیگم جان بھی خوش۔ آخر کو اماں کی بھابھی بنی ہوئی تھیں۔

سوال یہ اٹھا کہ میں سوؤں کہاں؟ قدرتی طور پر بیگم جان کے کمرے میں۔ لہذا میرے لئے بھی ان کے چھپر کھٹ سے لگا کر چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی۔ گیارہ بجے تک تو باتیں کرتے رہے، میں اور بیگم جان تاش کھیلتے رہے اور پھر میں سونے کے لئے اپنے پلنگ پر چلی گئی اور جب میں سوئی تو ربو ویسی ہی بیٹھی ان کی پیٹھ کھجا رہی تھی۔ “بھنگن کہیں کی۔” میں نے سوچا۔ رات کو میری ایک دم سے آنکھ کھلی تو مجھے عجیب طرح کا ڈر لگنے لگا۔ کمرہ میں گھپ اندھیرا اور اس اندھیرے میں بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہاتھی بند ہو۔ بیگم جانمیں نے ڈری ہوئی آواز نکالی، ہاتھ ہلنا بند ہو گیا۔ لحاف نیچے دب گیا۔

“کیا ہے، سو رہو” بیگم جان نے کہیں سے آواز دی۔

“ڈر لگ رہا ہے۔” میں نے چوہے کی سی آواز سے کہا۔

“سو جاؤ۔ ڈر کی کیا بات ہے۔ آیت الکرسی پڑھ لو۔”

“اچھامیں نے جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھی مگر یَعْلَمُ مَا بَیْنَ پر دفعتاً آ کر اٹک گئی۔ حالانکہ مجھے اس وقت پوری یاد تھی۔

“تمہارے پاس آ جاؤں بیگم جان۔”

“نہیں بیٹیسو رہو” ذرا سختی سے کہا۔

اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پھسر کرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ہائے رے دوسرا کونمیں اور بھی ڈری۔

“بیگم جانچور تو نہیں۔”

“سو جاؤ بیٹاکیسا چور” ربو کی آواز آئی۔ میں جلدی سے لحاف میں منہ ڈال کر سو گئی۔

صبح میرے ذہن میں رات کے خوفناک نظارے کا خیال بھی نہ رہا۔ میں ہمیشہ کی وہمی ہوں۔ رات کو ڈرنا۔ اٹھ اٹھ کر بھاگنا اور بڑبڑانا تو بچپن میں روز ہی ہوتا تھا۔ سب تو کہتے تھے کہ مجھ پر بھوتوں کا سایہ ہو گیا ہے۔ لہٰذا مجھے خیال بھی نہ رہا۔ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آ رہا تھا مگر دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپڑ کھٹ پر ہی طے ہو رہا تھا اور مجھے خاک سمجھ نہ آیا۔ اور کیا فیصلہ ہوا، ربو ہچکیاں لے کر روئی پھر بلی کی طرح چڑ چڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔ اونہہ میں گھبرا کر سو گئی۔۔

ان رشتہ داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا کہ سب کے سب مزے سے مال اڑانے، عمدہ گھی نگلنے، جاڑوں کا ساز و سامان بنوانے آن مرتے اور باوجود نئی روئی کے لحاف کے بڑی سردی میں اکڑا کرتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بنا کر دیوار پر سایہ ڈالتا۔ مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہو۔ مگر کیوں جئے پھر کوئی، زندگی! جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں، وہ پھر جینے لگیں اور خوب جئیں!

ربو نے انہیں نیچے گرتے گرتے سنبھال لیا۔ چپ پٹ دیکھتے دیکھتے ان کا سوکھا جسم ہرا ہونا شروع ہوا۔ گال چمک اٹھے اور حسن پھوٹ نکلا۔ ایک عجیب و غریب تیل کی مالش سے بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی۔ معاف کیجئے، اس تیل کا نسخہ آپ کو بہترین سے بہترین رسالہ میں بھی نہ ملے گا۔

جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ اُفوہ کس شان سے وہ مسند پر نیم دراز تھیں اور ربو ان کی پیٹھ سے لگی کمر دبا رہی تھی۔ ایک اودے رنگ کا دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا اور وہ مہارانوں کی طرح شاندار معلوم ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی صورت دیکھا کروں۔ ان کی رنگت بالکل سفید تھی۔ نام کو سرخی کا ذکر نہیں اور بال سیاہ اور تیل میں ڈوبے رہتے تھے۔ میں نے آج تک ان کی مانگ ہی بگڑی نہ دیکھی۔ مجال ہے جو ایک بال ادھر ادھر ہو جائے۔ ان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابرو پر کے زائد بال علیحدہ کر دینے سے کمانیں سے کھچی رہتی تھیں۔ آنکھیں ذرا تنی ہوئی رہتی تھیں۔ بھاری بھاری پھولے پپوٹے موٹی موٹی آنکھیں۔ سب سے جو ان کے چہرے پر حیرت انگیز جاذبیت نظر چیز تھی، وہ ان کے ہونٹ تھے۔ عموماً وہ سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ اوپر کے ہونٹوں پر ہلکی ہلکی مونچھیں سی تھیں اور کنپٹیوں پر لمبے لمبے بال کبھی کبھی ان کا چہرہ دیکھتے دیکھتے عجیب سا لگنے لگتا تھا۔ کم عمر لڑکوں جیسا!

ان کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی۔ معلوم ہوتا تھا، کسی نے کس کر ٹانکے لگا دئے ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجانے کے لئے کھولتیں، تو میں چپکے چپکے ان کی چمک دیکھا کرتی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا اور پھر گوشت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں لیکن بہت متناسب اور ڈھیلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر، تو ربو ان کی پیٹھ کھجایا کرتی تھی۔ یعنی گھنٹوں ان کی پیٹھ کھجاتی۔ پیٹھ کھجوانا بھی زندگی کی ضروریات میں سے تھا بلکہ شاید ضرورت زندگی سے بھی زیادہ۔

ربو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا بس وہ سارے وقت ان کے چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سر اور کبھی جسم کے دوسرے حصے کو دبایا کرتی تھی۔ کبھی تو میرا دل ہول اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ نہ کچھ دبا رہی ہے، یا مالش کر رہی ہے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں اپنا کہتی ہوں، کوئی اتنا چھوئے بھی تو میرا جسم سڑ گل کے ختم ہو جائے۔

اور پھر یہ روز روز کی مالش کافی نہیں تھی۔ جس روز بیگم جان نہاتیں۔ یا اللہ بس دو گھنٹہ پہلے سے تیل اور خوشبودار ابٹنوں کی مالش شروع ہو جاتی اور اتنی ہوتی کہ میرا تو تخیل سے ہی دل ٹوٹ جاتا۔ کمرے کے دروازے بند کر کے انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا مالش کا دور اور عموماً صرف ربو ہی رہتی۔ باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی دروازہ پر سے ہی ضرورت کی چیزیں دیتی جاتیں۔

بات یہ بھی تھی کہ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ بے چاری کو ایسی کھجلی ہوتی تھی اور ہزاروں تیل اور ابٹن ملے جاتے تھے مگر کھجلی تھی کہ قائم۔ ڈاکٹر حکیم کہتے کچھ بھی نہیں۔ جسم صاف چٹ پڑا ہے۔ ہاں کوئی جلد اندر بیماری ہو تو خیر۔ نہیں بھئی یہ ڈاکٹر تو موئے ہیں پاگل۔ کوئی آپ کے دشمنوں کو مرض ہے۔ اللہ رکھے خون میں گرمی ہے۔ ربو مسکرا کر کہتی اور مہین مہین نظروں سے بیگم جان کو گھورتی۔ اوہ یہ ربوجتنی یہ بیگم جان گوری، اتنی ہی یہ کالی تھی۔ جتنی یہ بیگم جان سفید تھیں، اتنی ہی یہ سرخ۔ بس جیسے تپا ہوا لوہا۔ ہلکے ہلکے چیچک کے داغ۔ گٹھا ہوا ٹھوس جسم۔ پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوئے ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوئے، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجئے پھسل کر گئے کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔

آج ربو اپنے بیٹے سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ وہ بڑا جھگڑالو تھا۔ بہت کچھ بیگم جان نے کیا۔ اسے دکان کرائی،گاؤں میں لگایا مگر وہ کسی طرح مانتا ہی نہ تھا۔ نواب صاحب کے یہاں کچھ دن رہا۔ خوب جوڑے بھاگے بھی بنے۔ نہ جانے کیوں ایسا بھاگا کہ ربو سے ملنے بھی نہ آتا تھا۔ لہٰذا ربو ہی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں اس سے ملنے گئی تھی۔ بیگم جان نہ جانے دیتی مگر ربو بھی مجبور ہو گئی۔ سارا دان بیگم جان پریشان رہیں۔ اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انہیں نہ بھاتا تھا۔ انہوں نے کھانا بھی نہ کھایا اور سارا دن اداس پڑی رہیں۔

“میں کھجا دوں سچ کہتی ہوں۔” میں نے بڑے شوق سے تاش کے پتے بانٹتے ہوئے کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔

میں تھوڑی دیر کھجاتی رہی اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربو کو آنا تھا مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔ چائے پی پی کر انہوں نے سر میں درد کر لیا۔

میں پھر کھجانے لگی، ان کی پیٹھچکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ۔ میں ہولے ہولے کھجاتی رہی۔ ان کا کام کر کے کیسی خوش ہوتی تھی۔

“ذرا زور سے کھجاؤبند کھول دو” بیگم جان بولیں۔

ادھراے ہے ذرا شانے سے۔ نیچےہاںوہاں بھئی واہہاہاوہ سرور میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان کا اظہار کرنے لگیں۔

“اور ادھرحالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خوب جا سکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیں اور مجھے الٹا فخر ہو رہا تھا” یہاں اوئیتم تو گدگدی کرتی ہوواہ” وہ ہنسیں۔ میں باتیں بھی کر رہی تھی اور کھجا بھی رہی تھی۔

تمہیں کل بازار بھیجوں گیکیا لوگیوہی سوتی جاگتی گڑیا۔

نہیں بیگم جانمیں تو گڑیا نہیں لیتیکیا بچہ ہوں اب میں”

بچہ نہیں تو کیا بوڑھی ہو گئیوہ ہنسیںگڑیا نہیں تو ببوا لیناکپڑے پہنانا خود۔ میں دوں گی تمہیں بہت سے کپڑے سنا” انہوں نے کروٹ لی۔

“اچھا” میں نے جواب دیا۔

“ادھر۔” انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر جہاں کجھلی ہو رہی تھی، رکھ دیا۔ جہاں انہیں کھجلی معلوم ہوتی وہاں رکھ دیتی اور میں بے خیالی میں ببوے کے دھیان میں ڈوبی مشین کی طرح کھجاتی رہی اور وہ متواتر باتیں کرتی رہیں۔

“سنو توتمہاری فراکیں کم ہو گئی ہیں۔ کل درزی کو دے دوں گی کہ نئی سی لائے۔ تمہاری اماں کپڑے دے گئی ہیں۔”

“وہ لال کپڑے کی نہیں بنواؤں گیچماروں جیسی ہے۔” میں بکواس کر رہی تھی اور میرا ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم بھی نہ ہوا۔ بیگم جان تو چت لیٹی تھیںارےمیں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔

“اوئی لڑکیدیکھ کر نہیں کھجاتیمیری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔” بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔

ادھر آ کر میرے پاس لیٹ جا” انہوں نے مجھے بازو پر سر رکھ کر لٹا لیا۔

اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے۔ پسلیاں نکل رہی ہیں۔ انہوں نے پسلیاں گننا شروع کر دیں۔

“اوں” میں منمنائی۔

“اوئیتو کیا میں کھا جاؤں گیکیسا تنگ سویٹر بُنا ہے!” گرم بنیان بھی نہیں پہنا تم نےمیں کلبلانے لگی۔ “کتنی پسلیاں ہوتی ہیں” انہوں نے بات بدلی۔

“ایک طرف نو اور ایک طرف دس” میں نے اسکول میں یاد کی ہوئی ہائی جین کی مدد لی۔ وہ بھی اوٹ پٹانگ۔

“ہٹا لو ہاتھہاں ایکدوتین”

میرا دل چاہا کس طرح بھاگوںاور انہوں نے زور سے بھینچا۔

“اوں” میں مچل گئیبیگم جان زور زور سے ہنسنے لگیں۔ اب بھی جب کبھی میں ان کا اس وقت کا چہرہ یاد کرتی ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے اور وزنی ہو گئے۔ اوپر کے ہونٹ پر سیاہی گھری ہوئی تھی۔ باوجود سردی کے پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ہونٹوں پر اور ناک پر چمک رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ یخ ٹھنڈے تھے۔ مگر نرم جیسے ان پر کھال اتر گئی ہو۔ انہوں نے شال اتار دی اور کارگے کے مہین کرتے میں ان کا جسم آٹے کی لونی کی طرح چمک رہا تھا۔ بھاری جڑاؤ سونے کے گرین بٹن گربیان کی ایک طرف جھول رہے تھے۔ شام ہو گئی تھی اور کمرے میں اندھیرا گھٹ رہا تھا۔ مجھے ایک نا معلوم ڈر سے وحشت سی ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی دل میں۔ وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل ہولانے لگا مگر ان پر تو جیسے بھتنا سوار تھا اور میرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جائے اور نہ رہ سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہو کر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہو گیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں یہ اور وہاں سے اٹھ کر سرپٹ بھاگی باہر۔

شکر ہے کہ ربو رات کو آ گئی اور میں ڈری ہوئی جلدی سے لحاف اوڑھ کر سو گئی مگر نیند کہاں۔ چپ گھنٹوں پڑی رہی۔

اماں کسی طرح آہی نہیں چکی تھیں۔ بیگم جان سے مجھے ایسا ڈر لگتا تھا کہ میں سار ا دن ماماؤں کے پاس بیٹھی رہی مگر ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہی دم نکلتا تھا اور کہتی کس سے اور کہتی ہی کیا کہ بیگم جان سے ڈر لگتا ہے۔ بیگم جان جو میرے اوپر جان چھڑکتی تھیں۔

آج ربو میں اور بیگم جان میں پھر ان بن ہو گئیمیری قسمت کی خرابی کہیے یا کچھ اور مجھے ان دونوں کی ان بن سے ڈر لگا۔ کیونکہ رات ہی بیگم جان کو خیال آیا کہ میں باہر سردی میں گھوم رہی ہوں اور مروں گی نمونیے میں۔

“لڑکی کیا میرا سر منڈوائے گی۔ جو کچھ ہوا ہو گیا، تو اور آفت آئے گی۔”

انہوں نے نے مجھے پاس بٹھا لیا۔ وہ خود منہ ہاتھ سلفچی میں دھو رہی تھیں، چائے تپائی پر رکھی تھی۔

“چائے تو بناؤایک پیالی مجھے بھی دیناوہ تولیے سے منہ خشک کر کے بولیں ذرا کپڑے بدل لوں۔”

وہ کپڑے بدلتی رہیں اور میں چائے پیتی رہی۔ بیگم جان نائن سے پیٹھ ملواتے وقت اگر مجھے کسی کام سے بلواتیں، تو میں گردن موڑے جاتی اور واپس بھاگ آتی۔ اب جو انہوں نے کپڑے بدلے، تو میرا دل الٹنے لگا۔ منہ موڑے میں چائے پیتی رہی۔

“ہائے اماںمیرے دل نے بے کسی سے پکاراآخر ایسا بھائیوں سے کیا لڑتی ہوں جو تم میری مصیبتاماں کو ہمیشہ سے میرا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا ناپسند ہے۔ کہو بھلا لڑکے کیا شیر چیتے ہیں جو نگل جائیں گے ان کی لاڈلی کو؛ اور لڑکے بھی کون؟ خود بھائی اور دو چار سڑے سڑائے۔ ان ذرا ذرا سے ان کے دوست مگر نہیں، وہ تو عورت ذات کو سات سالوں میں رکھنے کی قائل اور یہاں بیگم جان کی وہ دہشت کہ دنیا بھر کے غنڈوں سے نہیں۔ بس چلتا، سو اس وقت سڑک پر بھاگ جاتی، پھر وہاں نہ ٹکتی مگر لاچار تھی۔ مجبور کلیجہ پر پتھر رکھے بیٹھی رہی۔”

کپڑے بدل کر سولہ سنگھار ہوئے اور گرم گرم خوشبوؤں کے عطر نے اور بھی انہیں انگارا بنا دیا اور وہ چلیں مجھ پر لاڈ اتارنے۔

“گھر جاؤں گی” میں نے ان کی ہر رائے کے جواب میں کہا اور رونے لگی۔ “میرے پاس تو آؤمیں تمہیں بازار لے چلوں گیسنو تو۔”

مگر میں کلی کی طرح پھسل گئی۔ سارے کھلونے، مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جانے کی رٹ ایک طرف۔

“وہاں بھیا ماریں گے چڑیل” انہوں نے پیار سے مجھے تھپڑ لگایا۔

“پڑیں ماریں بھیامیں نے سوچا اور روٹھی اکڑتی رہی۔ “کچی امیاں کھٹی ہوتی ہیں بیگم جان” جلی کٹی ربو نے رائے دی اور پھر اس کے بعد بیگم جان کو دورہ پڑ گیا۔ سونے کا ہار جو وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے پہنا رہی تھیں، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ مہین جالی کا دوپٹہ تار تار اور وہ مانگ جو میں نے کبھی بگڑی نہ دیکھی تھی، جھاڑ جھنکاڑ ہو گئی۔

“اوہ اوہ اوہ اوہ” وہ جھٹکی لے لے کر چلانے لگیں۔ میں رپٹی باہر۔

بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔ جب میں سونے کے لئے کمرے میں دبے پیر جا کر جھانکی، تو ربو ان کی کمر سے لگی جسم دبا رہی تھی۔

“جوتی اتار دواس نے اس کی پسلیاں کھجاتے ہوئے کہا اور میں چوہیا کی طرح لحاف میں دبک گئی۔”

سر سر پھٹ کجبیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔

“اللہ آں” میں نے مری ہوئی آواز نکالی۔ لحاف میں ہاتھی چھلکا اور بیٹھ گیا۔ میں بھی چپ ہو گئی۔ ہاتھی نے پھر لوٹ مچائی۔ میرا رواں رواں کانپا۔ آج میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ضرور ہمت کر کے سرہانے لگا ہوا بلب جلا دوں۔ ہاتھ پھڑپھڑا رہا تھا اور جیسے اکڑوں بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آواز آ رہی تھیں۔ جیسے کوئی مزے دار چٹنی چکھ رہا ہو۔ اب میں سمجھی! یہ بیگم جان نے آج کچھ نہیں کھایا اور ربو مردی تو ہے سدا کی چٹو۔ ضرور یہ تر مال اڑا رہی ہے۔ میں نے نتھنے پھلا کر سوں سوں ہوا کو سونگھا۔ سوائے عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوا۔

لحاف پھر امنڈنا شروع ہو ا۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ چپکی پڑی رہوں۔ مگر اس لحاف نے تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانی شروع کیں کہ میں ڈر گئی۔ معلوم ہوتا تھا غوں غوں کر کے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے اور اب اچھل کر میرے اوپر آیا۔

آناماںمیں ہمت کر کے گنگنائی۔ مگر وہاں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور لحاف میرے دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلنگ کے دوسری طرف پیر اتارے اور ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا۔ ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلابازی لگائی اور پچک گیا۔ قلابازی لگانے میں لحاف کا کونہ فٹ بھر اٹھا۔

اللہ! میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں۔


 

افسانہ لحاف کا تجزیہ

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

لحاف کے متن میں عصمت چغتائی خود ہی سوال اٹھاتی ہیں:
’’ نہ جانے بیگم جان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کرچکی تھیں یا وہاں سے جب وہ نواب کی بیگم بن کر آئی تھیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا؟ ان کے لیے مرغن حلوے اور لذیذ کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کی دیواروں میں سے لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور عطر میں ڈوبے باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔‘‘
(لحاف۔ از: عصمت چغتائی۔ ص: ۲۱۔ ساقی بک ڈپو۔ نئی دہلی)
محولہ بالا سوالات کے جواب تلاش کرتے ہوئے عصمت چغتائی نے یہ افسانہ تخلیق کیا ہے۔ اس افسانے میں پہلی بارعورتوں کے نفسیاتی جذبات پر ایک عورت ہی نے تخلیقی نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری کے ابتدائی دور میں اس قسم کے باغیانہ تیور معاشرے کے مروجہ اخلاقیات سے بغاوت کرنے کے مترادف تھا۔عصمت نے اس افسانے میں عورت اور عورت کی نفسیات کو سمجھنے کی جرأت مندانہ کوشش کی ہے۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو افسانہ لحاف اردو میں بولڈ اور بے جھجھک انداز میں عورتوں کے مسائل پر گفتگو کے حوالے سے ایک رجحان ساز افسانہ سمجھا جاسکتا ہے۔
لحاف کے کئی شیڈس ہیں ان میں سب سے اچھوتا وہ شیڈ ہے جو افسانے کے ساتویں پیراگراف میں بنتا ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے:
’’ بیگم جان باوجود نئی روئی کے لحاف کے سردی میں اکڑا جاتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بناکر دیوار پر سایہ ڈالتا مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہو۔ مگر کیوں جیے پھر کوئی ؟ زندگی۔ بیگم جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں۔‘‘
(لحاف۔ از: عصمت چغتائی۔ ص: ۲۳۔ ساقی بک ڈپو۔ نئی دہلی)
زندہ رہنے کے لیے بیگم جان نے کون سی راہ اختیار کی ؟ اور وہ اس راہ پر کیوں گامزن ہوئیں؟ اس طرح کے سوالات پیدا کرتا ہوا افسانہ آگے بڑھتا ہے۔
اس افسانے میں کل چار کردار ہیں۔ بیگم جان ، نواب صاحب ، ربّو اور راوی۔ سب سے پہلے یہ غور کیا جائے کہ یہ افسانہ اتنا مشہور یا بدنام کیوں ہوا؟یہاں تک کہ عصمت چغتائی کو عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ ’لحاف‘ کے اندر کیا ہے؟ جنسی تلذذ یا اشتہا انگیزی ؟ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
٭ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آرہا تھا مگر دوسری رات آنکھ کھلی تو ربّو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپر کھٹ پر ہی طے ہورہا تھا۔ ربّو ہچکیاں لے کر روئی۔ پھر بلّی کی طرح سپر سپر رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔ اونھ ، میں تو گھبرا کر سوگئی۔
٭ یہ ننھے ننھے پھولے ہوئے ہاتھ کس قدر پھر تیلے تھے۔ ابھی کمر پر تو وہ لیجئے پھسل گئے کولہے پر ، وہاں سے رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی ریکھتی کہ اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں؟
٭سارا دن بیگم پریشان رہیں۔ ان کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انھیں نہ بھاتا تھا۔
٭ میں کھجا دوں بیگم جان ۔ میں نے بڑے شوق سے کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔
٭ ذرا زور سے کھجائو۔ بند کھول دو۔ اِدھر ۔ اے ہے ذرا شانے کے نیچے۔ ہاں واہ بھئی واہ ۔ ہا۔۔۔ ہا۔
٭ وہ سرور میں ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان ظاہر کرنے لگیں۔ حالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خود جاسکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیں اور مجھے الٹا فخر ہورہا تھا۔ یہاں اوئی ۔ تم تو گدگدی کرتی ہو۔ واہ۔
٭ اور ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم نہیں ہوا۔ بیگم جان تو چت لیٹی تھیں اور میں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
٭ ائی لڑکی دیکھ کر نہیں کھجاتی۔ میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔ بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔
٭اِدھر آکر میرے پاس لیٹ جا۔ تو کیا میں تمہیں کھا جائوں گی۔ کیسا تنگ سوئیٹر بنا ہے۔
٭ کتنی پسلیاں ہوتی ہیں۔ ہٹائو تو ہاتھ۔ ایک ،دو ، تین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ مجھے ایک نامعلوم ڈر سے دہشت ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی۔ دل میں، وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل بولانے لگا۔ مگر ان پر تو جیسے کوئی بھتنا سوار تھا۔ میرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جائے اور نہ رو سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہوکر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہوگیا۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔
محولہ بالا جملوں میں پوشیدہ مناظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج سے تقریباً اسّی برس قبل افسانے میں اس طرح کی جنسی تلذذ سے بھرپور باتیں رقم کرنا واقعی جرأت رندانہ قسم کا واقعہ ہوسکتا ہے۔ شاید اسی لیے مقدمہ بھی کیا گیا تھا۔
افسانے کا زمانہ راوی کے لڑکپن کا ہے۔ ابھی جوانی کی دہلیز دور ہے۔ پھر بھی راوی کا بیگم جان کی جانب اس طرح کا جھکائو معنی خیز ہے۔ بیگم جان کی شکل پسند آنا، انھیں قریب سے گھنٹوں دیکھنے کی خواہش رکھنا اور اس قدر باریک بینی سے مشاہدہ کرنا کہ اوپر کے ہونٹوں پر ہلکے ہلکے مونچھوں جیسے بال نظر آجائیں۔ ان کے بدن کی رنگت ، ان کی پنڈلیاں نہارنا یہ سارے نکات حیرت و استعجاب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
اس افسانے کی راوی بذاتِ خود عصمت چغتائی ہیں۔ افسانہ زمانۂ ماضی میں بیتے ہوئے واقعات پر مبنی ہے جو کہ راوی کے تحت الشعور میں بیتی ہوئی یادوں کے اژدہام کا ایک حصہ ہے۔ یہ یادیں جاڑوں کی رُت میں لحاف اوڑھتے ہوئے ذہن کی رَو سے ہوتا ہوا صفحۂ قرطاس پر منعکس ہوا ہے۔
افسانے کا دورانیہ طول طویل نہیں ہے بلکہ راوی کی والدہ کا اسے بیگم جان کے یہاں چھوڑنے اور وہاں بتائے ہوئے چند دنوں پر مبنی ہے۔ راوی چونکہ اپنے بھائیوں اور بھائیوں کے دوستوں سے بلا خوف و تردد لڑنے جھگڑنے میں مصروف رہتی ہے یعنی ہم عمر اور خود سے بڑے لڑکوں کا اسے خوف نہیں ہے۔ مگر افسانے میں تین چار مناظر میں بیگم جان کے یہاں راوی کا خوف زدہ ہونا غیر فطری نظر آتا۔
عصمت چغتائی کا یہ افسانہ اردو ادب کے ایسے چنندہ افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں حقیقت اپنی پوری کڑواہٹ کے ساتھ عود آئی ہے۔ ایسے افسانے نہ صرف سماج کے بے حس رویے کی کھال اتار لیتے ہیں بلکہ اشراف کی حویلیوں کے دروازوں پر لٹکے دبیز پردوں کو چاک کرکے سماج کے صحیح خد و خال قارئین کے روبرو پیش کرتے ہیں ۔ عصمت چغتائی کا سماجی شعوربالیدہ تھااور وہ اصلی اور نقلی کرداروں میں تفریق کرسکتی تھیں۔ کون سا کردار نقاب اپنے چہرے پر ڈالے ہوئے ہے اور کون بدنصیب اسی سماج کا حصہ ہوکر اپنے زخموں کے اوپر پٹیاں لپیٹے ہوئے ہے۔ اس افسانے میں بھی بیگم جان اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ربّو کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ نواب صاحب کی توجہ کا مرکز نہ بنیں، ان کے ساتھ ظلم ہوا یا زیادتی ہوئی۔ وہ اپنی ہی آگ میں سلگتی رہیں مگر ربّو کے ساتھ جو جبر ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ربّو کا اپنا بیٹا باغی و نافرمان بن گیا ہے۔ اس کا باغی بن جانا سڑاند بھرے معاشرے کے خلاف بغاوت کی عکاسی کرتا ہے۔بدصورت ربّو کا ظلم کی چکّی میں پستے رہنا، بیگم جان کا ہر حکم ماننا، اس کی معاشی بدحالی اور غربت کو پیش کرتا ہے۔ ربّو کا لحاف کے اندر رونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس قدر مجبور ہے کہ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتی۔
بیگم جان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ ابتدا میں کیا گیایہی سوال اس افسانے کو تکمیلیت عطا کرتا ہے۔ نواب صاحب کا بیگم جان سے شادی کرکے انھیں کل ساز و سامان کے ساتھ گھر میں رکھ کر بھول جانا اور بیگم جان کے جذبات ، احساسات ، خیالات اور جسمانی خواہشات سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہی بیگم جان کو نفسیاتی مریضہ بننے کی وجہ ہے۔ نواب صاحب کا لچکیلی کمر والے لڑکوں کی جانب راغب ہونا بھی بیگم جان کو منتوں ، مرادوں کی راہ دکھاتا ہے:
’’ میں ڈالو ایسا کپڑا لتّا۔ کپڑا پہنا جاتا ہے کسی پر رعب گانٹھنے کے لیے۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کہ شبنمی کرتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر دھیان کریں اور نہ ہی انھیں کہیں آنے جانے دیں۔‘‘
(لحاف۔ از: عصمت چغتائی۔ ص: ۲۳۔ ساقی بک ڈپو۔ نئی دہلی)
عصمت چغتائی نے پہلے تو نواب صاحب کو نہایت نیک اور شریف بنا کر پیش کیا ۔ پھر ان کی بشری کمزوریوں کو اجاگر کرکے منفی کردار میں تبدیل کردیا۔ ابتدا میں تو قاری کی ہمدردی بیگم جان سے وابستہ ہوتی ہے مگر جوں جوں افسانہ آگے بڑھتا ہے بیگم جان ہمدردی کا استحقاق کھوتی جاتی ہیں۔
عصمت چغتائی نے ان عورتوں کے بارے میں خوب لکھا جن کی ساری زندگی آنگنوں اور دالانوں میں گزر جاتی ہے۔ چھوئی موئی، سونے کا انڈا، چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں، جڑیں وغیرہ وہ افسانے ہیں جن میں بطورِ خاص خواتین کرداروں کے دکھ سکھ ، الجھنیں اور پریشانیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ البتہ لحاف کے بارے میں عصمت بذاتِ خود رقم طراز ہیں:
’’ منٹو گھوم پھر کر ’لحاف‘ کے بخیے ادھیڑنے لگتا۔ جو ان دنوں میری دکھتی رگ بنا ہوا تھا۔ میں نے بہت ٹالنا چاہامگر وہ ڈھٹائی سے اڑا رہا اور اس کا ایک ایک تار گھسیٹ ڈالا۔ اسے بڑا دھکا لگا یہ سن کر کہ مجھے ’لحاف‘ لکھنے پر افسوس ہے۔ یہ سن کر منٹو نے مجھے خوب جلی کٹی سناڈالی اور مجھے نہایت بزدل اور کم نظر کہہ ڈالا۔ میں ’لحاف‘ کو اپنا شاہکار ماننے کو تیار نہیں تھی اور منٹو مصر تھا۔‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: اوپیندر ناتھ اشک۔ ص: ۲۴۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء)
جنسی ربط کے ممکنہ سارے کے سارے پہلو عصمت کے افسانوں میں موجود ہیں۔ ’لحاف‘ میں نواب صاحب کا کردار اور بیگم جان کا کردار اس کا بیّن ثبوت ہیں۔اس افسانے میں ایک مخصوص طبقے کے مردوں کی بداعمالیاں بڑی بھیانک صورت میں نظر آتی ہیں۔ اسی طرح اس طبقے کی عورت کو ہم بہکتے ہوئے اگر دیکھنا چاہیں تو ’لحاف‘ میں وہ نظر آئے گی۔ دولت و ثروت کی فراوانی سے جوخلافِ وضع عادتیں مرد وعورت میں سرایت کرجاتی ہیں اس کا بہترین عکس لحاف میں موجود ہے۔
افسانوں کے عنوان قائم کرنے کے معاملے میں عصمت چغتائی نے ہمیشہ اپنی ذہانت و فتانت کو بروے کار لایا ہے۔ اس افسانے کا عنوان اگر ’لحاف‘ نہ ہوتا تو شاید یہ اتنا موضوعِ بحث نہ بنتا۔ عصمت نے اپنے معاشرے کی ناہمواریوں اور اس معاشرے کے پروردہ لوگوں کی گہرائیوں پر نظر رکھ کر افسانے بنے ہیں اور انھیں میں رجحان ساز اور لا زوال افسانہ ’لحاف ‘بھی شامل ہے۔