Khuda Hafiz Zubair Saheb

Articles

زبیرصاحب ، خدا حافظ

ڈاکٹر قمر صدیقی

 

 

زبیر رضوی جیسی متنوع شخصیت ذرا کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جدید شعرا کی جھرمٹ کا روشن ترین ستارہ، ہندوستانی ڈراما کا ایک مستند نقاد اور محقق، اردو کی ادبی صحافت کا ایک رجحان ساز مدیر، فائن آرٹ کا مبصر اور اسپورٹس کامینٹیٹروغیرہ وغیرہ گویا ان کی شخصیت رنگوں کا ایک کولاژ تھی کہ جس کا ہر رنگ اپنی جگہ مجلا اور مکمل تھا۔ میر کے لفظوں میں کہیں تو :ــ’’پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ‘‘ زبیر صاحب کی طبیعت کا یہ تنوع جب ایک نکتے پر مرکوز ہوتا تو ’’ذہنِ جدید‘‘بن جاتا تھا۔ اس رسالے کا ہر شمارہ اُن کی ہمہ جہتی کا تعارف بن کر ابھرتا ۔ اداریہ کی بے باکی سے لے کر فلم ، موسیقی، ڈراما، پینٹنگ کی تجزیاتی رپورٹنگ تک ہر ہر صفحے پر ان کے باریک بیں مزاج کا نقش صاف جھلکتا ۔ادبی صحافت میں ہم بلا تکلف نیاز فتح پوری، محمد طفیل ، محمود ایاز ،شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کے ساتھ ان کا نام لے سکتے ہیں۔ذہنِ جدید کا ہرشمارہ خاص ہوتا تھا۔ خاص اس لیے کہ اس میں ادب کے معاصر رویے اور رجحانات کے علاوہ لگ بھگ سو صفحات عالمی ادب ، تھیٹر، مصوری، سنگیت، فلم ، کارٹون اور فوٹو گرافی وغیرہ کے لیے مخصوص ہوتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان موضوعات پر بیشتر بلکہ کبھی کبھی تمام تحریریں زبیر صاحب کے زورخیز قلم کا نتیجہ ہوتی تھیں۔ خیر عالمی ادب کے نمائندہ تخلیق کاروں کا تعارف و تبصرہ کچھ ایسا مشکل کام نہیں تاہم موسیقی ، مصوری، فلم ،کارٹون اور فوٹو گرافی پر تواتر سے لکھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ زبیر صاحب کی فنونِ لطیفہ سے والہانہ دلچسپی ہی تھی جو ان سے اس نوع کا مشکل کام کروا لیا کرتی تھی۔
بطور شاعرزبیر رضوی نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ وہ ان چند ایک جدید شعرا میں تھے جن کی مقبولیت علمی اور ادبی حلقے کے علاوہ عوامی مشاعروں میں بھی خوب تھی۔ ’ یہ ہے میرا ہندوستان‘ جیسی مقبول نظم کے خالق زبیر رضوی کی جب ’پرانی بات ہے‘ سیریز کی نظمیں شائع ہوئیں تو ان نظموں کو جدید شاعری میں ایک اضافہ تسلیم کیا گیا۔یہ نظمیں اپنے داستانوی اسلوب اور ہند+اسلامی تہذیب کے پس منظر کی وجہ سے خاصی مقبول بھی ہوئیں۔نظموں کی زبان غیر آرائشی ہے اور ان نظموں کی ایک خاصیت پیکر تراشی بھی ہے۔ پیکر تراشی کا عمل نظموں کے آغاز سے ہی جاری ہوجاتا ہے اور اختتام تک پہنچے پہنچتے بعض پیکر علامت اور بعض استعاروں میں ڈھل جاتے ہیں۔ لہٰذا جب نظم ختم ہوتی ہے تو قاری ایک مانوس دنیا میں رہتے ہوئے بھی حیرت انگیز احساس سے دوچار ہوتا ہے۔ ’پرانی بات ہے‘سیریز کی نظموں کے تعلق سے خود زبیر رضوی نے ایک بار کہا تھا کہ :’’میں شاعری کو ایک ایسا جھوٹ سمجھتا ہوں جس کے توسط سے سچ کو پایا جاتا ہے۔ میں نے ایسا کرتے ہوئے اس سارے سچ کو بھی اپنا ورثہ سمجھا جو مجھ سے پہلے کی گئی شاعری میں دمکتا چمکتا رہا تھا۔ میرے نزدیک اس کرۂ ارض پر انسان کا وجود سب سے بڑا عجوبہ اور کرشمہ ہے اس لیے میرا تعلق انسان کی جہاں بانی اور جہاں سازی اس کی آفاقیت اور بے پناہی ، اس کی سرشت اور رشتوں کی پیچیدگی کے عمل سے بڑا گہرا ہے۔ میں امروہے جیسے ایک قصبے سے سفر کرتا ہوا نوابی شہر حیدر آباد تک پہنچا تھا اور پھر دلّی میرے قیام کا آخری پڑاؤ بن گئی اور یوں شہر اور مدنیت کے تضاد، ٹکراؤ، انسان کا مشینی عمل اس کی مادیت پرستی اور زندگی کی آسائشوں کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کو استعمال کرنے کی قوت کو میری تخلیقی فکر میں ایک بیکرانی ملی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ مجھ میں وہ قدیم بھی کنڈلی مار کے بیٹھا رہا تھا جس کی جڑیں ہزاروں برسوں کی تاریخ و تہذیب میں پیوست تھیں۔ میرا یہ قدیم، ظلمت پسند نہیں تھا اس میں انسان کے لیے ایسی ہی برکتیں ، نعمتیں تھیں جو خود انسان نے اپنی گمراہیوں سے گنوا دیں۔ یہ تاریخی اور تہذیبی ملال میری نظموں کے سلسلے ’ پرانی بات ہے ‘ میں ایک حکائی شعری لہجہ بن کر ابھرا ہے ، مدنیت کے سلسلے میں میرے رویے کی بڑی واضح مثالیں میرے چوتھے شعری مجموعے ’دھوپ کا سائبان ‘ میں شامل ہیں۔ یہ میری آہنگ سے آزاد نظموں کا مجموعہ ہے اور اس وقت یہ ساری نظمیں کاغذ پر منتقل ہوتی چلی گئی تھیں جب ’ پرانی بات ہے ‘ جیسی پابند نظمیں لکھنے کے بعد مجھے لگا تھا کہ اب جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ آہنگ سے ماورا اپنا تخلیقی اظہار چاہتا ہے۔ اس لیے ان نظموں کی ہیئت میرے ارادے سے کہیں زیادہ اپنے شعری اظہار کا تقاضا تھا۔ ‘‘
زبیر رضوی کی غزلوں میں ایک نوع کی تحیر خیزی نظر آتی ہے۔ بالکل سامنے کی باتوں کو غزل کا موضوع بنانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ جدید شعرا میں یہ وصف محمد علوی کا اختصاص ہے تاہم علوی کے شعروں میں موضوع کو برتتے ہوئے ایک طرح کی بذلہ سنجی (wit) نظر آتی ہے جبکہ زبیر صاحب کے یہاں witکے بجائے باوقار سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
کوئی ٹوٹا ہوا رشتہ نہ دامن سے الجھ جائے
تمہارے ساتھ پہلی بار بازاروں میں نکلا ہوں
پہلے مصرعے میں راشتہ اور دامن ، پھر الجھنے اور ٹوٹنے کی اور دوسرے مصرعے میں نکلنے اور بازار کی مناسبتوں کے لطف سے قطع نظر ایک کہنہ مضمون میں واقعہ نگاری کے اسلوب نے گویا جان ڈل دی ہے۔ یہ زبیر رضوی کا خاص رنگ ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
تمام راستہ پھولوں بھرا تمہارا تھا
ہماری راہ میں بس نقش پا ہمارا تھا
پھر اس کے بعد نگاہوں نے کچھ نہیں دیکھا
نہ جانے کون تھا جو سامنے سے گزرا تھا
میں اس محفل کی روشن ساعتوں کو چھوڑ کر گم ہوں
اب اتنی رات کو دروازہ اپنا کون کھولے گا
ادھر کھلی کوئی کھڑکی نہ کو ئی دروازہ
جہاں سے آگ کا منظر دکھائی دیتا ہے
فلابئیر نے کہا تھا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے ، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘ تخلیقی آزادی کی اساس یہی ہے کہ تخلیق کار شہرت و دولت کوموخر جانے اور سرشاری و حسن آفرینی کو مقدم۔ زبیر صاحب نے ہمیشہ تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دی اور ادب میں تنقید کی بالادستی ختم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ ظاہر ہے بغیر کسی جذباتی رشوت، سمجھوتے اور لالچ کے انھوں نے نہ صرف اپنا ادبی سفر جاری رکھا بلکہ کامیاب بھی ہوئے۔
آج زبیر رضوی کاہمارے در میان سے جانا اردو شاعری کے علاوہ اردو کی مجلاتی صحافت کا ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ یہ سوچ کر ہی دل سی پارہ ہورہا ہے کہ بڑی زبان کا زندہ رسالہ ’’ذہنِ جدید‘‘ اب پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ خیر زبیر صاحب ، خدا حافظ۔

—————————————————————-