Kalam E Iqbal Mein Aurat aur Maan by M. Aslam Ghazi

Articles

کلام اقبال میں عورت اور ماں

محمد اسلم غازی

علامہ اقبال دنیا کے نابغۂ روزگار شاعر ہیں جن کا کلام شعری جمالیات کا اعلیٰ ترین مرقع ہونے کے علاوہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کی آواز بھی ہے۔ ان کے کلام نے بین الاقوامی سطح پر ایک مردہ قوم کے لیے صور اسرافیل کا کام کیا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ انہوں نے آیات قرآنی اور آیات انفس و آفاق کی مدد سے اعلیٰ اقدار پر مشتمل پیغام کو شعری سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔ قرآنی آیات کا تو وصف ہی خیروصلاح کی طرف رہنمائی اور ہدایت ہے۔ علامہ اقبال نے ان سے حسب ضرورت استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر، موسم، نباتات ، حیوانات، جمادات، چرند، پرند، پھل، پھول، درخت، باغ، کھیت، زمین، پہاڑ، ندی، سمندر، ہوا، بجلی، آسمان،انسان، اس کا جسم، دل و دماغ، انسانی تعلقات، احساسات و جذبات کی مدد سے انہوں نے جس طرح اپنا پیغام عام کیا ہے وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔  علامہ اقبال دنیا کے نابغۂ روزگار شاعر ہیں جن کا کلام شعری جمالیات کا اعلیٰ ترین مرقع ہونے کے علاوہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل کی آواز بھی ہے۔ ان کے کلام نے بین الاقوامی سطح پر ایک مردہ قوم کے لیے صور اسرافیل کا کام کیا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ انہوں نے آیات قرآنی اور آیات انفس و آفاق کی مدد سے اعلیٰ اقدار پر مشتمل پیغام کو شعری سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔ قرآنی آیات کا تو وصف ہی خیروصلاح کی طرف رہنمائی اور ہدایت ہے۔ علامہ اقبال نے ان سے حسب ضرورت استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر، موسم، نباتات ، حیوانات، جمادات، چرند، پرند، پھل، پھول، درخت، باغ، کھیت، زمین، پہاڑ، ندی، سمندر، ہوا، بجلی، آسمان،انسان، اس کا جسم، دل و دماغ، انسانی تعلقات، احساسات و جذبات کی مدد سے انہوں نے جس طرح اپنا پیغام عام کیا ہے وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔  علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو اپنے کھوئے ہوئے مرتبہ و وقار کو حاصل کرنے کے لیے اسلام و قرآن سے مکمل وابستگی کا پیغام دیا ہے۔ یہ پیغام کہیں مجمل ہے اور کہیں مفصل۔ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مسلمانوں کی کمزوریاں اجاگر کی ہیں اور ان کے تدارک کے طریقے بتائے ہیں۔ زندگی کی اعلیٰ حقیقتوں میں ’’ماں‘‘ اہم ترین مرتبہ رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ ممکن نہ تھا کہ اقبالؒ اس اہم پہلو کو نظر انداز کردیتے۔ انہوں نے امت کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے’’امومت صالحہ‘‘ پر بہت زور دیا ہے۔ یعنی ملت کو ایسی نیک مائوں کی اشد ضرورت ہے جو نیک ، تعلیم یافتہ، باپردہ، ذمہ دار اور اپنے بچوں، خاوند اور خاندان سے محبت کرنے والی ہوں۔ ان کے مجموعہ کلام ’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’عورت‘‘ اور اس سے متعلق موضوعات پر 9؍عدد مختصر نظمیں ہیں جو ان کے اس پیغام کو واضح کرتی ہیں کہ عورت کی تعلیم ضروری ہے لیکن شمع محفل بننے کی بجائے اسے ایک ذمہ دار گھریلو خاتون بننا چاہیے۔ جس کی گود میں نئی نسلیں پروان چڑھیں۔ انہوں نے خالی گود عورتوں اور بے روزگار مردوں کو مغربی تہذیب کے بد ثمرات میں شمار کیا ہے۔ ماں اور اس سے متعلق موضوع پر اقبال کے مجموعۂ کلام ’’بانگ درا‘‘میں دو نظمیں ملتی ہیں (1) ماں کا خواب (2) والدہ مرحومہ کی یاد میں۔(1) ماں کا خواب ایک ماخوذ نظم ہے جس کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ یہ کہاں سے ماخوذ ہے؟ یہ بچوں کے لیے ہے۔ اس کی زبان اتنی سادہ اور آسان ہے کہ کلام اقبال کے مشہور شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس کی تشریح و توضیح کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ نظم بڑوں کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ خصوصاً ’’مائوں‘‘ کے لیے تو اس میں بڑا سبق ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس نظم کے ذریعہ بھی ایک پیغام دیا ہے۔ اس نظم میں معٰنی کے دو پہلو ہیں: (الف) یہ اُن مائوں کے لیے ہے جو اپنے ان لڑکوں کو بھی سینے سے لگائے رکھنا چاہتی ہیں جو قرآن کی زبان میں باپ کے ساتھ بھاگ دوڑ کرنے کی عمر کو پہونچ جاتے ہیں۔(سورۃ الصّٰفّٰت:آیت۱۰۲) یہ نظم بتاتی ہے کہ ایسے بچے ترقی کی دوڑ میں دوسروں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی مائوں کی بے جا محبت اور غیر ضروری احتیاط کی وجہ سے بیرونی دنیا سے ناواقف محض رہ جاتے ہیں۔ (ب) اس نظم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مائوں کو اپنے بچوں کے انتقال پر بہت رونے اور نوحہ و ماتم کرنے کی بجائے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات نوحہ و ماتم سے منع کرتی ہیں لیکن خاموشی سے آنسو بہانے سے منع نہیں کرتیں۔ آنحضورؐ کے فرزند ابراہیمؓ صغر سنی میں وفات پاگئے تھے۔ تدفین کے وقت آپؐ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ کسی نے کہا ’’یا رسول اللہؐ آپ بھی رورہے ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’آنکھیں روتی ہیں لیکن دل اللہ کی مشیت پر راضی ہے۔ ‘‘ مسلمانوں میں یہ خیال عام ہے کہ میت پر نوحہ اور ماتم کرنے سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اسی خیال کو استعاراتی انداز میں نظم کیا ہے کہ بچے کی جدائی پر ماں کے رونے اور نوحہ و ماتم کرنے سے دوسری دنیا میں بچے کے ہاتھ میں جو چراغ ہے وہ بجھ جاتا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ اعزہ یا کسی کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ یعنی نوحہ کوئی کرے اور اس کا عذاب میت کو ہو یہ قرآنی اصول کے خلاف ہے۔ (2) نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ علامہ اقبالؒ نے اپنی والدہ کی موت سے متاثر ہوکر کہی تھی۔ اس نظم میں بھی انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاکر اسلامی فلسفۂ موت و حیات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صبروتحمل کے اعلیٰ جذبات کی تلقین کی ہے۔ تیرہ(۱۳) بندوں پر مشتمل یہ نظم ارتقائی مراحل سے گذرتی ہے۔  پہلے بند میں کائنات کا پا بند تقدیر ہونے کی وجہ سے اس کو مجبور محض بتایا ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، کائنات کا ذرّہ ذرّہ ، آسمان، سورج، چاند ، ستارے غرض کائنات کی ہر تخلیق Programmed ہے۔ اُن کی اپنی کوئی مرضی نہیں بلکہ وہ مقدر کا لکھا پورا کرتے ہیں۔  دوسرے بند میں کہا گیا ہے کہ انسان کو جب اپنی بے بسی کا ادراک ہوجاتا ہے تو پھر اسے زندگی کی رعنائیاں بے کار لگتی ہیں۔ وہ تقدیر سے سمجھوتا کرلیتاہے۔ اُس کا دل پتھر ہوجاتا ہے۔ علم و حکمت اُس کی گریہ وزاری پر روک لگاتی ہیں۔ نہ حیران ہوتا ہے، نہ ہنسی آتی ہے اور نہ ہی گریہ وزاری کرتا ہے۔  تیسرے بند میں اقبالؒ اس بے بسی سے آزاد ہونے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ والدہ کی یاد نے ماضی و حال کے فاصلے ختم کر کے انہیں عہدِ طفلی تک پہنچا دیا۔ یہاں سے تدریجاً اس نظم کو کلائمیکس Climax کی طرف لے جاتے ہیں۔ ناامیدی سے امید کی طرف قاری کو اپنے ساتھ لے جانے میں اقبالؒ کو ملکہ حاصل ہے۔ چوتھے بند میں کہتے ہیں کہ میرے چرچے ہر طرف ہیں۔ میرے کلام کی قدردانی ایک عالم میں ہے۔ مگر ماں کی یاد آتے ہی یہ ساری حیثیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ماں کی تربیت نے انہیں عروج بخشا۔ پانچویں بند میں ماں کی یاد میں زندگی کے مختلف ادوار تازہ ہوجاتے ہیں۔  چھٹے بند میں فرماتے ہیں کہ دنیا گویا ماتم کدہ ہے۔ موت جیسے ہوا کی طرح مسلسل بہہ رہی ہے۔زندگی اپنے اندر کس قدر آلام و مصائب لیے بیٹھی ہے غریب کا گھر ہو کہ محلات شاہی، موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔ کائنات میں موت ہی موت کا دور دورہ ہے۔  ساتویں بند میں اقبال اسلام کا فلسفۂ حیات بیان کرتے ہیں۔ انسان ہمیشہ زندہ و جاوید رہتا ہے۔ موت اس کے جسم کو آتی ہے روح کو نہیں۔  ؎  جاوداں پیہم رواں ہردم جواں ہے زندگی  یہ زندگی امتحان کا دور ہے جو ختم ہوجائے گا تو اس کے بعد دائمی زندگی بہرحال شروع ہوگی۔ زندگی کا انجام خاک میں مل جانا نہیں ہے۔ یہ ایسا گوہر ہے جو ٹوٹ کر بکھر نہیں جائے گا۔  آٹھویں بند میں کہتے ہیں کہ قدرت کو خود زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اُس نے ہر تخلیق میں زندگی کے تحفظ کا ذوق پیدا کردیا ہے۔ اصل میں خوب سے خوب تر کی جستجو ہے جو فطرت کو عمل فنا پر مجبور کرتی ہے۔ مٹانا، بنانا، بنا کر پھر مٹادینا اور پھر خوب تر بنانا۔ آخرت کی زندگی مکمل ترین زندگی ہوگی۔  نویں بند میں انسان کی عظمت کا بیان کرتے ہیں۔ عظیم الشان کائنات اور اجرام فلکی جن کی زندگی لامحدود ہے اور انسان کا یہ عالم ہے کہ وہ ان پر کمندیں پھینک رہا ہے۔ یہ آسمان تو انسانی آرزوئوں اور تمنائوں کے مقابلے میں صرف ایک نقطہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کی عظمت فرشتوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ اصل میں انسان ہی اس کائنات کی جان ہے۔ اگر وہ نہ ہوتو زندگی کا یہ ساز بے کار ہے۔  دسویں بند میں موت پر فتح پاتی ہوئی زندگی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس مضمون کو نقطہ عروج پر لے جاتے ہیں۔ کیسے موت کے پردے سے زندگی جنم لیتی ہے؟ بیج کو زمین میں دفن کرنا گویا اس کی موت ہے مگر مٹی کے اندر بیج میں دبی ہوئی زندگی اپنے نمو کے لیے بیتاب رہتی ہے۔ جس کی فطرت میں خودنمائی اور خودافزائی ہے وہ خود کو آشکار کرکے رہے گا۔ یعنی موت تجدید زندگی ہے۔ یہ پیغام ہے بیداری و شعور کا اور ایک دوسری ابدی زندگی کا۔  گیارہویں بند میں والدہ مرحومہ کی فرقت سے ان کے دل پر کسی حد تک پھر غمگینی طاری ہوتی ہے اور موت کو لادوا کہتے ہیں۔ موت سے جو زخم لگ جاتے ہیں اُن کو وقت کے مرہم سے شفا نہیں ہوتی۔سکون کی حالت سے انسان محروم ہی رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ مضطرب رہتا ہے کیوں کہ اُس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے۔ لیکن دل میں یہ احساس بھی رہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا نہیں ہوجاتا۔ اس لیے اسے کچھ تسلّی ہوجاتی ہے۔  بارہویں بند میں اقبال حیات دائمی کے فسلفے کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر صبح طلوع ہونے والا سورج مردہ کائنات کو زندگی بخشتا ہے۔ پھول کھلتے ہیں، بلبل نغمہ سرا ہوتی ہے۔ ہر نئی صبح نئی زندگی کا پیام لے کر آتی ہے اور کائنات کو دلہن بنا دیتی ہے۔ خوشیاں ہی خوشیاں چاروں طرف ہوتی ہیں۔ اس بند میں انسان کے لیے یہ پیغام ہے کہ آئین کائنات یہی ہے کہ ہر شام کی صبح ہوتی ہے۔ توکیا انسان کے تاریک مرقد کی صبح نہیں ہوگی؟  آخری بند میں والدہ کی یاد پھر سے اقبالؒ کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے جس سے چاروں طرف کا ماحول روشن (سیمیں) ہوجاتا ہے۔ ان یادوں کو انہوں نے مختلف کیفیتوں سے تشبیہ دی ہے جیسے کعبہ میں دُعائوں کا تسلسل وغیرہ۔ آخرت کو زندگی کی اصل جولان گاہ قرار دیا ہے۔ اگر دنیا کی زندگی میں کچھ نہ کریں تو آخرت کی کھیتی میں ہمارے پلّے کوئی فصل نہیں آئے گی۔ آخر میں والدہ کی پاک و صاف زندگی کو یاد کرکے دُعائیہ شعر پر نظم کا اختتام کیا ہے۔  نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ان کی ایک اور نظم ’’خضر راہ‘‘ کی طرح ایک موضوع کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرکے اُن کا احاطہ کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور بتدریج انسان کو مایوسی سے چھٹکارا دلا کر ایک روشن مستقبل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔