Kai Chand They Sar E Aasman

Articles

ناول کئی چاند تھے سرِآسماں کا خلاصہ

ڈاکٹر رشید اشرف خان

 

ناول کی کہانی مخصوص اللہ نامی ایک شخص سے شروع ہوتی ہے جوایک ماہر مصور اور شبیہ ساز(۱) تھا ۔آگے چل کر وہ نقاش(۲) اور قالین باف(۳) بھی بن گیا۔ اس کا قیام آج سے برسوں پہلے کشن گڑھ(راجپوتانہ ۔موجودہ راجستھان) کے ایک گاؤں ’’ہندل پروا‘‘ میں تھا ۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے مخصوص اللہ نے ایک لڑکی کی خیالی تصویر بنائی۔ اس تصویر میں حسن وجمال کا کوئی پہلو ایسانہ تھا جومخصوص اللہ نے باقی رکھا ہو۔تصویر تھی گویا ابھی بول پڑے گی۔ گاؤں اور آس پاس کے علا قوں کے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آئے۔تصویر مخصوص اللہ کے حجرے کے باہری طاق میں رکھی تھی۔جس نے بھی دیکھا وہ اس کی تعریف کیے بغیرنہ رہ سکا۔کسی نے کہا کہ ارے یہ ’’بنی ٹھنی ‘‘ہے۔دوسرے نے کہا کہ یہ ’’رادھا دیوی‘‘ ہیں۔تیسرا بولا ارے یہ تو ’’اصلی‘‘ ہے ۔مگر حد تو تب ہوئی جب ایک شرابی نے کہاکہ یہ والاجاہ کی بیٹی’’ من موہنی‘‘ ہے۔ اس زمانے کا معاشرہ ایسا تھا کہ ہرمذہب میں پردے کا اہتمام لازم تھا۔جیسے ہی گجندر پتی مرزا کو خبر ملی کہ اس کی بیٹی من موہنی کی شبیہ بنائی گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔بیٹی اور کچھ گھوڑ سواروں کے ساتھ مخصوص اللہ کے گھر پہنچا ۔وہ وہاںموجود نہ تھا ۔سارے گاؤں والوں کے سامنے اپنی بیٹی کوقتل کر ڈالا، نیزے کی نوک سے طاق پر رکھی شبیہ پھاڑ ڈالی اورچیخ کر کہا کل تک سارا گاؤں خالی کردیا جائے ورنہ میں کسی کی بھی جان ومال کا ذمہ دار نہیں رہوں گا۔اس حکم سے گاؤں والے لرز اٹھے اور دوسری صبح جس کے جدھر سینگ سمائے اُدھر جان بچا کر بھاگ نکلا ۔ مہاجرین کے قافلے میں مخصوص اللہ بھی شامل ہوگیا ۔اس نے بارہ مولہ (کشمیر) میں سکونت اختیار کی۔کچھ دنوں بعد ایک کشمیری لڑکی سے مخصوص اللہ نے شادی کرلی۔اس سے ایک سیاہ فام لڑکا پیدا ہوا۔اپنے بیٹے کو دیکھ کر مخصو ص اللہ بہت خوش ہوا اور اس کا نام محمد یحییٰ رکھا۔ ایک دن پھراسے جانے کیا سوجھی، اپنے بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کیا اورکسی کو بتائے بغیرکہیں چلا گیا۔ کافی تلاش کے بعد جنگل میں برف سے ڈھکی اس کی لاش ملی ۔کشمیر کے سرد موسم میں تیزی سے گرتی ہوئی برف میں مخصوص اللہ اکٹر کر مر گیا۔اس کے دائیں ہاتھ میں ہاتھی دانت جیسا ایک پتلامٹرا تڑاکاغذ تھا جسے بہ احتیاط نکالا گیا توپتہ چلا کہ اس پر ایک بے حد خوبصورت لڑکی کی شبیہ تھی۔ وہ دراصل بنی ٹھنی تھی۔کشمیری اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور انھوں نے تصویر کو مصور کی قبر کے پاس ہی برف میں دبا دیا۔ سلیمہ کو یہ غم تھا کہ آخر وہ اپنے شوہر کی افتاد طبع کو سمجھ کیوں نہ سکی؟ وہ بارہ مولہ چھوڑ کراپنے مائکے بڈگام میںجا کر آباد ہوگئی۔چار برس چار ماہ کی عمر میں محمد یحییٰ کی رسم بسم اللہ ہوئی۔سلیمہ قصہ کہانی کی شکل میں اپنے بیٹے کو اس کے مرحوم باپ کی زندگی کے حالات سنا تی رہتی ۔اس نے بیٹے سے کئی بار کہا کہ تیرے باپ تو یہاں کے نہیں تھے ۔کیا تیرا جی نہیں چاہتا کہ اپنے ماں باپ کے اصلی وطن کودیکھے؟۔بہرحال محمد یحییٰ بڈگام سے کہیں اور جانے پر راضی نہ ہوا۔
محمد یحییٰ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو اس کی شادی ایک کشمیری لڑکی بشیرالنسا سے کردی گئی جس سے شادی کے دوسرے سال جڑواں لڑکے پیدا ہوئے،بڑے کا نام محمد داؤد اور چھوٹے کا نام محمد یعقوب رکھا گیا۔دونوں ریشم ، زعفران اور شہد کی تجارت کرنے لگے۔لوگ انھیں داؤد بڈگامی اور یعقوب بڈگامی کہنے لگے۔ان دونوں بھائیوں نے اپنے باپ کی طرح نہ تو تعلیم نویسی سیکھی ، نہ نقاشی ،نہ چوب تراشی(۴) اور نہ قالین بافی۔البتہ ان کے گلے اچھے تھے۔دونوں مل کر طرح طرح کے اردو، فارسی اور کشمیری کلام سناتے ۔دنیا والوں سے داد بھی پاتے اور انعام و اکرام بھی۔
یحییٰ بڈگامی کی موت کے تین مہینے بعد بشیرالنسا بھی اس دنیا سے چل بسی۔ اب داؤد اور یعقوب کا جی کشمیر سے اچاٹ ہوگیا ۔دونوں نے یہ طے کیا کہ اب اپنے ددھیال کشن گڑھ کی طرف چلیں ۔کافی مسافت طے کرکے دونوں بھائی جے پور پہنچے ۔وہاں سے آگے بڑھے تو دھوپ بہت تیز ہو چکی تھی ان کا اور ان کے گھوڑوں کا بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ خدا خدا کرکے شام ہوئی ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس پہنچ گئے ۔ تھوڑی دورپر کنواں تھا۔پانی بھرنے والی زیادہ تر عورتیں تھیں۔انھیں میں حبیبہ اور جمیلہ نام کی دو لڑکیاں تھیں۔ سوتیلے باپ کے ظلم سے یہ دونوں داؤد اور یعقوب کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں۔یہاں سے یہ لوگ ’’باندی کوئی ‘‘نامی علاقے میں پہنچے جہاں داؤد نے حبیبہ سے اور یعقوب نے جمیلہ سے نکاح کر لیااور دودن قیام کے بعد فرخ آباد کوچ کر گئے۔ اس واقعے کے گیارہ مہینے بعد یعقوب بڈگامی اور بی بی جمیلہ کے یہاں ۱۷۹۳ء میں یوسف بڈگامی کی ولادت ہوئی۔چھوٹے بھا ئی داؤد بڈگامی لا ولد تھے مگر دونوں بھا ئی ایک دوسرے پر قربان تھے۔فرخ آباد کا قیام دونوں بھائیوں کو بہت پسند تھا ۔ان دونوں بھائیوں نے پرانے پیشے کو ترک کرکے نیا پیشہ سادہ کاری(۵) اختیار کرلیا۔اس فن میںوہ طاق ہوگئے۔مقامی خواتین اور فرنگی عورتیں کپڑے پر قلم کاری کروانے کے لیے انھیں پیشگی کلدار اشرفیاں(۶) یا شاہ عالمی اشرفیاں(۷) دے دیا کرتی تھیں۔لیکن گردش ایام نے پھر اپنا رنگ دکھایا۔ کمپنی کا عمل دخل کوئی دس سال ہوئے ہر طرف نظر آنے لگا۔
یوسف بڈگامی کا واقعہ بھی اپنی جگہ پر بڑا دلچسپ لیکن لرزہ خیز تھا ۔ حقیقت حال یہ تھی کہ ابھی یوسف کی عمر کم ہی تھی جب انگریزوں اور مرہٹوں میں جم کر لڑائی ہوئی۔انگریزوں کے عملے میں یوسف اور اس کے خاندان کے ساتھ فرخ آباد کی مشہور ڈیرے دارنی ، اکبری بائی کا ساز وسامان اور عملہ تھا جس سے یوسف اور اس کے اہل خاندان کی گاڑھی چھننے لگی۔یہ خاندان شہری تھا اور اس کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔ انگریزوں اور مراٹھوں کی اس رستا خیز میں مراٹھا فوج کی طرف سے پھینکے گئے گولوں کے نتیجے میں یوسف کے والدین، چچا، خالہ ، شاگرد پیشہ(۸) سب ہلاک ہوگئے۔صرف یوسف بچ گیا ۔اکبری بائی کا اپنا خیمہ بھی محفوظ رہا ۔ اکبری بائی اور ان کی ننھی بیٹی اصغری ایک دو اصیلیں(۹) ماما (۱۰)چھو چھو(۱۱) جو ابھی کچھ دور بیل گاڑی میں تھیں۔اس وقت یوسف کی عمر مشکل سے دس برس کی تھی لیکن وہ کافی عقل مند تھا ۔دشمن کے گولوں سے بچنے کے لیے وہ بے تحاشہ ہنڈن ندی کی طرف دوڑنے لگا تاکہ اس میں کود پڑے،لیکن اکبری بائی کی اصیل نے اسے دوڑ کر پکڑ لیا۔ہزار چیخنے پیٹنے کے باوجود اس وقت تک اپنے سینے سے لپٹائے رہی جب تک وہ نیم بے ہوش ہوکر سو نہ گیا۔جب اس کی آنکھ کھلی تو شام ہورہی تھی اور وہ اکبری بائی کے ساتھ بیل گاڑی میں تھا۔
خدا خدا کرکے یہ لٹا ہو ا قافلہ دلی پہنچا ۔اکبری بائی نے چاوڑی بازار میں اپنی ایک رشتے کی بہن کے یہاں قیام کیا ۔کچھ دنوں کے بعد ان کی بہن نے کوچۂ پنڈت کے نکڑ پر اکبری بائی کو رہنے کے لیے مکان کابندوبست کردیا ۔
یوسف ، زندگی بھر اکبری بائی کاشرمندۂ احسان رہا کیونکہ انھوں نے اسے اپنے سگے بیٹے کی طرح پالا۔ اجمیری دروازے پر مدرسۂ غازی الدین خاں میں عربی وفارسی پڑھوانے کے علاوہ انھوں نے اسے ساز وسنگیت کی بھی تعلیم دلوائی۔وہ بہت جلد میاں نور العین واقفؔ، میاں ناصر علی، رائے آنند رام مخلصؔاور مرزا عبدالقادر بیدلؔ کے ساتھ ساتھ جگت استاد شاہ حاتمؔ، میرزا محمد رفیع سوداؔ، میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ اوران کے بھائی میراثرؔ کے کمالِ فن سے بڑی حد تک متعارف ہوگیا۔جب محمد یوسف کی عمر پندرہ برس اور اصغری کی عمر تیرہ برس کی تھی تو اکبری بائی نے دونوں کا نکاح کرادیا اور کوچۂ رائے مان میں ایک مکان بھی خرید کر دے دیا۔
شادی کے دو برس بعد یوسف اور اصغری کے پہلی بیٹی پیدا ہوئی اس کانام انوری خانم عرف بڑی بیگم رکھا اس کے بعد بہت کم وقفہ میں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ایک کا نام عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور دوسری کا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم ۔یہی وزیر خانم مذکورہ ناول’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘کی مرکزی کردار بنی۔یوسف سادہ کار کی تین بیٹیاں ، تین رنگ کی تھیں ۔پہلی دو بیٹیوں میں سانولا پن اور خوش شکلی کی صفت مشترکہ تھی البتہ وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم رنگ کے سوا ہربات میں کشمیرن لگتی تھی۔بڑی بیگم کو اللہ رسول سے بے حد لگاؤ تھا ،یوسف نے بارہ برس کی عمر میں اس کی شادی میاں مولوی شیخ محمدنظیر صاحب سے کردی ۔منجھلی بیگم کو ماں باپ کی رضامندی کے بغیراکبری بائی نے نواب سید یوسف علی خاں ابن نواب سید محمد سعید خاں والیِ رام پور کے متوسلین میں شامل کردیا۔
چھوٹی بیگم یعنی وزیر خانم کے مزاج میں بچپن ہی سے ڈومنی پن(۱۲) نکلتا تھا ۔ نانی کے یہاں اس کی اصل تعلیم ان امور میں ہوئی جن کوسیکھ سمجھ کر عورت ذات مردوں پر راج کرتی ہے۔وہ شعر بھی کہتی تھی اور میاں شاہ نصیر ؔ کی شاگرد ہ تھی۔استاد نے اسے زہرہؔ تخلص عطا کیا تھا۔وزیر خانم ابھی پندرھویں سال میں تھی کہ یوسف کی بیوی اصغری اچانک بیمار پڑ ی اور چار دن بیمار رہ کر چل بسی۔
ماں کے مرنے کے بعد محمد یوسف اور اس کی بڑی اور منجھلی بیٹی نے اپنے تئیں بھر پور کوشش کی ،کہ چھوٹی بیگم (وزیر خانم) کو شادی کے لیے راضی کرلیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی ۔وزیر خانم کو شادی نہیں کرنی تھی اور نہ کی۔
وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کا ابتدائی حال ہمیں اس حاضر راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے جسے ناول میں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی ، ماہر امراض چشم کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول میںدعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر خلیل مستقل تاریخی اور تہذیبی یاد داشتیں لکھا کرتے تھے۔ ناول میں وہ خودلکھتے ہیں:
’’ گزشتہ سال ایک شادی کے سلسلے میں مجھے لندن جانے کا موقع ملا۔ اپنے بارے میں کچھ زیادہ کہنے میں مجھے تکلف ہے اور جو داستان اگلے صفحات پر مرتسم ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ لہٰذا اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض چشم ہوں ۔ شعر وشاعری کا شوق بھی رکھتا ہوں لیکن اگرمیں زمانۂ قدیم میں ہوتا تو مجھے ’’نساب‘‘ کہا جاتا۔اس معنی میںمجھے خاندانوں کے حالات معلوم کرنے ،ان کے شجرے بنانے اور دور دور کے گھرانوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا بے حد شوق ہے اور اب اگر میری عمر بہت زیادہ نہیں ہے،میں نے طب کا مشغلہ ترک کردیاہے۔میرا زیادہ تر وقت شجرے بنانے اور بنائے ہوئے شجروں کو مزید وسیع اور پے چیدہ بنانے میں گزرتا ہے‘‘۱؎
وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کی پیدائش غالباََ ۱۸۱۱ء میں ہو چکی تھی۔ اس کی زندگی میں پہلا مرد ایڈورڈ مارسٹن بلیک (Edward Marston Blake) تھا ۔ ان دونوں کی ملاقات بھی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔اس سلسلہ میں اگرچہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ،لیکن خاندانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ وزیر خانم اپنے باپ محمدیوسف سادہ کار کے ساتھ مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ سے بذریعہ بہلی(۱۳) واپس آرہی تھی۔ رات کا وقت تھا ۔سب مسافروں کو واپسی کی جلدی تھی کیوں کہ حوض شمسی کے کھنڈر میں ان دنوں بعض پنڈاروں(۱۴) نے چپکے چپکے اپنے اڈے بنا لیے تھے جہاں چھپ کر وہ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔وزیر خانم کی بہلی کا ایک دھرا گھستے گھستے کمزور پڑگیا تھا ۔ ڈر تھا کہ اگر بیلوں کو ذرا بھی تیز دوڑایا گیا تو دھرا ٹوٹ سکتا ہے لہٰذا ان کی بہلی چیونٹی کی چال چل کر آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔اچانک بہلی اڑتی ہوئی لال مٹی اور ریت کے بڑے بڑے ذروں سے بھر گئی ۔ بیلوں کی بڑی بڑی آنکھیں دہشت اور چبھن کے باعث بند ہوگئیں۔ آندھی کے جھکڑ اور تیز ہوا کے جھونکوں سے بہلی کے سبھی پردے اڑ گئے اور دھرا ٹوٹ جانے سے دھماکہ ہوا ۔بہلی پر سوار سبھی لوگ گر پڑے ۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دہلی کی طرف سے کچھ انگریز اور دیسی سوار آتے دکھائی دیے جن کا سردار ایک انگریز مارسٹن بلیک تھاجو اپنی معشوقہ کے ساتھ رات گزارنے عرب سرائے (۱۵)جا رہا تھا۔وزیر خانم کے سر کی چادر ہوا سے اڑ گئی ۔ مارسٹن بلیک اور وزیر خانم کی آنکھیں دفعتاََ چار ہوئیںاور کیوپڈ(Cupid) (۱۶)اپنا کام کرگیا۔
وزیر خانم بخیریت تمام دہلی پہنچ گئی ۔ مارسٹن بلیک تحفے تحائف لے کے ہر دوسرے تیسرے دن یوسف کے گھر آنے لگا۔ چند مہینوں کے بعد مارسٹن بلیک نے آکر خبر دی کہ میں اسسٹنٹ پو لیٹیکل ایجنٹ کی اسامی پر متعین ہو کر جے پور جا رہا ہوں۔ تقریباََ سوا مہینے کے بعد مارسٹن بلیک جے پور سے دہلی آیا ۔ محمد یوسف سے اکیلے میں کچھ سر گوشیاں کیں ۔ چھوٹی بیگم کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتہ کے بعد مارسٹن بلیک کے قافلہ میں ، جو عازم ِ جے پور تھا ، پھولوں اور گجروں سے سجایا ہوا ایک رتھ بھی تھا ۔وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زرق برق پوشاک میںسجی بنی اس میں سوار تھیں۔
جے پور پہنچ کر وزیر خانم کی دنیا ہی بدل گئی ۔ نوکروں کی ریل پیل ہوئی ۔ مارسٹن بلیک اس کی شمع زندگی کا پروانہ تھا ۔وہ اس سے کہتا تھا تم وزیر نہیں بلکہ اس گھر کی ملکہ ہو۔وقت گزرتا رہا۔وزیر خانم کے دو اولادیں ہوئیں ۔لڑکے کا مارٹن بلیک اور لڑکی کا نام سوفیہ رکھا۔لیکن وزیر خانم نے لڑ لڑا کر دونوں کے ہندوستانی نام امیر میرزا اور بادشاہ بیگم رکھے۔ مارسٹن بلیک کا پھوپھی زاد بھائی ولیم کاٹرل ٹنڈل(William Cotterill Tyndale) اور اس کی بہن ایبیگیل ٹنڈل(Abigail Tyndale) جو پہلے میسور میںرہتے تھے ،جے پور آگئے۔ دسمبر۔ جنوری ۱۸۳۰ء کرنل ایلویس جو پولیٹیکل ایجنٹ برائے راجپوتانہ تھے چھ ہفتے کی رخصت پر کلکتہ چلے گئے اور مارسٹن بلیک کو جے پور کی ریزیڈنسی کا مختار بنا گئے۔راجپوتانے میں سازشیں بڑھ گئیں ۔دیسی لوگوں نے مارسٹن بلیک پر حملہ کرکے اسے مندر کے اندر مارڈالا۔مارسٹن بلیک کے پھوپھی زاد بھائی نے مارسٹن بلیک کی جائداد پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بچوں کو بھی چھین لیااور چھوٹی بیگم جے پور سے دہلی واپس لوٹ آئی۔
چھوٹی بیگم چونکہ باپ کو ناراض کرکے مارسٹن بلیک کے ساتھ بغیر نکاح کے چلی گئی تھی اس لیے محمد یوسف نے سرسری سی رسمی تعزیت کی اور بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی نہ ہوا۔ منجھلی بیگم سے کہہ کر چھوٹی بیگم نے ایک مکان سِرکی والان میں لے لیااور اس میں رہنے لگی۔یہ مارچ ۱۸۳۰ء کی بات ہے ۔وزیر خانم نے اپنی بہن عمدہ خانم (منجھلی بیگم)کے توسط سے نواب یوسف علی خاں کے گھر میں رسائی حاصل کی ،لیکن گھریلو انداز میں ۔ایک دن نواب صاحب نے چھوٹی بیگم کے احوال پوچھتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ میرے ملاقاتی کچھ عمائد شہر اور شرفا تک تمھاری شہرت پہنچ چکی ہے ۔وہ لوگ تم سے تمنائے ملاقات رکھتے ہیں۔وزیر خانم نے نواب کے حکم کی تعمیل کی اور تین سلام کرکے الٹے پاؤں دیوان خانے سے حویلی کے اندر داخل ہوگئی۔
نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کے آٹھویں یا دسویں دن بعد ایک سونٹا بردار نواب یوسف علی خاں کا رقعہ اور روپیوں کے دس توڑے لے کر وزیر خانم کے دروازے پر حاضر ہو ۔ نواب صاحب نے رقعہ فارسی میں تحریر کیا تھا جس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’ بعد دعاے افزونی ِدولتِ حسن و دام ِ اقبال،وزیر خانم سلمہا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اگلے پنچشنبہ کی شام کو بعد مغرب،نواب ولیم فریزر صاحب ریزیڈنٹ دولت کمپنی بہادر کی ڈیوڑھی عالیہ واقع پہاڑی(موجودہ علاقہ RIDGE) شہر دہلی میں ایک محفل شعر سخن قرار دی گئی ہے۔نواب مرزا اسداللہ خاں صاحب المتخلص بہ غالبؔ والملقب بہ میرزا نوشہ تازہ کلام سے سرفراز فرمائیں گے۔حضرت دہلی کے چنیدہ عمائد واساطین بھی رونق افروز بزم ہوں گے۔ آں عزیزہ اگر اپنے قدوم میمنت لزوم کو زحمت نہضت عطا کریں تو عین باعث لطف ہوگا‘‘ ۱؎
روز موعودہ یعنی پنچشنبہ کو ولیم فریز کے گھر پر وزیر خانم ، دلاورالملک نواب شمس الدین احمدخاں ، مرزا غالب ؔ ،فینی پارکس اور دہلی کی کئی مشہور ہستیاں جمع ہوئیں۔ولیم فریزر نے سب کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ۔غالبؔ کو دیکھ کر فریزر نے کہا:
’’ مرزا نوشہ ہم نے آپ کے لیے فرنچ لیکور (French Liquer) کا انتظام کر رکھا ہے لیکن شرط نئی غزل کی ہے‘‘۲؎
رات گئے محفل شعر و سخن چلتی رہی ۔محفل کے بعد جب سواریاں ولیم فریزر کی کوٹھی سے نکلیں ۔نواب شمس الدین احمد خاں اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے اور وزیر خانم رتھ میں بیٹھ کر سرکی والان کی طرف مڑ گئی۔نواب شمس الدین احمدخاں کا ایک سوار گھوڑے سے اتر کر وزیر کے پیچھے پیچھے آیا اور دروازے پر دستک دی ۔وزیر خانم سے دروازے پر کھڑے کھڑے سلام کیا اور کہا کہ سرکار نواب دلاورالملک کسی مناسب وقت پر ملاقات کے خواہاں ہیں ۔وزیر خانم نے جواب دیا کہ کل شام کو تشریف لا سکتے ہیں ۔میں منتظر رہوں گی۔
دوسرے دن وزیر خانم اور اس کے ملازمین گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مشغول ہوگئے ۔ بعد نماز عصر نواب شمس الدین احمد خاں بڑے تزک و احتشام سے وزیر خانم کے گھر پہنچے ۔وزیر خانم نے بڑے پُرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا ۔رات گئے تک وزیرخانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کے درمیان رازونیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔اشعار اور گیت بھی سنائے گئے ۔کھانا کھا کر نواب صاحب اپنے گھر کی طرف مراجعت کر گئے۔
نواب شمس الدین احمد خاں کی تفصیلی بے تکلف گفتگو اور ان کے جھکاؤ کو دیکھ کر وزیرخانم بہت متاثر ہوئی اور یہ خواب دیکھنے لگی کہ اگر نواب صاحب اس سے نکاح کرلیں تو کتنا اچھا ہے۔ دوسرے دن نواب صاحب کے یہاں سے نہایت عمدہ اور قیمتی تحفہ آیا تو وزیرخانم فرط جذبات سے تڑپ گئی۔
رات بھر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ پہلے منجھلی بیگم اور ان کے شوہر نواب یوسف علی خاں سے اس ضمن میں مشورہ کرلینا بہتر ہے۔چنانچہ اسی شام ماما کو اپنی بہن منجھلی بیگم کے یہاں بھیج کر نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کی اجازت مانگی۔اجازت ملتے ہی دوسرے دن تراہا بیرم خاں پر واقع نواب یوسف علی خاں کے یہاں پہنچ گئی ۔اپنی بہن عمدہ خانم کو تمام باتوں سے با خبر کرکے وزیر خانم نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہوئی،انھیں اپنا پوراماجرا سناکر مشورے کی طالب ہوئی ۔نواب صاحب نے فرمایا ۔اچھا برا سوچ سمجھ لو اور پھر نواب شمس الدین صاحب کو اپنی شرائط سے آگاہ کردو اسی وقت تمھارا اقدام مناسب ہوگا۔وزیر خانم اپنے بہنوئی کا شکریہ ادا کر کے اپنے گھر واپس آگئی۔گھر پہنچنے کے بعد وزیر خانم ایک بار پھر شش وپنچ میں پڑگئی ۔وہ کبھی سوچتی کہ نواب شمس الدین صاحب مجھ سے نکاح کریں گے بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے نکاح نہ کریں صرف پابند بنا کر رکھیں ۔پھر میرے دونوں بچوں امیر میرزا اور سوفیہ کا کیا ہوگا ۔ کیا میں انھیں اپنے ساتھ رکھ سکوں گی۔ بہرحال یہی سب خیالات وزیر خانم کو رہ رہ کر پریشان کر رہے تھے کہ استخارہ دکھلائے یا کسی رمّال سے فال کھلوائے ۔تب اسے پنڈت نند کشور کا خیال آیا جو اس کی نانی اکبری بائی کے گھرکبھی کبھار آیا جایا کرتے تھے۔
اگلے دن صبح صبح چھوٹی بیگم اپنی نانی کے یہاں جا پہنچی۔نانی نے نوکر کوبھیج کر پنڈت نند کشور کو یہ سندیسہ بھیجا کہ وہ کسی طرح وقت نکال کر چھوٹی بیگم کے مکان پر تشریف لے آئیں۔بڑا کرم ہوگا۔لہٰذا دوسرے دن فجر کی نماز کے فوراََ بعد پنڈت نند کشور چھوٹی بیگم کے گھر آگئے۔چھوٹی بیگم نے انتہائی محبت و عقیدت سے ان کا خیر مقدم کیا۔ پنڈت نند کشور ایک سچے اور دھارمک ہندو ہونے کے باوجود وہ ایک وسیع النظر ،آزاد خیال اور سیکولر مزاج وضع دار بزرگ تھے۔سنسکرت اور ہندی کے علاوہ وہ اردو ،فارسی اور علم نجوم ورمل کے زبردست عالم بھی تھے۔انھوں نے نہایت ہم دردی اور سنجیدگی کے ساتھ چھوٹی بیگم کے مسائل کوسنا اور لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھول کر چھوٹی بیگم کے دل کو گویا ہرا کردیا۔نذرانے کے طور پر کچھ بھی قبول نہ کیا ۔چھوٹی بیگم کے اصرار پر صرف عطر کی ایک چھوٹی سی شیشی قبول کی اور ہزاروں دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔
فال میں اشارہ یہ تھا کہ وزیر خانم ،نواب شمس الدین احمد خاں سے رشتۂ انسلاک استوار کرے۔یہ اس کے حق میں مناسب ومفید ہے۔حافظ شیرازی کا شعر یوں تھا:
اے پیک راستاں ، خبرِ سرو ما بگو
احوال گل ، بہ بلبل دستاں سرابگو
پنڈت نند کشور کے جانے کے بعد ، چھوٹی بیگم پر عجب کیفیت طاری تھی۔ وہ نواب شمس الدین احمد خاں کو خط لکھنا چاہتی تھی مگر رہ رہ کر سوچتی تھی کیا لکھے اور کیسے لکھے۔اتفاق سے میرحسن کے ایک شعر نے اس کی ہمت افزائی کی۔وہ شعراس طرح تھا:
ذوق تنہائی میں خلل ڈالا
آکے مجھ پاس دو گھڑی تو نیں
درج بالا شعرپر وزیر خانم نے تین مصرعے بطور تضمین لگا کر ایک با معنی مخمس کی شکل دی۔اس کے بعد مینا بازار سے نئے نیزے منگا کر اسے تراشا ۔محلے کے مولوی صاحب کے پاس دو روپے نذرانے کے ساتھ بھیج کران قلموں پر شگاف اور قط لگوائے،پھر اس مخمس کو افشانی کاغذ پر خوش خط لکھ کر خریطہ میں بند کیااور لیچی کے نایاب شہد کے ساتھ نواب شمس الدین خاں کی خدمت میں بھیجا۔نواب شمس الدین احمد خاں نے خط پڑھا اور بہت سے تحائف کے ساتھ خط کا جواب بھی دیاجس میں میر اثرؔ کی غزل بھی نقل کی تھی۔جس کا مطلع اس طرح تھا:
تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں
پر ہمیں آہ کچھ خبر ہی نہیں
نواب صاحب نے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ’’کل شام کفش خانے پر ماحضر تناول فرمائیں‘‘۔
دوسرے دن نواب یوسف علی خاں کی بگھی میں بیٹھ کر وزیر خانم نواب شمس الدین احمد خاں کے مکان واقع دریا گنج جا پہنچی۔نواب صاحب کی کوٹھی انگریزی وضع کی تھی۔ برآمدے میں نواب صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔کوٹھی پر ایک طرح کا سناٹا چھایا ہواتھا کہ اب کیا ظہور میں آتا ہے۔
استقبال کے بعد بہت دیر تک وزیرخانم اور نواب شمس الدین خاں آپس میں التیام ہوتے رہے ۔وزیر کا اشارہ یہ تھا کہ نکاح ہوجائے لیکن نواب صاحب بات کو ٹال رہے تھے۔آخر کار بات کا رخ بدلنے کے لیے انھوں نے کہا’’آئیے کھانا کھائیں‘‘ کھانے کے دوران ہی وزیرخانم نے نواب شمس الدین احمد خاں کا عندیہ سمجھ لیا تھا اس لیے اس نے اس تصور سے اپنے دل کو ڈھارس دی کہ نواب کے لگاؤ کی سنہری لیکن عارضی چھاؤں بہر حال تنہا عمر رسیدگی اور بے یاری کی لمبی پر چھائیوں سے بہترہے۔نواب صاحب سے رخصت ہوکر وزیر ان کی کوٹھی سے ملحق مہمان خانے میں جا پہنچی۔ وہاں کی خادمہ حبیب النسا عرف حبیبہ اور ان کی بیٹی راحت افزا وزیر کے لیے پیش پیش تھیں۔نواب صاحب ، بغیر وزیر سے ملے اندھیرے منھ اپنے علاقہ پہاسوچلے گئے چونکہ وہاں ڈاکوؤں نے مال واسباب کے ساتھ ساتھ ایک لڑکی کابھی اغوا کرلیاتھا۔ راحت افزا نے اخروٹ کا بنا ہوا ایک خوبصورت سا صندوقچہ وزیر خانم کودیا اور کہا کہ نواب صاحب نے آپ کو یہ تحفہ دیا ہے۔وزیرخانم نے صندوقچہ کو کھولا تو اس میں ایک نہایت قیمتی انگوٹھی تھی اور آبی رنگ کے کاغذ پر سنہری زعفرانی روشنائی میں صرف ایک شعر لکھا تھا:
شب کہ عریاں بہ برآں شوخ قدح نوشم بود
یک بغل نور چو فانوس درآغوشم بود
نواب یوسف علی خاں آف رام پور اس بات پر خوش تھے کہ چھوٹی بیگم نواب شمس الدین احمد خاں کے متوسلین میں شامل ہورہی ہے اب اس کی زندگی قدرے محفوظ اور پرسکون ہوگی لیکن ولیم فریزر کی چھاتی پر سانپ لوٹ رہا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ اور بہت سی دیسی عورتوں کی طرح وزیر خانم بھی اس کی رکھیل بن جائے لہٰذا ولیم فریزر نے ایک نہایت گندی اور خطرناک چال چلی۔
وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد کی ملاقات کے تیسرے دن ولیم فریزر کو پتہ چلا کہ پرگنہ پہاسوکے ڈاکو پکڑے گئے لوٹ کی رقم اورقاضی کی دختر بر آمد ہوئی نیز دو ڈاکو سرداروں کو سرِعام پھانسی دے کرنواب شمس الدین نے اپنی مستعدی اور با تدبیری کا ثبوت دیا۔اس کے باوجود بھی ولیم فریزر نواب شمس الدین سے کینہ رکھتا تھا۔اس نے سب سے پہلے نواب گورنر جنرل بہادر کلکتہ کولکھا کہ شمس الدین خاں ایک کمزور اور نکمے والیِ سلطنت ہیں لہٰذالوہارو کا علاقہ ان سے چھین کر ان کے سوتیلے بھائیوں امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کو دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کی پرورش کرسکیں۔اس کے بعد فریزر نے ایک ترکیب اور سوچی ۔اس نے حکم دیا کہ حکیم احسن اللہ خاں کو ریزیڈنسی میں طلب کیا جائے۔ حکیم احسن اللہ خاں ایک خاندانی حکیم تھے ان کا شمار دہلی کے شرفا وعمائدین میں ہوتا تھا۔انھیں اکبر شاہ ثانی کے دربار سے عمدۃ الملک، حاذق الزماں کے خطابات ملے تھے۔وہ بہادر شاہ ثانی کے معالجِ خاص تھے اور بادشاہ نے احترام الدولہ ، عمدۃ الحکما، معتمدالملک ثابت جنگ کے خطابات سے نوازا تھا۔وہ حکیم مومن خان مومن ؔکے ماموں زاد بھائی تھے۔
حکیم احسن اللہ خاں بعد نماز ظہر ریزیڈنسی میں حاضر ہوئے۔فریزر نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ شمس الدین احمد کو یہ خبر کردیں کہ وزیر خانم کسی اور کی نظر چڑھ چکی ہے اور اپنے دل سے اس کا خیال نکال دیں۔فریزر کی بات سنتے ہی حکیم صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ شمس الدین پر نہ کوئی میرا رعب ودبدبہ ہے اور نہ یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کا پیغام نواب تک پہنچاؤں؟بغیر اجازت حکیم صاحب نے فریزر سے آداب کیا اور رخصت ہو گئے۔ فریزر کی اس ذلیل حرکت سے بہادر شاہ ظفر اور نواب شمس الدین کو آگاہ بھی کردیا۔
حکیم احسن اللہ خاں کے اس رویے پرفریزر آپے سے باہر ہوگیااور اس نے یہ طے کیا وہ بذات خود وزیر خانم سے مل کرسارے معاملات طے کرے گا۔دماغ میں خناس لیے حسب معمول وہ ہاتھی پر سوار ہو کر سیر کے لیے نکلااورجان بوجھ کر اپنی سواری سرکی والان کے پھاٹک پر لے گیا۔وزیر کے گھر پر اطلاع دی کہ ریزڈنٹ بہادر وزیر سے شرف ملاقات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔فریزر کا اچانک اس طرح آنا وزیر کو برا تو ضرور لگا لیکن وقت کا تقاضہ تھا کہ فریزر کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔لہٰذا وزیر نے فریزر کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا اور چائے پیش کی۔اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فریزر نے کہا ’’میں ارادے اور نتیجہ کی وحدت کا قائل ہوں‘‘ یہ سنتے ہی وزیر نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کہا کہ ’’آپ وحدت کے اس قدر قائل ہیں تو آئینہ میں منھ نہ دیکھتے ہوں گے۔دیکھ لیتے تو بہتر تھا‘‘ وزیر کی اس بات فریزر اکڑکر کھڑا ہوگیا اور بولا چھوٹی بیگم ! یہ سودا تمھیں مہنگا پڑے گا۔
ولیم فریزر اب نواب شمس الدین کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے نت نئی سازشیں کرنے لگا۔وہ بار بار کلکتہ میں بیٹھے ہوئے گورنر جنرل کو اکساتا کہ وہ شمس الدین کو ان کی موروثی جائداد سے بے دخل کردے۔دوسری طرف فریزر نے شہرمیںیہ افواہ پھیلادی کہ اگرنواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم سے ہمارا نکاح ہوجائے تو کمپنی بہادر مقدمۂ وراثت میں نواب شمس الدین احمد کے دعوے پر ہمدردی کرسکتی ہے۔
کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین اپنے علاقہ فیروز پور جھرکہ لوٹ جاتے ہیں۔۲۵؍مئی ۱۸۳۱ء کو بروز چہار شنبہ بوقت دو بجے دن وزیر خانم کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام نواب مرزا رکھا گیا۔یہی بچہ آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزاخاں داغ ؔ دہلوی کے نام سے جگت استاد بنا۔
نواب شمس الدین خاں اور وزیر بیگم کی قسمت میں ابھی بہت سے اتار چڑھاؤ لکھے تھے ۔ خوشیاں تیزی سے غموں میں بدلتی جارہی تھیں۔حوادث کے سیاہ بادل بڑھے چلے آرہے تھے۔
یہ جولائی ۱۸۳۴ء کی بات ہے۔بارش خوب ہوئی تھی موسم بڑا سہانا تھا۔ولیم فریزر ہوا خوری کے لیے جان بوجھ کر حویلی حسام الدین حیدر کے پھاٹک تک پہنچا۔اس وقت نواب شمس الدین اپنے دوست مظفرالدولہ ناصر الملک میرزا سیف الدین حیدر خاں سیف جنگ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے حویلی کے پھاٹک سے نکل رہے تھے۔فریزر نے ہاتھی رکوایا اور مصنوعی شگفتگی سے بولا۔مظفرالدولہ۔دلاورلملک ۔ تسلیمات عرض کرتا ہوں۔اس کے بعد فریزر نے کہا ۔ دلاورالملک ! جہانگیرہ بیگم کیسی ہیں ؟ سنا ہے نصیب دشمناں ان کا مزاج ناساز ہے ۔جی چاہے تو نور باغ میں جھولے ڈلوادیے جائیں وہاں تشریف لے آئیں ۔ دل بہل جائے گا۔یہ سنتے ہی شمس الدین کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔دراصل ان کی سوتیلی ماں مبارک النسا نے یہ باغ اختر لونی(انگریز) کے ہاتھ بیچ ڈالا تھااور اب وہ باغ فریزر کے رشتے کے بھائی سائمن فریزر کی ملکیت تھی۔سائمن فریزر ، ولیم فریزر کی کوششوںسے دلی کا سٹی مجسٹریٹ اور فریزر کا خاص آدمی تھا۔ان حقائق کی روشنی میں نواب کا غصہ بجا تھا۔
اس کے بعد نواب شمس الدین بلی ماراں سے چاندنی چوک چلے گئے ۔وزیر خانم نے سب باتیں سنیں۔انھیں سمجھایا بجھایا۔شربت وغیرہ پلایا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر تیزی سے باہر چلے گئے۔وزیر خانم پکارتی اور قسمیں دیتی ہی رہ گئی۔نواب صاحب اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر ریزیڈنسی پہنچے ۔وہاں فریزر کے سپاہیوں اور نواب میں خوب ہاتھا پائی ہوئی۔فریزر کے آدمیوں نے نواب صاحب کو نہتا کرکے کوٹھی کے باہر پھینک دیا ۔ان کے کپڑے پھٹ گئے اور جوتیاں غائب ہوگئیں۔نواب کے ملازموں نے انھیںبہ ہزار خرابی چاندنی چوک تک پہنچایا۔وہاں ایک کہرام مچ گیا۔وزیر خانم اور سبھی ماما اصیلوں نے تیمارداری شروع کردی۔دوسری طرف وزیر کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہورہے تھے کہ سوتیلی ماں نے جادو ٹونا نہ کیا ہو، کہیں انگریز ان کی جان کے دشمن نہ بن جائیں۔
دوسرے دن نواب شمس الدین احمدخاں بے دار ہوئے تو کافی تازہ دم تھے۔وزیر سے باتیں کیں ۔ نواب مرزا کو بلا کر خوب پیار کیا ۔نہائے دھوئے اور ناشتہ کیا۔ اپنی بہن جہانگیرہ کی شادی کی غرض سے فیروز پور جھرکہ روانہ ہوگئے۔تین دن کا سفر طے کرنے کے بعد نواب صاحب فیروز پور جھرکہ پہنچے ۔۱۲؍ستمبر ۱۸۳۴ء کو اپنی بہن جہانگیرہ بیگم کا نکاح میرزا اعظم علی اکبرآبادی سے کردیا۔
حسب ِ معمول نواب شمس الدین دوپہر کا کھانا کھا نے کے لیے زنانہ حویلی کی طرف جارہے تھے کہ دلی کا ایک سانڈنی سوار(۱۷) عالی جاہ کے مختار کار بہادر کا عریضہ لے کر نواب کی خدمت میں حاضر ہواجس کا نام انیا میواتی تھا جو نواب شمس الدین کا نوکر تھا ۔ تیزرفتاری ، جفا کشی اور سفر کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے اس کے شہرے دوردور تک تھے۔سات تسلیمیں کرنے کے بعد انیا میواتی نے اپنی پگڑی سے ایک ریشمی تھیلی نکال کردونوں ہاتھوں پر رکھی اور ایک قدم آگے بڑھ کر سر جھکائے ہوئے اپنے ہاتھ نواب شمس الدین احمد خاں کی طرف بڑھا دیے ۔
نواب شمس الدین نے خط کو بغور پڑھا انا للہ وانا الیہ راجعون نواب کے منھ سے نکلا۔خط کا اصل مضمون فارسی میں تھا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:
اعلیٰ حضرت ولیِ نعمت سلامت
’’بعد تسلیمات کے معروض ہے ۔ خبر ملی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر کے آستانۂ عالیہ سے در باب مقدمۂ حضور فیصلہ صادر ہوچکا ہے اور نقل اس فیصلے کی آج صبح ریزیڈنسی پہنچ گئی ہے۔ توقع اور اندیشہ ہے کہ اندر دو تین روزوں کے ریزیڈنٹ بہادر برائے عمل در آمد فیصلہ مزید احکامات جاری فرماویں گے۔یہ تحریر کرتے ہوئے بندے کو نہایت قلق ہے کہ فیصلہ بندہ پرور سلامت کے حسب منشا نہیں ہے۔حکم نواب گورنر جنرل بہادر ہے کہ علاقہ لوہارو کا اور اس کے ماتحت پرگنہ جات تحویل سے اعلیٰ حضرت کے لے لیے جاویں اور ولایت اس خطہ ٔ ملک کی امین الدین احمد بہادر کے سپرد کی جاوے‘‘
خط کو کئی بار پڑھنے کے بعد نواب شمس الدین کے دل میں بیک وقت غصہ ،فکر ، مایوسی اور غم کے بادل چھاگئے۔وہ بالکل سکتے کے عالم میںتھے اور کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے انھیں اب کیا کرنا چاہئے۔ ہاں اس تصور کے نتیجہ میں ان کی مٹھیاں ضرور بھنچ گئی تھیں کہ یہ سب کچھ فریزر کا کیا دھرا ہے۔اسی لمحے ان کا جان نثار اوربچپن کا ساتھی کریم خاں آگیا۔ کریم خاںایک ماہر نشانہ بازتھا اس لیے لوگ اسے ’’بھرمارو‘‘ کہتے تھے۔کریم خاں نے نواب کو حوصلہ دلایا اور وہاں سے غائب ہوگیا۔ ۷؍اکتوبر ۱۸۳۴ء بروز سہ شنبہ کریم خاں اور انیا میواتی گڑ گاؤ ں ہوتے ہوئے دوسرے دن دہلی پہنچے۔کریم خاں کے جاسوس فریزر کے نقل و حرکت کی خبریں کریم خاں تک پہنچانا شروع کرنے لگے۔اسی طرح تین مہینے گزر گئے۔ایک دن خبر ملی کہ فریزر کرسمس منانے دہلی آرہا ہے ۔ابھی وہ دہلی تک نہیں پہنچا تھا کہ نواب شمس الدین کا ایک رقعہ کریم خاں کوملا جس میں اسے فوری طور پر قلعۂ فیروز طلب کیاگیا لیکن اس رقعے پرنہ تو نواب کے دستخط تھے اور نہ مہر تھی۔کاغذ بھی وہ نہ تھا جو دیوان ریاست میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن کریم خاں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ روبکارو(۱۸) خود نواب کی تحریر کردہ نہیںتھی۔اگلے دن صبح کریم خاںنے فیروز پور کے لیے رخت سفر باندھا۔ روانہ ہونے سے قبل اسے یہ خیال آیا کہ رقعے کو حویلی میں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے اور اپنے پاس بھی رکھنا اسے خلاف مصلحت سمجھا۔ نواب کی تحریر کو پرزے کرنا یا نذر آتش کرنا کریم خاں کو گوارا نہ ہوا لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر وہ رقعہ دریا گنج کی حویلی کے سامنے والے کنویں میں ڈال دیا۔دوسرے دن عصر کے وقت کریم خاںقلعۂ فیروز پور جھرکہ پرحاضر ہوگیا۔
دوشنبہ کا دن تھا اور تین مارچ کی تاریخ ،جب کریم خاں اور انیا میواتی دوبارہ دہلی پہنچے۔ان دونوں نے فریزر کے روزانہ پروگراموں پر نظر رکھی ۔اپنے جاسوس بھی اس کام پر لگادیے۔۲۲؍مارچ ۸۳۵ا ء کو رات کاوقت تھا ۔فریزر کی بند بگھی جب کشن گنج سے چلی تو تقریباََ گیارہ بجے کاعمل تھا۔ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا تھا کہ فریزر اتنی رات کو گھر سے باہر وہ بھی نسبتاََ کھلی جگہ پرتھا ۔ اسی شام وہ کشن گڑھ (ہریانہ) کے راجا کلیان سنگھ کے یہاں کھانے پر مدعو تھا۔ کھانے کے بعد رقص وشراب کی محفل دیر تک چلی اور فریزر نے معمول سے بہت زیادہ پی لی تھی۔کلیا ن سنگھ کے ملازموں اور فریزر کے محافظوں نے اسے کسی طرح اٹھا کر بگھی میں ڈال دیا تھا ۔ بگھی کے ساتھ ایک مشکی سوار(۱۹) بھی تھا جسے لوگوں نے اندھیرے میں محافظ سمجھا۔مشکی سوار نے بندوق سے فریزرکے جسم کو چھلنی کردیا اور بھاگ نکلا۔سارے شہر میں فریزر کی موت سے کہرام مچ گیا ۔
دوسرے دن فریزر کی تعزیت کو آنے والوںمیں مرزا غالبؔ اور فتح اللہ بیگ خاں بھی تھے۔کسی زمانے میںفتح اللہ بیگ خاں اور نواب شمس الدین خاں آپس میں رشتے دار اور دوست تھے لیکن آگے چل کر کٹر دشمن بن گئے۔فتح اللہ بیگ فریزر کی لاش کو دیکھ کر اس پر گر پڑے اور کہا کہ ’’ہائے شمس الدین نے تجھے نہ چھوڑا‘‘ یہ جملہ سنتے ہی انگریزوں کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ شمس الدین اور ان کے ملازموں کے پیچھے لگ گئے۔
سائمن فریزر نے دلی کے تمام دروازے بند کرادیے اور ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا دیا لیکن انیا میواتی اتنا شاطر تھا کہ انگریزوں کو چکما دے کر ۲۴؍مارچ ۱۸۳۵ء کو وہ فیروزپور قلعہ کے صدر دروازے پر تھا۔نواب شمس الدین کا سامنا ہوتے ہی سلام کیا اور کہا کہ ’’سرکار کے اقبال سے کام ہوگیا ۔دشمن راستے سے ہٹادیا گیا‘‘ ۔ نواب صاحب انیا میواتی سے خوش ہوکر دس اشرفیاں دلوائیںاور کہا کہ تم فیروز پورمیں ہی ٹھہرو۔انیا میواتی کی چھٹی حس نے اسے ہوشیار کردیا کہ نواب صاحب کا اتنا گہرا راز تمھارے دل میں دفن ہے وہ یقینا تمھیں مروا ڈالیں گے۔یہی سوچ کر انیا اپنے بھا ئی سے ملا اور اسے اپنا رازدار بنا کر فیروز پور سے رفو چکر ہوگیا۔دوسری طرف کریم خاں گرفتا ر ہوکر انگریزوں سے پٹنے لگا۔بہر حال نواب شمس الدین احمد خاں کو فیروز پور جھرکہ سے دہلی آنے کا حکم دیا گیا۔یہ خبر سنتے ہی پنجاب کے راجا مہاراج دھیراج کے سفیر اجاگر سنگھ نے نواب کی خدمت میں حاضر ہوکر پرزور درخواست کی کہ آپ بھیس بدل کر پنجاب بھاگ چلیں لیکن نواب صاحب نے اسے بزدلی سے تعبیر کیا۔دوپہر کے کھانے کے بعدنواب شمس الدین نے فرداََ فرداََ سب سے ملاقات کی۔ بیویوں کو ان مہر کی رقم دی اور دہلی کے لیے رخصت ہوگئے۔شام تک فیروز پور جھرکہ کے بازار بند ہوگئے ایسا لگتا تھا کہ ساری آبادی نے بن باس لے لیا ہے۔
جیسے ہی خبر ملی نواب شمس الدین قلعۂ پالم تک پہنچ چکے ہیں سائمن فریزر اپنے پچاس مسلح سپاہیوں کے ساتھ قلعۂ پالم پہنچ کر انھیں گرفتا ر کرلیا۔کافی قانونی کاروائیوں کے بعد(جوسب کی سب یکطرفہ تھیں)۸؍اگست۱۸۳۵ء بروز سہ شنبہ Alexander John نے یہ فیصلہ کیا کہ نواب شمس الدین اورکریم خاں کو مجمع عام میں پھانسی دے دی جائے۔
۲۶؍اگست ۱۸۳۵ء کی دوپہر کو جامع مسجد فتح پوری چاندنی چوک میں کریم خاں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور ۸؍اکتوبر ۱۸۳۵ ء بروز پنچ شنبہ ۸ بجے دن نواب شمس الدین خاں کو کشمیری دروازے کے باہر کھلی ہوا میں پھانسی دے دی گئی۔آٹھ ہزار کے مجمع نے نواب شمس الدین کو قدم شریف میں دفن کردیا۔
وقت گزرتا رہا ۔مرزا داغ ؔ اپنی خالہ کے ساتھ رام پور چلے گئے اور وزیر خانم کا غم بھی آہستہ آہستہ کم ہوا۔تقریباََ سات سال بعد ۱۱؍اگست ۱۸۴۲ء بروز جمعرات، وزیر خانم کا نکاح نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم کے جیٹھ آغا مرزا تراب علی سے دو طریقوںسے ،پہلے بطریق اہل سنت اور پھر بطریق اثنا عشریہ ہوا۔ وزیر خانم کو مدتوں بعد محسوس ہوا کہ امن وامان اور سلامتی کے چاند اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے ہیںاور خارجی دنیا کی کریہہ ظلمت اب اسے اور اس کے بیٹے نواب مرزا کو بھی نہ چھو سکے گی۔جون ۱۸۴۳ء کو وزیر خانم کو ایک بیٹا پید اہوا جس کا نام شاہ محمد آغا مرز ارکھا گیا ۔ آگے چل کر وہ شائق ؔ اور شاغل ؔ کے نام سے مشہور ہوا۔
نومبر ۱۸۴۳ء کا آغاز تھا جب آغا مرزا تراب علی نے ہاتھیوں اور گھوڑو ں کی خریداری کے لیے سون پور (بہار) جانے کا قصد کیا۔ہندوستان میں جانوروں کا سب سے بڑا میلہ وہاں ہر سال پُوس کی تیسری تاریخ سے لے کر وسط ماگھ یعنی مکر شنکرانتی کے دن(۱۴ جنوری تک) دریائے گنڈک کے کنارے ایک وسیع میدان میں لگتا تھا۔۱۵؍اگہن مطابق ۹؍دسمبر ۱۸۴۳ء کو مرزا آغانے اپنے قافلے کے ساتھ سون پور کے لیے کوچ کیا۔خشکی اور پانی کا سفر کرتے ہو ئے بیس دن کے بعد ۲۹؍دسمبر کو دن چڑھے ان کا قافلہ بخیر وعافیت سون پور پہنچ گیا۔ وہاں مرزا تراب علی کا کاروبار بہت تیز اور منافع بخش رہا۔
سون پور سے واپسی مانک پور روڈ سے ہوئی ۔تراب علی کا ایک تجربہ کار سائیس منیر خاں نے متنبہ کیا کہ یہ راستہ پر خطر ہے یہاں ٹھگ راہ گیروں کو لوٹ کر مار ڈالتے ہیںلیکن آغا مرزا تراب علی نے سائیس کی بات یہ کہہ کر ٹال دی کہ انگریز اس قوم کا قلع قمع کر چکے ہیں۔منیر خاں کی بات سچ ثابت ہوئی جب یہ قافلہ فتح پور ہسوہ سے آگے بڑھا تو درجنوں ٹھگوں نے مکاری سے قافلہ لوٹ لیا۔ مرزا آغا اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور وہیں ایک بڑے گڑھے میں مردوں کو دفن کردیا۔
مرزا تراب علی نے اپنے ساتھیوں کا ایک قافلہ بذریعہ کشتی بھی روانہ کیا تھا۔قافلے کا سردار داروغہ شاہنواز خاں اور منیرخاں نے کاٹھیاواڑ کے حبشی النسل سیدیوں کی مدد سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں ٹھگوں نے لاشوں کو دفن کیا تھا ۔ان لاشوں کو وہاں سے نکال کر قائم گنج میں دوبارہ دفن کیا گیا۔پانچویں دن کی شام کو سوگواروں کا یہ قافلہ رام پور پہنچا۔وزیر خانم نے جب یہ بری خبر سنی تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔
نوٹ: اس موقع پر ’’زخمی سانپ ‘‘ اور ’’کسّی‘‘ کی ذیلی سرخیاں قائم کرکے فاروقی نے ٹھگوں کی مختصر مگر کار آمد تاریخ بیان کی ہے خاص طورپر اس قابل نفریں گروہ کی پیشہ وارانہ اصطلاحات کا ذکر کرکے قارئین کے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔چونکہ مرزا کے قاتل ٹھگ تھے اس لیے ناول کا یہ حصہ قطعاََغیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ مہا کالی کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیںان کا ٹھگی سے گہرا رشتہ ہے اس لیے یہ بات افسانہ ہو کر بھی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔اسی لیے ہم غیر ضروری سمجھ کر بھی اس سے صَرف نظر نہیں کرسکتے۔
مرزا تراب علی کی بے وقت اور اندوہناک موت کے بعد ایک بار پھر وزیر خانم پر پیغمبری وقت آن پڑا۔مرزا آغا کے قریبی اعزہ میں ایک بیوہ بہن نور فاطمہ اور بوڑھی بیوہ پھوپھی امیر النسا تھیں۔ وزیر خانم اپنا بچہ لے کر مرحوم آغا کے پرانے مکان میں منتقل ہوگئی اور نواب مرزا کو ان کی منجھلی خالہ کے پاس بھیج دیا۔حبیبہ اور راحت افزا وزیر خانم کے ساتھ رہیں۔ ایک طرف راحت افزا کی شادی کی فکر وزیر خانم کو ستائے جارہی تھی تو دوسری طرف سسرال کی بیوہ نند اور پھوپھیا ساس ہروقت وزیر کو طعنے مارتیں کی اس نے جس کا بھی ہاتھ پکڑا وہ چل بسا۔کچھ دنوں کے بعد نواب یوسف علی خاں کے والد نواب محمد سعید خاں والیِ رام پورنے وزیر خانم کو اپنے پاس بلا لیااور راحت افزا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرائی۔
دلی میں بہادر شاہ ثانی کا عہد حکومت کافی پرسکون اور پر شکوہ تھا لیکن وزیر خانم کا دل رنج وغم سے بھرا ہواتھا۔وہ اپنی بہن منجھلی بیگم پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی تھی لہٰذا رام پور سے شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو لے کر دلی چلی آئی لیکن دلی شہر اور شاہ جہاں آباد اسے کاٹے کھا تا تھا۔نواب مرزا کی تعلیم البتہ اب رک گئی تھی۔ ملا غیاث رام پوری کی عمدہ تعلیم اور انتھک محنت کی بدولت وہ فارسی اور تاریخ و فلسفہ میں اپنے ہم عمروں میں بڑھ کر تھا۔اسے یقین تھا کہ ایک دن وہ بہت اچھا شاعر اور استاد بن جائے گا۔ حافظہ اتنا اچھا تھا کہ فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔وہ زود گوئی میں بھی کمال رکھتا تھا۔بہت جلدہی نواب مرزا کانام زبانوں پر چڑھ کر سارے شہر میں مشہور ہوچکا تھا خود مرزا غالب ؔ جیسے شاعر کو فکر تھی کہ اس ہونہار لڑکے کو بلوا کر اس کی ہمت افزائی کریں اور ایسا کیا بھی۔
انھیں دنوں خواجہ حیدر علی آتش کی ایک تازہ غزل لکھنؤ سے دہلی آئی جس کا مطلع تھا:
مگر اس کو فریب نرگسِ مستانہ آتا ہے
اُلٹتی ہیں صفیں ، گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
مصر ع اول کو طرح بنا کر بہت سے شعراے دہلی نے غزل کہی ۔جس میں نواب مرزا کے اشعار یوں تھے:
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتاہے
دغا شوخی شرارت بے حیائی فتنہ پردازی
تجھے کچھ اور بھی اے نرگسِ مستانہ آتا ہے
ایک دن نواب مرزاقدم شریف میں اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ کرواپس ہورہا تھا کہ صدر دروازے پر ایک خوبرو اور وجیہہ شخص ہوادار (۲۰)میںبیٹھا تھا ۔وہ شخص مرزا فتح الملک بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزا فخرو اور ہونے والے ولی عہد تھے۔نواب مرزا نے پاس پہنچ کر کورنش(۲۱) بجالائی اور درگاہ سے نکلنے ہی والاتھا کہ ایک چوبدار (۲۲)نے نواب مرزا سے کہا کہ صاحب عالم و عالمیان یاد فرماتے ہیں۔نواب مرزا کے سامنے آتے ہی صاحب عالم نے کہا :
جیتے رہو، ہمیں تمھاری مؤذب کورنش پسند آئی۔کیا نام ہے تمھارا ۔کس کے بیٹے ہو؟ س۔۔۔سرکار م۔۔۔میں نواب شم۔۔۔۔۔شمس الدین احمد خاں کا بیٹا ہوں، نواب مرزا مجھے کہتے ہیں۔
اچھا ۔شمس الدین احمد والیِ فیروز پور جھرکہ و لوہارو کے فرزند ہو؟
سرکار نے درست فرمایا۔
بھئی سبحان اللہ رئیسانہ سبھاؤ کے شخص تھے، یہیں مدفون ہیںاور تم لوگ اب ۔۔۔۔؟
وہ۔۔۔۔تمھاری والی۔۔۔۔اتنا کہہ کر شہزادے نے توقف کیا ۔اسے شاید خیال آگیا کہ مستورات کے بارے میں کچھ پوچھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ اچھا ہمارا سلام کہنا۔
نواب مرزا کو شہزادے کے بارے میں کچھ زیادہ معلو م نہ تھا ۔اِدھر اُدھر سے پتہ لگایا توصرف اتنا معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہیں ۔رمزؔ تخلص کرتے ہیں اور استاد ذوقؔ کے شاگرد ہیں۔
نواب مرزا نے گھر آکر اپنی ماں کو شہزادے سے ملاقات کا ذکر کیا ۔وزیرچپ چاپ سنتی رہی ۔ بعد میں وزیر خانم اپنی خادمہ حبیب النسا سے میرزا فتح الملک کے بارے میںمختلف سوالات پوچھتی رہی۔حبیبہ نے شہزادے کے بارے میں بڑی امید افزا باتیں بتائیں۔ آخر میں یہ تجویز رکھی کہ چلئے بائی جی سے پوچھ لیں۔
دوسرے دن حبیبہ اور وزیر خانم بائی جی کے یہاں پہنچیں۔کوڑیاں گن کر بائی جی نے کہا کہ تمھیں نواب شمس الدین کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ قلعے کی بیگمات کھلے عام مزاروں پر نہیں جاتی ہیں۔وہاں پردے کا بڑا اہتمام ہے۔
تو بائی جی کا حکم ہے کہ میں قلعے کا پیغام قبول کرلوں؟
ہمارا کچھ حکم نہیں بابا۔۔یہ امور ہونے والے ہیں!
اور اس کے بعد میرے دکھ دور ہوجائیں گے بائی جی صاحب ؟
دکھ ،سکھ تو دھوپ چھاؤں کی طرح ہیں۔ہر چیز تغیر پذیر ہے ،قلعے کی بادشاہت کے بھی دن کبھی پورے ہوں گے۔
مولانا امام بخش صہبائی اور حکیم احسن اللہ کی مدد سے ۲۴؍ جنوری ۱۸۴۵ء کو وزیر خانم کا نکاح بعد نماز مغرب فتح الملک مرزا فخرو کے ساتھ بہت دھوم دھام سے ہوگیا۔قلعہ معلی میں بہ طور خاص مبارک سلامت کی بارش ہورہی تھی۔وزیر خانم کو ’’شوکت محل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔نواب مرزا اور شاہ محمد آغا کی پرورش کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا۔کئی ہفتوں تک دعوتوں اور ضیافتوں کا دور چلتا رہا۔گویا وزیر خانم کی زندگی میں ایک نیا سورج طلوع ہوا۔شادی کے بعد اِدھر تو وزیر خانم بادشاہ وقت کی بہو بنیں اور اُدھر نواب مرز اکی شادی فاطمہ رفاعی کے ساتھ ہوگئی۔وزیر خانم اپنی خوش نصیبی پر نازاں تھی مگر تقدیر دور کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہر کمالے را زوال کے مصداق وزیر کے آفتاب مسرت کو بھی گہن لگنے والا تھا۔وزیرخانم کو مرزا فخرو سے ایک بیٹا(خورشید مرزا) پیدا ہوا۔دوبارہ محل میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاںتقسیم ہوئیں۔لیکن افسوس کہ وہ منحوس گھڑی آکر رہی جس سے وزیر ہمیشہ ڈرا کرتی تھی۔
۱۰؍جولائی ۱۸۶۵ء کو مرزا فخرو نے بعارضۂ ہیضہ انتقال کیا ۔وزیر خانم نے اپنا منھ پیٹ لیا ۔بجائے اس کے کہ وزیر خانم کی ساس زینت محل اس بیوہ غمزدہ پر رحم کرتیںاسے نہایت بے رحمی سے محل سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔وزیر خانم ان سے خوب لفظی جنگ کی لیکن آخر نتیجہ صرف اتنا رہا کہ ع
’’شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے‘‘ (ناصرکاظمی)
’’ اگلے دن مغرب کے بعد قلعۂ مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا ۔ایک پالکی میں وزیر ۔ایک بہل پر اس کا اثاث البیت اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا اور خورشید مرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی ۔محافظ خانے
والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونّیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سر اٹھا ئے ہوئے نکل گئے۔ان کے چہرے ہر طرح کے تاثر سے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادرمیں لپٹی اور سرجھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظر نہ آتا تھا‘‘۱؎
درج بالا اقتباس ناول کا اختتامیہ ہے ۔تقدیر ایک مرتبہ پھر وزیر خانم کو وقت کے بھنور میں ڈھکیل دیتی ہے۔ناول نگار نے وزیر خانم کے کردار کے حوالے سے انیسویں صدی کے مرد مرکوز معاشرہ میں ایک عورت کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کرنے کی جدو جہد کو موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔اس جدو جہد کے دوران اس کی زندگی میں جو مختلف موڑ آتے ہیں اور ان مراحل میںوہ جن اشخاص کے رابطے میں آتی ہے وہ اس عہد میں ہندوستان کی سیاسی اور ادبی تاریخ میں قابل ذکر اور اہم مقام کے حامل ہیں ۔ناول نگار نے ناول کے مرکزی کردار کے حوالے سے اس پورے عہد کی تاریخ کو زندہ کردیا ہے۔
آٹھ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل اس ضخیم ناول کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے جیسا عمل ہے ۔اس مشکل کے باوصف یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلاصہ پیش کرتے وقت ان اہم نکات کو بیان کردیا جائے جو ناول کے تخلیقی منظر نامہ کو نمایا ں کردیں۔
٭٭٭

فرہنگ
شبیہ ساز : مشابہ تصویر بنانے والا(Portrait Painter)
(۲) نقّاش : نقش ونگار بنانے والا، مصور۔
(۳) قالین باف : غالیچہ ،قالین بُننے والا
(۴) چوب تراشی : لکڑی پر نقش ونگار بنانا۔
(۵) سادہ کاری : سونے کے تار سے کپڑوں پر بیل بوٹے کاڑھنا۔
(۶) کلدار اشرفیاں : قدیم مقامی سکہ۔
(۷) شاہ عالم اشرفیاں: قدیم بین الاقوامی سکہ۔
(۸) شاگرد پیشہ : نوکر چاکر،ملازموں کے رہنے کے لیے وہ کمرہ جو محل سے قریب ہو
(۹) اصیلیں : باندی ،کنیز، لونڈی۔
(۱۰) ماما : وہ دائی یاخادمہ جو کھانا بناتی ہو۔
(۱۱) چھو چھو : دایہ ، وہ عورت جو لڑکیوںکی خدمت کے لیے مقرر ہوتی ہے۔
(۱۲) ڈومنی پن : گانے بجانے کاشوق، طوائف پن۔
(۱۳) بہلی : چھوٹی بیل گاڑی جو سواری کے کام آتی ہے۔
(۱۴) پنڈاروں : ایک قسم کا آوارہ گرد گروہ، قبیلہ۔
(۱۵) عرب سرائے : قدیم دہلی کا طوائفوں کا ایک علاقہ۔
(۱۶) کیوپڈ : رومیوں کا عشق کا دیوتا۔
(۱۷) سانڈنی سوار : تیز رفتار اونٹنی کی سواری کرنے والا۔
(۱۸)روبکارو : نوابوں کاوہ تحریر نامہ جس میں کوئی حکم صادر کیا گیا ہو۔ایسے
حکم نامہ کو لانے اور لے جانے والے کو ’’روبکارو ‘‘ کہتے ہیں۔
(۱۹) مشکی سوار : سیاہ رنگ کے گھوڑے کی سواری کرنے والا۔
(۲۰) ہوادار : ایک قسم کی ڈولی جو چاروں طرف سے کھلی ہوتی ہے۔
(۲۱) کورنش : درباری سلام کرنے کا طریقہ۔
(۲۲) چوبدار : لاٹھی لے کر نوابوں کے آگے چلنے والا نوکر۔
٭٭٭