My Journey by Rajindar Singh Bedi

Articles

افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل

راجندر سنگھ بیدی

میں معافی چاہوں گا کہ اس مضمون کو لکھنے کے لیے مجھے اپنی ذات سے ہوکر گزرنا پڑرہا ہے۔ آپ اس لیے بھی درگذر کریں گے کہ اتنی بڑی مخلوق کی میں بھی اکائی ہوں ایک،لہٰذا سب کو سمجھنے کے لیے میری نزدیک یہ ضروری ہے کہ پہلے میں اپنے آپ سے سمجھ لوں۔
افسانوی تجربہ کیا ہے؟ مجھے افسانہ سازی کی لت کیسے پڑھی؟ اگر یہ مجھے اور میرے کچھ دوستوں کو پڑی، تو باقی دوسروں کو کیوں نہیں پڑی؟ کیوں نہیں میں کسی فرنانڈس کی طرح گرجے کے سامنے بیٹھا موم بتیاں بیچتا؟
فن کسی شخص میں سوتے کی طرح نہیں پھوٹ نکلتا۔ ایسا نہیں کہ آج رات کو آپ سوئیں گے اور صبح فن کار ہوکر جاگیں گے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں آدمی پیدائشی طور پر فن کار ہے، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے، کہ اس میں صلاحیتیں ہیں، جن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ چاہے وہ اسے جبلت میں ملیں اور یا وہ ریاضت سے ان کا اکتساب کرے، پہلی تو یہ کہ وہ ہر بات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محسوس کرتا ہو، جس کے لیے ایک طرف تو وہ داد تحسین پائے اور دوسری طرف ایسے دکھ اٹھائے، جیسے کہ اس کے بدن پر سے کھال کھینچ لی گئی ہو اور اسے نمک کی کھان سے گزرنا پڑرہا ہو۔ دوسری صلاحیت یہ کہ اس کے کام و دہن اس چرند کی طرح ہو جو منھ چلانے میں خوراک کو ریت اور مٹی سے الگ کرسکے۔ پھر یہ خیال اس کے دل کے کسی کونے میں نہ آئے گا کہ گھاسلیٹ یا بجلی کا زیادہ خرچ ہوگیا۔ یا کاغذ کے ریم کے ریم ضائع ہوگئے۔ وہ جانتا ہو کہ قدرت کے کسی بنیادی قانون کے تحت کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ پھر وہ ڈھیٹ ایسا ہو کہ نقش ثانی کو ہمیشہ نقش اول پر فوقیت دے سکے۔ پھر اپنے فن سے پرے کی باتوں پہ کان دھرے۔ مثلاً موسیقی، اور جان پائے کہ استاد آج کیوں سُر کی تلاش میں بہت دور نکل گیا ہے۔ مصوری کے لیے نگاہ رکھے اور سمجھے کہ وشی واشی میں خطوط کیسی رعنائی اورتوانائی سے ابھرے ہیں۔ اگر یہ ساری صلاحتیں اس میں ہو تو آخر میں ایک معمولی سی بات رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جس ایڈیٹر نے اس کا افسانہ لوٹا دیا ہے، گدھا ہے!
اس کے بعد کوئی بھی چیز افسانے کے عمل کو چھیڑ Trigger ofکرسکتی ہے۔ مثلاً کوئی راہ جاتا اس کی پگڑی اچھال دے، یا کوئی ایسا حادثہ پیش آئے جس پہ اس غریب کا کوئی بس نہ ہو اور جو اسے بے سلامتی کا شکار کردے اور وہ اپنے آپ میں ٹھان لے کہ مجھے اس بے تعاون ، بے رحم دنیا میں کہیں جگہ پانا ہے کچھ بن کے دکھانا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک آدمی خطرے سے دوچار نہیں ہوتا اس میں مدافعت کی وہ قوتیں نہیں ابھرتیں، قدرت کے پاس جن کا بہت بڑا خزانہ ہے۔
نوعمری میں یہ سب باتیں میرے ساتھ ہوئیں اور مجھے یقین ہے کہ تھوڑے سے یا زیادہ فرق کے ساتھ دوسرے فن کاروں پر بھی بیتی ہوں گی۔ اکثر لوگوں کو حادثے پیش آتے ہیں اور وہ گوناگوں مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ وہ فن کے راستے پر سے ہوکر گزرنے کی بجائے کسی اور طرف مڑ لیے۔ صد ہرجا کہ نشیند ، صد راست۔ انھوں نے یا تو اپنے مخصوص کام میں جھنڈے گاڑے اور یا تھک ہار کر جنت کو سدھارے۔ گویا بے عزتی اور پے درپے حادثوں کے بعد کچھ کرنے، بن کر دکھانے کے سلسلے میں اپنے ملک کے ہر اردو داں نوجوان کی طرح غزل کہنے کی کوشش کی، لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ کیوں کہ چھوٹی عمر ہی میں میری شادی ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ میری بات سمجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی معشوق میرے سامنے تھا ہی نہیں۔ اگر تھا تو مجھے بچہ سمجھ کر ٹال جاتا تھا۔ اگر وہ رکے تو میری بیوی جوتا پکڑ کر اسے ہنکا دیتی تھی۔ میں نے تو یہ پڑھ رکھا تھا کہ عشق پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔اس لیے میں چپکے سے بیٹھا اس کا انتظار کرتا اور کرتا ہی رہ گیا۔ میں نے ہجر و وصال، وفا و بے وفائی، رقیب و مستحب کے مضمون شاعروں کے تتبع میں باندھے، مگر وہ سب مجھے جھوٹے اور کھوکھلے لگتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مستحب تو میں خود ہوں۔ رقیب روسیاہ کی کیا مجال جو میرے گھر کے پاس پھٹکے۔ یہ تو شادی کے ان لکھے معاہدے کی دوسری مد ہے، جس کی رو سے اگر رقیب کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ حوالات تو بھجوایا جاسکتا ہے۔ بہت کم لوگ جو فیض کی طرح رقیب کے ساتھ رشتہ پیدا کرسکتے ہیں اور اس کے افادی پہلوسے واقف ہیں۔ گویا زندگی شعر کے سلسلے میں جو بھی تعلیم دیتی ہے، میں اس میں کورا ہی رہا۔ اس کے برعکس میڈم زندگی نے تلافی مافات میں مجھے دوسرے مسئلے دے دئیے۔ مثلاً خانہ داری کے مسئلے ، روزگار کے مسئلے جو کسی طرح بھی عشق کے مسائل سے کم نہ تھے۔ حالات میں ایسا جمود پیدا کردیا اور بدن میں ایسی کپکپی کہ لاہور کے لنڈے بازار سے خریدا ہوا مرانجا مرانج پرانا پھٹا کوٹ بھی مجھے نہ بچا سکا۔
بس، بہت ہولی۔ اب میں اپنی بات بند کرتا ہوں، کیوں کہ ’’گرم کوٹ‘‘ کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا اور کیا نہ ہوا، یہ کچھ لوگ جانتے ہیں، بلکہ کیا نہیں ہوا کے بارے میں انھیں مجھ سے زیادہ واقفیت ہے۔
افسانے اور شعر میں کوئی فرق نہیں۔ ہے تو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ ایک لمبی اور مسلسل بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بحیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔ پھر شعر با۔الخصوص غزل میں آپ عورت سے مخاطب ہیں لیکن افسانے میں کوئی ایسی قباحت نہیں۔ آپ مرد سے بھی بات کررہے ہیں۔ اس لیے زبان کا اتنا رکھ رکھاؤ نہیں۔ غزل کا شعر کسی کھردرے پن کا متحمل نہیں ہوسکتا، لیکن افسانہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کی وجہ سے اس میں کھردرا پن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیز ہوسکے۔ دنیا میں حسین عورت کے لیے جگہ ہے تو اکھڑ مرد کے لیے بھی ہے، جو اپنے اکھڑپن ہی کی وجہ سے صنف نازک کو مرغوب ہے۔ فیصلہ اگرچہ عورت پہ نہیں ، مگر وہ بھی کسی ایسے مرد کو پسند نہیں کرتی جو نقل میں بھی اس کی چال چلے۔ ہمارے نقادوں نے افسانے کو داد بھی دی تو نظم کے راستے سے ہوکر، نثر کی راہ سے نہیں، جس سے اچھے اچھے افسانہ نگاروں کی ریل پٹری سے اتر گئی اور جن کی نہیں اتری تھی، ایسی توصیف سے متاثر ہوکر انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی لائن کے نٹ بولٹ ڈھیلے کرلیے۔
یہ بات طے ہے کہ افسانے کا فن زیادہ ریاضت اور ڈسپلن مانگتا ہے۔ آخر اتنی لمبی اور مسلسل بحر سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہت سی صلاحیتیں اور قوتیں تو ہونی چاہئیں ہی۔ باقی کی اصناف ادب، جن میں ناول بھی شامل ہے، کی طرف جزواً جزواً توجہ دی جاسکتی ہے لیکن افسانے میں جزو کل کو ایک ساتھ رکھ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا ہراول اور آخری دستہ مل کر نہ بڑھیں تو یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ شروع سے ہی لے کر آخر تک لکھ لینے کے بعدپھر آپ ایک لفظ بڑھانے یا دو فقرے کاٹ دینے ہی کے لیے لوٹ سکتے ہیں۔ رد و اضافے کی یہ نسبت میں نے بے خیالی میں قائم نہیں کی۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ افسانے میں ایراد اضافے سے زیادہ ضروری ہے۔ آپ کو ان چیزوں کو قلم زد کرنا ہی ہوگا جو بجائے خود خوبصورت ہوں اور مجموعی تاثر کو زائل کردیں ا ور یا مرکزی خیال سے پرے لے جائیں۔
اب میں ایک چونکا دینے والی بات کرنے جارہا ہوں اور وہ یہ کہ اردو زبان نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ افسانے کے فن لطیف کو اس طریقے سے سمجھ سکے یا قبول کرسکے، جیسے سمجھنا یا قبول کرنا چاہیے۔ میری اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ پیچھے مڑ کر دیکھئے کہ ہر آن آپ نے ڈکشن پر کچھ زیادہ ہی زور دیا ہے۔ اس عمل کا گراف بنایا جائے تو وہ میرؔ، انیسؔ، اور غالبؔ کے بعد نیچے ہی آتا ہوا دکھائی دے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ’فسانۂ آزاد ‘‘ کو افسانہ یا ناول ہی سمجھ کر پڑھا۔ ہم نے اس کا مقابلہ Vanity Fairسے کیا ہے۔ ہم نے آغا حشر کو ہندوستانی شیکسپیئر بھی کہا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ہم نے دونوں میں سے کسی ایک کو نہیں پڑھا اور اگر پڑھا تو فرق کو نہیں سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ پونا فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں ممتحن کی حیثیت سے جب میں نے ایک امیدوار سے سوال کیا…آپ کو کون سے مصنف پسند ہیں تو اس نے آنکھ جھپکے بغیر جواب دیا۔ ’’مجھے تو دو ہی پسند ہیں سر، گلشن نندہ اور شیکسپیئر!‘‘
کبھی ’’ہمایوں ‘‘ اور’ ادبی دنیا‘ کے پرچے فیاض محمود اور عاشق بٹالوی کی توصیف میں کالے تھے اور آج ہم ہی افسانے کی تاریخ میں ان بے چاروں کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ہم نے افسانے میں زور بیان کو اس قدر سراہا ہے کہ ادب تو ایک طرف خود ادیب کو نقصان پہنچایا ہے۔ افسانے میں اظہار کے تخلیقی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ گریز کا ہے۔ لیکن ہمارے شغف ناآشنا کان ،گریز کو معجز بیان کا نام دیتے ہیں۔ ہم ابھی تک داستان گوئی، فلسفہ رانی اور تخلیقی واقعات کو آج یا کل کے کرداروںکی معرفت پیش کردئیے جانے پر سردسھنتے ہیں۔ سردھننے سے مجھے کچھ کد نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ تو ہم کچھ بھی کرکے دھنیں گے ہی کہ ہماری عادت ثانیہ ہوچکی ہے۔ مگر تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب ہم خطیب، مؤرّخ اور فلسفہ بردار ہی کو افسانہ نگار کا نام دیتے ہیں۔
افسانہ کوئی سودیشی Indigenousشے نہیں۔ ہم نے جاتک کہانیاں لکھیں، کتھا ساگر لکھی اور ہم سے لوگ انھیں مغرب لے گئے جہاں انھوں نے کہانی کو فن بنادیا۔ ہیئت میں بے شمار تجربے کیے، جن سے استفادہ کرنے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہے۔ افسانے کے فن کو چھوڑئیے، کسی بھی فن کو جانچنے پرکھنے کے لیے عالمی پیمانے پر اسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی علاحدگی (Isolation)نہیں ہے۔ ملکوں اور قوموں کی حدیں نہیں ہیں۔ بشرطیکہ آپ منٹو کو موپساں اور مجھے چیخوف کے نام سے نہ پکارنے لگیں۔ حالانکہ یہ ممکن ہے کہ میں خود کو کاوا باٹا کہلوانا پسند کروں۔ آپ کو کیسا لگے اگر میں کہوں کہ رام لال اور جوگندر پال ہندوستان کے ہیزش بوہل ہیں اور قرۃ العین حیدر ،ہان سویان! مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ بشرطیکہ ہان سویان کے ہم وطن اسے اپنے دیس کی قرۃ العین حیدر کہیں۔
عجیب دھاندلی ہے نا ۔ معلوم ہوتا ہے اردو اسم بامسمّیٰ ہوتی جارہی ہے۔ ہیزش بوہل کا ایک جج کردار یہ کہتا ہے:
’’…ایسے مقدمے میں انصاف قسم کی کوئی چیز ہی نہیں کیوں کہ ملزم اس کا تقاضا ہی نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی آمریت ہے جس میں انفرادی اظہار اور اخلاقی سہوزمانی (Anachronetic)بات ہے…‘‘
مذکورہ ریاضت اور عالمی پیمانے پہ گردوپیش کی آگہی کے بعد ہی افسانے پر عبور حاصل ہوتا ہے اور جب یہ بات ہوجاتی ہے تو افسانہ لکھنے والے کے اضطرار (Reflexes) کا حصہ ہوجاتا ہے۔ نہ صرف آپ کی بے ارادہ بات سے افسانے کا مواد مل سکتا ہے بلکہ ہر موڑ، ہر نکڑ پہ افسانے بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور وہ تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں سمیٹتے ہوئے افسانہ نگار کے ہاتھ قلم ہوجائیں۔ بہرحال افسانوی تجربے پر عبور حاصل ہوجانے کے بعد افسانہ نگار کو یونان کے اساطیری کردارمی ڈاس کا وہ لمس مل جاتا ہے جس سے ہر بات سونا ہوجاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہندوستان کا افسانہ نگار سونے کو بھی چھوتا ہے تو وہ افسانہ ہوجاتا ہے۔ گھبراہٹ کی بات اس لیے نہیں کہ اتنا سونا پاکر می ڈاس بھی بھوکا مرا تھا۔
افسانہ لکھنے کے عمل میں بھولنا اور یاد رکھنا دونوں عمل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے بڑی بڑی ڈگریوں والے…پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ اچھا افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ کیوں کہ انھیں بھول نہ سکنے کی بیماری ہے۔ میں ایک دماغی تساہل کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ جسے منٹو نے میرے نام ایک خط میں لکھا…’بیدی، تمھاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو،لکھتے ہوئے سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ منٹو کا مطلب ہے۔ میری کہانیوں میں کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہے۔ مگر میں کیا کرتا؟ ایک طرف مجھے فن اور دوسری طرف زبان سے لوہا لینا تھا ۔ اہل زبان اس قدر بے مروّت نکلے کہ انھوں نے اقبال کا بھی لحاظ نہ کیا۔ کسی سے پوچھا آپ اقبال سے ملے تو کیا بات ہوئی۔ بولے، کچھ نہیں، میں ’جی ہاں جی ہاں ‘ کہتا رہا اور وہ ’ہاں جی ہاں جی ‘ کہتے رہے۔ اب کے حالات میں نسبتاً آسانی ہے کیوں کہ سند کے لیے ہمیں کہیں دور نہیں جانا ہے۔ پرسوں ہی ڈاکٹر نارنگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں ایک تحریک چلی ہے جو شوکت صدیقی جیسے ادیبوں کی پورب سے آئی زبان کو ٹکسالی نہیں مانتی۔ بہرحال میں نے منٹو کی تنقید سے فائدہ اٹھایا اور دھیرے دھیرے اپنی کہانی سے ہاتھ کو مار بھگایا۔ لیکن اس کا کیا کروں کہ وہ ادھر ادھر سے ہوکر پھر رونما ہوجاتا ہے۔ وہ بے ادائی کی ادا جس کی طرف منٹو نے اشارہ کیا میرکے الفاظ میں خاک ہی میں مل کر میسّر آتی ہے لیکن یہی بے ادائی اور قلم برداشتگی جہاں منٹو اور کرشن چندر میں مزہ پیدا کرتی تھی، وہیں بدمزگی بھی۔ منٹو کی تنقید کی وجہ سے میری حالت اس عورت کی سی تھی جو مقبوض اور تاراج بھی ہونا چاہتی ہے اور پھر اس کا بدلہ لینا بھی۔ جب میں نے منٹو کے کچھ افسانے میں لاابالی پن دیکھا تو انھیں لکھا…’’منٹو تم میں ایک بری بات ہے اور وہ یہ تم لکھنے سے پہلے سوچتے ہو اور نہ لکھتے وقت سوچتے اور نہ لکھنے کے بعد سوچتے ہو۔‘‘
اس کے بعد منٹو اور مجھ میں خط و کتابت بند ہوگی۔ بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے میری تنقیدکا اتنا بر انہیں مانا جتنا اس بات کا کہ میں لکھوں گا خاک، جب کہ شادی سے پرے مجھے کسی بات کا تجربہ ہی نہیں۔ اس پہ طرفہ یہ کہ میں نہ صرف بھینس کا دودھ پیتا ہوں بلکہ اسے پال بھی رکھا ہے۔ میں انھیں کیسے بتاتا کہ اگر اونٹ کا رشتہ مسلمان سے ہے۔ گائے کا ہندو سے، تو سکھ کا بھی کسی سے ہوسکتا ہے۔
افسانہ ایک شعور، ایک احساس ہے، جو کسی میں پید انہیں کیا جاسکتا۔ اسے محنت سے تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن حاصل کرنے کے بعد بھی آدمی دست بہ دعا ہی رہتا ہے۔ کچھ وافر باتیں سوئے ہضم کی وجہ سے بھی اس میں آجاتی ہیں اور کچھ ذہنی فتور سے…تسکین کی بات صرف اتنی ہے کہ افسانہ ابھی ہمارے ہاتھ سے نکل کر ایڈیٹر کے ہاتھ نہیں پہنچا۔ ہم اس میں ایرادو اضافہ کرسکتے ہیں اور اس پر بات نہ بنے تو پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ اگر ہیمنگ وے پانچ سو صفحے لکھ کر ان میں سے صرف چھیانوے صفحے کا مواد نکال سکتا ہے، تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
اُردو میں بہت عمدہ افسانے لکھے گئے ہیں۔اگر ان کی تعداد گنی چنی ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تقاضے پورا کرنے میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ایمان ہاتھ سے جارہا ہے۔ یہ نہیں جانتے کہ اہم اپنے ہی امیج میں قیدی ہوکر رہ ئے ہیں۔


مشمولہ: ممبئی کے ساہتیہ اکاڈمی انعام یافتگان، مرتب :پروفیسر صاحب علی ، صفحہ نمبر 97تا 104