Josh Malihabadi ki Marsia Nigari by Dr. Jamal Rizvi

Articles

جوشؔ ملیح آبادی کی مرثیہ نگاری

ڈاکٹر جمال رضوی

بیسویں صدی کے اردو مرثیہ کو نئی تخلیقی جہتوں سے آشنا کرنے والوں میں جوشؔ کا نام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کے باوجود جوشؔ شناسی کے ذیل میں ارباب ادب جوشؔ کی مرثیہ نگاری سے بہت کم واقف ہیں۔ جوشؔ اردو شاعری کے ایوان میں شاعر انقلاب و شاعر شباب کی حیثیت سے ایک بلند و بالا ستون کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بحیثیت مرثیہ نگار جوش ؔ ایک عہد ساز اور منفرد مقام کے حامل ہیں۔ جوشؔ کی شاعری کی اس جہت سے ناواقفیت کا سبب عموماً اہل ادب کی اس سہل انگاری میں مضمر ہے کہ اردو مرثیہ نے میرانیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے بعد کوئی ترقی نہیںکی۔ بلاشبہ یہ اکابرین فن مرثیہ نگاری میں درجہ ٔ کمال پر نظر آتے ہیں لیکن یہ مان لینا کہ ان باکمال مرثیہ نگاروں کے بعد اردو مرثیہ کی ترقی کی رفتار معدوم پڑگئی ، حقیقت حال سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔ بیسویں صدی کے اردو مرثیہ کو نئی تخلیقی جہتوں سے آشنا کرنے والوں میں جوشؔ کا نام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کے باوجود جوشؔ شناسی کے ذیل میں ارباب ادب جوشؔ کی مرثیہ نگاری سے بہت کم واقف ہیں۔ جوشؔ اردو شاعری کے ایوان میں شاعر انقلاب و شاعر شباب کی حیثیت سے ایک بلند و بالا ستون کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بحیثیت مرثیہ نگار جوش ؔ ایک عہد ساز اور منفرد مقام کے حامل ہیں۔ جوشؔ کی شاعری کی اس جہت سے ناواقفیت کا سبب عموماً اہل ادب کی اس سہل انگاری میں مضمر ہے کہ اردو مرثیہ نے میرانیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے بعد کوئی ترقی نہیںکی۔ بلاشبہ یہ اکابرین فن مرثیہ نگاری میں درجہ ٔ کمال پر نظر آتے ہیں لیکن یہ مان لینا کہ ان باکمال مرثیہ نگاروں کے بعد اردو مرثیہ کی ترقی کی رفتار معدوم پڑگئی ، حقیقت حال سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔
بیسویں صدی میں جبکہ اردو شعر و ادب میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اردو مرثیہ نے بھی روایتی طرز بیان سے آزاد ہو کر فکر و فن کے نئے گوشوں تک رسائی حاصل کی اور یہ جرات مندانہ اور اجتہادی کارنامہ جوشؔ نے انجام دیا۔ ہر چند کہ جوش ؔ کی ایسی تخلیقات جن میں واقعہ ٔ کربلا یا امام حسین ؑ کی شخصیت کو ایک مرکزی موضوع کے طور پر بیان کیا گیا ہے،کے متعلق ناقدین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخلیقات اردو مرثیہ کی جدید شکل ہیں اور بعض اسے صرف رثائی نظم کہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ ایسی تخلیقات کے متعلق جوشؔ ایک واضح  تخلیقی نظریہ رکھتے تھے جس کا ذکر آئندہ سطور میں ہوگا، یہاں یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ان تخلیقات نے اردو مرثیہ کے کارواں کو آگے بڑھانے میں بہر حال اہم کردار ادا کیا۔جس طرح اردو شاعری کی دیگر اصناف میں فکر و فن کی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوئیں اسی طرح اردو مرثیہ میں بھی یہ تبدیلیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں اور مرثیہ کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے اگر اس نکتے کو مد نظر رکھا جائے تو بجا طور پرجوشؔ کی یہ تخلیقات مرثیہ کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔ انھوں نے کل ۹؍ مراثی کہے جن میں ۸؍مکمل اور ایک نامکمل مرثیہ شامل ہے ۔ ان مراثی اور جوش ؔ کے کچھ سلام کو یکجا کر کے ۱۹۸۱ء میں ضمیر اختر نقوی نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ اس میں شامل مراثی کے عنوان ہیں، آوازۂ حق،حسین ؑ اور انقلاب، موجد و مفکر، وحدت انسانی، طلوع فکر، عظمت انسان (قلم)، آگ، زندگی اور موت(محمد ؐ وآلِ محمدؐ کی نظر میں)، پانی۔ اس کے علاوہ انھوں نے عظمت خاک کے عنوان سے بھی ایک مرثیہ کہاتھا جو کہ نایاب ہے۔ضمیر اختر نقوی نے جوشؔ کے مراثی کی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ جوشؔ نے پانی کے بعد کوئی مرثیہ نہیں کہا لیکن اس سے قبل انہوں نے وفاداری کے عنوان سے ایک مرثیہ شروع کیا تھا لیکن چار بند سے زیادہ نہ کہہ سکے۔ اس کے علاوہ ایک مرثیہ حضرت زینب ؑ کے خطبہ سے متعلق تھا اور یہ بھی نامکمل رہا۔ ان مراثی کے متعلق ضمیر اختر نقوی نے لکھا ہے’ یہ دونوں مرثیے نامکمل ہیں اگر تکمیل پانے کے بعد دونوں مرثیے منظر عام پر آتے تو خیال ہے کہ جوشؔ کے شاہکار مرثیہ ثابت ہوتے۔‘
۱۹۲۰ء میں جوشؔ نے مرثیہ ’آوازہ ٔ حق‘ لکھ کر اردو مرثیہ کو طرز انیسؔ و دبیرؔ کے حصار سے آزاد کر کے اس کے لیے ایک جداگانہ شاہ راہ متعین کی جس پر چل کر جدید اردو مرثیہ ارتقا کی نئی منزلوں سے ہمکنار ہوا۔ عددی اعتبار سے جوشؔ کے مراثی گرچہ کم ہیں لیکن یہ حقیقت مکمل طور سے واضح ہے کہ جدید مرثیہ کا تخلیقی منشور جوشؔ کے مرثیوں سے ہی مرتب ہوتا ہے ۔ اس طرح اردو مرثیہ نگاری میں جوشؔ ایک تاریخ ساز مرثیہ نگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جوشؔ نے جب مرثیہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو اس صنف میں قدیم روایات کا اتباع کرنے کے بجائے منفرد طرز ایجاد کی۔ انہوں نے مرثیہ کا رشتہ براہ راست عصری مسائل سے جوڑ کر مرثیہ نگاری کے تخلیقی کینوس کو وسعت عطا کی۔ یہ ضرور ہے کہ آوازہ ٔ حق میں جوشؔ نے کلاسیکی مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے بعض جزو مثلاً رجز، جنگ اور بین سے استفادہ کیا لیکن مرثیہ کے آخری حصے میں انھوں نے عصری مسائل کا ذکر کرتے ہوئے قوم کو اسوہ ٔ شبیری سے درس لینے کا جو پیغام دیا ہے وہ اس صنف سے متعلق ان کے تخلیقی رویہ واضح کرتا ہے۔ اس مرثیہ کے درج ذیل دو بند جوشؔ کی مرثیہ نگاری کے فکری منشور کو سمجھنے میں معاون ہوں گے۔
قربان ترے نام کے ائے میرے بہادر
توجانِ سیاست تھا تو ایمانِ تدبر
معلوم تھا باطل کے مٹانے کا تجھے گُر
کرتا ہے تری ذات پہ اسلام تفاخر
سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ صداقت کا سبق تھا
تلوار کے نیچے بھی وہی بعرہ ٔ حق تھا
شعلے کو سیاہی سے ملایا نہیں تونے
سر کفر کی چوکھٹ پہ جھکایا نہیں تونے
وہ کون سا غم تھا جو اٹھایا نہیں تونے
بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا نہیں تونے
دامانِ وفا گھر کے شریروں میں نہ چھوڑا
جو راستہ سیدھا تھا وہ تیروں میں نہ چھوڑا
اس مرثیہ کے آخر میں بین کے مسلسل ۹؍ بند لکھنے کے بعد اس کا رشتہ براہ راست قومی مسائل سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ ۹۲؍ بند پر مشتمل اس مرثیہ کے بند نمبر ۸۹؍ میں جلیاں والا باغ کے سانحہ اور تحریک خلافت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور خون ناحق کی لافانی تاثیر اور نام یزید کے درگور ہوجانے سے افراد قوم کو حق پرستی کے لیے جانیں نثار کردینے کا پیغام دیا ہے۔
ائے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسین ؑ ابن علی ؑ ہو
جوش ؔ نے آوازہ ٔ حق میں امام حسین ؑ کی شخصیت کو جس انداز میں بیان کیاہے اس میں مظلومیت کے بجائے مجاہدانہ شان نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ جوشؔ کی انقلابی شاعری کا مجموعی جائزہ لیں تو اس میں ہیرو کا جو تصور ہے وہ بہت کچھ ایسی ہی شخصیت کے مماثل نظر آتا ہے جو حق و صداقت کی بقا کی خاطر اسی طرح جرات مندی اور عزم و حوصلے کا اظہار کرے جیسا کہ امام حسین ؑ نے معرکہ ٔ کربلا میں کیا تھا۔جوشؔ نے جس دور میں مرثیہ نگاری شروع کی تھی وہ دور ملک میں انگریزوں کی حکومت کا دور تھا ۔ برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جوشؔ قوم میں اسی ثبات و عزم کے خواہاں ہیں جو انھیں امام حسین ؑ کی شخصیت میں نظر آیا۔ عزم حسین ؑ کا تصور ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے جوشؔ خود اپنے دل میں ہمت و عزم پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی اس کی تحریک عطا کر سکتے تھے۔ اس تاثر اور تصور کو انہوں نے اپنے مرثیوں میں کامیاب انداز میں پیش کیا ہے۔یہ جذبہ صرف ان کے مرثیوں میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ امام حسین ؑ کی شخصیت کے انقلابی رخ کا پرتو جوش کی بیشتر انقلابی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔ جوشؔ کی شاعری میں نوع انسانی کے لیے جو صبر، استقامت، جاں فروشی اور پیغام عزم و عمل ہے اس کے پس پردہ امام حسین ؑ کی شخصیت کا سیاسی مطالعہ کارفرما ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنے پہلے مرثیے آوازہ ٔ حق میں امام حسین ؑ کے لیے جان ِ سیاست جیسی ترکیب استعمال کر کے کیا تھا۔  مذہب و خدا کے نظریہ کے حوالے سے جوشؔ کی شاعری میں جو تشکیکی رجحان نظر آتا ہے ، ان کے بعض اشعار میں وجود خدا کے متعلق جو سوالیہ نشان نظر آتا ہے ان سب کے باوصف یہ حقیقت ہے کہ جوشؔ ، امام حسین ؑ کی شخصیت سے انتہا درجے تک متاثر تھے اور کسی بھی دور میں امام حسین ؑ سے ان کی شیفتگی میں کمی نہیں آئی۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک رباعی میں اس طرح کیا ہے۔
اوہام کو ہر قدم پر ٹھکراتے ہیں
ادیان سے ہرگام پر ٹکراتے ہیں
لیکن جس وقت کوئی کہتا ہے حسین ؑ
ہر اہل خرابات بھی جھک جاتے ہیں
جوش ؔ کی یہ والہانہ عقیدت جذباتی نوعیت کی نہیں ہے بلکہ جوشؔ اپنی شاعری کے ذریعہ جو پیغام دینا چاہتے تھے اس کے ابلاغ کے لیے امام حسین ؑ کے علاوہ کوئی اور کردار انہیں متاثر نہ کر سکا۔ جوش کے مرثیے، تاریخ مرثیہ نگاری میں وہ مفرد آواز ہیں جن میں واضح سیاسی شعور نظر آتا ہے۔ اس سے ایک طرف جوشؔ نے واقعہ ٔ کربلا کے حوالے سے جنگ آزادی میں فتح یابی حاصل کرنے کا پیغام دیا تو دوسری جانب کربلا کے کینوس کو وسیع تر تناظر میں پیش کر کے اس میں آفاقیت کا عنصر شامل کیا۔
جوشؔ نے ہندوستان قیام کے دوران دومرثیے آوازہ ٔ حق ۱۹۲۰ء اور حسین ؑ اورا نقلاب ۱۹۴۱ء میں کہے۔ ان دونوں مرثیوں کی تخلیق ایک مخصوص نقطہ ٔ نظر کے تحت ہوئی ۔ یہ مراثی آزادی سے قبل کی تصنیف ہیں جن میں انگریز حکومت کی مخالفت اور ملکی عوام میں قوت عزم و عمل کو بیدار کرنے کا جذبہ بنیادی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ جوشؔ نے آوازہ ٔ حق میں گوکہ روایتی مرثیہ کے چند اجزائے ترکیبی سے بھی استفادہ کیا لیکن آخر کے تین بند میں عصر حاضر کے سیاسی و سماجی موضوعات کا بیان کر کے انہوں نے آئندہ کے لیے اس صنف سے متعلق اپنے تخلیقی رجحان کی طرف اشارہ کر دیا اور ان کے اس رجحان کا مکمل اظہار حسین ؑ اور انقلاب میں ہوا۔ اس مرثیہ کے ابتدائی حصے میں جوشؔ نے اعلان امر حق کی راہ میں پیدا ہونے والی دشواریوں کا ذکر کیا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ اس پر خطر راہ پر چلنے کا حوصلہ رکھنے والا ہی دراصل انسانیت کا سچا ہمدرد ہوتا ہے ۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات میں نیکی اور سچائی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امام حسین ؑ کی ذات کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ جب اسلامی معاشرہ میں پرانے رسم و رواج اور جہالتوں کے سائے میں پلنے والے اوہام کے ہاتھوں قیامتیں نازل ہو رہی تھیں اس وقت امام حسین ؑ نے حق کی حمایت میں جو صعوبتیں برادشت کیں ان کی وجہ سے ہی اسلام میں انسانی قدروں کا وجود باقی ہے۔اس دشورا گزار مرحلے سے گزرنے والے پر جو مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے جوشؔ نے کہا
ہوتا ہے جو سماج میں جویائے انقلاب
ملتا ہے اس کو مرتد و زندیق کا خطاب
پہلے تواس کو آنکھ دکھاتے ہیں شیخ و شاب
اس پر بھی وہ نہ چپ ہوتو پھر قوم کا عتاب
بڑھتا ہے ظلم و جور کے تیور لیے ہوئے
تشنیع و طعن و دشنہ و خنجر لیے ہوئے
او ر بالخصوص جب ہو حکومت کا سامنا
رعب و شکوہ و جاہ و جلالت کا سامنا
شاہانِ کج کلاہ کی ہیبت کا سامنا
قرنا و طبل و ناوک و راعت کا سامنا
لاکھوں میں ہے وہ ایک کروڑوں میں فرد ہے
اس وقت جو ثبات دکھائے وہ مرد ہے
اس کے بعد جوشؔ نے برطانوی حکومت کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اس سے آزادی حاصل کرنے کا پیغام دیا ہے اور اس کے لیے امام حسین ؑ کے سے عزم و استقلال کو ضروری بتایا ہے۔ اس مرثیہ میں جوشؔ نے اپنی تمام تر توجہ امام حسین ؑ کے کردار پر مرکوز رکھی ہے لیکن بعض مقامات پر اس جہاد عظیم میں شریک دیگر مقدس شخصیات کا بھی ذکر کیا ہے،خصوصی طور سے شب عاشور کے بیان کے ذیل میں جناب زینب، علی اصغر اور جناب زین العابدین کے علاوہ انصار حسین کے جذبہ ٔ ایثار و قربانی کا ذکر بڑے سوز و گداز کے ساتھ کیا ہے۔
جوشؔ کی مرثیہ نگاری کا دوسرا دور ان کی پاکستانی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس دوران جوشؔ نے کل ۷؍ مرثیے کہے۔ اس دور کے تمام مرثیوں میں خدمت نوع بشر، واقعہ ٔ کربلا کا سیاسی و سماجی پس منظر، قوم کی بے عملی، مردہ ضمیری، انسانی معاشرہ پر ملوکیت اور جبر شاہی کے مہلک اثرات اور عصر حاضر میں حسین ؑ کی ضرورت یہ اجزا قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور کے تمام مرثیوں کے لیے جوشؔ نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جس میں وہ فلسفیانہ انداز میں موضوع کی مناسبت کے حوالے سے عظمت انسان کے نقوش و نشانات کی نشان دہی کر سکیں۔ موجد و مفکر، وحدت انسانی، موت و زندگی، قلم، آگ اور پانی جیسے موضوعات ان کی فکر کے فلسفیانہ رخ کی وضاحت کرتے ہیں۔اس دور کے تمام مرثیوں میں جوشؔ نے امام حسین ؑ کی شخصیت کو ایک ایسے خادم انسانیت کے طور پر پیش کیا ہے جس نے اپنی جان نثار کر کے بقائے انسانیت کویقینی بنایا۔جوشؔ موجد و مفکر میں انسانی تمدن کے ارتقا اور سائنسی ایجادات کے افادی پہلوؤں کی قصیدہ خوانی کریں یا وحدت انسانی میں عالم انسانی کو اتحاد و محبت و اخوت کا درس ان کا مقصود اصلی ہو، ان ذیلی موضوعات کو براہ راست رثائی فضا سے مربوط کرتے وقت گریز کے موقع پر انہوں نے امام حسین ؑ کے کردار کے حوالے سے جو اشاراتی انداز اختیار کیا ہے اس سے ان کے تخلیقی موقف کی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ امام حسین ؑ کی ذات کو ہردور کے انسان کے لیے مخزن ہدایت اور خادم انسانیت کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
تھا انہیں آبائے انسانی میں اک مرد جلیل
قبلہ ٔ عالم، امام عصر، امیر بے عدیل
اعتبار موج کوثر، آبروئے سلسبیل
فخر اسمٰعیل، جانِ مصطفیؐ ، نازِ خلیل ؑ
محور گیتی و گردوں مرکز دنیا و دیں
مہبطِ آواز حق ، مخدوم جبریل امیں
جوشؔ کے مراثی پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان میں مرثیت نہیں ہوتی اور وہ غم انگیز اور الم ناک فضا بھی نہیں ملتی جو مرثیہ کا تقاضا ہے۔ دراصل یہ اعتراض روایتی مرثیہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مرثیہ جب روایتی اجزا کے حصار سے آزاد ہو ا تو بینیہ اور بکائیہ جزو بھی مختلف انداز میں نظم ہوئے۔ جوشؔ جب مصائب کا بیان کرتے ہیں تو شہدائے کربلا کی شہادت کے تفصیلی بیان کے برعکس اجمالی طور پر غم انگیز تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خصوصی توجہ اس بات پر دیتے ہیں کہ شہادت کی فلسفیانہ توضیح کے ذریعہ عزم وعمل کے جذبہ کو مہمیز کریں۔ مثلاً
جوئے خوں میں جو دلیروں کے سفینے آئے
چند پیاسے جو لہو موت کا پینے آئے
مرد جب سر سے کفن باندھ کے جینے آئے
شہریاری کو پسینے پہ پسینے آئے
نبض آقائی ابلیس ہوس چھوٹ گئی
فقر کی ضرب سے شاہی کی کمر ٹوٹ گئی
اللہ، اللہ جہاں کوب حسینی اصحاب
جن کے دریائے شجاعت میں دو عالم غرقاب
اکبر ؑ و ابن مظاہر کا نہیں کوئی جواب
وہ لڑکپن کی جوانی یہ بڑھاپے کا شباب
دونوں جاں باز تھے دونوں ہی جری کیا کہنا
مشعل ِ شام و چراغِ سحری کیا کہنا
جوشؔ کے مرثیوں میں بکا و بین کے متعلق ایک واضح نقطہ ٔ نظر ملتا ہے۔ جوشؔ کے مرثیوں میں شہادت حسین ؑ یا اس کے بعد کے بیان سے افسردگی و یاس کے جذبات نہیں ابھرتے بلکہ کامرانی و فتح مندی کا باب کھلتا ہے۔یہی سبب ہے کہ جوشؔ کے مراثی میں مایوسی کی فضا نہیں ہے بلکہ ایک پرجوش اور ولولہ آمیز ماحول ملتا ہے جو زندگی کی باطل کی قوتوں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔وہ مرثیہ میں بین کے متعلق ایک واضح تخلیقی نظریہ رکھتے تھے جس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ہلال نقوی سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’ مرثیہ گو کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بکا پر تان ٹوٹے ، لکھتے وقت کوئی مصرع یا بند رقت قلب کا آجائے تو وہ اور بات ہے لیکن اس کی نیت یہ نہ ہو کہ رلا کر اٹھائے بلکہ جھنجھوڑ کر اٹھائے ۔ باطل سے ٹکرانے کی حرارت، سلطان جابر کے سامنے حرف حق کہنے کی جرات اور جذبہ تاسی حسین ؑ، ان چیزوں کا پیدا کرنا مرثیہ گو شاعر کا فرض ہونا چاہئے۔‘ جوشؔ کے اس بیان سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ جوشؔ شہادت حسین ؑ پر گریہ و شیون کے مخالف ہیں بلکہ وہ مصائب امام پر بہائے گئے آنسوؤں میں شرار زندگی دیکھنے کے خواہاں تھے۔
جوشؔ نے مرثیہ نگاری میں مقصدیت کے تصور کو استحکام عطا کیا۔ اپنے ابتدائی دور میں انہوں نے انگریز حکومت کی مخالفت کو مطمح نظر بنا کر مرثیے کہے تو ان کی پاکستان ہجرت کے بعد بھی ان کے مرثیوں میں عصری روح اپنے تمام تر سماجی و سیاسی اور معاشی حوالوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ جوشؔ نے واقعہ ٔ کربلا کو محض ایک رسمی اور روایتی بیان کے طورپر نہیں پیش کیا بلکہ بیسویں صدی کے سماج میں اس صنف کی افادیت پر خصوصی توجہ دی ۔ انہوں نے جس بے باکی اور صاف گوئی کے ساتھ استحصالی قوتوں کو للکارا ہے ، ان کی یہ جرات مندانہ بیباکی پاکستان کے سیاسی تناظر میں اس لیے قابل ذکر ہے کہ وہاں کے سیاسی نظام اور حکومت کے رعب کے سبب پاکستان کے کئی اہل قلم حضرات نے مصلحت کوشی اور تملق پسندی کی راہ اختیار کر لی تھی ۔ جوشؔ کی بیباکی اور بلند آہنگی نے نئی نسل کے جدید مرثیہ نگاروں کے قلم کو طاقت اور فکر کو توانائی عطا کی ۔جوشؔ نے مرثیہ نگاری میں جس نئے تخلیقی موڈ کی طرح ڈالی تھی اس نے بیشتر جدید مرثیہ نگاروں کو متاثر کیا اور ہند و پاک کے بہت سے جدید مرثیہ نگاروں کے یہاں جوشؔ کا پرتو واضح طور پر نظر آتا ہے۔


ڈاکٹر جمال رضوی شعبہ اردو ، ممبئی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔تنقید اور صحافت ان کا خاص میدان ہے۔ ایک کتاب ’سخن شناسی ‘ شائع ہوکر اردو حلقے میں مقبول ہوچکی ہے۔