Josh ki Naz’m Kisaan by Dr. Jamal Rizvi

Articles

جوشؔ کی نظم’ کسان‘

ڈاکٹر جمال رضوی

جوش ؔکی شاعری پر گفتگو کے سلسلے میں ناقدین کے یہاں معتدل رجحان کے بجائے عموماً ایسی شدت پسندی نظر آتی ہے جو شاعر کے فنکارانہ خدوخال کو نمایاں کرنے کے برعکس اس میں پیچیدگی اور الجھائو پیدا کردیتی ہے۔اردو ناقدین کا یہ رویہ کبھی جوشؔ کو فن کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا دیتا ہے اور کبھی اس قدر کمتردرجے کا شاعر بنا دیتا ہے جو فکرو فن کی نزاکتوں اور تقاضوں سے نا بلد نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں جوش ؔکی حیثیت متنازعہ فیہ شاعر کی رہی ہے۔جوش ؔکے فن کا تجزیہ کرتے وقت ارباب ِ ادب نے بڑی بے اعتنائی سے کام لیا ہے۔اس سلسلے میں ناقدین کا رویہ اگر معاندانہ نہیں تو منصفانہ بھی نہیں رہا۔ جوشؔ فہمی کے ذیل میں ارباب نقد و نظر کے درمیان دو گروہ نمایاں نظر آتے ہیں ۔ایک گروہ جو جوشؔ کی شاعرانہ صلاحیت کا گرویدہ ہے تو دوسرا جوشؔ کی شاعری کے معائب و نقائص کی نشاندہی کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔تعریف وتنقیص کا یہ سلسلہ جوشؔ کے فن سے تجاوز کرکے ان کی شخصیت کو بھی اپنے دائرے میں لے لیتا ہے ۔جوشؔ کی شعری تفہیم میں ناقدین کے اس رویہ کا ایک بڑا سبب خود جوش ؔکی شخصیت رہی ہے۔ جوش ؔکی شاعری پر گفتگو کے سلسلے میں ناقدین کے یہاں معتدل رجحان کے بجائے عموماً ایسی شدت پسندی نظر آتی ہے جو شاعر کے فنکارانہ خدوخال کو نمایاں کرنے کے برعکس اس میں پیچیدگی اور الجھائو پیدا کردیتی ہے۔اردو ناقدین کا یہ رویہ کبھی جوشؔ کو فن کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا دیتا ہے اور کبھی اس قدر کمتردرجے کا شاعر بنا دیتا ہے جو فکرو فن کی نزاکتوں اور تقاضوں سے نا بلد نظر آتا ہے۔ اردو ادب میں جوش ؔکی حیثیت متنازعہ فیہ شاعر کی رہی ہے۔جوش ؔکے فن کا تجزیہ کرتے وقت ارباب ِ ادب نے بڑی بے اعتنائی سے کام لیا ہے۔اس سلسلے میں ناقدین کا رویہ اگر معاندانہ نہیں تو منصفانہ بھی نہیں رہا۔ جوشؔ فہمی کے ذیل میں ارباب نقد و نظر کے درمیان دو گروہ نمایاں نظر آتے ہیں ۔ایک گروہ جو جوشؔ کی شاعرانہ صلاحیت کا گرویدہ ہے تو دوسرا جوشؔ کی شاعری کے معائب و نقائص کی نشاندہی کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔تعریف وتنقیص کا یہ سلسلہ جوشؔ کے فن سے تجاوز کرکے ان کی شخصیت کو بھی اپنے دائرے میں لے لیتا ہے ۔جوشؔ کی شعری تفہیم میں ناقدین کے اس رویہ کا ایک بڑا سبب خود جوش ؔکی شخصیت رہی ہے۔
جوشؔ کی سوانح سے واقفیت رکھنے والے اس کی تائید کریں گے کہ جوشؔکے مزاج میں سنجیدگی ،استحکام اور غوروفکر کم اور لا ابالی پن ،جذباتیت اور اشتعال زیادہ تھا۔وہ جس نسبی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی تھی اس کے اثرات آخر عمر تک ان کی شخصیت پر نظر آتے ہیں۔جوشؔ نے اپنی شاعری میں غریبوں اور مزدوروں کی حمایت میں گرچہ بہت کچھ کہا لیکن وہ اپنے خاندان کے جاگیردارانہ پس منظر کے حصار سے پوری طرح آزاد نہ ہو سکے تھے۔ یہ ایک نمایاں سبب ہے کہ ان کی انقلابی نظموں اور سماجی موضوعات پر لکھی گئی نظموں میں بعض اوقات ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو حقیقت سے قریب ہونا تودور کی بات ہے بعید از قیاس ہوتی ہیں ۔ وہ کسی موضوع کا جو مخصوص خاکہ اپنے ذہن میں مرتب کرلیتے تھے اسے ہی اشعار کے سانچے میں ڈھال دیتے تھے اور اس پر ان کی توجہ کم ہوتی تھی کہ موضوع کے متعلقات میں اصلیت ہے یا نہیں۔دوسرے یہ کہ جوشؔ کی شخصیت پر نرگسیت کا غلبہ اس حد تک رہا کہ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔اس کا اثر یہ ہوا کہ خود پسندی ان کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔اس کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ ناقدین ادب جوشؔ کی شاعری کے معائب و کمیاں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نکالنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جوشؔ کی ان تخلیقات کو بھی در خور اعتنا نہیںسمجھا گیا جو موضوع اور طرز کے اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہیں۔نظم ’کسان‘ کا شمار بھی جوشؔ کی ایسی تخلیقات میں ہوتا ہے جو موضوع کے اعتبار سے انفرادی مقام رکھتی ہے۔
نظم ’کسان‘ کو جوشؔ کی چند اہم نظموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔لیکن عصر ِ حاضر کے بعض ناقدین اسے ایک ناکام اور غیر موثر نظم قرار دیتے ہیں جس میں جوش ؔنے صرف الفاظ کی بازی گری کے مظاہرپیش کئے ہیں۔ ان ناقدین کا اعتراض ہے کہ جس طرح جوشؔ کی بیشتر شاعری میں الفاظ کے استعمال پر ماہرانہ قدرت کا رجحان نظر آتا ہے ویسے ہی اس نظم کو بھی جوشؔ نے الفاظ کا گورکھ دھندہ بنا دیا ہے۔ تفہیم جوشؔ کے سلسلے میں ایسے ناقدین بھی نظر آتے ہیں جوانھیں سرے سے شاعر ہی نہیں تسلیم کرتے۔ایسے ناقدین کا ماننا ہے کہ جوشؔ کے یہاں افکار کی وسعت نہیں ہے اور وہ کسی معمولی سے موضوع کو کثرت الفاظ سے ایسا طول دیتے ہیں کہ بعض اوقات وہ موضوع بجائے خود مبہم ہو جاتا ہے۔ ان ناقدین کا اصرار یہ بھی ہے کہ چونکہ تند مزاجی اور تنک مزاجی جوشؔ کی شخصیت میںجزو لاینفک کی صورت شامل تھی اس لئے وہ کسی واقعہ کو اگر اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں تو اس میں سطحی قسم کے جذبات کی فراوانی ہوتی ہے ا ور اس وجہ سے ان کے یہاں موضوعات گرچہ آفاقی اہمیت کے حامل ہیں لیکن جب وہ شعر کی صورت اختیار کرتے ہیں تو ان میں تاثر کی کمی کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔بعض ناقدین جوشؔ کی نظم کسان کو بھی اسی زمرے میں رکھتے ہیں ۔ان ناقدین کا اس نظم پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ جوشؔ نے حسب ِ عادت اس میں بھی الفاظ کے استعمال کا کرتب دکھایا ہے اور منفرد و انوکھے اشعارات و تشبیہات وضع کرنے کی ان کی کوشش نے اس نظم کو بے کیف و بے اثر بنا دیا ہے۔نظم کے آغاز میں جوشؔ نے کسان کی شخصیت کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس کے مطابق کھیتوں میں حل چلانے والا یہ کسان فطرت کا ایسا ماہر نباض ہے جو بس ایک نظر آسمان کی جانب دیکھ کر موسم کا مزاج اور آئندہ اس میں ہونے والی تبدیلی کا پتہ چلا لیتا ہے وہی کسان نظم کے اختتام پر بھوک و افلاس محرومی اور مایوسی کی تصویر بن جاتا ہے۔کسی شاعر کے متعلق کسی تنقید نگارکے نظریہ میں تبدیلی صحت مند تنقید ی طرزِ عمل کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ساتھ ہی یہ عمل نقاد کے نظر اور نظریہ میں وسعت اور ہمہ گیریت کا ثبوت ہے۔لیکن جوشؔ کے معاملے میں ناقدین کا رویہ بعض اوقات غیر معتدل اور شدت پسندانہ رہا ہے۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ جوشؔ کی شاعری پر گفتگو کے وقت بیشتر ناقدین نے بعض نظریاتی تحفظات قائم کرلیے جس سے باہر دیکھنے کی کوشش ان کے یہاں نظر نہیں آتی۔اس کا ایک سبب جوشؔ کی بیباکی ،انانیت اور بعض دفع ان کی خود پسندی رہی اور دوسرے ان کے خدا و مذہب سے متعلق نظریات، جن کی وجہ سے بعض کے نزدیک وہ کافر و ملحد تک ہو گئے تھے۔اس کے علاوہ پاکستان ہجرت کے بعد وہاں کی ادبی دنیا میں ان کا جو مخصوص حلقۂ احباب تھا وہ بھی اس ضمن میں ایک اہم سبب بنا۔ خلیق انجم نے ’جوشؔ ملیح آبادی :تنقیدی جائزہ‘ کے حرف آغاز میں جوشؔ کی شخصیت اور فن کے متعلق جن اہم نکات کا ذکر کیا ہے اس کے حوالے سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی تخلیق کار اوراس کے فن پر گفتگو میںمسلکی اختلاف کو بھی ایک اہم حوالے کے طور پر مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔جوشؔ کے سلسلے میں یہ رویہ ناقدین کے یہاں کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے۔
اس مضمون میں چونکہ سردست جوشؔ کی نظم کسان کے متعلق چند باتیں عرض کرنا مقصود ہے لہٰذا اس نظم کے متعلق جو سب سے اہم اور قابلِ غورحقیقت ہے وہ یہ کہ جوشؔ نے جس زمانے میں کسان ،مفلس اور محنت کش خاتون کو شاعری کا موضوع بنایا تھا اس عہد تک اردو شاعری محبوبِ فتنہ گرکی عشوہ گری اور شبستانِ جاناں سے باہر قدم رکھنے کا حوصلہ عموماً اپنے اندر نہیں پیدا کر سکی تھی ۔ایسے دور میں جوشؔ نے ۱۹۲۹ء میں یہ نظم لکھ کر اپنی شاعری کے سماجی سروکار کی طرف اشارہ کیا تھا۔اس اعتبار سے اردو شاعری میں جوشؔ کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر فضل امام نے لکھا ہے:
’’جوشؔ کی انقلابی شاعری کا یہ سب سے نمایاں کارنامہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے ’’کسان‘‘ اور اس کے ’’ھل‘‘ کو موضوع ِ شاعری بنایا ۔ اس کے قبل کسی بھی شاعر نے غریب ،مفلس ،سیاسی رتھ کے پہیوں میں کچلے ہوئے ’’کسان‘‘ اور اس کے ’’ھل‘‘ کو منہ نہیں لگایا تھا۔جوشؔ کی اس طرح کی موضوعاتی نظموں میں ھندوستان کے گائوں اور دور دراز علاقے کی جمالیات کے مرقعے بھی نگاہوں میں کھپ جاتے ہیں اور ایک اپنے پن کا  احساس دلوں میں انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔‘‘    (انتخابِ کلیات ِ جوشؔ ص ۲۳)
جوشؔ نے معاشرہ کے استحصال زدہ کردار کو نظم کا موضوع بنا کر شاعری کی سماجی وابستگی کو ترجیح تو دی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موضوع کے برتنے میں انھیں کس حد تک کامیابی ملی؟ نظمیہ شاعری کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ شاعر جس موضوع پر اظہارِ خیال کرے اس کا ایک واضح خاکہ مرتب ہونے کے علاوہ اس کے متعلقات اور دیگر امکانی پہلو بھی ایک حد تک عیاں ہوجائیں۔اس حوالے سے جوشؔ کی یہ نظم عمومی طور پر کامیاب نظم نہیں کہی جا سکتی لیکن انھوں نے کسان کے حوالے سے انسانی سماج کے جس مخصوص پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی اس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے۔ تاہم اس نظم کے حوالے سے ان کی شاعری پر جو اعتراضات کئے گئے ان میں ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ نظم کسان کی شخصیت کا واضح تاثر قائم کرنے میں ناکام ہے۔نظم میں کسان کی شخصیت حرکت و عمل سے بیگانہ نظر آتی ہے۔ وہ وقت اور حالات سے نبردآزما ہونے کے بجائے ان پر اکتفا کرتا ہے اور جس شخصیت میں جوش و جذبہ کا اظہار موجِ دریا کے تموج کی طرح ہونا چاہئے وہ مایوسی اور محرومی کی تصویر نظرآتاہے۔کسان اپنے بیوی بچوں کی فاقہ کشی پر کڑھتا تو ہے لیکن اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوئی تدبیر کرتا نظر نہیں آتا ۔جوشؔ کے شاعرانہ افکار کے حوالے سے اس نظم پر ایسے اعتراضات عموماًکیے جاتے ہیں۔
اس نظم پر دوسرا اعتراض جوشؔ کی شاعری پر بیشتر ناقدین کی آرا میں عمومی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اعتراض شاعری کے فن کے حوالے سے ہے۔اس نظم کے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ جوشؔ نادر تشبیہات و استعارات اور بعض دفع حیرت انگیز تراکیب وضع کرنے کے چکر میں موضوع کومبہم اورکبھی کبھی بے معنی بنا دیتے ہیں۔یہ عمل ان کی شاعری کو طول دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تاثر کا فقدان بھی اس کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔دوسرے یہ کہ الفاظ کے کثرت استعمال کی وجہ سے فکر میں وسعت پیدا ہونے کے بجائے موضوع میں تکرار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔رشید حسن خان نے نظم کسان کے حوالے  سے جوشؔ کی شاعری کے اس طرز کے متعلق لکھا ہے:
’’ان کی ایک اور مشہور نظم ہے ’’کسان‘‘ اس میں ’’ہل’’ کے لئے جو تشبیہیں لائی گئی ہیں اور ’کسان‘‘ کو جن صفات سے متصف کیا گیا ہے،ان میں بجائے خود کیسی ہی اور کتنی ہی خوبیاں ہوں مگر وہ ’’ہل‘‘ اور ’’کسان‘‘ کی اصل شکل و صورت کو اس قدر بدل دیتی ہیں کہ ان دونوں کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔لوہے سے بنے ہوئے ہل کو دیکھئے اور پھر ان تشبیہوں کے آرائش کدے کو دیکھئے جہاں رنگ و بو کی موجیں اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔شاعر کے بے محابا ذوق تشبیہ تراشی کی تسکین ہو جاتی ہے، لفظوں کا ہجوم بھی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے،لیکن اصل موضوع کا چہرہ مہرہ بگڑ جاتا ہے۔‘‘           (جوش ملیح آبادی :تنقیدی جائزہ ص۱۷۲)
اس نظم پر اعتراض کرتے ہوئے رشید حسن خاں نے مزید لکھا ہے کہ ’’ہل‘‘ کے لئے جو تشبیہیں استعمال کی گئی ہیں اور کسان کو جن خطابات سے نوازا گیا ہے وہ غیر موزوں ہیں۔اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ نظم کا آخری حصہ جس میں کسان کے فاقہ زدہ بچوں کا ذکر ہے،وہ سابقہ جزو پر پھبتی معلوم ہوتا ہے۔ بقول رشید حسن خاں آخری حصہ غیر موثر اور کمزور اس لئے ہے کہ جوشؔ نظم کے اس جزو میں مرصع کاری کا وہ کارنامہ انجام نہیں دے سکے جو اس کے قبل کے حصوں میں نظر آتا ہے۔
عموماً نظم جب کسی موضوع پر لکھی جاتی ہے تو مرکزی موضوع کی توضیح و تشریح کے وقت اکثر نظم کے مختلف اجزا کا آہنگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔کسی صورت حال یا مخصوص کیفیت کو بیان کرنے کے لئے شاعر جن الفاظ کا استعمال کرتا ہے اگر ان کا صوتی آہنگ اس صورتحال یا کیفیت کی ترجمانی مکمل طور پر نہ کرسکے تو ایسی شاعری بے اثر کہلاتی ہے۔اس اعتبار سے مختلف اجزاسے ترتیب پانے والی کسی نظم کے مختلف حصوں میں صوری اختلاف ہو توبھی ایسی شاعری کو ناقص تب تک نہیںقرار دیا جا سکتا جب تک اس میں معنوی سطح پر انتشار نہ ظاہر ہو۔چونکہ جوشؔ کی یہ نظم بھی ایک مرکزی موضوع کے تحت ظاہری طور پر ۵؍ حصوں سے تشکیل پاتی ہے اور ہر جزو کسی خاص صورتحال ،منظر، واقعہ یا کیفیت کو بیان کرتا ہے ،لہٰذا بیان کے حسبِ موزوں لفظیات کا استعمال شاعری کی فنی نزاکتوں سے شاعر کی واقفیت کو ثابت کرتا ہے۔
نظم کے ابتدائی حصے میں غروبِ آفتاب کے وقت کا منظر بیان کر کے خوشگوار تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۹؍ اشعار پر مشتمل اس حصے میں جوشؔ نے فطرت کی منظر کشی اپنے اسی مخصوص انداز میں کی ہے جس کی وجہ سے انھیں ’’شاعرِ فطرت‘‘ بھی کہا گیا۔یہ حصہ نظم کا تمہیدی حصہ ہے اس لئے جوشؔ نے فطرت کے ایک حسین منظر کو بیان کرکے نظم میں فرحت بخش تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ وہ منظر کی واضح تصویرنہیں پیش کرسکے ۔منظر کی پیشکش میں حقیقت بیانی کے بجائے بے ربط تخیل کا غلبہ اس حد تک ہے کہ منظر کے مختلف لوازم میں تضاد نمایاں ہے۔مطلع میں شفق اور غروب ِ آفتاب کا ذکر یہ ظاہر کرتا ہے کہ آفتاب مکمل طور پر روپوش نہیں ہوا ہے بلکہ غروب کا عمل جاری ہے۔نظم کا پہلالفظ ’’جھٹپٹے‘‘ بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابھی مکمل تاریکی نہیں پھیلی ہے۔ لیکن اسی حصہ میں ایسے مصرعے بھی ہیں جو رات ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔ ’’ تیرگی میں کھیتوں کے درمیاں کا فاصلا‘‘ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سورج مکمل طور پر غروب ہو گیا اس لیے تاریکی کا ذکر عین فطری ہے ۔تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر نظم کے چوتھے حصہ میں شفق کا ذکر کیوں کر کیا گیا کیونکہ رات کی تاریکی اور شفق کی سرخی کا تصور بیک وقت ممکن نہیں ہے۔اس کے علاوہ ’’ بام گردوں پر کسی کے روٹھ جانے کی شان‘‘ جیسے مصرعے محض طول کلام کے لئے لکھے گئے ہیں۔جوش ؔکو شاید یہ گمان تھا کہ خوبصورت الفاظ جمع کر دینے سے کوئی منظر خوشنما ہو جاتا ہے۔اگر کسی حد تک اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے منظرسے اصلیت مفقود ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ منظر بقیہ نظم کی تو ضیح کے لئے موثر پس منظر کا کام دینے کی بجائے غیر موثر آغاز کے طور پر پوری نظم کو ایک حد تک متاثر کرتاہے۔
تمہید کے بعد والے جزو میں کسان کی شخصیت بیان کی گئی ہے۔یہ جزو نظم کے بقیہ جزو سے زیادہ طویل ہے اور جوشؔ نے کسان کی ذات کو دنیا کی حرکت و عمل کا موجب قرار دیا ہے۔۲۲؍ اشعار پر مشتمل اس جزو میں جوشؔ نے کسان کو تہذیب و تمدن اور انسانی ارتقا کا علم بردار بتایا ہے۔جوشؔ نے کسان کی شخصیت کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے جو طرز بیان اختیار کیا ہے اس میں فکر کی سنجیدگی کے بجائے تخیل کی چاشنی زیادہ نظر آتی ہے۔ بعض دفع یہ تخیل نظم کے مرکزی موضوع سے بے ربط سا محسوس ہوتا ہے اور کسان کی شخصیت کے خدوخال اور اس کے طرزِ حیات کا بیان ایک حد تک مبہم ہو جاتا ہے۔اس حصے میں بھی بعض اشعار ایسے ہیں جو اضافی محسوس ہوتے ہیں اور جنھیں حذف کر دیاجائے تو بھی نظم کی بنت کاری پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔اس جزو کے آغاز میں کسان کو خطابات سے نوازتے ہوئے اختصار سے کام لیا جا سکتا تھا لیکن طول بیانی چونکہ جوشؔ کی شاعری میں پسندیدہ روش اور غالب رجحان کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے اس موقع پر بھی اس کے مظاہر نظر آتے ہیں۔اس حصے میں جوشؔ نے جس قدرجزیات نگاری سے کام لیا ہے وہ نظم کی روانی کو متاثر کرتی ہے۔کسان کی محنت و مشقت کو نوع آدم کی بقا کا ضامن بتایا گیا ہے۔کائنات کی رنگینی اور تابانی ،معاشرہ کی مختلف سر گرمیاں اور انسانی تمدن کے سلسلے کا مدار کسان کی ذات پر ہے۔اس میں کلام نہیں کہ معاشرتی نظام کے ڈھانچے کو مضبوط و مستحکم بنانے میں کسان کلیدی رول ادا کرتا ہے اور انسانی تمدن کی تاریخ اس کی رہین منت ہے لیکن جوشؔ کسان کی صفات بیان کر تے وقت بعض ایسی باتیں بھی بیان کر جاتے ہیں جو گرچہ ایک حد تک حقائق کا درجہ رکھتی ہیں لیکن ان کے اظہار کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ نظم کے مرکزی خیال سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس نظم میں کسان کے حوالے سے جوشؔ نظامِ حکومت اور اربابِ اقتدار کوہدف تنقید بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن الفاظ کی مرصع کاری انھیں مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دیتی۔
کسان جو کہ ارتقا کا پیشوا اور تہذیب کا پروردگار ہے،جو ماہرآئینِ قدرت اور ناظم بزم جہاں ہے ،وہی کسان محنت و مشقت کے باوجود اپنے بیوی بچوں کے لئے پیٹ بھر کھانے کا انتظام نہیں کر پاتا۔جوشؔ نے سرمایہ داری کو کسان اور اس کے بیوی بچوں کی فاقہ کشی کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن کسان کی شخصیت کا بیان کرتے وقت وہ ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں :
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روئے شاہ
جس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عز ووقار
کرتی ہے دریوزئہ تابش کلاہِ تاجدار
ع سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی  ع جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرورِ شہریار
ان مصرعوں میں کسان کی شخصیت کو جس تاثر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس کے بعد یہ تصور دشوار ہوجاتا ہے کہ حاکم و بادشاہ جس کے حضور گدا کی حیثیت رکھتے ہوں،جو تخریبی قوتوں کو سرنگوں کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتا ہو اور جس کی قوت و طاقت شہریاروں کے لئے باعث غرور ہو ایسا شخص اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا بھی انتظام نہیں کر سکتا۔جوش ؔمعاشرہ میں کسان کی اہمیت اور اس کی جاں فشانی کو صاحبان اقتدار کے جاہ و حشم کا ایک بڑا سبب قرار دیتے ہیں لیکن درج بالا مصرعوں میں جس طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان سے جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ بالکل مختلف ہے۔آخر کے دو مصرعوں میں بیان کا انداز اس قدر موضوع سے بے ربط ہے کہ ان میں بیان کردہ شخصیت کسان کے بجائے کسی فوجی کی نظر آتی ہے۔ اس حصہ کے آخری دو شعروں سے کسان کی شخصیت کا ایک حد تک اصلی روپ نظر آتا ہے:
دھوپ کے جھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منہ ،گھر کی جانب ہے رواں
ٹوکرا سر پر ،بغل میں پھاوڑا، تیوری پر بل
سامنے بیلوں کی جوڑی،دوش پر مضبوط ہل
اس کے بعد نظم کا جو تیسرا جزو ہے وہ ’ہل‘ کے بیان پر مشتمل ہے۔۸؍ اشعار میں جوشؔ نے ہل کا جو بیان کیا ہے اس میں بھی رنگین بیانی سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔یہ رنگین بیانی ہل کو ایک آہنی آلہ کے بجائے کسی نرم و ناز ک سی شئے کے روپ میں منعکس کرتی ہے۔اس رنگین بیانی کی انتہا یہ ہے کہ ہل پر شفق کی لالی پڑنے سے جو چمک پیدا ہوتی ہے وہ ہلالِ عید کی درخشانی کی طرح ہے۔ہل کے بیان پر مشتمل یہ جزو مکمل طور پر اصلیت سے عاری نہیں ہے بلکہ اس میں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں شعری جمالیات کے ساتھ ساتھ حقیقت کا پر تو نمایاں ہے:
خوشنما شہروں کا بانی ،راز فطرت کا سراغ
خاندانِ تیغ جوہر دار کا چشم و چراغ
دھار پر جس کی چمن پرور شگوفوں کا نظام
شامِ زیرِ ارض کو صبح درخشاں کا پیام
ڈوبتا ہے خاک میں جو روح دوڑاتا ہوا
مضمحل ذروں کی موسیقی کو چونکاتا ہوا
اس نظم کی تخلیق کے مقصد کو مدِ نظر رکھیں ،جس کا اظہار نظم کے اختتامی حصے میں ہوا ہے تو یہ جزو اضافی ہی نہیں بلکہ ایک حد تک غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ایک حد تک اس لئے کہ جوشؔ جس امیجری کو پس منظر کے طور پر استعما ل کرکے کسان کی حرماںنصیبی کو نمایاںکرنا چاہتے ہیںاس اعتبار سے یہ جزو اپنے بیان کا جواز رکھتا ہے۔کسان کے دھوپ سے جھلسے ہوئے چہرے پر مشقت کے نشان کا ذکر کرنے کے بعد جب وہ ہل کی تابش میں ہلال عید کی درخشانی کا بیان کرتے ہیں تو نظم کی تخلیق کے اصل مقصد کو بہت حد تک نمایاں کردیتے ہیںجس کا بھر پور اظہار نظم کے آخری دو حصوں میں ہوا ہے۔۷؍ اشعار پر مشتمل یہ دو حصے ہی دراصل اس نظم کی تخلیق کے اصل محرک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نظم کے اختتام سے قبل والے حصے میں سیاست کے حوالے سے انگریز حکومت کو ہدف بنایا گیا ہے۔اس حکومت کاا صل مقصد ہی ہندوستان کی زیادہ سے زیادہ دولت کو اپنے ملک منتقل کرنا تھا۔کسان اس حقیقت سے واقف تو ہے لیکن سیاسی رتھ کے پہیوں سے اپنی مشقت کو محفوظ رکھنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ ان غیر ملکیوں کے ظلم سے نجات پانے کے لئے اگر وہ اثر و رسوخ رکھنے والے ہم وطنوں کے پاس جاتا ہے تو وہ بھی اس کا خون چوسنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اربابِ اقتدار کے ذریعہ کسان کے استحصال کو بیان کرتے ہوئے جوشؔ نے کہا :
اس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جس میں آجاتی ہے تیزی کھیتیوں کو روند کر
اپنی دولت کو جگر پر تیر غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ہے ملک دشمن کی طرف جاتے ہوئے
اس نظم کے آخری حصے میں کسان کے تشویش ناک حالات کے حوالے سے سرمایہ داری کے مظالم کا ذکر کیا گیا ہے۔اس طرح جوشؔ نے جس سماجی خاکہ کو پیش کیا ہے اس میں صاحبِ اختیار افراد کے ہاتھوں محنت کش ،غریب انسانوں کے استحصال کو مرکزی حیثیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ جوش ؔنے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ استحصال کرنے والی قوتوں کے نزدیک رنگ و نسل ،قوم و مذہب کوئی معنی نہیں رکھتے۔اسی لئے ایک طرف اگر انگریز حاکم کسانوں کا استحصال کرتا ہے نو اس کے ساتھ ہی ملکی سرمایہ دار بھی کسان کو مختلف حیلوں حوالوں سے پریشان کرتا رہتا ہے۔اس حصے میں جوشؔ نے سرمایہ داری کی شقاوت اور ظالمانہ رویہ کو اس مخصوص انداز میں بیان کیا ہے جو ان کی انقلابی شاعری کی انفرادی شناخت ہے۔اس بیان میں لفظوں کا طمطراق،طرزِ بیان میں جوش و ولولہ سرمایہ داری کی ہیبت ناکی کو پورے تاثر کے ساتھ پیش کرتا ہے :
تیری آنکھوں میں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جس  کے آگے خنجر چنگیز کی مڑتی ہے دھار
بیکسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے ہاتھ
کیا چبا ڈالے گی او کمبخت ساری کائنات
ظلم اور اتنا!کوئی حد بھی ہے اس طوفان کی
بوٹیاںہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
اس کے بعد تین شعر جن پر نظم کا خاتمہ ہوتا ہے،ان میں سرمایہ داروں کی اس منافقت کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنے انسانیت سوز رویہ کو دین و مذہب کے حوالے سے جائز ٹھہرانے کی تاویلات پیش کرتے ہیں۔غریبوں پر مظالم کرنے والا یہ طبقہ معاشرہ میں امن و امان کو قائم رکھنے کی حمایت بھی کرتا ہے۔جوشؔ نے سرمایہ داری کے حوالے سے صاحبِ اختیار طبقہ کے اس دو رخے پن کو نمایاں کیاہے جوایک طرف انسانیت سوزکام کرتا ہے اور دوسری جانب قیام امن کا بھی خواہاں نظر آتا ہے۔
جوشؔ نے اس نظم میں صرف کسان کی ذات کو ہی پیش ِ نظر نہیں رکھا بلکہ اس کے کردار کو ایک حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ارباب اقتدار اور سرمایہ داروں کوہدف تنقید بنایا ہے۔یہ نظم جس شعر پر ختم ہوئی ہے وہ جوشؔ کی فکرکے مثبت رویہ کی ترجمانی کرتا ہے:
ہاں سنبھل جا اب کہ زہر ے اہل دل کے آب ہیں
کتنے طوفاں تیری کشتی کے لئے بیتاب ہیں
یہ شعر دراصل تاریکی میں امید کی ایک کرن کی مانند غریب و نادار انسانوں کے مایوس کن حالات کے تبدیل ہونے کا اشاریہ ہے۔اس نظم کی تخلیق سے جوشؔ کے خاندانی پس منظر کی وابستگی بھی ایک سطح پر ہے۔ان کی پیدائش ملیح آباد کے ایک بڑے زمیندار اور سرمایہ دار گھرانے میں ہوئی تھی۔ان کی پر ورش بھی بہت نازو نعم میں ہوئی لیکن ان کے سینے میں جو دل دردمند دھڑکتا تھا وہ غریبوں اور کسانوں پر زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ذریعہ کیے جانے والے مظالم سے کڑھتا رہتا تھا۔اس نظم کے وجود میں آنے کے اسباب وہ حالات تھے جو وہ اپنے گردو اطراف دیکھا کرتے تھے اور جس کا بیان انھوں نے ’یادوں کی برات‘ میں بھی کیا ہے۔
یہ نظم کمزور انسانوں سے جوش ؔکی دردمندی کو ظاہر کرتی ہے اور اس حقیقت کو بھی بیان کر تی ہے جو بڑی حد تک آج بھی اس ملک کا مقدر ہے۔یہ ضرور ہے کہ خیال اور جذبات میں تفاوت اس نظم کے تاثر کو پوری طرح نمایاں نہیں ہونے دیتا اور بعض مقامات پر جذبہ کا فقدان شعر کو کوری لفاظی بنا دیتا ہے۔ اس موضوع کو بیان کرنے کے لئے جو بر جستگی اور بے ساختگی درکار تھی اس کے بجائے حسین تشبیہات اور استعارات نے پوری نظم پر ایک رومانی کیفیت طاری کردی ہے۔بہر حال جوشؔ کو اس معاملہ میں ضرور انفرادیت حاصل ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے کسان اور اس کے ہل کے حوالے سے اپنے عہد کی استحصالی قوتوں کو ہدف بنایا۔ انھوں نے فطرت کے رمز شناس کسان کی بھوک و افلاس کے ذریعہ سسٹم پر جو لعنت و ملامت کی ہے وہی اس نظم کا اصل مدعا ہے۔


ڈاکٹر جمال رضوی شعبہ اردو ، ممبئی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔تنقید اور صحافت ان کا خاص میدان ہے۔ ایک کتاب ’سخن شناسی ‘ شائع ہوکر اردو حلقے میں مقبول ہوچکی ہے۔