Jo Saiun ki wadi mein Chale by Qurratul ain Hyder

Articles

جو سایوں کی وادی میں چلے از قرۃ العین حیدر

تلاش و تحقیق : سید وسیم اللہ

بہت ٹھنڈا چاند ہے ۔ بہت ویران ہوائیں اندھیرے کمروں اور طویل لا متناہی، غیر ضروری گیلریوں میں سرسراتی پھر رہی ہیں۔ زینے تاریک ہیں اور سرد ، اور ایک نا معلوم خوف دل میں چیختا جارہا ہے مجھے یہیں چھوڑ دو بھائ ۔ چاند سیاہ پڑگیا ہے ۔ اور اجالوں کی پھواروں کے ایسے سرخ ذرے اس کے چاروں طرف منڈلاتے جاتے ہیں ۔گیلریاں سنسان ہیں اور تاریکی میں رینگ رہی ہیں ۔ ابھی وہ سب یہاں آئیں گے۔ اور روشنیاں جلیں گی۔ اور پانی پر سے موسیقی اٹھے گی ۔ پھر سب مرجائیں گے ۔

یہ سب اتنا نا قابلِ برداشت ہے ۔ اور اس نے کہا۔ دیکھو ادھر آؤ ۔ میرے پاس بیٹھو ۔ اور میری آواز سنو ۔ میں نے اکتا کر چاروں اور دیکھا اور اس کی آواز سنی ۔ اور میں نے دیکھا کہ یہ سب اتنا غیر ضروری تھا ۔ اور میں نے کہا سنو۔ زندگی کی روحیں وجود کے کرب سے بچنے کی کوشش میں تاریک خلاؤں میں گھوم رہی ہیں اور اس وقت چاند سرخ اور سیاہ ہوتے ہوۓ بالکل انگارے کی طرح جلتا جلتا نیچے گر پڑا ۔ اس کو میں نے چھوا ۔ لیکن وہ اتنا گرم تھا کہ مجھے باکل تکلیف محسوس نہ ہوئ۔ اور ہوائیں اندھری غلام گردشوں میں شور مچاتی رہیں ۔ اور پانی سیاہ محیط گھوں گھوں کرتا چاندکی طرف اٹھ رہا تھا۔

کیوں اس قدر اٹھلا اٹھلا کے باتیں کرتی ہو ۔ ہم مار دیں گے ۔ اللہ قسم ، میں نے پوکس سے کہا ۔ رات جب وہ نرگس کے پھولوں میں منہہ چھپاۓ ہنس رہی تھی ۔ رات میں نے دیکھا تھا کہ میں زرد گلابوں کے باغیچوں والے ان آنگنوں میں پہنچ گئ ہوں جن کے ٹھنڈے پتھروں پر پہاڑی نالوں کا خنک پانی بہتا ہے ۔ اور جہاں گلیوں کے دروازے پراسرار طریقے سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں ۔ اور میں نے پوکس سے کہا ۔ کیا تم جانتی ہو پوکس ڈارلنگ کہ میں اس طرف سے آئ ہوں جہاں ہوائیں روتی ہیں اور آدھی رات کے زینوں پر کہرا منڈلاتا ہے اور پوکس نے آنکھیں جھپکا کر چاروں طرف غور سے دیکھا اور پھر وہ چپ ہوگئ اور مدھم تکلیف دہ چاندنی میں چوڑی ، بھیگی ، سرد سیڑھیوں پر کہرہ منڈلاتا رہا ۔ کتنی ٹھنڈ ہے کتنی ٹھنڈ ہے ۔ میں نے بیوقوفوں کی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی مٹھی بنا کر چپکے سے دہرایا کتنی ٹھنڈ ہے ۔ خدا کی پناہ دیکھو بھائ راحیل —– وہ کہہ رہا تھا —- یہ وجود کی بیوقوفی اسے تم پہچانتی ہو — ؟ ارے جاؤ بھی میں نے اکتاکر کہا ۔ کتنی ٹھنڈ ہے ۔ خدا کی پناہ ۔ میں نے پھر دھرایا ۔ اور چاند بالکل سرد ہوگیا ۔ اور بد مزاج کالی رات چیختے چیختے تھک کر خاموش ہوگئ ۔

اور ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ وہاں پر اندھیرا نہیں تھا اور چاروں طرف پھول کھلے تھے ۔ اور ندی شور مچاتی تھی ۔ اور ہوا میں بہار کے نۓ شگوفوں کا رنگ اڑتا تھا ۔ دنیا اس قدر خوبصورت تھی کہ اس کا اندازہ مشکل ہے ۔تاریکی وجود کی سرد، بے رحم ، بیحس تاریکی سب ختم ہوچکی تھی ۔ سورج بادلوں میں سے جھانکتا تھا اور کریسینتھیمم کے گچھے بارش کی پھواروں میں نہاتے تھے ۔

اور اب ہم ساکت ، خاموش نیلگوں پانی کے کنارے کنارے ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے اہستہ آہستہ چل رہے ہیں اور کناروں کے پتوں کا عکس پانی میں تیر رہا ہے ۔ اور اب کچھ یاد نہیں آتا اور جو یاد آتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے ۔ یہ نہیں تھا یہ نہیں تھا محض جنگوں ، لڑائیوں اور طوفانوں ہی سے انسان زخمی نہیں ہوتے ۔ زندگی کا کرب ہر جگہ ہر وقت ہر حالت میں موجود ہے ۔ سنو پوکس ڈئیر ، یہ تار ، لمبے الجھے ہوۓ تار اور ان میں انسانوں کے ٹکڑے اور خون ۔ اور کیچڑ ۔ اور بارش موسلا دھار بارش ، ہوا کے زور سے دروازہ کھل گیا ہے اور بارش کی تیز پھوار سے ہال کا سارا چمکدار فرش بھیگ گیا ہے اور اس پر چاند کی دھندلی کرنیں پھیل گئ ہیں اور اب دروازے بند کۓ جارہے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے جیسے پرشور طوفانوں سے گھر محفوظ ہوگیا ہے ۔ گھر جہاں آتش داں میں آگ جلتی ہے اور قالینوں پر بلیاں اونگھتی ہیں اور باہر بارش کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکراتی ہے اور اندھیرے باغ میں دیودار کی ٹہنیاں ٹوٹ ٹوٹ کر روشوں پر گرتی ہیں۔ گھر — گھر –ارے ہاۓ -اب یہ یوں ہوگا ۔ گھر جو اتنے سینکڑوں ہزاروں میل پیچھے رہ گیا ۔ اور بیوقوف گدھے چٹانوں پر بیٹھے تصویریں بناۓ جارہے ہیں ۔ جو نمائشوں میں رکھی جائیں گی ، سمندر ، ماہی گیروں کی کشتیاں ، چٹانیں اتنی بہت ساری بھوری چٹانیں کہ دیکھو تو باؤلے ہوجاؤ بھائ ۔

اور اتنے غیر ضروری مرد اور اتنی غیر ضروری عورتیں ۔ اور وہی ہیں سب کی ایک ہی سی باتیں ۔ یہ سب لوگ جو اپنے آپ کو جانے کتنا اہم سمجھتے ہوں گے ۔

میں نے چمپا کے پھولوں کی ایک ریتھ بنائ تاکہ تم جب کسی ایسی ہی کاہل سی موسمِ گرما کی شام کو نیلوفر کے ان راستوں پر سے گزرو ۔ تو ان احمق زمانوں کو یاد کرو جب وہ سب ایک سوتے ہوۓ سے خوابیدہ و بے حس پہلے چاند کے نیچے ان پگڈنڈیوں پر گھومتے تھے اور جنگل کے پرے ان سرخ چھتوں والے گھروں میں کنول جلتے تھے اور شفاف نیلگوں پروں والے چھوٹے چھوٹے پری زاد نیلوفر کی ڈالیوں پر بیٹھتے اور اتوار کے دن گزارنے آتے تھے ۔

لیکن موسمِ گرما بھی گزر رہا ہے جیسے اور سب موسم گزرتے جاتے ہیں اور میں آنکھیں کھول کر زندگی کی اس تیز جھلملاتی ہوئ روشنی کو نہیں دیکھ سکتی ۔

اور اگر یوں ہو کہ ہم وجود کے اس بے پایاں کرب میں خاموشی سے تحلیل ہوجائیں یہاں تک کہ وقت اپنی جگہ ٹہر جاۓ ۔ اور پھر کچھ نہ ہو ۔ وجود کا یہ کرب ۔ ابدی ۔ لازوال ۔ انمٹ ۔ لیکن یوں نہیں ہے اور وہ روشنیاں اور آدھی روشنیاں پھیل گئ ہیں جنہیں میں نے پکڑنا چاہا تھا اور موسمِ گرما گزرتا جارہا ہے اور سب چیزیں ویسی ہی ہیں ۔ اور کسی چیز میں کوئ تغیر نہ ہؤا ۔

(اس کی آنکھوں میں شدت کی اکتاہٹ تھی اس وقت اسے صرف دو چیزوں کا خیال تھا سگریٹ اور نیا فوکس ٹیرئیر) تم نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا– ؟ اس نے مڑ کر پوچھا اور پھر لمبے لمبے قدم رکھتا اس طرف چلاگیا جدھر کریسینتھیمم کے پھول تھے زرد ، اودے ، ہلکے نیلے اور پیازی ۔ جو اگسٹ کے مدھم آفتاب کو دیکھ رہے تھے ۔ اور باغ کی مٹی نم آلود تھی ۔ اور وطن کی خوشبوؤں کی یاد دلاتی تھی۔ اس خوشبو کو پہچانو (اس نے کریسنتھیمم کے پھولوں پر سے چلٗا کر کہا ۔ گویا اسے دفعتاً کوئ بیحد ضروری بات یاد آگئ ہے ) ۔ یہ ہر سنگھار ہے اور ہر سنگھار تمہیں یاد آنا چاہیۓ راحیل کہ وطن کی اکیلی سبزے سے گھری ہوئ ندیوں کے کنارے اگا کرتا تھا — وطن — وہ پورب دیس جو ہم نے ہمیشہ کے لۓ چھوڑ دیا اور یہاں چلے آۓ ۔ کیونکہ ہمارے سامنے ایک نئ دنیا تھی اور ایڈونچر ۔ اور نئ کائناتوں کی تخلیق کاپراسرار جذبہ ۔ لیکن اپنے اس دیس کی یادیں اس طرح نہیں چھٹ سکتیں ۔ گرمیوں کی شبنم آلود صبحیں آگسٹ کی بارشیں۔ ہر سنگھار کی مہک (اس کی کالی آنکھیں بھیگ گئیں اور بارش ہوتی رہی ۔ اندر برآمدے میں لوگ شطرنج کھیل رہے تھے ) ہاں ان خوشبوؤں کی یاد دل سے نہیں نکل سکتی ۔ ۔ اس نے آہستہ سے پھر دہرایا اور پھر وہ ہنس پڑا ۔ یہ سب کس قدر بیکار اور حماقت زدہ ہے ۔ غیر ممکن کی خواہش ۔ بھول جانے کی کوشش ۔ اس نے کہا ۔ اور خاموشی سے جیسے مذاق اڑاتا ہوا وہ واپس چلا گیا ۔ جدھر کریسینتھیمم کے پھول تھے ۔ اندر کوئ اس وقت پیانو پر ایک پرانی دھن بجا رہا تھا ( اس بہت پرانے پیانو پر جو والد ایک مرتبہ فرانس سے لاۓ تھے ) اور ہوائیں چنار اورپپیتے کے جھنڈ میں سیٹیاں بجارہی تھی ۔ اور اس نے لاپرواہی سے ایک جماہی لیکر ‘ نوستالجیا کی اس اچانک اور غیر متوقع لہر سے نجات پانے کی کوشش کی ۔ وہ خوش تھا ۔ اور مون سون کے بھولے بھٹکے بادل جو صحرا کی طرف آ نکلے تھے شام کے آسماں پر امڈتے رہے اور ہوائیں بیچینی سے ڈولتی گئیں ۔

اور تب میں نے سوچا کہ کیا یہ بہت اچھا ہوا کہ میں نے اسے اپنی شام کی دعاؤں میں شامل کیا ۔ اتنی مدتوں تک خداوند خدا سے اس کی باتیں کی ۔ اور کہا کہ ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ اے خداوند کہ ابدیت کے دھارے میں تیرتی ہوئ حیات کی رو سے تو نے ہماری زندگی کی تخلیق کی اور ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لۓ تیرا شکر ادا کرتے ہیں جو اتنی حقیر اور بے وقعت ہیں کہ ان کے وجود کا تجھ پر کوئ احساں نہیں ۔ پھول حماقت زدہ لطیفے جنہیں ایک دوسرے کو سناکر وہ خوش ہوتے تھے وہ لمحات جب ہم ریلنگ پر جھک کر سمندر میں سورج کو غروب ہوتے ہوۓ دیکھتے تھے اور اندھیرا بتدریج نیچے گرتا آتا تھا ۔ اور زندگی اچھی تھی ۔

پھر میں اس معبد میں گئ جہاں اونچی اونچی موم بتیاں جلتی تھیں اور وہاں وہ خوبصورت ڈچ راہب تھا جو ہنس رہا تھا ۔ اور وہاں محض دعائیں تھیں اور پھول تھے ۔ اور میں نے آہستہ سے کہنا چاہا کہ کیوں زندگی کا مذاق اڑاتے ہو ۔ بھائ خوبصورت راہب ۔ تم جو ایک عورت کے مجسمے کی پرستش کرتے کرتے اس اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیرے میں چلے جاؤگے ۔ اور تمہارے مزار پر بھی اسی طرح کے دوسرے مجسمے اور بربط والے فرشتے سجادۓ جائیں گے ۔ شب بخیر ہوئ اور میں نے اسے خدا حافظ کہا ۔ اور واپس چلی آئ ۔ شب بخیر اس نے جواب دیا اور اسی بے تعلقی سے ہنستا ہوا مقدس دیوداروں کے جھنڈ کی طرف چلا گیا جہاں وہ خدا کی ماں کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ ڈچ راہب جو اپنی شمعوں ، اور سیاہ پوش ہیکل کے پردوں اور سینٹ پال اور جینیوا کی کیتھرین کی کتابوں کے انبار کے درمیان محفوظ تھا جس کے حسن کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا تھا ۔ جس کے حسن کو دیکھ کراطمینان ہوتا تھا کہ زندگی میں ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔

پھر میں نے سرخ پہاڑوں کی طرف دیکھا سرخ اور نیلی پہاڑیاں جن کے چاروں طرف سخت کالے راستے پھیلے ہوۓ تھے اور ناگ پھنی جھاڑیاں آہستہ آہستہ آسمان کی طرف بڑہ رہی تھیں اور راستے کے چاروں سمت شدید تکلیف دہ وسعتیں تھیں ۔ جہاں پر کچھ نہ تھا

پھر ہوائیں چاروں طرف پھیلنے لگیں اور شمال کی سمت بڑہیں اور سائرن چیخنے لگے ۔ تو میں نے چپکے سے پوچھا ، میں نے پوچھا یہ آبشار کیوں آے خداوند خدا نے اپنے ازلی گناہ کو کس طرح پہچانا ۔ اور طوفان کیسے گرجتے رہے ۔ لیکن مجھے اس نے کوئ جواب نہ دیا ۔ اور وقت لڑھکتا گیا۔ اور طوفان میرے پاس سے گزرگۓ جبکہ میں سورہی تھی ۔ پھر میں نے اسے پہاڑوں سے اترتے دیکھا ۔ اس کے نغمے کی آواز قریب آتی گئ اور پھر دفعتاً وہ آواز بھی دور چلی گئ ۔ اور میں نے کہا میں اس کے ساتھ چل سکتی تھی ۔ کائنات کے عظیم ترین ویرانوں تک اس کے ساتھ جاسکتی تھی لیکن یہاں پر محض یہ ہوائیں بہتی ہیں۔ اور سب مرچکے ہیں ۔ جب یہاں پریاں ہنستی تھیں اور گرما کے گھومتے ہوۓ چاندوں کے نیچے وہ ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہتے تھے — وہ آرہا ہے ۔ وہ خوابوں کا انسان آرہا ہے ۔ جو ہمیں نیلی پہاڑیوں کی طرف لے جاۓ گا ۔ وہ ہنستے رہے اور آسمان یک لخت سیاہ پڑگیا (اور وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ، وادی کے پار ، پکاسو اور اوڈن کی باتیں کر رہا تھا ) اور پھر آسمان نیچے گر پڑے۔ بہت ٹھنڈ ہے ۔ بہپت ٹھنڈ ہے ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا ، چلو یہاں سے چلیں انہوں نے طۓ کیا اور وادی کی طرف واپس چلے گۓ جہاں سفارتی ضیافتیں ہوتی تھیں اور معزز خواتین ناک کی نوک کو میکس فیکٹر سے ٹھیک کرکے ایک دوسرے سے پوچھتی تھیں۔ ازنٹ اٹ کیوٹ ڈارلنگ ؟

اور رات کے چاند تیزی سے گھومنے لگے اور شیطان چیخنے ۔ اور پریاں ایک کے بعد ایک مرگئیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ نیلی پہاڑیوں تک پہنچ سکتیں ۔ خداوندِ خدا نے زندگی کتنی عظیم کتنی مقدس کتنی قیمتی تخلیق کی ہے ۔ کہ جوجب ختم ہوجاتی ہے ۔ تو اس کے لۓ کوئ روتا ہی نہیں ۔

ایسی باتیں نہ کرو۔ ورنہ خداوندِ عالم تم پر اپنا عتاب نازل کرے گا ۔ نورانی داڑھیوں والے عالموں نے کہا ۔ جب کہ روحیں کائنات کے ویرانوں میں اپنا ابدی گھر تلاش کرتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ انسانوں کی دعاؤں کے ذخیرے ختم ہوگۓ ۔ اور جتنی سانسیں انہیں زمین کے اوپر عطا کی گئیں تھی وہ پوری ہوگئیں ۔ تب مکمل سناٹا چھا گیا ۔ اور سب خاموش ہو گۓ ۔

میں نے یہ سب کچھ دیکھا ۔ جس وقت میں ٹھنڈی گھاس پر بیٹھی تھی ۔ اور میں نے فرشتوں کی آواز سنی جو میری گمشدہ روح کی نجات کے لۓ مصروفِ عبادت تھے ۔ تم جو کچھ سوچتی ہو ۔ اس کے لۓ تمہیں زیادہ محتاط رہنا چاہیۓ۔ ورنہ ابدی گھر کے دروازے تم پر بند ہوجائیں گے ۔ نورانی داڑھیوں والے عالموں نے دھرایا ۔ چناںچہ میں نے بھی فرمانبرداری کے ساتھ اچھے اچھے خیالات جمع کرنے شروع کۓ ۔ گلاب کے پھول ایرانی جانمازیں سفید نورانی کپڑے ۔ لیکن یہ اور بھی زیادہ بوریت تھی ۔

آخر اس شور و غل میں وجود کے طوفاں کی خاموش ساکت گرج کو میں نے پہچانا ۔ اور میں نے دیکھا کہ مٹیالے شب و روز چاروں جانب پھیلتے جا رہے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اور خالی آسمانوں کی عظیم تنہائ میں روح القدس بلا کسی مقصد کے منڈلاتی پھر رہی ہے ۔ اور پھر پانیوں پر سے موسیقی اٹھی ۔ اور اس نے کہا میں یہاں ہوں ۔ اور میں مرچکا ہوں ۔ ( وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ، وادی کے پار ، پکاسو اور اوڈن کی باتیں کر رہا تھا ) وہ مرگیا ۔ جس وقت کہ وہ ریلنگ پر جھکا کھڑا تھا ۔ اور غروبِ آفتاب کی روشنی میں اس کے بال سرخ نظر آرہے تھے ۔

اور زندگی کے اس ابدی اندھیرے میں اسے دفن کردیا گیا ۔ اور ہواؤں میں شیطان چیختے رہے ۔ اور زندگی کی قبروں کی لا متناہی تاریکی میں فاسفورس کی سی روشنی جھلملاتی رہی ۔ اور دریا کے طویل سیاہ پل پر سے کسی انڈر ٹیکر کی کالی گاڑی کھڑ کھڑاتی ہوئ دھیرے دھیرے گزر رہی تھی ۔ اور ہوائیں اپنے سرخ گرم آنسوؤن کو ضبط کر کے سکون سے بہنے لگیں ۔ اور چاند قبرستان کی سیاہ رنگ کی دیمک خوردہ صلیبوں پر لٹک گیا ۔

چنانچہ آج کی رات ، مارچ کے مہینے کی اس معمولی رات ، وہ ختم ہوگیا ۔ وہ اس دوسری ، روشنی کی زندگی میں پہنچ گیا جو اس کی اپنی زندگی ہے ۔ جہاں اس کا اپنا گھر ہے ۔ (اس کا گھر جس کی آرائش اور جس کے باغ کے پھول اسے اتنے پسند ہیں کہ وہ پہروں ان کے متعلق آپ سے باتیں کر سکتا ہے ) اس کا اپنا مستقبل ۔ ان گنت دن ۔ ان گنت راتیں ۔ ستاروں کی روشنی ۔ ہر سنگھار کی خوشبوئیں ۔ شور مچانے والے خوش باش دوست ، ضیافتیں خاموشی کے مکمل لمحات ۔ یہ سب کچھ اس کا اپنا ہوگا ۔ اپنا اور دلچسپ ۔

ایسا ہوتا ہے کہ روح القدس اندھیرے میں آگے بڑھ رہی تھی

یہ یسوع کی دلہن بن گئ ۔ اور یسوع اپنی اسی ہزار دلہنوں کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہے — خوبصورت ڈچ راہب نے آہستہ سے کہا ۔ کوائر کے نیلی آنکھوں والے لڑکوں نے اس کی بات دہرائ ۔ جب کہ ایک سنہری بالوں والی لڑکی بال منڈوا کے صلیب کی بیٹیوں کے مقدس سلسلے میں داخل کی جارہی تھی ۔ ( تم نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا — ؟ وادی کے پرے اپنے ڈرائنگ روم میں ، اوڈن پر باتیں کرتے کرتے مڑ کر اس نے پوچھا ۔ صوفے پر سے اٹھ کر ایٹ ہوم کے چند اور مہمانوں سے کچھ تکلف کے الفاظ کہے اور پھربیٹھ گیا ) اور زماں و مکاں کے اس بلوریں قید خانے میں خیالوں کے ٹوٹے پھوٹے ستون چاروں جانب بکھرے پڑے تھے ۔

اور اتنے برسوں پہلے جامنوں کے ساے میں سے جو کشتی چلی تھی ۔ وہ خداوندِ خدا کے تخت کے نیچے جو کالی ندی بہہ رہی ہے ۔ اس تک پہنچ گئ ہے ۔ وقت کا آبشار تیزی سے نیچے گر رہا ہے اور اس سے سینکڑوں ہزاروں میل پرے ۔ پورب دیس کے ہمارے گھر میں آنگن کے پیپل کے نیچے مالی کی بہو نے بھوانی کا چبوترہ سجایا ہوگا اور ندیوں کے کنارے ہر سنگھار کی مہک اڑتی ہوگی ۔ کتنا عبرتناک انجام ہے ان سب چیزوں کا اے مومنو ! اور گزرتی صدیوں کی راکھ ہوا میں بکھرتی جارہی ہے ۔ اور کچھ یاد نہیں آتا ۔ لیکن اگلی پیدائش پہلی پادائش سے بہتر ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک — یہاں تک کہ اگلے آنے والے زمانوں میں وقت کے صحراؤں میں گھومتے ہوۓ میں اسے دوبارہ دیکھ پاؤں گی ۔ جس طرح پچھلی صدیوں میں میں نے اسے دیکھا تھا ۔ جیسے اس زمانے ، اس دنیا کے ایک مخصوص چکر میں دن و رات کے ان حلقوں میں اسے پہچانا تھا ۔ اس وقت تک جب کہ مارچ کی ایک شام کو وہ ختم ہوگیا۔ اور اس سمے ، دوپہر کے سناٹے میں روحیں دور دور تک تیرتی پھر رہی ہیں اور وہ سارے رنگ جو دھنک اور پھولوں اور بادلوں کے لۓ تخلیق کۓ گۓ تھے اس اکیلی لرزاں روشنی میں تحلیل ہوگۓ ہیں۔ اور اس روشنی میں خدا اپنی سنہری آنکھیں بند کرکے ابدی آنند کی نندیا میں کھو گیا ہے۔ خلاۓ بیکراں کا یہ صحرا دور تک موسیقی کی لہروں کی طرح پھیلا ہوا ہے اور چاند کنول کے اکیلے پھول کی طرح ڈنٹھل سے جدا ہو کے نور کی اس ندی میں گر چکا ہے ۔ اور یہاں اس روشنی میں آخری دعا سنی جاتی ہے ۔ اور اس بھری دوپہر ، یا اس آدھی رات کی گہرائ میں مجھے اپنے وجود کے مکمل پن کا احساس ہوتا ہے ۔ دوپہر کی لہریں چاروں طرف تیر رہی ہیں اور سونے کے رنگ کا پانی کھنڈرات پت برستا جا رہا ہے ۔ دیوانے انسانو ۔ کیا تم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ اس پانی میں جنم جنم کا سارا نا مکمل پن ، ساری بے اطمینانی ، ساری کشمکش ہمیشہ کے لۓ بہہ جاۓ گی ۔ دیکھو کہ صحرا کا آسمان کتنا تنہا ہے ۔ یکتا خوبصورت کتنا عظیم اور وقت اپنی جگہ ٹہر گیا ہے اور حیات کی رو روح القدس میں داخل ہو کر آگے جارہی ہے

یہ لمحہ کتنی دیر ٹہر سکے — کتنی دیر ؟

اور تب میں نے پوکس سے کہا آؤ پوکس ڈارلنگ چل کر چاء پئیں ۔ پھر میں تمہیں چند نۓ پارٹی گیم بتاؤں گی ۔

( ارے اے بھئ اللہ میاں ) ۔