Jazbi ka Fan by Qazi Jamal Husain

Articles

جذبی کا فن

پروفیسر قاضی جمال حسین

جذبی کا پورا کلام توجہ سے پڑھنے کے بعد قاری آسانی سے یہ رائے قائم کرلیتا ہے کہ شاعر کسی مخصوص سیاسی نظریے کا نہ تو پابند ہے نہ ہی اپنی جانبداریوں کے حق میں ،فن کے تقاضوں سے مفاہمت پر آمادہ ہے۔جذبی کی شاعری میں کوئی خیال ‘اس طور پر نظم ہوتا ہے کہ شاعری کا منصب مجروح نہ ہو اور بیش تر صورتوں میں خیال ،شعر کے پیکر میں ڈھل کر قاری کی اپنی واردات بن جاتا ہے ۔ترقی پسند تصورات کو نظم کرنے میں بھی جذبی نے خیال کی‘شعری وسائل سے ہم آہنگی کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔جذبی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے گل و بلبل کے علائم کو نہ تو مسترد کیا نہ ہی غمِ جاناں کو غمِ روزگار سے کمتر سمجھا ۔ان کا موقف یہ ہے کہ : جذبی کا پورا کلام توجہ سے پڑھنے کے بعد قاری آسانی سے یہ رائے قائم کرلیتا ہے کہ شاعر کسی مخصوص سیاسی نظریے کا نہ تو پابند ہے نہ ہی اپنی جانبداریوں کے حق میں ،فن کے تقاضوں سے مفاہمت پر آمادہ ہے۔جذبی کی شاعری میں کوئی خیال ‘اس طور پر نظم ہوتا ہے کہ شاعری کا منصب مجروح نہ ہو اور بیش تر صورتوں میں خیال ،شعر کے پیکر میں ڈھل کر قاری کی اپنی واردات بن جاتا ہے ۔ترقی پسند تصورات کو نظم کرنے میں بھی جذبی نے خیال کی‘شعری وسائل سے ہم آہنگی کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔جذبی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے گل و بلبل کے علائم کو نہ تو مسترد کیا نہ ہی غمِ جاناں کو غمِ روزگار سے کمتر سمجھا ۔ان کا موقف یہ ہے کہ :
حکایت گل و بلبل پہ خندہ زن ہیں وہی
جو شامِ ہجرنہ صبح وصال سے گزرے
غمِ دوراں بڑی حقیقت سہی لیکن شیشہ و ساغر کا فریب اس تلخ حقیقت کو گوارا بنانے کے لیے ضروری ہے :
غمِ حیات بجا ہے مگر غمِ جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
حقیقت غمِ دوراں کے ساتھ اے ناصح
فریب شیشہ و ساغر نہیں تو کچھ بھی نہیں
ترقی پسند شعرا میں جذبی صاحب کی شناخت یہ ہے کہ غم دوراں کی حقیقت کا عرفان ہونے کے ساتھ ہی انھیں فریبِ حقیقت کی دلکشی کا بھی اعتراف ہے۔اس فریب کو وہ فن کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں ۔ترقی پسند تحریک کی کل ہند کانفرنس کے خطبۂ صدارت میں منشی پریم چند نے شعر و ادب کے لیے جو نیا منشورپیش کیا اس میں حقیقت پسندی اور افادیت پر اصرار کرتے ہوئے انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ:
’’جب ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو اور ایک ایک لفظ یاس،شکوۂ روزگار اور معاشقہ میں ڈوبا ہوا ہو تو سمجھ لیجئے کہ قوم جمودکا شکار ہوچکی ہے اور اس میں سعی و اجتہادکی قوت باقی نہیںرہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادب دل بہلانے کی چیز نہیں ہے۔دل بہلانے کے سوا اس کا کچھ اور مقصد بھی ہے۔وہ اب محض عشق و عاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو(ادب کو) ان مسائل سے دلچسپی ہے، جن سے سوسائٹی کے افراد شاعر ہوتے ہیں‘‘ (’’نیا ادب‘‘؍اپریل ۱۹۳۹ء، ص۔۵۳)
ترقی پسند شاعر اور ادیب اس منشور پر عمل کرنے میں اتنے پرجوش اور سرگرم تھے کہ سب کچھ بدل دینا چاہتے تھے ۔انھیں حسن کا معیار بدلنے کی عجلت تھی۔اس صورت حال کا کسی قدر اندازہ سجاد ظہیر کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ کانفرنس ختم ہونے کے بعد شام کو تھکے ماندے سبھی لوگ گھر آئے کھانا کھاکر سب بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے کہ پریم چند نے نوجوان ترقی پسندوں کی حرکتوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا:
’’بھئی یہ تم لوگوں کا جلدی سے انقلاب لانے کے لیے تیز تیز چلنا مجھے بہت پسند آتا ہے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم بے تحاشا دوڑنے لگے تو ٹھوکر کھاکر منہ کے بل گر نہ پڑو اور میں ٹھہرا بوڑھا آدمی ۔تمہارے ساتھ اگر میںبھی دوڑا اور گرا تو مجھے بہت چوٹ آجائے گی ۔یہ کہہ کر انھوں نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا۔ہم سب بھی ان کے ساتھ ہنسنے لگے۔‘‘(روشنائی ۔ص ۱۱۲)
یہ زمانے کی روتھی ،سبھی رجعت پسندی کے مقابلہ میں ترقی پسند بننے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے ۔ان حالات میں جذبی صاحب کا متوازن رویہ ان کی سلامت روی کا ثبوت ہے۔اپنے پہلے مجموعے کی دوسری اشاعت (۱۹۵۱ء)میں ’’چند باتیں‘‘کے عنوان سے جذبی نے اپنے شاعرانہ موقف پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پہلی وفاداری اشتراکی خیالات کے بجائے شاعری کے فن سے تھی۔۱۹۵۰ ء کے آس پاس جب ترقی پسندی کا سورج نصب النہار پہ تھا جذبی کے یہ خیالات حیرت انگیز معلوم ہوتے ہیں۔
۱)ہم میں سے اکثر ترقی پسندی کی رومیں ادب کے تقاضوں کو بھول گئے ہیں،چنانچہ اس دوران میں جوادب پیدا ہوا ہے اسے ہم مشکل سے ادب کہہ سکتے ہیں۔
۲)ہمارے بعض ترقی پسند شاعر کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہیں۔یہ حضرات اپنی جماعتی وفاداری کی رو میں صرف وہی دیکھتے اور سوچتے ہیں جو ان کی جماعت دیکھتی اور سوچتی ہے۔اس وجہ سے ایک قسم کا ادبی انتشار پیدا ہوتا ہے۔
۳)ادھرکچھ ترقی پسند شاعروں میں ایک رحجان پیدا ہونے لگا ہے جو بڑی حد تک تنگ نظری پر مبنی ہے۔ہمارے شاعر اور ادیب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ حسن و عشق کاذکر ترقی پسندی کے مذہب میں وہ گناہ ہے جو شاید ہی بخشا جائے ۔ترقی پسندی صرف سیاست کا نام ہے۔
۴)رہے حسن و عشق کے خالص انفرادی جذبات ،سو ان کے متعلق صرف اتنا عرض کروںگا کہ ازل سے آج تک یہ دلوں کو گر ما رہے ہیں اور گرماتے رہیں گے۔
اس پس منظر میں چند باتیں جذبی کی عشقیہ شاعری کے حوالے سے:
غزل کی روایت کو رجعت پسندی کہہ کر مسترد کرنے کے بجائے جذبی نے کلاسیکی شعریات کو پیش نظر رکھا ہے اور کلاسیکی مضامین میں معنی کی نئی جہتیںدریافت کی ہیں ،شعر سنئے:
دہانِ زخم جو منہ پھیر لیں تو کیا معلوم
تبسم لبِ قاتل رہے رہے نہ رہے
معاًغالب کا مشہورشعر ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے  ؎
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن واکرے کوئی
پہلے دہانِ زخم تو پیدا کرے کوئی
تبسم ،لب، دہان اور منہ کی رعایت کے علاوہ زخم اور قاتل کی مناسبت نے بھی جذبی کے شعر میں کلاسیکی شان پیدا کردی ہے اور ان کی نئی جہت یہ ہے کہ قاتل کاتبسم،عاشق کے کھلے ہوئے زخم کا رہینِ منت ہے، اگر یہ زخم مندمل ہوگیا تو قاتل کے لبوں پر بھی تبسم باقی نہیں رہے گا ۔عاشق کا زخمِ دل مرتبہ اور منزلت میں قاتل کے تبسم سے فزوںتر ہے۔اس غزل کا ایک اور شعر ہے جس میں ساحل کا روایتی استعارہ سیاق و سباق کی وجہ سے نئی معنویت اختیار کرلیتا ہے :
یہ سوچتے ہوئے طوفاں میں ڈال دی کشتی
کہ پھر اشارۂ ساحل رہے رہے نہ رہے
ساحل کا استعارہ ،سکون ،تحفظ اور دل و جان کی سلامتی کے مفاہیم کا احاطہ کرتا ہے لیکن معاملاتِ عشق کے سیاق و سباق میں یہی ساحل، معشوق کی دلنوازی اور رخصتِ بے باکی کی سرحد وں سے جا ملتا ہے۔عاشق اپنے جرأت مندانہ اقدام سے ڈرتا ہے اور جھجھکتا ہے کہ خدا معلوم کیا صورت پیش آئے گی۔اسی پس و پیش میں عاشق پیش آنے والے طوفان کا خطرہ مول لے لیتا ہے کہ خود ساحل کا خاموش اشارہ اسے پیش قدمی کا حوصلہ عطا کرتا ہے :
یہ سوچتے ہوئے طوفان میں ڈال دی کشتی
کہ پھر اشارہ ساحل رہے رہے نہ رہے
طوفان اور ساحل کی دلالتوںمیں معنی کے یہ امکانات شاعر کے پیرایہ ٔبیان اور غزل کی روایت سے پیدا ہوئے ہیں۔
غالب کا مشہور شعر ہے  :
جب کرم رخصت بے باکئی و گستاخی ہے
کوئی تقصیر بجز خجلتِ تقصیر نہیں
دل کے زخم اور محبت کے داغ غزل کی روایت میں نئے نہیں لیکن جذبی کی شاعری میں ان زخموں نے جا بجا بہار کی کیفیت اور داغوں نے چراغاں کا منظر پیدا کردیا ہے ۔ فقط تین شعر ملاخطہ ہوں :
دل کے زخموں کی تم بھی سیر کرو
اس چمن کے گلاب ہیں کیا کیا
ہر داغ دل میں عکسِ رخ گل بدن لیے
بیٹھے ہیں اہل عشق چمن در چمن لیے
آؤ نہ دل کے داغ جلا ئیں کہ صبح ہو
اختر شماریِ شبِ آلام کیا کریں
پہلے شعر میں ردیف غزل کا فقط نصاب پورا نہیں کرتی بلکہ متکلم کے نشاط بے پایاں کو نمایاں کرکے معنی کی توسیع بھی کرتی ہے۔عاشق دل کے زخموں سے افسردہ ہونے کے بجائے ،سرشاری کی عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔عاشق گلابوں کے اس باغ کی سیر کے لیے معشوق کو بھی بلاتا ہے کہ ایسے خوش رنگ ،شاداب اور ہنستے ہوئے گلاب کہیں اور دیکھنے کو نہ ملیں گے۔
دوسرے شعر میں دل کا ہر داغ معشوق کے عکس رخ سے لالہ زار بنا ہوا ہے۔داغوں کی ایسی کثرت ہے کہ عاشق کا دل چمن در چمن کا منظر پیش کرتا ہے چونکہ یہ عکس ایک گل بدن کا ہے اس لیے چمن در چمن کا جواز بھی شعر کے متن ہی میں موجود ہے۔
آخری شعر میں داغِ دل لو دے اٹھتے ہیں اور تیرہ و تار شبِ غم میںاختر شماری کا فضول کام کرنے کے بجائے عاشق داغوں کی روشنی سے اپنی بزم چراغاں کرلیتا ہے ۔’آئو نہ دل کے داغ جلالیں‘ میں خود کلامی کا اندازہ، شعر میں ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔
اس طرح مختلف فنی تدابیر سے کام لے کر جذبی صاحب نے روایتی عشقیہ مضامین میں بھی کوئی نئی جہت دریافت کرلی ہے اور ہجر و وصال کے پامال قصے میں خیال کا نیا پہلو روشن کردیا ہے۔
جذبی کا ایک اور پسندیدہ طریقہ کاراضافتوں کا برمحل استعمال ہے۔مرکب توصیفی اور اضافی کی بہت سی مثالیں ان کے اشعار سے پیش کی جاسکتی ہیں۔اکثر تراکیب میں ایک سے زائد اضافتیں استعمال کرکے جذبی نے تو الئیِ اضافات سے بھی کام لیا ہے۔اضافتوں کے اس طرح استعمال سے ان کے کلام میں ایک طرح کی شائستگی اورSophisticationپیدا ہوگیا ہے اور زبان عوامی سطح سے بلند ہوکر اشرافیہ طبقہ کے خیالات کی ترجمان بن گئی ہے۔ہندی الاصل الفاظ یا عام بول چال کی زبان چونکہ تراکیب کے صوتی آہنگ اور معنوی پیچیدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی اس لیے تراکیب کے استعمال سے اسالیبِ اظہار میں ترفع پیدا ہوجاتا ہے۔ترکیب میں استعمال ہونے والا ہر لفظ ایک مخصوص معنی پر دلالت کرتا ہے اور ترکیب کی صورت میں خیال اپنے مضاف الیہ سے مل کر ایک دوسرے خیال کوبھی معنی میں شامل کرلیتا ہے۔اس طرح خیال پیچیدہ اور لطیف تر ہوجاتا ہے ۔خیالات کا یہ مجموعہ اپنی دلالتوں اور معنوی انسلاکات کے سبب ، آسانی سے گرفت میں نہیں آتا اور زبان اشرافیہ طبقہ کی نمائندہ بن جاتی ہے۔جذبی نے اضافتوںکے استعمال سے زبان کو رواںاور خوش آہنگ بنانے کے علاوہ معنی کی سطح پر بھی بہت سے کام لیے ہیں۔ایک سے زائد اضافتوں پر مشتمل مرکبات کی چند مثالیں ملاخطہ ہوں :
وہ خوش خرامیِ آوارگانِ راہِ وفا
جہاں سے دار و رسن کے مقام آتے ہیں
ہر جورِ نارواکے مقابل رہے ہیں ہم
وجۂ شکستِ شیوۂ قاتل رہے ہیں ہم
گستاخیِ نگاہِ تمنّا کدھر گئی
تعزیرِ درد کے وہ سزاوار کیا جائے
صبر آزما رہ شوقِ نظارہ کہاں گیا
منت کشانِ سایۂ دیوار کیا ہوئے
افسردگیِ ضبطِ الم آج بھی سہی
لیکن نشاطِ ضبطِ مسرت کہاں سے لائیں
ان اشعار کا آہنگ اور خیال کی نزاکت،توالئی اضافات کی رہین منت ہے۔جذبی کی ایک اور پسندیدہ فنی تدبیر’بعض لفظوں کی تکرارہے‘۔Adjectives Adverbs یا حروف استفہام کی تکرار سے جذبی نے حسب دلخواہ احساس کی شدت کو بڑھانے یا جذبے کے وفور کو کم کرنے کا کام بڑی ہنر مندی سے لیا ہے۔ظاہر ہے میٹھا درد اور میٹھا میٹھا درد یا چپ رہنا اور چپ چپ رہنا ایک ہی معنی پر دلالت نہیں کرتے۔ان کے معنی اور ان سے قائم ہونے ولانقش یکسر مختلف ہوتا ہے۔اب جذبی کے یہ مصرعے سنئے :
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
دل میں دبی دبی سے قیامت کہاں سے لائیں
زخم گل تجھ کو مہکنا ہے تو ہنس ہنس کے مہک
دھندلی دھندلی سی نظر آتی ہے کچھ پرچھائیاں
یہ چپ چپ نرگس کی کلیاں کیا جانیں کیسی کلیاں ہیں
نالۂ بے تاب لب تک آتے آتے رہ گیا۔
ایک وہ راہ کہ ہر کام پہ بس پھول ہی پھول
تری بلندیٔ فطرت کی نرم نرم ضیا
صاف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مصور احساس کے مختلف رنگوں کو ،تکرار ِ الفاظ کے ذریعہ کہیں ہلکا تو کہیں گہرا کر رہا ہے۔’’بس پھول ہی پھول‘‘کہنے سے پھولوں کی کثرت اور رنگوں کا وفورخود بخود پیش نظر میں ابھرتا ہے اسی طرح ’’نرم نرم ضیا‘‘سے محض حسی اور بصری پیکر ہی ہم آغوش نہیں ہوتے بلکہ روشنی کی شدت ازخود خوشگوار حد تک کم ہوجاتی ہے۔
بلا شبہ جذبی نے کئی ترقی پسند نظمیں کہی ہیں،غزلوں میں بھی کہیں کہیں ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار ہوا ہے لیکن ایسے موقعوں پر جذبی کے قلم کا وہ ہنر نظر نہیں آتا جو ان کے عشقیہ اشعار میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔نیا سورج ،چشم سوال،طوائف،اے کاش اور فطرت ایک مفلس کی نظر میں جذبی کی اچھی نظمیں ہیں کہ ان میں افلاس،بھوک اور آزادی کے خواب کو فن کے پیکر میں ڈھال دیا گیا ہے لیکن ان نظموں میں خیال ،احساس سے اس درجہ ہم آہنگ نہیں ہوتا کہ دونوں کی حدیں تحلیل ہوجائیں۔یہ نظمیں قاری کے دل میں اس طرح نہیں اترتیں کہ جمالیاتی تجربہ بن کر اس کے باطن میں ارتعاش پیدا کردیںاور قاری ان خیالات کو دل کی آواز سمجھ کر پکاراٹھے کہ ’’یہ میں میرے دل میںہے‘‘۔
جذبی کی ترقی پسند نظموں پر سب سے بہتر تبصرہ خود جذبی کا وہ شعر ہے جس میں صبا کی زبانی گلوں کو یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ کسی سبب سے ان دنوں اگر ہم رنگ و بو کا ذکر نہیں کرتے تو معاملات عشق میں اس عارضی وقفہ کو لا تعلقی پر محول نہ کریںاور ہر گز بدگمان نہ ہوں۔گلوں سے ربط اور ان کی محبت فطری اورلازوال جذبہ ہے۔اجتماع کے مسائل ،زمانے کا دکھ اور زندگی کے حقائق وہ اسباب ہیں جو شاعر جذبی کو منصب عشق سے بر طرف کرکے مقصدی شاعری کی تخلیق پر مامور کردیتے ہیں ۔شعر ملاخطہ ہو :
صبا گلوں سے یہ کہنا کہ بد گمان نہ ہوں
کسی سبب سے جوہم ذکر رنگ و بو نہ کریں
’’کسی سبب ‘‘کاپیرایۂ بیان ان اسباب کی تخفیف اور تحقیرپر دلالت کرتا ہے ۔مزید توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ لاتعلق ہوکربھی شاعر گلوں کو اپنی طرف سے بدگمان نہیں دیکھ سکتا ۔اس لیے وہ آج بھی انھیں اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے۔
جذبی کے اشعار میں پیرایہ ٔبیان کی شائستگی اور لہجے کی شناخت نے انھیں ترقی پسند شعرا میں بہت ممتاز کردیا ہے۔آواز وں کے ہجوم میں بھی جذبی کی آواز اپنی نرمی اورمدھم سروں کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاسکتی ہے۔یقین ہے کہ وقت کے ساتھ ان اشعار کی منزلت میں اضافہ ہوگا اورمختصر سرمایۂ سخن کی قدر وقیمت کے مزید امکانات روشن ہونگے ۔