Jadeediyat, Maba’d Jadediyat aur PasNauaabadiyat

Articles

جدیدیت، مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیات

احمد سہیل

 

جدیدیت، مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیات کا مخاطبہ وسیع، پیچیدہ، مخالق نامطابق میدانوں میں بٹا ہوا ہے۔ ان تینوں نظریاتی مباحث سے بھی روابط، انسلاک کے کثیر الجہت معنی پوشیدہ ہوتے ہوئے بھی ان کی محدودیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ یہ اپنے مزاج اور اس کے پس منظر میں مابعد پر ہی مکالمہ نہیں کرتی بلکہ اپنے قریبی اور اختتامی ’مابعد‘ تصورات کو بھی حدود المکان اپنے مباحث میں شامل کرتی ہے۔ بہرحال ان تینوں تصورات کے انسلاکی پہلوؤں میں متن کو مختلف اندازسے تجزیہ کیا جاتا ہے اور انھی متنی تجزیات کے مباحثی بطن سے فکر کے وسیع تر دروازے کھل جاتے ہیں اور متن کی صورتِ حال میں نئے امکانات تلاش کرکے ان کے فکری روابط کو دریافت کرنے کے بعد کئی فکری اور اضافی پہلوؤں کا انکشاف بھی ہوپاتا ہے۔ لہذا مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی فکر رویوں کی یکسانیت اور تفاوت کے کئی دلچسپ نکات ابھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لسان کے حوالے سے ہی بیانیہ آوازیں مابعد جدیدیت کے عام چوکھٹے (فریم ورک) میں اپنی جلوہ نمائی کرتی ہیں اور اسی حوالے سے عدم تسلسل، عدم مقامیت، عدم مرکزیت، نایقینیت اور نوآبادیات شکنی جیسے تصورات ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ نکات ، شناخت ، تاریخ اور موضوعیت جیسے متنازعہ فی مسائل پر سوچنے پر اکساتے ہیں۔

انسانی موضوعات سے آئیڈیالوجی اور لسانی مخاطبوں کا ممکن ہونا:

مابعد جدیدیت اور بالخصوص پس ساختیات کے ہدوف میں موضوع اور تنقیدی انسان پسندی کے قیاسات کے انسانی موضوعات کو لامرکز کرنا، شامل ہوتا ہے۔ موضوعات اور فلسفیانہ فکر شکنی کے صورتِ حال میں مسلسل شناخت کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ادبی تحریروں کے ڈھانچوں کو شعوری طور پر کار گر معنیات عطا کرتےہیں، جیسے کہ وہ ان پہلوؤں سے فکری مخاطبہ کرتی ہے جس کا تعلق نوآبادیاتی خطوں میں لینے والے لوگوں ےس ہوتا ہے اور ان کی پہچان اور ان کی صورتِ حال پر ’موضوعیات‘ کا حاوی عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ موضوع اور موضوعیاتی عنصر کے یہی انسلاکی رویے لسان سے ہی متعلق ہوتے ہیں کیونکہ موضوعیت کے تساولی عنصر سے ہی موضوعیت لسان سے متعلق و منسلک ہوجاتی ہے اور انسانی فطرت کے متبادلیات قیاس ہی نہیں کیے جاتے بلکہ اس سے فکری تشکیلات بھی جنم لیتی ہیں اور انسانی موضوعات سے ہی آئیڈیالوجی اور لسانی مخاطبہ بھی ممکن ہوپاتا ہے۔ جو موافق طور پر پس نوآبادیات کے مخاطبے میں مثبت طور پر اور مابعد جدیدیت کو بھی متعارف کرواتا ہے جو کہ مثبت اقدار اور افتراقات کو ایک دوسرے سے اپنی شراکت داری کا احساس بھی دلواتے ہیں اور آئیڈیالوجی پر کلیت اور یکسانیت کو مستحکم بناتے ہیں۔ جس طرح جدیدیت کے تصورات مجّرد اور مغائرتی چیلنجوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردیتےہیں اور مابعد جدیدیت کے مخفی اور ثنوئی مرابتیاتی افکار کو ’ذات دیگر‘ کے حوالے سے منظر عام پر لاتے ہیں اور اپنی سفارشات میں افتراقات کی کثیرالجہت اور مخٓلق نا مطابق کثریت کو ثنوتی تضادات سے جدا بھی کرتی ہیں۔

بورژواژی لبرل ازم سے بیزاری:

لنڈا ہیچن (Linda Hutcheon)نے ژان فرانسرز (Jean Francois)کے مابعد ثقافت کے تناظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا لبرل انسان دوست ثقافت کا حاوی لیبل انکے برخلاف جاتا ہے۔ اس سے زیادہ صحیح اور نمایاں طور پر ان کے خیالات کو اس طور پر لیا جاسکتا ہے جیسا کہ ہیچن نے لیوتاغ (لیوتار) کے بارے میں لکھا ہے کہ :
حقیقت پسندانہ مابعدجدیدیت ثقافت کے لیے ضروری ہے کہ مہابیانیہ کے جوابی اقدار کے تصور سے آگاہ ہو جیسا کہ اسطور اور فن میں ہوتا ہے، یہ جدیدیت کے لیے بھی اطمینان بخش قرار پاتا ہے۔ ہیچن کا خیال ہے کہ لیوتاغ نے مابعد جدیدیت کی وساطت سے مہابیانیہ پر جس قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا ہے وہ اصل میں بورژواژی لبرل ازم سے بیزاری ہے۔ ہیچن کے بقول لیوتاغ کا مابعد جدیدیت کے حوالے سے مہا یا مابعد بیانیہ کے لیے یہ خیالات بے اعتقادیت سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔ جو کہ اصل میں ’معنویت کی گم شدگی‘ کا رنج و غم ہے۔ جس کے پس منظر میں اصل ماتم اس بات کا ہوتا ہے کہ آگہی کے عمل اور فن یا دنیا میں بنیادی طور پر بیانیہ کی آگہی کا کسی قسم کا وجود نہیں ہوتا۔

 

مہا بیانیے کا تصور جدیدیت کے یہاں ناقابل قبول ہے:

لیوتاغ نطشے کی طرح عیسائیت، روشن خیالی اور مارکزم پر بحث کرتے ہیں۔ جو کہ اصل میں مغربی تہذیب کا مہابیانیہ تصور کیا جاتا ہے جو کہ مابعد جدیدیت کی تشکیک کی وجہ سے آنکھیں کھولتا ہے اور عظیم کہانیوںکی کل تشریح اور توجیہات کو انسانی فطرت، حریّت ، ترقی اور تاریخ کے مخصوص ماحول میں ہی پروان چڑھاتا ہے۔ بہرحال لیوتاغ کا چھوٹا بیانیہ تکثرتی معاشرے میں نطشے کے Overmanکے مرابتیاتی منصوبے اور ’غلام‘ کام کرنے والوں سے بہت مختلف نوعیت کا ہے۔ دریرداؔ اور نطشےؔ کی طرح لیوتاغ بھی اس بات کا تاثر دیتے ہیں کہ مہابیانیہ کی ضروری بنیادیں مزید قبول نہیں کی جاسکیں۔ بہرحال نطشے اور لیوتاغ دونوں کا ہی تاریخی تناظر چارو ناچار ایک مخصوص دائرے میں گردش کرکے اپنا سفر مکمل کرتا ہے ۔ لیوتاغ کا خیال ہے کہ ’مکمل طور پر مہابیانیے کا یہ تصور جدیدیت کے یہاں ناقابل قبول ہے کیونکہ مابعدجدیدیت کی تشکیلیت سے مکمل طور پر مختلف ہوتا ہے۔

فن کا انفرادیت اور اجتماعیت سے غیر واضح انسلاک:

مابعد جدیدیت کا ’پتلاپن‘ مابعدبیانیہ انفرادی انسانی موضوع کو اتفاق و موافقیت کے نظریے کی ’دریافت‘ میں بہادیتا ہے، چاہے بیانیہ کا نظام ہمیں اس بات پر سوچنے کی اجازت دے دے کہ ہم تساولی اور آفاقی سطح پر نظیرے اور فنکارانہ عمل کی عوامی بحث کو افتراق کے بیاں میں واضح کریں۔ اتفاق اور موافقت کے وجدان کو تساولی التباس کے اس انسلاک کے ساتھ ابھارے جس کا تعلق فرد اور معاشرے سے ہوتا ہے جس میں انسان زندگی بسر کررہا ہوتا ہے لیکن فن کا انفرادیت اور اجتماعیت سے انسلاک غیر واضح ہوتا ہے جو درحقیقت انسان کی زندگی اور فن سے علیحدگی کا عندیہ دیتی ہے جو کہ انسانی پیکریت کے مقابلے میں ابتری اور انشتار کو ابھارتے ہوئے اسے گرفت میں نہیں لے پاتی اور مابعد جدیدیت کے فن کے بارے میں برعکس قسم کی غلط بیانی بھی ایک مخصوص نظام کے ساتھ ترتیب پاتی ہے لہذا انفرادی انسانی موضوع، فن، معاشرہ اور نظریہ مجبوریوں میں لپٹا محسوس ہوتا ہے۔

مابعد جدیدیت-مابعد بیانیہ کی جانب بے اعتقادی ہے:

لیوتاغ نے مابعد جدیدیت کے سیاق کو سائنسی تناطر میں موضوع بحث بناتا ہے اور ان کے تفتیشی رسائی کے شعبدے تجربی مطالعوں سے بہت پیچھے ہیں۔ لیوتاغ نے ’جدید‘ کی اصطلاح کو سائنس اور قانونی حوالے سے ظاہر کرتے ہوئے مابعد بیانیے کے تصور کو ابھارہ ہے جو کہ مہابیانیے کے لیے واضح طور پر جازبیت کو ابھارتی ہے جیسے ’روح کی جدلیات‘ ۔ تفہیماتی معنویت، عقلی آزادی یا موضوع کے اعمال اور دولت کی تخلیق کاری سے متعلق ہے۔
لیوتاغ کا خیال ہے کہ روشن خیالی بیانیہ قیاسی طور پر پیغام دینے والے اور پیغام وصول کرنے والے کے درمیان ایک طرح کی موافقیت ہے اس رابطے میں اصل’مقولہ ‘ پیش کی قدر کا ہوتا ہے۔ جو اس وساطت سے عقلی ذہن کی متوقع ہم کلامی ہوتی ہے۔ لیوتاغ نے مابعد جدیدیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مابعد بیانیہ کی جانب بے اعتقادی ہے۔ اور اس سے زیادہ بیانیہ کے وظائف زبان کے بیانیے کے عناصر کے سبب جبر کا شکار ہوجاتے ہیں اور یوں بیانیہ ادراک اور مظاہر کو نئی معنویت سے آشکار کرتا ہے لہذا مابعدجدیدیت کی اصطلاح کی تساولی وجوہات کی بنا پر مہابیانیہ کا عدم امتیاز بھی ہے جس پر روایت کے حوالے سے زبان کی تلوار لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور اسی دنیا اور زبان کا آپسی رابطہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ دریرداؔ کے تصور ’لفظ کی مرکزیت‘ میں پوشیدہ ہے جو کہ معنی کی مرکزیت میں توازن پیدا کرنے کے لیے قطبین کے تناؤ کے درمیان افتراقات کو بھی تلاش کرتا ہے۔
دریرداؔ کے رد تشکیل کے اس مخاطبے کو رومان سیلڈن (Roman Selden)نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے ، ’معنی کی مرکزیت‘ کی خواہش میں یہ موجودگی کی ضمانت ہوتی ہے۔ جیسے کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ذہنی اور طبیعی وجود ایک مرکز پر مجتمع ہوتا ہے اور اس کیفیت کی ساخت اس کے مکاں پر آکر جمع ہوجاتا ہے۔ بہرحال فرد کی آزادی کے بغیر چھوٹا بیانیہ یا مہابیانیہ ایک دھوکہ ہے اور مائیکرو بیانیے سے ہی میکرو بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ اجزا ہی مل کر ’کل‘ بیانیے کو بناتے ہیں۔ ریاستی جبر ہویا ریاستی استبداد ان سب سے چھوٹے برے بیانیے ہی فرد سے ابلاغ کی جہتیں ابھر کر فرد اور اجتماع کو تاریخی جبر اور معاشرتی و سیاسی استبداد کی صورتِ حال سے آگاہ کرتا ہے اور اسی سے نوآبادیاتی بیانیہ اور مخاطبہ کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔
نطشے، فورائیڈ، فوکو اور دریردا کے مدِّ نظر مرکزیت کا قیاس مختلف سطح پر ایک کل کی صورت میں عقلی موضوعیت ہے اور اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ مرکزیت کے اصولوں سے باہر رہ کر اس پر سوچا جائے جیسا کہ ہم وجود جوہر، ہرستی، سچائیہ، ہیئت، ابتداور اختتام۔ شعور، فرد، خدا پر فکری مکالمہ کرتے ہیں جو شاید قطبین کے مجموعے کے حاوی ثنوتی اختلافات یا تضادات سے نظریں چراتے ہیں اور اس کام میں ’عمل‘ کی مرکزیت کی شناخت کو پالینے کے لیے ’خیال دیگر‘ سے انکار بھی کردیا جاتا ہے۔

مشرق اور مغرب کے ثنوئی اختلافات کی تشکیلات:

ثافتی انتشار مخاطبوں کے ان بیانیوں میں انتشار فکر اور گرمگو صورتِ حال پیدا کردیتے ہیں۔ جس سے نوآبادیاتی قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ’ثقافت اور سامراجیت‘ میں ایڈورڈ ولیم سعید اسی قسم کی عدم یکسانیت کے التباس کو مرکزیت کی شناخت اور موضوعیت میں دریافت کیا جو انفرادیت اور اجتماعیت میں ابھرتی ہے، یوں زبان بیانیہ کی دوسری قسم بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے مغرب اور مشرق کے جوغے دار اضداد کی تشکیلات پ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرق اور مغرب کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نوآبادیات کی مشیری اور سامراجیت کو ثقافتی ثمر کے طور پر پیش کرتے ہوئے نوآبادیاتی معاشروں نے محکوم آبادیوں پر اپنے فن اور ادب کو اعلا ترین بناکر پیش کیا۔ جس طرح شیکسپیئر کا کیلیبن (Caliban)پس نو آبادیاتی اسطوری کردار ہے جس کا قریبی انسلاک زبان و تاریخ کسے ہے اور اس کی زبان انسانی کاوشوں سے ہی جنم لیتی ہے کیونکہ نوآبادیات کبھی نہ کبھی اپنے لسانی روپ کو سامنے لاتی ہے اور بعض دفعہ یہ اپنی شناخت کی بحالی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی ہے اور وہ پس قطبین میں پہنچ کر قوم پرستانہ اقتدار اور آزادی کو بیاں بالیقین میں تبدیل کردیتی ہے۔ لہذا اس سلسلے میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مختلف اقسام کی شناخت ہمیشہ ناکام رہتی ہیں یوں بھی ثنوئی اختلاف کے تصور میں قوم پرستانہ اور سامراج متعلقات بہت پسندیدہ ہوتے ہیں، سوائے اس کے کہ پرانا اقتدار آسانی سے نئے اقتدار کی جگہ نہیں لے سکتا اور یوں نئے تصورات، خیالات حدود اور جوہر تیزی سے زمین میں آتے ہیں اور اس طور پر تصورات کی نئی صف بندی، فکر کے نئے اور بنیادی نوعیت کے سکونی تصورات کی شناخت کی درجہ بندی ہوپاتی ہے جو کہ سامراجی عہد کے دوران ثقافت کے افکار کی پہچان قرار پاتے ہیں۔ نوآبادیاتی شناخت کے سلسلے میں ’شناختی بیت‘ بھی نمود کھاتی ہے۔ جس کا مقولہ ’ہم‘ اور ’وہ‘ ہوتا ہے۔ اس قسم کی میکانیت نئی ہیئت، سیاسی افتراقات کی حرکیات سے جنم لیتی ہیںباوجود اس کے کہ ردِّ تشکیل حدود اور تجدیدات نوآبادیوں اور نوآبادیوں کے درمیاں ایک کٹھن عمل ہوتا ہے۔

 

مابعد جدیدیت سے پس نوآبادیات کا ابھرنا، اور اختتام محیط ارض سرمایہ داریت پر ہونا

ایڈورڈ سعید کے خیال میں نوآبادیاتی صورتِ حال اس سیاق میں ہوتی ہے کہ کیسے فن و ادب ایک دوسرے سے باہم ہوکر نوآبادیات کی سیاست کے رویوں کو ابھارتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے لکھا ہے کہ نوآبادیاتی ادب عموماً مغربی سامراج کے مہابیانیہ کو تہہ بالا کرتا ہے اور محمبّر (Concrete)دعوؤں کے ساتھ نوآبادیاتی موضوعات سے رابطہ کرتی ہے۔ شناخت اور موضوعیت کے حوالے سے ایڈورڈ سعید بنیادی مسائل کو چھیڑتے ہوئے سامراجی تجربے کو ادراکِ نو کے حوالے سے Compartmentalisedکی اصطلاح سے علیحدہ کرکے بیاں کیا ہے اور ایڈورڈ سعید ان حدود کو بآسانی مغربیت اور مشرقیت میں تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ عارف ڈارلک (Arif dirlik)کا اس سلسلے میں یہ خیال ہے کہ ان مسائلی حدود کو سیاسی اور معاشی متعلقات سے باہم کردیا جاتا ہے۔ عارف ڈارلک نے اپنے ایک مقالے Borderland Radicalismمیں مابعد جدیدیت اور پسِ نوآبادیات کے تنقیدی رویوں کی وساطت سے حدود، موضوعیت اور تاریخ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ عارف ڈارلک نے انکشاف کیا ہے کہ مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیات کا رجحان نوآبادیت کی پس سرمایہ داریت پر زور دیتا ہے کیونکہ مابعدجدیدیت کی صورتِ حال نمایاں طور پر اعتدال پسند عہد کی پیداواریت ہے۔ جو کہ نظری فرائض کے تحت تاریخ اور معاشرتی نظریات کو چیلنج کرتی ہے اور اس کو حاصل کرنے کےلیے سیاسی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ بہرحال ساتھ ہی وہ تاریخ کے موضوعات کا صفایا کردیتی ہے۔ یہ تمام صورتِ حال سیاسی عمل کے طور پر سامنے آتی ہیں اور تاریخ کے موضوعات کو تہس نہس کردیتے ہیں اور ساتھ ہی کئی موضوعات کی ’خطرناکی‘ کو بھی کم کردیتے ہیں۔ یہ قبل تصوراتی نوعیت کے نظریات ہوتے ہیں اور اپنے مزاج میں دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
عارف ڈارلک کا دعوا ہے کہ یہ پسن نوآبادیات کی انبساطی تکثریت ہے جو کہ سرحدوں کے حدود کے بہاؤ کے محدود مکاں (Space)پر زور دیتے ہیں اور اشرفیہ کے مشابہ بیانیہ اور ثقافت سے بہت زیادہ اختلاف نہیں کرتے جیسا کہ انھیں کرنا چاہیے۔ ڈارلک نے بہتے ہوئے موضوعات کے مقام کے رجحانات میں پائے جانے والے روابط کا بھی سراغ لگانے کی کوشش کی ہے کہ مابعد جدیدیت سے پس نوآبادیات ابھرتی ہے اس کی انتہا محیط ارض سرمایہ داریت پر آکر اپنا دم توڑتی ہے۔ پیدواریت کے اس لچک دار دور میں ہم سب سرحدوں میں مقید زمینوں پر رہتے ہیں۔ سرمایہ، عدم علاقائیت اور عدم مرکزیت، سرحدوں کے علاقے تشکیل دیتے ہیں جہاں آسانی سے گھوما پھرا جاسکتا ہے، فرد، ریاست اور معاشرے کے کنٹرول سے دور رہتا ہے لیکن پھر بھی ریاست اور معاشرے کا تصادم بھی مشاہدے میں آتا ہے۔ بہرحال مسئلہ یہی ہوتاہے کہ پس نوآبادیاتی مخاطبہ ہی اس کو منظرِ عام پر لاتا ہے اور مادی زندگی آزادی کے مخاطبے کے مسئلے اور اس کی علیحدگی اور بذاتِ خود اس کی مادی زندگی کی صورتِ حال اسی حالت میں عصری، آفاقی معاشرے بنیادی اصولوں کو محیط ارِ سرمایہ داریت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
عارف ڈارلک کا خیال ہے کہ دانش ور طبقہ محیط ارض سرمایہ دارانہ نظام کا ہی حصہ ہے جو ان کے یہاں زماں و مکاں کا ملا جلا تصور ہے۔ بہرحال مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیاتی ادب انارکی اور انتشار ہی برپا نہیں کرتا بلکہ وہ جدیدیت کی فکریات (آئیڈیالوجی) کے خلاف باغی بھی پیدا کرتے ہیں اور لازمیت کی شناخت کے کل بیانیے کو بھی رائج کرنا چاہتے ہیں۔ عالمی نوعیت کا سرمایہ دارانہ نظام کا کسی انسان دوستی یا آئیڈیالوجی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ آزاد غلاموں کی منڈیوں میں مقامیوں کا استحصال کرنا اور اپنی برتری کو محیط ارض پر پھیلانے کے لیے ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرکے ہر اس فکر و آئیڈیالوجی کو کچل دیتے ہیں جو ان کی راہ میں آتے ہیں اور فکری بیانیہ اور اس کا مخاطبہ ممکن نہیں ہوپاتا۔

مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی مباحث روشن خیال پروجکٹ کا نقد ہے:

عارف ڈارلک کا موقف یہ ہے کہ جدیدیت کا پروجکٹ انیسویں صدی کی اس فکری روشن خیالی کے بعد تشکیل پاتا ہے جب اس کے بطن سے آفاقی اخلاقیات، قانون، آزادنہ فنون اور معروضی سائنس کو تشکیل دینے کی سعی کی گئی ہے کیونکہ اس سے یہ امید ہوچلی تھی کہ فن اور سائنس نہ ہی فطرت کی قوتوں کو کنٹرول ہی نہیں کریں گے بلکہ آفاق، ذات، اخلاقی طریقۂ کار، اداروں کے قوانین اور انسانی وجود کے انسباط کی آگہی کو بھی اپنی گرفت میں لاسکے گی۔
لگتا تو ایسا ہے کہ مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیاتی مباحث بذاتِ خود روشن خیال پروجکٹ کا نقد ہے جو کہ عدم تسلسل، تدبیلی اور غیر یقینیت کی راہوں کو مٹانا چاہتی ہیں۔ اس کے مصنوعی پن کا مظاہرہ عموماً ذات کے انعکاس کی صورت میں نمودار ہوتا ہے جیسا کہ ناول نگار، افسانہ نگار تھامس پنچن ، سلمان رشدی، کارلوس فونٹین، مارکیز اور اردو میں جوگندر پال، سریندر پرکاش، احمد ہمیش، الیاس احمد اور آغا گل کے افسانوی متن کا بنیادی مقولہ ہے۔ یہ چلن بیانیہ آرکی ٹیکچر کے انتشار میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جس میں کسی زمانی خاکے، منصوبے اور فریم ورک کے وجود کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا لیکن لسانیات کے نظام میں یہ رد تشکیل اور تشکیل نو کے مباحث کو ابھار دیتا ہے۔ ایک نقطۂ نظر سے مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیات کو نقطۂ اتصال فراہم کرتا ہے اور بیانیہ اور لسان میں نئی تعبیرات کھولتے ہوئے ہائی ماڈرن ازم کو دریافت کرتا ہے جیسا کہ جیمس جوائس کے Finnegans Wakeمیں نئی زبان و الفاظ کے کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس طرح ناصر کاظمی کے شاعرانہ بیانیے میں نئی لسان و لفظیات اور معنیات کی نئی گرہیں کھلتی ہیں۔ حبیب جالب کی شاعری کابنیادی مخاطبہ اسی نوآبادیات کی باقیات کے خلاف احتجاج اور فکری مزاحمت کا مہابیانیہ ہے جبکہ ن م راشد کے یہاں سامراجی قوتوں کے خلاف آگہی اور اعصابی تناؤ دراصل جدید تر فرد کی وہ بے چینی پائی جاتی ہے۔ جو پس نوآبادیاتی معاشروں کا المناک سانحہ بنا۔ راشد کی شاعری نئی نئی جدیدیت اور مقامی نوآبادیاتی رویوں کا درد بھرا اور حقیقت پسندانہ مخاطبہ ہے اور ہائی ماڈرن ازم کا پردہ چاک بھی کرتی ہیں جس ک پس منظر میں نوآبادیاتی فکر کا بھیانک منظر نامہ ادراک میں آتا ہے۔ یہی آگہی راشد کے شعری بیانیے میں داخل ہوکر نئے نوآبادیاتی رجحان کو ابھارتی ہیں جو کہ مقامیت کے حصار میں تیسری دنیا کے فرد کی اذیت ناک سیاسی، معاشرتی اور آئیڈیا لوجیکل تجزیوں کا قنوطی اور دل خراش تجزیوں کا مشاہدہ ہے۔

نوآبادیاتی شناخت اور باہمی افتراقات کو دریافت کرتی ہیں:

پس نوآبادیاتی دیگر Post-ismsکی طرح نہ ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ نہ ہی نوآبادیاتی مطالعوں کا اختتام ہے اور ن ہی یہ اسے منفرد کرتا ہے بلکہ وہ نئی آگاہیوں اور رسائیوں کے تحت نوآبادیاتی تصورات اور اس کے واقعات و مظاہر کو قدرے قریب ترین تناظر فراہم کرتے ہیں۔ جس سے نوآبادیاتی موضوعات کے تاریخی سیاق میں نئی شناخت تشکیل پاتی ہیں۔ اور جو نوآبادیاتی شناخت میں مطالعہ کیے جانے والے ثقافتی، معاشرتی گروہوں کے باہمی افتراقات کو دریافت کرتے ہیں۔ پارتھا چٹرجی (Partha Chaterjee)کے بقول ’قوم اور اس کا انتشار کے وصف نوآبادیاتی پروجکٹ ہیں جو کہ اقتداری اور اقتدار پسندطبقے سے مختلف طبقہ ہوتا ہے۔ یہ اصل میں اعتدال پسند طبقہ ہوتا ہے۔ اور اقتدار پسند طبقے سے مغائرتی فاصلہ رکھے ہوئے ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ متن ان افتراقات سے دھند صاف کرتا ہے۔ جس میں ’دوسروں‘ کو کم تر اور ریڈیکل سطح پر مختلف بتایا جاتا ہے۔

قوت و اقتدار کا شعور پر قابض ہونا

نوآبادیاتی پروجکٹ سیاسی اور معاشی قوتوں کے اس عدم مساوات کو بھی اپنی تعریفات میں شامل کرتا ہے جو ان کے عالمی انسلاکات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں ثقافتی اور مذہبی متعلقات ہی نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی حرکیات اور رجحانات کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے جو کہ آلتھیوسے (Althuseer)کی درجہ بندی کے حوالے سے ریاست کے ادارتی اور جبریاتی آلات (Apparatues)ہوتے ہیں۔
بلاشبہ ہم اس وقت جس صورتِ حال کا مطالعہ کررہے ہیں وہ نوآبادیاتی کو بحیثیت کلیاتی واقعات کے قریبی تناظر میں پرکھنا چاہتی ہے کہ نوآبادیات کی اصطلاح دنیا کو پہلے ہی نوآبادیاتی آقاؤں اور نوآبادیاتی نظام میں کچلے ہوئے لوگوں کے انسلاک کے ماجرے کی صورت میں ادارک میں آچکی ہے جو کہ حاشیائی سطح پر ابھر کر مرکوز ہوجاتی ہے جیسا کہ ایڈورڈ ولیم سعید نےمشرقیت کے حوالے سے یہ اشارہ کیا ہے کہ ’’سامراجی قوتوں کو ایک دوسروں کو خلق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ مشرق کے فکریاتی نظام میں یہ تعریف خود ان کے مرکز میں برپا ہوتی ہے۔ سامراج کی سیاست اس مرکز کے دوسرے قطبین سے بھی خوف زدہ ہوتی ہے جو حاشیاتی سطح پر ایک منصوبے کے تحت ’دوسرے‘ کے طور پر نوآبادیات کے محکوم لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان تمام کا تمام انسلاک ایک مرکز پر ہی محیط ہوتا ہے۔

سیاست اور معاشرت پر ثقافت کا غلبہ:

نگووگی واتھیونگ (Naugi Wathoings)اپنے نظریہ اور فکشن میں نوآبادیات کی اثر پذیری کو ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ سیاسی اور معاشری سیاق کے موضوعات ہی نہیں ہوتے بلکہ اس سے زیادہ ثقافتی نوآبادیاتی منصوبہ بندی کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں جو کہ نوآبادیات میں بسے ہوئے لوگوں کی مدد سے ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے ارتباط اور یک جہتی کی کوئی صورت نکال لیتے ہیں انھوں نے The Cultural Factor in Neo-coloialeraمیں اپنے اس موقف کااظہار کیا ہے کہ ’’سیاسی اور معاشی کنٹرول پر ثقافت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ آہستہ آہستہ گہرا سے گہرا تر ہوتا چلاجاتا ہے جو کہ تعلیم، ابلاغ، ادب، مذہب، زبان کے تحفظ، حکمتِ عملی اور حرکت پذیری کو کلی طور پر کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ اقتدار اور قوت کا جبری تصور ہے جو کہ رویوں، مطمع نظر، اقدار محسوسات کی صدرت میں مخصوص آئیڈیالوجی پر حاوی ہونا چاہتا ہے اور بعدازاں قوت کی یہ صورتِ حال شعور کے تمام حصّوں پر غلبہ جمالیتی ہے۔ ذاتی پیکروں سے لے کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی انھیں محسوس کیا جاتا ہے۔ جس میں حاوی رجحان طبقات اور اسکی تمثالوں کو ثقافتی اور نفسیاتی سطح پر کنٹرول کرتے ہیں اور جبری تصورات اور طبقاتاس بات کی کوش کرتے ہیں کہ ’غلامی‘ کے طوق کو وہ عام سی انسانی صورتِ حال کے طور پر رائج کردیں۔
ثقافتی نوآبادیات کی منصوبہ بندی نو (Neo)نوآبادیاتی اصطلاح اور معنویت کو نئی طور پر روشناس کرواتے ہوئے وہ اشرافیائی طبقے کے معاشی ہدوف کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو کہ سابقہ نوآبادیاتی نظام کی اساس ہوتی ہے۔ ثقافتی نوآبادیات سابقہ نوآبادیات میں فلم، ریڈیو، ٹیلی وژن، انٹرنیٹ، فیشن اور شو بزنس کے افقی التباس کو رواج دے کر سابقہ نوآبادیات میں بسنے والے عوام کو فکری جمود کے حصار میں مقید کردیتے ہیں۔

پس نوآبادیاتی ادب، سامراجی قوتوں کی ساخت سے برآمد ہوتا ہے

جب پس نوآبادیاتی نظام میں تعلیمی نظام اور زماں ثقافتی پیداوار کا روپ دہار لیتی ہے تو اس کے نتیجے میں پس نوآبادیاتی ادب ابھرتا ہے۔ ’’پس نوآبادیاتی ادب یورپی رزمیہ اور بیانیہ سے ہوتی ہوئی یورپی بورژوا ناول کی بنیادوں پر تناسب کا رنگ اختیار کرتی ہے۔ جو بہت ہی عمیق طریقے سے تاریخی اور ثقافتی امتیازات کو بڑی صفائی سے مٹا کر پس نوآبادیاتی افتراق کو ابھارتے ہیں اور اس ردعمل کے طور پر غیر فطری پس نوآبادیات ابھرتی ہے اور خود اپنے ہاتھوں سے ہی اپنا گلاخود ہی گھونٹ دیتی ہے اور اپنے اختلافات اور اپنی ڈاڑاروں کو خود ہی منظرِ عام پرلاتی ہے…..!‘‘
(’’پس نوآبادیات کیا ہے؟‘‘ از مشرا وارہیجن) لیکن اب نئے محیط ارض کا عالمی منصوبہ نئی نوآبادیات کی تشکیل بندی کرکے ثقافت اور ادب کو نئے رنگ میں پیش کرتے ہوئے تیسری دنیا کے عوام کا آبادی کی منصوبہ بندی سے لے کر مذہبی درس گاہوں پر نقب لگانے سے بھی باز نہیں رہتا اور یوں نوآبادیات کا نیا بیانیہ بھی تجربے میں آتا ہے اور اس کے بیانیے کو اس کے ذرائع ابلاغ اعلا قسم کا بیانیہ اور طاقت ور مخاطبہ قرار دے کر عالمی سطح پر اس کی رونمائی کی جاتی ہے۔
پس نوآبادیاتی صورتِ حال دراصل نوآبادیات کے معاشرتی سیاسی، معاشی اور ثقافتی ردعمل کے مزاحمت اور احتجاج کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ مشرا او ر ہیچن کا موقف ہے کہ پس نوآبادیاتی ادب سامراجی قوتوں کی ساخت میں سے برآمد ہوتے ہیں جو اس کے ترتیب وار طریقۂ کار کے ثقافتی غلبے سے تشکیل پاتے ہیں اور اس مقام پر پس نوآبادیات کی نبضوں کو تلاش کرتے ہیں جن کے بطن میں نوآبادیاتی مخاطبہ چھپا ہوتا ہے اور پس نوآبادیاتی ثقافتی رویوں کے مثبت اور منفی نتائج سے پیشگی طور پر آگاہ بھی ہوتا ہے اور اپنی ثقافت کو مقفل کردیتا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کسی طور پر بھی نوآبادیاتی ادب اور ثقافت کی تشریح اور ترجمہ ان کی زبانوں میں ہو اور یہ بھی چاہتا ہے کہ یورپی مطالعے اور قرات کو لا مرکز کرکے اس کو نوآبادیاتی متن کے حصوں میں شامل کردے جس میں مسخ چہروں والے نام اور بے شناخت لوگوں اور ان کی آئیڈیالوجی کو پیش کرتے ہیں۔ یہ قوت اور حاوی اقتدار کا حصہ ہوتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ قوت کے اس انسلاک کو موثر طور پر پھیلا جائے۔ نوآبادیات سے نوآبادیاتی صورتِ حال پھوٹتی ہے۔ ارتقائی حالت میں وہ نوآبادیاتی نظام سے اختلاف بھی کرتی ہے۔ نوآبادیاتی تناظر میں ادب کے تنقیدی پہلوؤں کو تجزیہ کیا جاتا ہے۔ مغرب کے انسان دوست مابعد بیانیے کی بنیادوں میں کئی مسئلے مسائل ہیں جنھیں نوآبادیاتی رجحانات اور تصورات جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یوں نوآبادیات بذات خود سیاست اور تاریخ کا محرک بن جاتے ہیں اور نوآبادیات کے تنقیدی فریم ورک کے باہر وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا اور یوں وہ اپنے تناظر کو شناخت کے لیے پس نوآبادیاتی تناظر کا محتاج ہوجاتا ہے۔

عینیت: جواز اور عقلیت کا استحقاق ہے:

مابعد جدیدیت اور پس نوآبادیات کا جب بھی قریبی طور پر تقابل کرنا مقصود ہو تو ذہن میں جدیدیت بطور پس نوآبادیات کے آتی ہے۔ ان کے انسلاکات دریافت ہوتے ہیں جو کہ نوآبادیات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔ اس تعلق سے جدیدیت اور نوآبادیاتی مطالعوں میں پیچیدگی بھی پیدا ہوتی ہے جو بلاشبہ دلچسپ بھی ہے اور کسی طور پر موضوع سے الگ بھی نہیں اور وہ اپنے مطالعوں اور تجزیات کا جواز خود ہی پیش کرتی ہے۔ دونوں ہی روشن خیال بیانے کے مبادزت (Chalenges)کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ جدیدیت عرصے سے اپن طو رپر کچھ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی تھی۔ بقول لیوتاغ مابعد بیانیے نے مغرب کے انسان دوست افکار کو دوبارہ منفرد کیے ہوئے دیوتا میں تبدیل کردیا۔ اس سلسلے میں اس قسم کے تجزیات ہوئے کہ سرمایہ داریت کے عروج اور مغربی قوتوں کی سامراجی دلچسپی نے جدیدیت کے تصورات کو ابھارتے ہوئے اس کی کلیت میں ارتقا کے عنصر کو بازیافت کرنا چاہا۔ یہ عینی نوعیت کا ارتقائی تصور بہرحال روشن خیال پروجکٹ سے کشید ہوتا ہے اور یہ جواز اور عقلیت کا استحقاق بھی ہے کیونکہ ذہن اور جواز اور ’کنٹرول‘ قسم کی فطرت سے مکمل طو رپر علیحدہ وہتی ہے جو کہ ’اندر‘ اور ’باہر‘ کی جنگ کا سبب بنتی ہے۔ اس کا تمام کا تمام ڈھانچہ منطقی ہئیت اور اس کاخلاصہ موضوعی (Substantive)سیاق میں ہوتا ہے۔ جو کہ موضوعی وجودی کیفیت اور معروضی حقیقت کو بھی احاطہ مشاہدہ میں لاتا ہے۔ جدلیات کی روشن خیالی میں ہورک ہائمر (Hork Heimer)اور اودونو (Adorno)نے لکھا ہے کہ تخلیقی دیوتا کی روح فطرت کے قوانین جیسی ہوتی ہے مینز (Mans)کا کہنا ہے کہ خدا کا اقتدار اعلا دنیا کے اوپر ہوتا ہے اور قیادت ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ مینرز کی اس تعریف میں قوت کی مشق جو کہ موضوع اور معروض کے مابیں ایک قسم کے التباس کے انسلاک کا عندیہ دیتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس کو کس طرح بڑے سے بڑا کیا جائے اور یہی ’آقا‘ کا تصور معاشرے کے نظام میں ’آقا‘ اور ’غلام‘ کی حرکیات کے غلبے کا سبب بنتا ہے پھر کلی سطح پر معاشرے میں وہ بذات خود قوت کی علامت ہی نہیں بنتا بلکہ یہ اپنے طور پر اپنے آپ کو مستحکم سے مستحکم تر بناتا رہتا ہے اس بات کو ہورک ہائمر اور ادودنو نے ’ثقافتی صنعت‘ (Cultural Industry)کہا جو کہ اپنی ہی خدمات کو اپنی ہی ذات کی بقا کے لیے ایک مرکز پر لے آتی ہے اور یہ ثقافتی اشیا سامراج کو آفاقی اور فطری غلبے کی شدت کے ساتھ ابھارتی ہے۔ ہورک ہائمر اور ادودنو نے اپنے مطالعوں اور تجزیات میں خارجی نوآبادیات کا تذکرہ نہیں کیا جس کی مدد سے روشن خیالی اور سامراج کے انسلاک کو آگہی میں لایا جاسکے۔ اسی حوالے سے یہ مقامی لوگوں کو ’ترقی‘ کا جھانسہ دے کر مغربی غلبے کا جواز پیش کرتے ہیں، اسی طرح کی صورتِ حال کئی نوآبادیاتی بیانیوں میں نظر آتی ہے۔ خاص طو رپر کانریڈ ( Conrad)کیپلنگ (Kipling)وار ڈینیسن (Dinesen)پال ڈی ایووا (Paul D. Ivo)کے مخاطبے میں مقامی آبادیوں کے لوگوں کی معاشرتی حرکیات اور ماحولیاتی احوال نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ تمام مخاطبے فطرت کی تمثالوں کو تشریح کررہے ہوں۔ لیکن یہ تمام کے تمام بیانیے عمیق قسم کے سیاسی ردعمل میں تبدیل ہوکر کبھی کبھار بشریات کے سوالوں کو اٹھاتے ہیں۔ ان بیانیوں میں ’مقامی‘ (آدمی) فطری سطح پر غیر تہذیبی انسان ہوتا ہے۔ فکر کا یہ تمام کا تمام ڈھانچہ ثنوئی اخلافات کے نظام کو ابھارتا ہے جس سے فرد فطرت سے علیحدہ ہوکر مغائرت کی نئی سطحوں کو بنتے دیکھتا ہے جس میں زیادہ تر صورتِ حال اس قسم کی ثنوئی اختلافات کی ہوتی ہے۔

فطرت؍ ثقافت
دائیں ؍ بائیں
جنگ ؍ امن
دن ؍رات
آقا ؍ غلام
ثواب ؍ گناہ
اچھا ؍ برا
عروج ؍زوال
ہار ؍ جیت
مہذب ؍ جنگلی
زندگی ؍ موت
ملاپ ؍ جدائی
زمین ؍ آسمان
مغرب ؍ مشرق
اندھیرا ؍ اجالا
لڑکا ؍ لڑکی
محبت ؍ نفرت
گرم ؍ سرد
بہادر ؍ بزدل
جھوٹ ؍ سچ
جنت ؍ دوزخ
چاند ؍ سورج
غریب ؍ امیر
جدید ؍ قدیم
اور انھی ثنوئی اختلافات کی مدد سے نوآبادیاتی فکر کو عقلیت کا روپ دے دیا جاتا ہے جو اس وقت سیاسی اور معاشی محرکات سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اصل میں مغربی عقلیت اپنے آپ کو تاریک ابتریت (Chaotic)اور فطرتی دنیاؤں میں آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ ان نوعیتوں کی قراتوں میں نوآبادیاتی قاری ادیرداؔ کے رد تشکیل کے افتراق (Differance)کی اصطلاح کو پالیتا ہے۔
مابعد جدیدیت، جدیدیت کو مکمل طور پر مسترد نہیں کرتا۔ بیچن نے اسے Rhetoric of rupureکہا ہے۔جس میں ماضی کی مثنیت کو Remainsجانا گیا ہے اور اس بات کا درس بھی دیا جاتا ہے کہ معاشرتی حقیقتوں کی ساخت مخاطبوں کے بعد تشکیل پاتا ہے اور ہیچن نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مابعد جدیدیت کا مابعد بیانیہ کی جدیدیت کا انسلاک ایک قسم کا تنقیدی Revisitingاور طنزیاتی مکالمہ ہے جو کہ فن اور معاشرے کے ماضی سے متعلق ہوتا ہے اور اس کمشکش میں بعض دفعہ نئے مظاہر بھی ادراک کا حصہ بنتے ہیں، عموماً مابعدجدیدیت نوآبادیاتی تاریخی متعلقات کو اپنی مباحث سے بے دخل نہیں کرتا۔ بہرحال یہ لازمی نوعیت کا رد نوآبادیات اور پس نوآبادیات کا شناختی پیمانہ ہے جو مابعد جدیدیت کے نظر انداز کیے ہوئے معاشرتی نظریے کی عملیات سے روشن خیالی کی نئی کرنوں کو ابھرتا محسوس کرتا ہے تاکہ نوآبادیات کی قراتِ نو ممکن ہوسکے کیونکہ یہ بیانیے پر حاوی خیال کیا جاتا ہے۔

لبرل انسان دوست بدیعیات، تشکیک سے عبارت ہے:

چٹرجی (Chaterjee)نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ رد نوآبادیات کے شروع کے زمانے میں جس قسم کی ’قومیت‘ کو فروغ حاصل ہوا، وہ پیچیدہ تھا کیونکہ یہ ثقافتی اعتدال پسندی تھی، وہ اس طرح کہ وہ نوآبادیاتی حکومتوں سے اپنی خود مختاری ایک محکوم حالت میں کرتی تھیں جو کہ پس روشن خیال معاشرتی افکار کے آفاقی جواز کے ماخذات سے تشکیل پاتا تھا۔ یہ پس نوآبادیاتی نظریے کے پھلنے پھولنے کے لیے تذبذب کا مقام تھا۔ جو اس بارے میں زور دیتا تھا کہ آزادی کو تسلیم کروانے کے لیے صرف سیاسی اور معاشی خود مختاری پر ہی تکیہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ بات بھی صاف ہے کہ نوآبادیات منصوبے اور اس کا مخاطبہ سابقہ نوآبادیات سے ہی ترتیب پاتا ہے۔ بعد ازاں یہ لبرل انسان دوستی کی بدیعیات کے طریقے کار کی تشکیک کی صورت میں ابھرا اور آفاقی مہا بیانیے کو پس نوآبادیات اور مابعد جدیدیت کے پروجکٹ سے جوڑ دیا گیا۔

نئے نوآبادیاتی موضوعات کی لاتشکیلیت اور مزاحمتی ماڈل کی فراہمی:

مابعدجدیدیت کے زیر اثر پس نوآبادیاتی فکر ایک خطرناک اور حساس قسم کا وظیفہ ہے کیونکہ اس سے پس نوآبادیات ایک دوسرے سامراجی پروجکٹ میں داخل ہوجاتی ہے۔ جب بھی پس نوآبادیات کو مابعدجدیدیت کی اصطلاح میں رکھ کر مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس نے مابعدجدیدیت کے بطن سے جنم لیا ہے اور پس نوآبادیات کے سیاسی اور تاریخی جہتیں بھی وہیں سے پھوٹتی ہیں حالانکہ یہ اس کا نوآبادیاتی فکر کے تناظر کا کلیدی نکتہ ہوتا ہے۔
مشرا اور بیچن نے اس سلسلے میں (۱) نسل (۲) زمان اور (۳) سیاسی کشمکش کا ایک دوسرے سے فرق واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان تینوں تصورات کو پس نوآبادیات کے کسی بھی نظریے میں جوڑا جاسکتا ہے۔ اگر پس نوآبادیات کے نظریے اور اس کی عملیات کو اگر غیر موثر بنادیا جائے تو روشن خیال پروجکٹ اس کو عقلی بنادیتا ہے۔ وہ نوآبادیاتی موضوعات کو خلق کرنے کے علاوہ موضوع کی صورتِ حال اور اس کے موضوعات کی ہیئت بندی کرنے کے لیے سوالات اٹھاتا ہے جو بعد میں رد نوآبادیات کے منصوبے کا لازمی حصّہ بن جاتا ہے اور اس سے رد نوآبادیاتی پروجکٹ میں کئی عنوانات کی توسیع ممکن ہوپاتی ہے۔
بہت سے پس نوآبادیاتی لکھنے والے نوآبادیاتی یا نئے نوآبادیاتی موضوعات کو لاتشکیل کرکے قوت کی ساخت کو نوآبادیاتی موضوع سے Intertellateکرتے ہیں۔ یہ موضوعات کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور کسی طو رپر د تشکیل کا وظیفہ بھی قرار پاتے ہیں ایک ہی وقت میں وہ اقتصادی اور ثقافتی سامراجیت کے درمیاں پیچیدگیاں کھڑی کردیتے ہیں تاکہ مزاحمت کے ماڈل اور نظریات مہیا کیے جائیں۔

مزاحمتی مابعد جدیدیت اور معاشرتی کشمکش سے معنی کا پیدا ہونا:

بیچن کے بقول مابعدجدیدیت بنیادی طور پر متنازعہ ہے کیونکہ یہ سیاسی اور تاریخی متعلقات کو الجھا دیتی ہے۔ ٹریسا ایبرٹ (Teresa Ebert)اسے مزاحمتی مابعدجدیدیت کہتی ہیں۔ جو کہ لفظ اور دنیا کے مابین ایک تصور ہے۔ اس میں زبان اور معاشرتی حقائق یا مختصر طور پر افتراق میں متن کے نتائج نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن یہ معاشرتی کشمکش کے لیے کوشش ضرور کرتا ہے۔
زبان رسمی نظام سے معنی حاصل نہیں کرتی لیکن معاشرتی کشمکش سے معنی جنم لیتے ہیں۔ لہذا یہ عیاں ہے کہ ’مزاحمتی مابعد جدید کی اصطلاح دو ’’Postism‘‘کو رسائی عطا کرتے ہوئے زبان کی مادّی کارکردگی میں جبر کے خلاف کشمکش کرنے کے لیے ’علاقہ‘ فراہم کرتی ہے اور یوں معنیاتی خصائص کا خلاصہ مابعدجدیدیت اور نوآبادیات کے مابین شراکت داری کا احساس دلواتا ہے۔ مادّی زبان کی اختراع نوآبادیاتی فرد کے شعور اور سائیکی میں اس سبب داخل کی جاتی ہے کہ وہ جبر کے خلاف مزاحمت کو بھول جائے اور لمحہ گزارنے میں لگ جائے کیونکہ سامراجی نظام نوآبادیاتی فرد پر لمحوں کو بہت بھاری کردیتا ہے تاکہ فرد روئی اور بنیادی ضرورتوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے اور سامراجی نظام کا دیا ہوا نظریہ زیست اپنالے۔ زندگی سے سمجھوتہ اور معاملہ کرکے خود کو مٹادے تاکہ معاشرتی کشمکش کی فکری معنویت خود ہی دم توڑ دے۔

درخاتمہ:

مابعدجدیدیت کی وساطت سے جب بھی نوآبادیاتی مطالعوں سے متعلقہ موضوعات پر بحث کی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ ہر نوآبادیاتی مظہر کو ہم اس حوالے سے سمجھ پائیں۔ مابعدجدیدیت سے نوآبادیات کا تقابل ایک صحت مندانہ فکری تصّور ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی مابعد جدیدیت اتنی واضح نہیں کہ وہ نوآبادیاتی مطالعوں کو کامل اور مکمل طور پر اپنے ادراک میں لاسکے۔ مابعدجدیدیت، جدیدیت کے دوسرے قطبین پر کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن اس میں کہیں نہ کہیں جدیدیت کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور نوآبادیات، پس نوآبادیات، رد نوآبادیات، نئی نوآبادیات علاقاتی ؍ مقامی نوآبادیات وغیرہ چاہے کوئی بھی مطالعہ ہو وہ جدیدیت اور ہر اس مغربی بازگشتوں اور اس کے ثقافتی مطالعوں سے دور رہتا ہے جس میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے والا ’سامراج‘ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد والے ’نوآبادیات‘ مظاہر کا جبر دکھائی دیتا ہے۔
مابعدجدیدیت کی بحث عرصے سے ہونے کے باوجود بھی اس کی بہت سی باتیں انسانی فہم میں نہیں آرہی کیونکہ ان کی تفہیم اور تشریح گرمگو ہے۔ مابعدجدیدیت کے حوالے سے جب بھی نوآبادیاتی بحث ہوتی ہے تو مابعدجدیدیت نوآبادیوں مطالعوں پر جبری طور پر غالب ہوجاتی ہے کیونکہ مابعدجدیدیت میں ’مغربی سائیکی‘ چھپی ہوتی ہے جس کا تناسب کچھ زیادہ ہی ہے۔ جب بھی نوآبادیاتی مطالعے کیے جائیں تو ضروری ہے کہ علاقائی ؍ مقامی مابعدجدیدیت کے فکر احوال اور حوالوں کے ساتھ اسے گرفتِ بحث میں لایا جائے۔ اگر ’مغربی‘ مابعدجدیدیت کے مجرد تصورات کا جوں کا توں لے کر اور اس کی مخفی رجعت پسندی کے منفی رجحان اور مخصوص سائیکی کی تہذیبی نامیات کو آگہی میں لائے بغیر نوآبادیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ ریت کے محل کی طرح پل بھر میں ڈھیر ہوجاتا ہے۔ نوآبادیاتی مطالعے بنیادی طو رپر ’مغربیت‘ کی اس سامراجی قوتوں کے خلاف کھلا احتجاج اور مزاحمت ہی نہیں بلکہ ماضی میں مغرب کی ان سامراجی قوتوں نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے خطوں میں جو گل کھلائے ان زخموں کا دور اور سفّاکی نوآبادیات میں بسنے والا فرد اب بھی اپنے جسموں پر محسوس کرسکتا ہے۔ نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہوجانے کے بعد نوآبادیاتی باقیات اور اس کا استحصالی نظام اب بھی ان سابقہ نوآبادیاتوں میں اپنے مقامی مہروں کی معاونت سے قائم ہے۔ آدھی صدی سے زائد گمرجانے کے بعد بھی نوآبادیاتی باقیات کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا کیونکہ مغرب کی جدیدیت اور مابعدجدیدیت کے فکری سیاق وسباق کا حاوی غلبہ نوآبادیاتی مطالعوں میں تشکیک، ایہام کو ابھار کر نوآبادیاتی فرد کو فکری سطح پر الجھا کر اس کا میٹھی چھری سے قتلِ عام کرتا ہے ان کی آگے پڑھنے اور ترقی کی جتنی بھی کوشش ہوتی دکھائی دیتی ہیں وہ اصل میں ’مغربیت‘ کے تصورات اور عزائم کا سانحہ ہوتی ہیں اس منفی فکر اور عملی حرکیات نے وہ گل کھلائے اور کھلا رہی ہے۔ جس میں آزاد فکر اور آزاد فرد کا تصور مفقود ہے جبکہ ’آزاد غلاموں‘ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مابعدجدیدیت میں معاشرتی معاشی اور تمدنی اختتاصیت کو کمال ہوشیار سے ایک دوسرے میں مدغم کرکے نئے مخاطبے کو تشکیل دے دیا جاتا ہے اور نوآبادیاتی تاریخ کو غیر اہم گردان کر اس کو سرمایہ دارانہ سامراجیت کو نوآبادیاتی فکر سے مصنوعی انسلاک کی کوشش بھی کی جاتی ہے، اور حقیقی تاریخی حرکیات کو وہ بنادیا جاتا ہے جو حقیقت میں سچی نہیں ہوتیں، اس میں بصریت کا خلا بھی ہوتا ہے اور جب یہ فکری ’نمونے‘ نوآبادیاتی خطوں میں برآمد کیے جاتے ہیں تو وہ ترسیل کی تشکیک کا شکار ہوکر خود ہی غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ مابعدجدیدیت اور نوآبادیاتی مطالعوں کی قرأت کی منہاجیات ایک دوسرے سے مختلف اندام کی ہوتی ہے اس کا بیانیہ، جمالیاتی مخاطبہ کچھ ایسے قیاسات کو بھی جنم دیتا ہے جو فکری متغیرات کی صورت میں ایک دوسروں کو مسترد بھی کردیتے ہیں کیونکہ ان دونوں مطالعوں میں تاریخ اور ثقافتی راہیں اور رسائیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔
نوآبادیاتی فکر میں فرعد اور گروہ قابلِ تقسیم ہوتے ہیں۔ انھیں با آسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ان کو بانٹ کر ان کے حقوق کو غصب کرلیا جاتا ہے اور ان کو ان کی ہی سرزمین پر دوسرے درجے کا شہری بنادیا جاتا ہے یوں سامراجی نظام بڑی ہوشیاری سے اکثریت پر غلبہ جمالیتا ہے۔ استغراب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ مغرب کی اجتہادی تحریک نے کلیسا کو چیلنج کیا اور نشاۃ ثانیہ نے مغرب کے فرد کو آفاقی مرکزیت عطا کی، انساں دوستی کے تصور، سائنسی، تجربی اور عملیاتی ترقی نے ادعائیت اور تنگ نظری کو مسترد کرتے ہوئے کشادہ دل کا جھانسہ دیا۔ جبکہ مغرب کی یہی روشن خیالی ایشا، افریقا اور لاطینی امریکا کی قوموں کو عیارانہ طور پر اپنا غلام بنانے کےلیے ایک عمیق نوعیت کا استحصال اور سامراجی پیمانہ ثابت ہوا۔ ان کی فکری معنیت نے سامراج کے شکنجے کو نوآبادیاتی علاقوں میں گہرا سے گہرا تر کردیا۔ جدیدیت نے نوآبادیاتی تسلط میں آئے ہوئے علاقوں میں فرد کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیردیا۔ اصغری (Micro)اور اکبری (Macro)نامیات کو بڑی ہوشیاری سے تہس نہس کیا گیا اور احساس دلوایا کہ سامراجی حکمران ہی تاریخ بناتے ہیں اور تاریخ لکھتے ہیں، اس کے موئف بھی وہی ہوتے ہیں۔ اصل میں ثقافتی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی جبر کا تسلسل ہی تاریخ کو رقم کرتا ہے۔ تاریخ اجتماعی جبر سے عبارت ہوتی ہے۔ مابعدجدیدیت کا مغربی تناظر اپنی تاریخ کو بناتا ہے۔ تاریخ گری کے بعد وہ دوسروں کی تاریخ کو بڑی ہوشیاری و صفائی سے بگاڑ بھی دیتا ہے اور نوآبادیاتی فکر کو ابہام، تشکیک، عدم شناخت اور ادھورے پن میں مبتلا کرکے اس کے نامکمل ہونے کا جواز پیش کرتا ہے۔ مابعدجدیدیت ہزار واحدنی نظریے کی نفی کرے لیکن جب بھی وہ نوآبادیاتی مطالعوں میں اپنا نفوذ کرتی ہے تو وہ، وہ نہیں رہتا جس کا وہ عموماً اعادہ کرتا ہے۔ وہ ادبی مخاطبے کو بھی بیاں کرتی ہے لیکن ثقافتی مخاطبے کے سلسلے میں ان کا ذہن صاف نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ نوآبادیاتی مطالعے اور اس کی فکری جہتیں سب کے سب چشم زن میں مسمار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرد کا احزان اس میں ہے نہ کسی ثقافتی جہت کا بھرپور اخصار مابعد جدیدیت کے متعلقہ احقاق مکیں نمو پذیر ہوتا ہے۔ مابعدجدیدیت بعض دفعہ نویساریت پسندوں کے تصورات سے نوآبادیاتی مطالعوں کی تفہیم کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مابعدجدیدیت نویساریت پسندوں کے احصار میں رہ کر اپنی نوآبادیاتی آگہی کو انشراح کے تفہیمی نظام میں تبدیل کردیتے ہیں اور ان باتوں سے اغماض برتے ہیں جو کہ ان کے فکری وار ذہنی نظام کے ادراک میں شامل نہیں اور مابعد جدیددیت کے فکری اہمال نوآبادیاتی مطاعلوں میں جب بھی نفوذ کرتے ہیں تو اس میں مغربی سامراج کی ایالت بھر کر نوآبادیاتی نوآبادیات تصورات کو مدھم کرنا چاہتی ہے۔ مابعدجدیدیت کا سامراجی نظام نئی مغربیت کے روپ میں اپنی نمو چاہتا ہے جو فکرکا ایک ایسا تاریخی جبر ہے جس میں انخفاف بہت ہے اور نوآبادیاتی نظریاتی مطالعوں میں منازعت کا باعث بھی بنتا ہے۔ مابعدجدیدیت اور نوآبادیاتی اپنے مزاج میں ایک دوسرے کی ضد ہرگز نہیں مگر ان کے فکری افتراقات بہت وسیع اور عمیق ہیں۔ کوئی مطالعاتی اور تنقیدی ماڈل کو ہم سرے سے مسترد نہیں کرسکتے۔ موضوعیت ہو یا معروضیت یا اس کی تکنیکی مباحث، یہ سب ادبی نظریوں کے لیے ضروری ہیں۔ نظریاتی ماڈل ہیئتی ہوتا ہے یا نظریاتی، جس میں جبریاتی عنصر حاوی ہوتا ہے۔ تمام مطالعے قرأت سے ابتدا کرتے ہیں پھر تفہیم، تمدنی حرکیات اور تاریخی جبر کا تناظر فکرِ آگہی کو نئی راہوں سے متارف کرواتے ہیں اور فرد کی فکر کو سیراب کرتے ہیں۔

مابعدجدیدیت اور پس نوآبادیاتی مطالعوں کے لیے مناجیاتی اور فکری سفارشات:
(۱) موضوع کی لامرکزیت اور تاریخانہ
lنسل، طبقہ اور جنسی گروہوں کی موضوعاتی صورتِ حال
lفطرت کے موضوعات کی تشکیل پر زور دینا
lمابعدجدیدیت کو انسان دوست نظریے کے طور پر تشریح و تعریف
lمابعدجدیدیت کو بطور سامراجیت کے نظریے کے طور پر تشریح و تعریف
lتقابلی موضوعات کو مرکوز نکتے پر لاکر یکساں نوعیت کے عمومی سوالات کی گرہیں کھولنا۔
مرکزیت کبھی بھی متن کو مکمل طور پر گرفت میں نہیں لے پاتا اور رد تشکیلیت کے تناظر میں حاشیائی اور سابقہ مرکزیت اپنے آپ کو تسلیم کروانے کے لیے اپنی ہی ثقافت کو بے شناخت بنادیتی ہے، جس کاقیاس کیا جاسکتا ہے۔

(۲) متنی حکمت عملیوں کو حاوی مخاطبے کو تہس نہس کرنے کے لیے منظرِ عام پر لانا:
lسامراج کی نشاہندی کرنا اور عام بدیعیاتی حکمت عملیوں کو حاضر مخاطبے کو مقابلے کے لیے زمانی اور مکانی سطح پر پیش کرنا
lمتن کے ساتھ معاملہ : قبل نوآبادیاتی متن کا زبانی اور تحریری انسلاک (کہانی گو؍ واقعہ گو کو بطور راوی جاننا – اسطور کا استعمال ) جادوئی حقیقت پسندی (عقلیت کے بنے بنائے تناظر کے رویوں سے مبارزت)
lلسانی نظام کے افتراق کو نمایاں کرنا
lکھلے بیانیے
lتصمین:  تنقیدی فاضلوں کو دہرورانا، جب یکسانیت کو قلب میں طنزیہ افتراقات کا رمز بنتے ہیں اور ثقافتی تبدیلی کے تسلسل کو قائم رکھتے ہیں۔
lبیانیہ تناظر کو ناپیدار کرنا

(۳) متن کے اندر رد تشکیلیت کی حرکیت:
lبطور ایک سیاسی ایجنڈے کے کھلے اور مہابیانیے کو لاتشکیل کرنا اور کردار بندی کے باہر رہ کر انسانی تجربے کی تدوین کرنا جو مثبت ردتشکیل میں مغربی فلسفے سے متعلق ہوتی ہے۔
lمنطقی مبادزت کی منطقی درجہ بندی کو اختلافات کے ساتھ تشریح و تفہیم کرنا جس طرح اسپیوک کا کہنا ہے کہ ’ردتشکیل مغربی تاریخی بیانیے کے تصور سے بنیادپاتا ہے۔‘
lمہابیانیے کو نوآبادیاتی مرکز سے توڑ کر علیحدہ کردینا، اس کی کھوج کرنا اور ان کے متعلق منطقی درجہ بندی کے حوالے سے سوچ و بچار کرنا جو ہم خود سے بھی مغائرت کیے ہوئے ہو۔

(۴) ادبی روایت اور مکمل متن کا تساولی انسلاک:
lہمیشہ حاوی مخاطبے کو مدنظر رکھے جانا
lادبی ماضی کے تنقیدی تناظر کو مدِّنظر رکھنا

(۵) تاریخی یقینیت کے سوالات:
lتاریخی بیانیے کی تشکیلی فطرت پر زور دینا
lگم شدہ مہابیانیے کو دریافت کرنے کےلیے اسے نوآبادیاتی بیانیے سے الگ رکھنا (یہ مسئلہ نسوانی اور گے اور لزبن متن میں مشاہدہ کیا جاتا ہے)
lانسانی تاریخ کو بطور اجتماعیت جاننا، لیکن جس کے تجربات انفرادی ہوتے ہیں اور انسان دوستی اور آفاقیت سے اختلاف کرتے ہیں۔
lمتبادل ، نظرثانی، تاریخ کا جغرافیائی ردعمل

(۶) حقیقت پسندی پر نقد:
lدوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنے کے سوالات اور اس کے تشریح و بیاں کے لیے حقیقت پسندانہ تناظر کی ضرورت۔ اس صورتِ حال میں ’اصل‘ کو دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جو پہلے ہوچکا ہے ، وہی سامنے لایا جائے۔

(۷) آفاقیت اور لازمیت کو مسترد کیے جانا:
lمرکز کے مرکزی مخاطبے کے سوالات
lمغربی افکار اور اس کے تاریخانہ کے بنیادی سوالات
lعمومی اور مقامی مظاہر کا مرکوز مطالعہ
lغیر یقینیت اور تبدیلی کی خواہش کو تسلیم کیا جانا
lاختلافات

(۸) ذیلی نوآبادیات کا مطالعہ:
lسابقہ نوآبادیاتی خطوں میں پائے جانے والے متن اور مخاطبوں میں ذیلی نوآبادیات کا سراغ
lنوآبادیاتی نظام سے نجات حاصل کیے ہوئے ممالک میں بڑے لسانی، معاشی، مذہبی یا سیاسی گروہوں کے چھوٹے گروہوں کے استحصال سے آگہی۔
lسابقہ نوآبادیاتی علاقوں میں ذیلی نوآبادیات کی حرکیات، جبر اور مزاحمتی احتجاج کا نیا بیانیہ اور اس کا کھوج لگانا۔
lسابقہ نوآبادیات میں نئی نوآبادیات (نوآبادیات کی باقیات) کی آگہی و تشریح
lذیلی نوآبادیات میں پائے جانے والے ذیلی گروہوں کا آپسی نظریاتی تصادم- تصادم کی یہ صورتِ حال سیاسی، انسانی حقوق، مذہبی آزادی، لسانی، معاشی اور ثقافتی مسائل کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔
lعسکری اور دفتر شاہانہ طبقے کا نوآبادیاتی نظام کی باقیات سے جڑا رہنا
lذیلی نوآبادیات میں جاگیردارانہ نظام کا برقرار رہنا

Works Cited

Abrams, M. H. A. Dictionary of Literary Terms: Seventh Edition, USA, : Harcourt Brace, 1999.
Adam, Ian, (Ed) “Past the Last Post” Areil: A Review of English Literature, Vol 4, No.4, Oct – 1989.
Ashcroft B., Griffiths G. and Tiffin H. “Key Concepts in Post-colonial Studies”. New York: Routledge. 1998.
Brodber, Erna. “Fiction in the Scientific Procedure.” (Essay)
Brodber, Erna. Jane and Louisa Will soon come home. London: New Beacon Books. 1980.
Deane, Seamus. Introduction to James Joyce’s “Finnegan’s Wake”. Penguin, 1992.
Dirlik, Arif. “Borderlands Radicalism” in After the Revolution: Waking to Global Capitalism. Hanover. Wesleyan UP, 1994
Hutcheon, Linda. “Postmodernism” in Encyclopedia of Contemporary Literary Theory. Ed Irena R. Makaryk. Toronto: University of Toronto Press, 1993.
Hutcheon, Linda. A Poetics of Postmodernism: History, Theory, Fiction. New York: Routledge, 1988.
Robinson, Dave. Nietzsche and Postmodernism. New York: Totem, 1999.
Rushdie, Salman. Imaginary Homelands: Essays and Criticism, 1981-1991. New York: Viking, 1991
Said, Edward. Culture and Imperialism. New York: Random House, 1993.
Selden, Raman and Widdowson, Peter. A Reader’s Guide to Contemporary Literary Theory (Third Edition). Kentucky, USA: University Press of Kentucky, 1993
ll