Ismat Chughtai

Writers

Ismat Chughtai

عصمت چغتائی

21 August 2017 - 24 Oct 1991

 

عصمت چغتائی اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انھوں نے اردو میں ایک بے باک تانیثی رویے اور رجحان کا آغاز کیا اور اسے فروغ بھی دیا۔ عصمت۲۱؍ اگست۱۹۱۵ء کو اترپردیش کے مردم خیز شہربدایوں میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد مرزا نسیم بیگ چغتائی ڈپٹی کلکٹر تھے ۔ لہٰذا ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اسی سبب سے ان کا بچپن جودھ پور (راجستھان) میں گزرا۔ انھوں نے علی گڑھ گرلس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کیا۔ تحصیل علم کے بعد بدایوں کی ایک گرلس کالج میں ملازمت اختیارکی۔ وہ ۱۹۴۲ء میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے بمبئی پہنچیں۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ فلم، صحافت اور ادب ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محورہیں۔ ان کا انتقال ممبئی میں ۲۴؍ اکتوبر۱۹۹۱ء کو ہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے چندن واڑی سری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔
عصمت چغتائی بڑی آزاد خیال اور عجیب و غریب خاتون تھیں۔اُن کی شخصیت اور انسانی رشتوں اور ان رشتوں کے ساتھ عصمت کے رویے اور تعلق کو درشانے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ مختصر واقعات نقل کیے جائیں جنھوں نے عصمت کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔ مثال کے طور پر مشہور افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک اپنے ایک مضمون میں ساحر لدھیانوی کے گھر فراق کے اعزاز میں دئے گئے ایک ڈنر جس میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف بھی تھے کا ذکر کرتے ہوئے عصمت کے کردار کی یہ تصویر کھینچتے ہیں:
’’سبھی مرد عورتیں پی رہے تھے۔ عصمت نے ایک آدھ پیگ پینے کے بعد ہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے بہ آواز بلند کہا۔۔۔ ’’میر اجی چاہتا ہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں ، لیکن شاہد زہر کھا لے گا‘‘۔۔۔ مجھے اس ریمارک سے خاصہ دھکا لگا تھا۔ کوئی عورت پی کر بھی ایسا ریمارک نہیں کس سکتی۔ جب تک کہ اپنے شوہر کی بے راہ روی یا کمزوری سے اس کے دماغ میں یہ خیال نہ پیدا ہوا ہو یا پھر شوہر کے علاوہ وہ کسی اور مرد کونہ چاہتی ہو۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: اوپیندر ناتھ اشک۔ ص: ۲۲۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
عصمت کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والوں میں قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ انھوں نے عصمت کی وفات سے متاثر ہو کر لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا تھا اس میں عصمت کی آزاد خیالی کو اس واقعے کی روشنی میں پیش کیا :
’’ان کی بڑی بیٹی نے بنگلور میں سول میریج کر لی اور اطلاع دی کہ اس کی ساس سسر مذہبی رسوم کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں آپ بھی آ جائیے۔ بنگلور سے واپس آکے عصمت آپا نے اپنے خاص انداز میں نہایت محظوظ ہوتے ہوئے سنایا کہ صبح صبح میں اٹھ گئی۔ سارا گھر سو رہا تھا۔ ان کا پنڈت آگیا۔ اب وہ بے چارہ ایک کمرے میں پریشان بیٹھا تھا۔ کہنے لگا مہورت نکلی جا رہی ہے اور یہاں کوئی ہے ہی نہیں۔ میں پوجا کیسے شروع کروں۔ میں نے کہا اے پنڈت جی آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ میں پوجا شروع کروائے دیتی ہوں۔ بس میں بیٹھ گئی اور میں نے پوجا شروع کروا دی۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا بھلا اپ نے پوجا کس طرح کروائی۔ کہنے لگیں۔ اے اس میں کیا تھا۔ پنڈت نے کہا۔ میں منتر پڑھتا ہوں آگ میں تھوڑے تھوڑے چاول پھینکتے جائیے۔ میں چاول پھینکتی گئی۔ اتنے میں گھر کے اور لوگ بھی آ گئے۔ بس۔ ‘‘
(’’عصمت چغتائی۔ دوزخی کی باتیں ‘‘از: قرۃ العین حیدر۔ ص:۳۷۔ ماہنامہ شاعر جنوری ۱۹۹۲ء )
یہ ہے عصمت چغتائی کی سیرت وشخصیت ،کردار اور ان کی فکر کا محور۔ وہ بہت آزاد خیال تھیں۔ وہ تاش دلچسپی سے کھیلتیں اور لگاتار سگریٹ پیتی تھیں۔ انھیں مے نوشی کا بھی شوق تھا۔ ان کے سینے میں مردوں یا اپنے حریفوں سے انتقام کی آگ ہمیشہ جلتی رہی۔ جس سے نفرت ہوئی اس کو کبھی معاف نہیں کیا۔ دراصل انھوں نے اپنے بچپن ہی میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا تھا کہ اچھی سے اچھی بیٹی نالائق سے نالائق بیٹے سے کم ترہی سمجھی جاتی ہے چنانچہ ان کی اپنے کسی بھائی سے کبھی نہیں نبھی۔ ہر بھائی سے لڑائی جھگڑے میں ہی ان کا بچپن گزرا۔ بچپن کا یہ نقش ان کے بڑھاپے تک پتھر کی لکیر بنا رہا اور مردوں سے بیر رکھنا ان کی فطرت ثانیہ بن گیا۔ وہ انتقام کی اسی آگ میں ہمیشہ جلتی رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد خود جل کر راکھ ہو گئیں۔ عصمت چغتائی کی سوچ کا تانا بانا انھیں حادثات و واقعات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے ترقی پسندی کے انتہائی عروج کے زمانے میں قلم سنبھالا اور اپنے باغی لب و لہجے سے مردوں کی صفوں میں ہل چل مچا دی ۔ساتھ ہی یہ یقین دلانے کی بے باکانہ کوشش بھی کی کہ عورت اپنی محدودیت کے باوجود لامحدود ہے اور مرد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرۂ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ اپنے افسانوں کے مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں شائع کروائے۔ دھانی بانکپن اور شیطان جیسے معروف ڈرامے قلمبند کیے اور تاویل، سودائی اور دوزخی جیسے بے مثال خاکے لکھے۔ ان کی یہ وہ تخلیقات ہیں جو ناول، افسانہ، ڈراما اور خاکہ نگاری کی تاریخ میں اہمیت کی حامل ہیں۔
ناول نگاری کی طرح افسانہ نگاری میں بھی عصمت کا ایک منفرد مقام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے چوٹیں ، چھوئی موئی، دو ہاتھ اور کلیاں کو بہت مقبولیت ملی۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرأت آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔ انھوں نے زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کے مسائل اور ان کی نفسیات پر لکھا جس پر انھیں گہرا عبورحاصل تھا۔ ان کے زیادہ تر افسانے ایک ایسے المیے پر ختم ہوتے ہیں جو حقیقت سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو سچ بولنا سکھایا اور عورت کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو کہانی کا موضوع بنایا۔ چوتھی کا جوڑا، بہو بیٹیاں ، سونے کا انڈا، چھوئی موئی، بھول بھلیاں ، ساس، لحاف، بے کار، کلو کی ماں ، اف یہ بچے، چارپائی، جھوٹی تھالی، میرا بچہ، ڈائن، ایک شوہر کی خاطر، سالی، سفر میں ، تل، لال چیونٹے، پیشہ ور، ننھی کی نانی وغیرہ ان کے مشہور اور یادگار افسانے ہیں۔ ان افسانوںمیں انھوں نے ایک مخصوص قسم کی فضا تخلیق کی ہے جو فضا گھر اور گھریلو زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان افسانوں میں عورت کا تصور اس کی بدنصیبی سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس کی پوری زندگی تلخیوں اور پریشانیوں میں گھری معلوم ہوتی ہے اور آخر میں وہ ان دکھوں کی تاب نہ لا کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ عصمت کے زیادہ تر افسانے ایک خاص طبقے اور خصوصی طور پر عورت کے گھریلو ا ور جنسی تعلقات کے اردگرد گھومتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں یکسانیت کا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے جو قاری کے لیے کبھی کبھی اکتاہٹ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔
عصمت صرف جنس اور عورت کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ ان کے افسانے:جڑیں ، کافر، دو ہاتھ اور ہندوستان چھوڑ دو وغیرہ گہرے تاریخی اور معاشرتی شعور کے آئینہ دار ہیں۔ انھوں نے دو ہاتھ میں محنت کس طبقے کی اہمیت اجاگر کیا ہے۔ دراصل عصمت کا دور ترقی پسندی کا دور تھا جس میں سماجی نا انصافیوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور ترقی کا ساتھ دیا گیا۔ یوں انھوں نے سماج کے ہر مسئلے اور طبقے پر لکھا لیکن یہ ایک مسلمہ سچائی ہے کہ عورت کی نفسیات اور جنس کے موضوع ہی ان کے نزدیک اہمیت کے حامل تھے۔
عصمت ناول نگار اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ڈراما نگار بھی تھیں انھوں نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری پر زور دیا۔ ان کے ڈراموں میں ایک بات اور نیلی رگیں بہت مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سانپ، دھانی بانکپن اور انتخاب بھی ان کے اچھے ڈرامے ہیں۔ ان کے ڈراموں کے کردار ہماری زندگی کے کردار ہیں۔ ان کی زبان صاف، سادہ اور دل کش ہے۔
عصمت کے تحریر کیے ہوئے خاکے تاویل، سودائی اور دوزخی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان خاکوں میں دوزخی کو ادبی دنیا میں کافی مقبولیت ملی۔ جب یہ ماہنامہ ساقی (دہلی) میں شائع ہوا تو منٹو کی بہن نے کہا کہ ’’سعادت یہ عصمت کیسی بے ہودہ عورت ہے کہ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں بخشا۔ کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت منٹو نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ اقبال اگر تم مجھ پر ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کروتو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔
بلاشبہ عصمت کی تحریریں موضوعات، اسلوب، کردار اور لب و لہجے کے اعتبار سے تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہار کا پہلا معتبر تجربہ ہیں۔ اس اعتبار سے یہ تانیثیت کی پہلی اور مستند دستاویزات ہیں۔