Islam, Science aur Musalmaan

Articles

اسلام ، سائنس اور مسلمان

شمس الرحمن فاروقی

مسلمانوں میں سائنس کے زوال کا ذمہ دار عموماً امام غزالی کی تعلیمات کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ امام غزالی کی تعلیمات کو بہت سادہ لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتاہے:

فلسفیانہ حقائق اور الٰہیاتی حقائق کے مابین تطابق نہیں ہوسکتا ، اور جہاں فلسفیانہ حقائق اور الٰہیاتی حقائق کے درمیان تصادم یا تضاد نظر آئے ، وہاں فلسفیانہ حقائق کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ اللہ نے انسان کو عقل دی ہے ، اگر وہ اس کا صحیح استعمال کرے تو اس پر وہی الہٰی اور پیام رسالت پناہی کی سچائی کھل جائے گی اور وہ روحانی بلندی یعنی حقانی حاصل کرلے گا ، کہ یہی مقتضاے تخلیق آدم ہے۔ پھر کائنات بھی اس کے قدموں میں ہوگی۔
امام غزالی کا جواب ان کے کوئی دوسو برس بعد ابن رشد نے تفصیل سے لکھا اور اپنی حد تک اس نے ثابت کردیا کہ فلسفے کی راہ گمراہی کی راہ نہیں ، بلکہ علم و حقیقت کی راہ ہے۔ ابن رشد نے کہا کہ الٰہیاتی حقائق اور دانشورانہ ، فلسفیانہ (یعنی سائنسی) حقائق میں کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ وہ حق کے دو مختلف مدارج کو پیش کرتے ہیں۔ ایک کاسچ ہونے سے دوسرے کا باطل ہونا لازم نہیں آتا۔دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اور دونوں میں بقاے باہمی ممکن ہے۔ قرآن بیک وقت غیر مخلوق اور اللہ کا براہ راست کلام بھی ہے ، اور انسانوں کی دنیا میں ایک صحیفہ بھی ہے جس کا مطالعہ اسی طرح ممکن ہے جس طرح کسی بھی متن کا مطالعہ ہم کرتے ہیں۔ ظاہری علما کا کہنا تھا کہ قرآن کے اندر بھی قرآن ہے ، یعنی قرآن کے اندر ایک باطنی معنی بھی ہیں۔ ابن رشد کے فلسفے کے مطابق ظاہریوں اور باطنیوں میں اختلاف سے قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ابن رشد کا حل تھا تو بہت دلکش ، لیکن اسے مقبولیت نہ حاصل ہوئی۔ جدید سائنسی فکر کی روشنی میں دیکھیں تو ابن رشد کے استدلال میں ایک بڑا نقص بھی تھا، کہ اس کے خیال میں کچھ حقائق (سائنسی حقائق) ایسے تھے جن کا وجود معروضی طور پر ثابت تھا، یعنی کچھ حقائق کا وجود کسی مشاہدہ پر مبنی نہیں تھا، اورنہ ان کی نوعیت پر کسی قسم کا شک ہوسکتا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ حقائق خارجی کائنات میں اس طرح موجود ہیں کہ وہ بس ہیں (They are out there) ، انھیں کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، عقل ان کا وجود ثابت کرسکتی ہے۔ لیکن ابن رشد کے برخلاف ، جدید سائنسی فکر کو سائنس کے بارے میں ایسی کوئی غلط فہمی نہیں۔ جدید سائنس جانتی ہے کہ جتنے بھی ”حقائق“ ہیں ، ان کا ”حق “ یا ”حقیقت“ ہونا کسی نہ کسی معنی میں اضافی ہے۔ اور بہت سی اشیا کے بیان میں ہمیں قطعیت نہیں حاصل ہوسکتی۔ لہٰذا جدید سائنسی فکر کی روسے ابن رشد کا حل ادھورا اور غیر تشفی بخش ہے۔
آج کے زمانے میں بعض مسلمانوں کی فکر میں یہ رجحان نظر آتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں سب کچھ صحیح لکھا ہے، اور اس کی صحت کو سائنس کے ذریعہ ثابت کرسکتے ہیںچنانچہ ہم آئے دن ایسی تحریریں دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو سائنس کی روشنی میں ثابت کرنے کے معنی ہیں قرآن کو سائنس کا محکوم قرار دینا۔ اصل صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ سائنس اور قرآن میں کوئی تضاد ہوتو سائنس کو غلط اور قرآن کو درست اور سائنس کو قرآن کا محکوم ٹھہرایا جائے۔ سائنس کے سہارے قرآن کو ”صحیح “ ثابت کرنے کی کوشش کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی نے بہت پہلے بتادیا تھا کہ ایسی کوششیں غلط اور گمراہ کن ہیں۔ مولانا نے لکھا ہے کہ قرآن اٹل ہے ، اور سائنس بدلتی رہتی ہے۔ لہٰذا آج ہم کسی قرآنی آیت کو سائنس کے کسی نظریے کی رو سے صحیح ثابت کریں، اور سائنس کل بدل جائے ، اور سائنس کے جس نظریے کی بنیاد پر آپ نے قرآن کی سچائی ثابت کی تھی ، وہ نظریہ خود ہی باطل ٹھہر ے ، تو پھر آپ کا استدلال کہاں گیا؟ جس سائنسی نظریے کے اعتبار سے آپ نے قرآن کو سچا ٹھہرایا تھا ، وہ نظریہ ہی غلط ثابت ہوا ، تو پھر نعوذ باللہ قرآن بھی غلط ٹھہرا۔ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا۔ مولانا نے کہا کہ سائنس تو دم بدم بدلتی رہتی ہے ، تو پھر آپ کہاں تک اس کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں بدلتے رہیں گے؟ سائنس کو اس کے حال پر چھوڑیئے اور قرآن کو اس کا پابند نہ بنائے۔ سائنس کی جس حقیقت کو آج کے مغربی انسان نے بہت دکھ اٹھا کر حاصل کیا ہے ، وہ حقیقت ایک اسلامی مفکر کے سامنے بہت پہلے منکشف ہوچکی تھی۔

اوپر میں نے کہا ہے کہ ابن رشد نے سائنس اور عقیدہ دونوں کو سینے سے لگائے رکھنے کی جو کوشش کی تھی اسے مسلمانوں میں قبولیت نہ حاصل ہوئی۔ اس لیے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو خدائی عقیدہ اور لا خدا سائنس میں سے ایک چیز انتخاب کرنی تھی۔ انھوں نے امام غزالی کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے خدائی عقیدے کو قبول کیا اور سائنس کو لا خدا سمجھ کر مسترد کردیا۔ لہٰذا بارہویں /تیرہویں صدی میں مسلمانوں میں سائنس کا زوال شروع ہوا ، اور سولہویں/ سترہویں صدی میں یہ انحطاط مکمل ہوگیا۔ لیکن کیا یہ بات پوری طرح صحیح ہے کہ مسلمانوں میں سائنس کے زوال کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے عقیدے اور مذہب کو سائنس پر تفوق دیا؟

قبل جدید دنیا میں تین بڑی تہذیبیں تھیں ، اور یہ تینوں ہی تہذیبیں سائنس ، فلسفہ اور عقلی کارگذاریوں میں بہت پیش پیش تھیں۔ ایک تو چینی (جس میں جاپانی اور کوریائی کو شامل کرکے ”مشرق بعید“ کی تہذیب کہاجاتا ہے) ۔ پھر ہندو ، جسے عمومی طور پر ”ہندوستانی“ کہاجاتا ہے، اور پھر سب سے آخر میں اسلامی ، جس کے تحرک اور نامیاتی قوت کا سرچشمہ عرب تھا لیکن جس کی تعمیر میں کئی ملکوں اور روایتوں نے حصہ لیا، اور جس پر یونان و مصر نے بھی اثر ڈالا۔ آج کی مغربی سائنس و حکمت جن بنیادوں پر استوار ہے وہ مشرق بعید اور اسلامی تہذیبوں کی فراہم و تعمیر کردہ ہیں۔ ہندوستانی تہذیب کی بھی بہت سی سائنسیں ،خاص کر طب و ریاضی ، مسلمانوں کے ذریعہ مغرب میں پہنچیں اور انھوں نے بھی وہاں کی سائنس اور علوم عقلیہ کے فروغ میں اپنا کردار نبھایا۔ مسلمانوں نے جس طرح یونان کے علوم کو حاصل کیا، انھیں محفوظ رکھا اور ان پر ترقیاں کیں اور نئے علوم ایجاد کئے ، اسی طرح ہندو ریاضی ، طب ، اور فلکیات کوبھی مسلمانوں نے حاصل اور عام کیا۔ اب اس بات کو کٹر مغرب پرست بھی تسلیم کرتا ہے کہ مشرق بعید اور اسلام کی تہذیبوں نے مغرب کو ترقی کی ساری راہیں دکھائیں، اور نظری و عملی فکر کی وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر مغرب اپنی عمارت قائم کرسکا۔

یہ خیال بھی غلط ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد نے ہندو علوم کو نقصان پہنچایا۔ تاریخ تو بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی آمد نے انھیں اور بھی استحکام بخشا۔ سنسکرت شعریات اور ہندو فلسفہ کے بہت سے عظیم کارنامے مسلمانوں کے ورود ہند کے بعد وجود میں آئے۔ ہندو فلسفہ اور ہندوستانی سائنس(یعنی سائنس سے متعلق وہ کارگذاریاں اور دریافتیں جو بزبان سنسکرت بیان ہوتی تھیں)ان کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع تھے وہ مغلوں کے انحطاط کے بعد مفقود نہیں ہوگئے۔ ہندو فلسفہ ¿ شعر میں آخری بڑا کارنامہ عہد شاہجہاں و اورنگ زیب کے پنڈت راج جگن ناتھ کی کتاب ”راس گنگا دھر“ہے ، اور ہندو سائنس کا آخری بڑا کارنامہ عہد اور نگ زیب و محمد شاہ کی وہ رصد گاہیں جو سوائی راجہ جے سنگھ نے دہلی اور جے پور میں قائم کیں اور جنھیں آج ” جنتر منتر“ کے حقارت بھرے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جنتر منتر کا ذکر آیا ہے تو اس سے متعلق ایک دلچسپ بات ابھی کچھ دن ہوئے سامنے آئی ہے اور جس سے میرے قول کو مزید استحکام پہنچتا ہے کہ ہندوستانی سائنس اور اسلامی سائنس ہمارے ملک میں لازم و ملزوم تھیں، اور ان کا عروج و زوال ساتھ ساتھ ہوا۔ نصیر الدین طوسی نے ۱۶۲۱ میں اپنی کتاب ”تذکرہ فی علم الہی ¿ت“ تصنیف کی۔ پھر اس نے ۴۷۲۱ میں صرف ”تذکرہ“ کے نام سے اس کا ایک نیا اور اضافہ شدہ روپ اپنے شاگردوں کی اعانت سے شائع کیا۔ طوسی نے اس کتاب میں اس بات کا امکان ظاہر کیا کہ زمین اپنے محور پر سورج کے گرد گھومتی ہے۔ طوسی ، اور اس کے ایک شارح ابن الشاطر دمشقی کے خیالات سے کوپرنکس (Copernics)نے استفادہ کیا، لیکن اس نے ان پر ترقی کرکے یہ بھی کہا کہ زمین نظام شمسی کا حصہ ہے اور اس نظام کا مرکز سورج ہے۔ نظام شمسی کے تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ طوسی کی ایک شرح عبدالعلی بن محمد بن حسین البرجَندی (al-Birjandi) نے ۰۲۵۱ کے آس پاس لکھی۔ اس شرح میں البرجندی نے طوسی کے متبعین ، خاص کر قطب اللہ شیرازی کے خیالات سے بھی بحث کی۔

طوسی کی کتاب کے گیارہویں باب میں بعض ایسے مسائل پیش کیے گئے تھے جنھیں قطب الدین شیرازی ، اور پھر کوپرنکس نے استعمال کیا۔ سوائی راجہ جے سنگھ نے ۹۲۷۱ میں طوسی کے ”تذکرہ“ کا یہی گیارہواں باب ، اور اس پر البرجندی کی شرح کا سنسکرت میں ترجمہ کرایا۔ سنسکرت مترجم نین سکھ اپادھیائے کو عربی نہیں آتی تھی، لہٰذا ایک مسلمان عالم محمد عابد نے البرجندی کے متن کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ”ہندی “(یعنی اردو) میں پنڈت نین سکھ کو سمجھایا اور پنڈت نین سکھ نے اسے معیاری سنسکرت میں منتقل کیا۔ عربی اصطلاحات کے معنی سمجھ کر نین سکھ نے ان کے سنسکرت معنی لکھے ، اور جہاں سنسکرت متبادل نہیں تھے ، وہاں انھوں نے سنسکرت متبادل وضع کئے، یا عربی اصطلاحات کو ناگری رسم الخط میں لکھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوائی راجہ جے سنگھ نے البرجندی کے گیارہویں باب ہی کو ترجمے کے لیے منتخب کیا۔ انھیں کوپر نکس کے بارے میں کچھ معلوم نہ رہا ہوگا، اور نہ وہ یہ یہی جانتے رہے ہوں گے کہ البرجندی کے خاص اسی باب کے تصورات و اشکال نے کوپر نکس کو متاثر کیاتھا۔ اگر مغلوں کے زوال کے ساتھ ہندوستانی + اسلامی سائنس کا زوال ہندوستان میں نہ ہوگیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ نین سکھ کے ترجمے کا کوئی طالب علم طوسی ، قطب الدین شیرازی ، البرجندی ، نین سکھ ،اور کوپرنکس کے درمیان ربط ڈھونڈلیتا اور ہماری سائنس میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوجاتا۔ نین سکھ کا سنسکرت اور البرجندی کا عربی متن اب انگریزی میں ترجمہ ہوکر آسانی سے دستیاب ہیں۔ اس معاملے کی تفصیل جامعہ ¿ ہمدرد کے رسالے Studies in History of Science and Medicine(مدیر الطاف اعظمی) کے شمارہ نمبر ۲، بابت جولائی – دسمبر ، ۲۰۰۲ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہ بات قابل لحاظ ہے علوم عقلیہ کی روایت اوائل انیسویں صدی تک دہلی اور اودھ میں ایک حد تک قائم رہی۔ اودھ میں خان علامہ تفضل حسین خان نے لاطینی پڑھی اور نیوٹن کی Principiaکا ترجمہ فارسی میں کیا۔ گورکھپور کے ملا عبدالرحیم نے بھی لاطینی اور انگریزی پڑھی اور اردو فارسی میں علمی کارنامے انجام دیئے۔ لیکن یہ ٹمٹماتے ہوئے چراغ کا آخری سنبھالا تھا۔ افسوس کہ اس وقت تک ہماری آنکھیں انگریزی لالٹینوں سے اس درجہ خیرہ ہوچکی تھیں کہ ہم نے اس آخری سنبھالے کی طرف دیکھا بھی نہیں۔

یہ تاریخ کا عجیب واقعہ ہے کہ مشرق بعید اور اسلام کی تہذیبوں میں سائنس اور علوم عقلیہ کا زوال کم و بیش ایک ہی زمانے میں ، یعنی سولہویں /سترہویں صدی سے شروع ہوا۔ ہندوﺅں کا زوال تو مغل تہذیب کے زوال سے وابستہ ہے، کیوں کہ مغل دور میں ہندو فلسفہ و فکر کو پھولنے پھلنے کے پورے مواقع میسر تھے۔ لہٰذا معما صرف یہ نہیں ہے کہ مشرق بعید میں سائنس کا زوال کیوںہوا؟ وہاں تو مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہ تھا، کیوں کہ ان کا مذہب (بدھ مذہب اور اس کی مختلف شکلیں) خدا کے تصور سے بیگانہ ہے، لہٰذا وہاں فلسفیانہ اور سائنسی تفتیش میں خدا کو منہا کرنے کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اور تیسرا معما یہ ہے کہ ان دونوں تہذیبوں میں علوم عقلیہ کا زوال کم و بیش ایک ہی وقت میں کیوں شروع ہوا؟

اس کا آسان جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ مغرب کی برتری کا آغاز ہوا تو مشرق کی بالا دستی کا بھی اختتام لازمی تھا، یعنی مغرب کی بلندی اور مشرق کی پستی ہم معنی ہیں۔ یا یوں کہیں کہ مغرب کے عروج نے مشرق کا زوال پیدا کیا۔ لیکن یہ جواب غیر منطقی ہے۔ تاریخ یا فلسفہ ، یا سائنس کا ایسا کوئی اصول نہیں جس کی رو سے ایک کے زوال اور دوسرے کے عروض میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہو۔ تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمانہ ¿ قدیم میں کئی تہذیبیں ایک ساتھ پھل پھول رہی تھیں۔ سب سے نمایاں مثال تین چار سو برس قبل مسیح کے ہندوستان ، یونان اور چین ہیں کہ سب اپنے اپنے طور پر بیک وقت عروج پر تھے۔ اگر یہ کہاجائے کہ مشرق کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ مغرب اس پر غالب آگیا ، تو اس میں کئی غلطیاں ہیں۔ اول تو یہ کہ مشرق بعید کی تہذیبوں پر مغرب کا غلبہ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہوا ، اور علم و دانش کا زوال ، یا زوال نہیں تو ٹھہراﺅ اور جمود ، یہاں سولہویں صدی میں شروع ہوگیا تھا۔ یعنی سولہویں صدی کے بعد چین میں نئے سائنسی اور علمی معاملات کو فروغ نہ ہوسکا۔ دوسری بات یہ کہ مشرق وسطیٰ اور ہندوستان اور افریقہ پر مغرب کا غلبہ ہوا ہی کیوں؟ ایسا تو نہیں ہے غلبہ پہلے ہو اور زوال بعد میں ؟ حقیقت یہی ہے کہ ان اقوام کا زوال ان پر مغرب کے غلبے کے باعث نہیں شروع ہوا۔ ان کے زوال کے باعث ان پر مغرب کا غلبہ ہوسکا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مغرب کی بالا دستی قائم ہوجانے کے بعد ان تمام خطوں کے اصل اور روایتی علوم و فنون میں مزید زوال پیدا ہوا ، حتیٰ کہ بعض چیزیں ( خاص کر روایتی صنعت ، حرفت ، اور ٹکنالوجی) تو بالکل ناپید ہی ہوگئیں۔

مسلمانوں میں سائنس کے زوال پر مشرقی حلقوں کے باہر شاید زیادہ غور نہیں کیا گیا، لیکن مشرق بعید کے معاملے پر مغرب میں مشہور ماہر سماجیات ماکس ویبر(Max Weber)، اور اس کے بعد کئی مفکرین نے غور کیا ، لیکن تشفی بخش جواب کسی سے نہ بن پڑا۔ مثلاً ویبر نے کہا کہ سولہویں صدی سے چین میں قدامت پرست نوکر شاہی (Conservative Bureaucracy) کا حکم چلنے لگا۔ ان لوگوں کا طریقہ ”عملی عقلیت پسندی“ کا تھا۔ اور ان کے زیر اثر ملک میں ”عقلیت پرست مہم جوئی“(Rationalist Ambition)کا خاتمہ ہوگیا، پہلے سے قائم شدہ چیزوں پر قناعت کرلی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس جواب میں سب سے بڑی کمی ہے کہ اس نے زوال کے اسباب بیان کرنے میں استدلال کو ایک قدم پیچھے دھکیل دیاہے، اور بس ۔ یعنی زوال اس وجہ سے ہوا کہ نوکر شاہی قدامت پرست اور طاقتور تھی۔ لیکن یہی نوکر شاہی پہلے تو روشن خیال اور ترقی پذیری کی ضامن تھی۔ پھر اسے کیا ہوگیا جو اس نے قدامت پرستی کا جھنڈا اٹھالیا؟ ماکس ویبر کے یہاں اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ بعض دوسرے مفکرین کا کہنا ہے کہ چینیوں نے ”لفظ “ (Word)کی جگہ ”طریق“ (Way) کو اختیار کیا۔ اگر وہ ”لفظ“ کو اختیار کرتے تو اشیا کے پیچھے جو حقائق ہیں ، وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ لیکن انھوں نے ”طریق“ یعنی عملی راہ کو اختیار کیا۔ یعنی اس بات کی فکر نہ تھی کہ ادراکات کی تہ میں جو حقائق ہیں انھیں دریافت کیاجائے۔ ان کی توجہ اس بات پر رہی کہ ان چیزوں کو حاصل اور اختیار کیاجائے جن سے عملی زندگی کوپرامن طریقے سے گذارا جاسکتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس جواب میں ، اور ویبر کے جواب میں کوئی خاص فرق نہیں، اور دونوں ہی جوابات میں یہ کمزوری ہے کہ استدلال ایک درجہ پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، اسے اصل آغاز تک نہیں پہنچایا گیا۔ اگر سولہویں صدی میں اہل چین نے ”لفظ“ کو ترک کیا اور ”طریق“ کو اختیار کیا ، تو سولہویں ہی صدی میں ایسا کیوں ہوا؟ اور ”لفظ“ اور ”طریق“ کی تفریق تو چینی فکر میں کم و بیش روز اول سے تھی۔ پھر اس کے ”خراب “ نتائج سولہویں صدی ہی میں کیوں ظاہر ہوئے؟ ابن خلدون نے قوموں کے عروج و زوال کا جو فلسفہ بیان کیا تھا ، اس کا بنیادی نکتہ کم و بیش یہی تھا کہ قبائلی سماج جب شہری سماج میں بدلتا ہے تو وہ اپنے استحکام اور توسیع کی راہیں ڈھونڈتاہے، پھر جب اسے مخالفوں ، مبارزطلبوں اور رقیبوں کی طرف سے یک گونہ اطمینان ہوجاتا ہے تو وہ اندورونی امن و سلامتی اور معاشرتی عیش و عشرت کی راہ اختیار کرلیتاہے، اور وہیں سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن ابن خلدون کا یہ تہذیبی چرخ(Cultural Cycle) کسی معاشرے میں سائنس اور تعقل کے انحطاط کے لیے الگ سے کوئی وجہ نہیں بیان کرتا۔ اور چین کی تہذیب کو اپنے قبائلی عہد سے نکلے ہوئے کوئی تین ہزار برس ہوچکے تھے جب اس کا زوال شروع ہوا۔

ظاہر ہے مشرق بعید کی تہذیبوں کے عروج و زوال کا مطالعہ مسلمانوں کے لیے دلچسپ ہے اور شاید سبق آموز بھی ، لیکن مسلمانوں میں سائنس کے زوال کی وجہیں کہیں اور ہیں، اور ہمیں ضرور ہے کہ ہم انھیں تلاش کریں اور سمجھیں۔ فی الحال میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ صرف مذہب سے شغف ، اور فلسفہ (یعنی علوم عقلی اور سائنس) کا تفحص کرکے لا خدا ہوجانے کا خوف اس زوال کی توجیہ کرنے کے لیے کافی نہیں۔
دوسری بات جسے کہنا میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سائنس کا زوال تو ہوا ہی ، لیکن ابن رشد کے بعد ہمارے یہاں کسی فلسفہ ¿ سائنس کا بھی ارتقا نہ ہوا۔ ملا صدرا نے فلسفے کو مابعد الطبیعیات سے آگے لے جاکر روحانیات ، یا ایک طرح کی اشراقیت سے ملا دیا۔ اس طرح انھوں نے ایک مسئلہ تو حل کیا، کہ عقل اور کشف ایک منزل پر ایک ہوجاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے دوسرا مسئلہ حل نہیں کیا، بلکہ اسے اور پیچیدہ کردیا۔ عملی زندگی میں تعقل کا کیا مقام ہے؟ فلسفے کے حقائق کی نوعیت کیا ہے؟ ان حقائق سے مسائل کا استنباط کرکے ہم عملی فائدے حاصل کرسکتے ہیں، لیکن کیا ان سے ہمیں کائنات کے بارے میں کچھ مستحکم علم حاصل ہوسکتاہے؟ خود علم کیا چیز ہے؟ ملا صدرا نے ان سوالوں کو اٹھایا نہیں ۔ لہٰذا ہم لوگ یہ مسئلہ بھی حل نہ کرسکے کہ علوم عقلی یعنی سائنس سے جو علمی نکات ہمیں مستفادہ ہوتے ہیں ، کیا ان کی سچائی مطلق ہے، اور کیا یہ تمام کائناتوں کے لیے برابر کی سچائی ہے؟ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے نکات علمیہ کی حیثیت صرف نظری اور موضوعی ہو؟ یا مخلتف کائناتوں سچائیاں (یعنی سائنس کے قوانین) ہماری کائنات سے مختلف ہوں؟

مغربی سائنس سے ہم لوگوں کا مفصل تعارف انیسویں صدی میں ہوا۔ یہ زمانہ مغربی سائنس کے تبختر (Hubris) کا زمانہ تھا۔ سائنس داں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم اٹل سچائیوں کو دریافت کررہے ہیں اور یہ سچائیاں ہر زمان و ہرمکان میں صحیح ہیں اور سائنسی مشاہد(Observation) اپنی جگہ پر آزاد حقیقت ہے، وہ مشاہد یعنی (Observer) کی ذہنی یا روحانی یا جسمانی صورت حال سے متاثر نہیں ہوتا۔ لہٰذا قرار واقعی مشاہدے موجود ہوںتو ان سے حقیقت کا استنباط ہوسکتا ہے، اور اس استنباط کی بنا پر پیشن گوئیاں کی جاسکتی ہیں۔ اور ان پیشن گوئیوں کو تجربے (Experiment) کے عمل سے گذار کر نظری حکمت (Theory) کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں یہ تصور بھی عام تھا کہ زبان کسی نہ کسی سطح پر حقیقت کا بیان کرسکتی ہے۔ یعنی انیسویں صدی کی سائنس تیقن اور خود اعتمادی اور عقل کی قوت پر مطمئن ہونے اور مطمئن رہنے کی سائنس تھی۔ عقل کے بارے میں خیال تھا کہ یہ عقیدے سے برتر ہے ، اور مشاہدے کے بارے میں خیال تھا کہ یہ کشف سے بہتر ہے۔ اور زبان کے بارے میں خیال تھا کہ یہ ریاضی کی سطح پر ، یا ریاضیاتی انداز میں معروضی طور پر حقائق کا بیان کرسکتی ہے۔

سائنس کا یہ فلسفہ آج بڑی حد تک غلط ثابت ہوچکا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے جس طرح انیسویں صدی کے انگریزی تصورات سیاست ملکی و مالی کو کھلے دل سے قبول کیا ، اسی طرح ہم نے انیسویں صدی کے انگریزی (یا مغربی) فلسفہ ¿ سائنس کو قبول کیا۔ بظاہر اس فلسفے میں خدا، نبوت ، وحی ، کشف، تزکیہ ¿ نفس، معاد، وغیرہ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سر سیّد نے چاہا کہ قرآن کی سائنسی توجیہ کریں۔ ظاہر ہے کہ وہ ناکام ہوئے (جس طرح آج کے لوگ اس قسم کی کوششوں میں آج پھر ناکام ہورہے ہیں۔) نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے یقین کرلیا کہ سائنس اور مذہب کوئی نقطہ ¿ اتفاق نہیں، سائنس پڑھنے سے ایمان چلا جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ عقل کے مقابلے میں ایمان زیادہ قیمتی ہے۔ سائنس سے اسی خوف کی بنا پر بعض مسلمان علما کو مجبور ہوکر کہنا پڑا کہ سائنسی ایجادات اور نئی ٹکنالوجی کو برتنا تو ٹھیک ہے ، لیکن خود سائنس پڑھنا ٹھیک نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ غیرعلمی ، غیر دیانت دارانہ ، اور اصل مسئلے سے منھ چھپانے کی ایک بھونڈی ترکیب کے سوا کچھ نہیں۔ علاوہ بریں ، سائنس کے میدان میں گڑکھائیں اور گلگلے سے پرہیز والا رویہ چل نہیں سکتا۔ٹکنالوجی اور سائنس ، ٹکنالوجی اور تہذیب ، ٹکنالوجی اور نئے تصورات ، یہ سب ایک ساتھ چلتے ہیں۔ انٹر نیٹ اس کی نمایاں مثال ہے۔ نوبل انعام یافتہ مشہور سائنس داں اسٹیون وائن برگ(Steven Weinberg) نے لکھا ہے کہ روز صبح پہلا کام میں یہ کرتا ہوں کہ کمپیوٹر کھول کر لاس الاماس(Los Alamos) کی ویب سائٹ پر جاتا ہوں کہ دیکھوں کل سے آج صبح تک کے دورانیے میں نظری طبیعیات (Theoretical Physics) میں کون سی نئی باتیں ظہور میں آئی ہیں۔
اگر ہم جدید فلسفہ ¿ سائنس کا مطالعہ کریں ، یا جدید سائنسی افکار کو دیکھیں ، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ سائنس کی وہ قطعیت ، اور اس کا دعویٰ کہ وہ ”اٹل حقائق“ سے معاملہ کرتی ہے، اب باطل ہوچکا ہے۔ آج کی سائنس بھی اپنے طور پر انکسار ، شکوک اور بے یقینی کے دور سے گذر رہی ہے۔ اور یہ دور غالباً ہمیشہ قائم رہے گا، کیوں کہ سائنس کے بارے میں ہمارے تصورات اب بدل چکے ہیں۔ اب سائنس کو مذہب کے لیے کوئی بہت طاقتور چنوتی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اب سائنس میں اس طرح کا قول کسی استعجاب کا باعث نہیں بنتا کہ ”حقیقت( خواہ وہ جانی جا سکتی ہو یا نہیں) اور اس کے پیکر (Image) کے درمیان ایک خلیج ہے۔“
اب فلسفہ ¿ سائنس اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سائنسی بیانات بھی محض بیانیہ ¿ اعظم (Grand Narratives)ہیں۔ یعنی جس طرح فلسفہ یامذہب کائنات کو بیان کرنے ، یعنی اس کی تصویر کھینچنے اور اس کے اسباب و علل کی داستان بیان کرنے کا عظیم الشان طریقہ ہیں، سائنس بھی اسی طرح کا بیانیہ ¿ اعظم ہے۔ خواہ وہ ارتقائی حیاتیات (Evolutionary Biology) ہو یا نظریہ ¿ اضافیت (Relativity)، کونیات (Cosmology) ہو، یا کوانٹم طبیعیات (Quantum Physics) ، یہ سب تمام دوسرے بیانیوں کی طرح ناقص ہیں اور زبان کے محکوم ہیں۔ ان علوم کو حقیقت اصلی سے اسی قسم کا تعلق ہے جو کسی طنز ملیح (Irony) اور اصل صورت حال میں ہوتا ہے۔ طنز ملیح یا (Irony) کا تفاعل یہ ہے کہ وہ لفظ اور حقیقت کے مابین خلیج کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔مثلاً غالب
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا

ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
یہاں ” ترے سر کی قسم“ اور اصل حقیقت کے درمیان ایک تفاوت ہے۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ آیا اس فقرے کے متکلم کی مراد یہ ہے کہ ” ہم تمہارے سر کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارا سر کاٹ کر ہی رہیں گے۔“ یا متکل کی مراد یہ ہے کہ ” ہم نے تمہارا سر نہ کاٹنے کی قسم کھائی ہے]لہٰذا ہمارا وعدہ محض طفل تسلی تھا[۔“ یا اس کی مراد یہ ہے کہ ” ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ تمہارا سر ضرور کاٹیں گے۔“ اصل معنی صرف متکلم کو معلوم ہیں، ہم صرف قیاس کرسکتے ہیں کہ اصل معنی کیا ہیں۔ بعض اوقات (Irony) طنز ملیح یوں پیدا ہوتا ہے کہ اصل معنی متکلم کو اور پاس کھڑے ہوئے سننے والے کو (مثلاً ڈرامے کے سامع کو) معلوم ہوتے ہیں، لیکن مخاطب کو نہیں معلوم ہوتے۔

سائنسی بیانات کے بارے میں اعتراف ، کہ وہ بھی دیگر بیانات کی طرح ہیں ، یعنی سچائی ان کے اندر ہے ، یا ان کے ماورا ہے ، ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ حقیقت کے دوسرے ممکن سرچشمے اور خزانے ، مثلاً اسطور (Myth) ، مذہب ، شعر و ادب ، اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ انھیں انسانی معاملات میں وہ جگہ دلائی جائے جس کا انھیں استحقاق ہے، اور صدیوں کی عقلیت پرستی نے جس سے انھیں بے دخل کردیا ہے۔ بقول لوسی بیکیٹ (Lucy Becket) اب یہ کہا جاسکتا ہے غیر سائنسی (یعنی مذہبی) بیانیہ ¿ اعظم میں ایک سچائی پوشیدہ ہے، بلکہ شاید اس میں سچائی کا کچھ جز ، بلکہ شاید پورا ہی پورا سچ موجود ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ دو نتائج نکلتے ہیں۔

(۱) سائنس کے بیانات اٹل اور مطلق اور تیقن سے بھر پور نہیں ہیں، جیسا کہ ابن رشد نے خیال کیا تھا ، اور جیسا کہ ہم انیسویں صدی کے مغربی تصورات کے زیر اثر سمجھتے آئے ہیں۔

(۲) مذہب کے بیانات میں سچائی کے پوشیدہ ہونے ، یا ان کے پورا پورا سچ ہونے کا امکان ہے۔
مندرجہ بالا نتائج لاخدا سائنس کی زبان میں بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی وہ سائنس جو خدا کے وجود میں یقین رکھنے کو دریافت حقیقت کے لیے لازمی شرط نہیں مانتی ، اور کہتی ہے کہ سائنس کے مشاہدات ، تجربوں ، اور نتائج کی صحت کے لیے خدا کے وجود کا سہارا لینا ، یا خدا کو مرافعے کی آخری عدالت (Court of Last Appeal) قرار دینا ضروری نہیں۔ اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ خدا موجود ہے ، تو ان نتائج کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا جائے گا:

(۱) سائنس کے بیانات اٹل اور مطلق اور تیقن سے بھرپور نہیں ہیں، جیسا کہ ابن رشد نے خیال کیا تھا، اور جیسا کہ ہم انیسویں صدی کے مغربی تصورات کے زیر اثر سمجھتے آئے ہیں۔

(۲) سائنس کے بیانات اسی وقت تک سچے ہیں جب تک وہ غلط نہیں ثابت ہوجاتے۔ سائنس کے بیانات میں سچ کا امکان ہے، لیکن یہ بات ثابت نہیں کہ ان میں سب کچھ سچ ہے۔ سائنس کے بہت سے نظریات اور پیشن گوئیاں عام دنیا میں صحیح ثابت ہوتی ہیں ، لیکن اس بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ نظریات اور پیشن گوئیاں مطلقاً اور دائماً سچ ہیں۔

(۳) مذہب کے بیانات اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ خدا کا وجود ہے۔ سائنس کاکوئی بیان خدا کے وجود کو کالعدم نہیں قرار دے سکتا، کیوں کہ سائنس کے تمام بیانات خود ہی غیر مطلق اور اضافی ہیں۔ خدا کے وجود میں یقین رکھنے والوں کا عقیدہ ہے کہ مذہب کے بیانات سچ ہیں۔

(۴) لہٰذا سائنس کے ذریعہ مذہب کی بے دخلی ممکن نہیں، اور نہ مذہب ہی سائنس کو بے دخل کرسکتا ہے۔ یعنی اگر مذہب کاکوئی بیان سائنس سے متغائر ہو تو بھی مذہب کے بارے میں صرف یہ کہاجائے گا کہ یہ سائنس سے مختلف عالم کی بات ہے، لیکن دونوں یکجا بھی رہ سکتے ہیں، اس معنی میں کہ سائنس یہ نہیں کہتی کہ خدا کا وجود نہیں ہے۔ سائنس صرف یہ کہتی ہے کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہمارے سروکاروں میں شامل نہیں۔ خدا کو معرض بحث میں لائے بغیر بھی سائنس کے مسائل پر بحث ہوسکتی ہے۔

(۵) ابن رشد کے اس خیال میں صداقت ہے کہ مذہب کی سچائیاں اور سائنس کی سچائیاں الگ الگ عالم سے ہیں، ان میں کوئی آویزش نہیں۔
آج کل امریکہ میں ایک بحث زوروں پر ہے۔ ایک گروہ خود کو ”تخلیق پسند“ (Creationist) کہتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ڈارون اور اس کے متبعین نے ارتقا (Evolution) اور تنازع اللبقا (Struggle for Existence) اور بقائے اقویٰ (Survival of the Fittest) اور جینیاتی تغیر (Mutation of the Gene)وغیرہ کی جو باتیں کہی ہیں ، وہ سب غلط ہیں۔ کرہ ¿ ارض پر حیات (Life) کا وجود خداے تعالیٰ کے منصوبے اور اس کی قوت تخلیق اور سنت ایجاد کا مرہون منت ہے۔ آدم علیہ السلام پہلے انسان تھے ، اور دنیا میں جتنے انواع حیات (Species of Life) ہیں، یا ہوئے ہیں ، وہ سب اللہ تعالیٰ نے فرداً فرداً تخلیق کیے ہیں۔ آپ کو معلوم کرکے تعجب ہوگا کہ امریکی سائنس دانوں میں اس وقت کم و بیش تیس فیصدی ایسے ہیں جو خود کو کسی نہ کسی معنی میں ” تخلیق پسند “ (Creationist)اور ”ارتقا پسند“(Evolutionist) دونوں مکاتب فکر کے خیالات کی تعلیم دیں۔
مذہب اسلام اور سائنس کے درمیان سب سے زیادہ تناقض مسئلہ ¿ ارتقا(Evolution) کے مباحث میں ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہاں سائنس دانوں کی تمام باتیں خلاف مذہب ہیں۔ ہم میں سے بعض کے لیے یہ اطلاع حیرت انگیز اور نئی ہوگی کہ زمانہ ¿ قدیم کے بعض مسلمان حکما نے ایسی باتیں کہی ہیں جن میں ڈارون کے نظریہ ¿ ارتقا کی پیش آمد (Anticipation) ملتی ہے۔ علامہ شبلی لکھتے ہیں (’مقالات شبلی ‘، جلد ہفتم ، ص۔ ۷۶)
”عام لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا جب پیدا ہوئی تو جمادات ، نباتات ، حیوانات ، سب ایک ہی زمانہ میں پیدا ہوئے ، اور الگ الگ پیدا ہوئے۔ ڈارون کی رائے ہے کہ پہلے صرف نوع پیدا ہوئی، وہی ترقی کرتے کرتے انسان کی حد تک پہنچ گئی۔ یہ ظاہر ہے کہ دونوں احتمالوں میں کوئی قطعی نہیں، یوں بھی ہوسکتا ہے اور ووں بھی۔ اس لیے اتنا تو بہر حال مان لینا چاہیے کہ ڈارون جو کچھ کہتا ہے وہ ایسی چیز نہیں جس کی ہنسی اڑائی جائے۔ وہ بھی ایک احتمال ہے اورتم جو کہتے ہو وہ بھی احتمال ہے، اور دونوں میں کوئی قطعی اور یقینی نہیں۔“
ملاحظہ ہو کہ سائنس کے بارے میں مغرب والے اب کہنے لگے ہیں (کہ سائنسی بیانات مطلق نہیں ، احتمالی نوعیت کے ہیں،) اسے علامہ شبلی نے کوئی سو برس پہلے (۷۰۹۱ءمیں) کہہ دیاتھا۔ اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ علامہ کو اس رائے میں کوئی مذہبی قباحت نہیں نظر آتی کہ ”پہلے صرف نوع پیدا ہوئی ، وہی ترقی کرتے کرتے انسان کی حد تک پہنچ گئی ۔“ شبلی کی نظر میں یہ رائے ، اور قرآن پاک میں بیان تخلیق آدم و حوا کی روایت ، کوئی تضاد نہیں پیدا کرتیں۔ اگر وہ خیال کرتے کہ یہاں تضاد ہے ، تو وہ اس کا ذکر ضرور کرتے۔
آگے چل کر علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ اخوان اصفا کے اراکین کے نظریات حسب ذیل تھے (ص۔ ۹۶- ۳۷):

(۱) نباتات کا انتہائی درجہ حیوانات کے ابتدائی درجے سے متصل ہے، اور حیوانیت کا انتہائی درجہ انسانیت ے ابتدائی درجے سے ملا ہوا ہے۔

(۲) نباتات میں ایسے بھی ہیں جو جسم کے اعتبار سے نباتات اور نفس کے اعتبار سے حیوان ہیں۔

(۳) سب سے کم درجے کا حیوان وہ ہے جس کے صرف ایک حاسہ ہوتا ہے۔ اس کے کان ، آنکھ ، شامہ ، ذائقہ ، کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اکثر کیڑے جو مٹی میں اور دریاﺅں کی تہ میں پیدا ہوتے ہیں ،اسی قسم کے ہوتے ہیں۔
غور کیجئے ، کون کہہ سکتا ہے کہ مندرجہ بالا خیالات میں ارتقا (Evolution) اور آغاز حیات کے ڈارونی تصورات کی جھلکیاں نہیں نظر آتیں؟ شبلی مزید لکھتے ہیں ابن مسکویہ نے بھی اس مسئلے پر کلام کیا ہے۔ابن مسکویہ کہتاہے۔ (ص ص ۳۷ – ۰۸):

(۱) جماد کا آخری درجہ نبات ہے۔ گھاس کا درجہ جماد اور نبات کے بیچ میں ہے۔ پھر نباتات میں قوت و حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ اتنی ہوجاتی ہے کہ اس کی شاخیں ہوتی ہیں ، وہ پھیلتا ہے اور تخم کے ذریعہ اپنی نسل کی حفاظت کرتا ہے۔
(خیال رہے کہ تنازع للبقا کی بحث میں تنازع للبقا ے نفس کی جگہ تنازع للبقاعے نسل یعنی ”نسل کی حفاظت“ کا تصور ہمارے زمانے میں رچرڈ ڈاکن (Richard Dawkin)نے سائنسی طور پر بیان کیا اور اسے ”خود غرض جین “ (The Selfish Gene) کا نظریہ کہاجاتا ہے۔)

(۲) نبات جب اپنی منزل سے آگے بڑھتا ہے تو اس کا پہلا زینہ یہ ہے کہ زمین سے الگ ہوجائے ، تاکہ وہ اختیاری حرکت کرسکے۔
(یہ بھی خیال رہے کہ جدید سائنسی بحثوں میں ”زندہ“ اور ”غیر زندہ“ (Life and non-life) میں فرق کرنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ ”زندہ“ کو حرکت ہے اور ”غیر زندہ“ کو حرکت نہیں۔)

(۳) حیوان ترقی کرکے انسان کی سرحد میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ اور یہ درجہ بندر وغیرہ کا ہے جو انسان سے بالکل مشابہ ہیں اور ان میں اور انسان میں تھوڑا ہی فرق ہے، جس کو بندر اگر طے کرلیں تو بالکل انسان ہوجائیں۔
(واضح رہے کہ جدید جینیات (Genetics) کے مطابق انسان اور چمپانزی کے درمیان ۹۹ئ۹ فیصدی جین مشترک ہیں ۔ یعنی صرف اعشاریہ ایک فیصدی جین ہمارے جسم میں ایسے ہیں جو چمانزی کے جسم میں نہیں ہیں۔)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اخوان الصفا اور ابن مسکویہ نے نظریہ ¿ ارتقا کا تقریباً خاکہ ہی بنادیا ہے۔ ان کے یہاں تنازع للبقا (Struggl for Existence) اور بقاے اقویٰ (Survival of Fittest) اور جینیاتی تغیر (Mutation of the Gene) کے تصورات نہیں ہیں، لیکن بنیادی خاکہ سب موجود ہے۔علامہ شبلی اپنے مضمون کے آخر میں نظامی عروضی کے اقتباسات پیش کرتے ہیں:

(۱) جس قدر حاسے کم ہوں گے ، اتنا ہی کم درجے کا وہ ناقص حیوان ہوگا۔ کیچوے سے زیادہ کوئی ناقص حیوان نہیں ہوتا۔

(۲) بن مانس انسان کے بعد تمام حیوانات میں ترقی یافتہ ہے۔
اب آخر میں بیدل کا ایک شعر میں پیش کرتا ہوں
ہیچ شکلے بے ہیولیٰ قابل صورت نہ شد
آدمی ہم پیش از آں کادم بود بوزینہ بود
( اوائلی خاکہ نہ ہوتو کوئی بھی شکل صورت پذیر نہیں ہوتی ۔ خود انسان پہلے بندر تھا ۔ پھر انسان بنا۔)
یہ خیالات جن لوگوں کے ہیں ان کے بارے میں ، یا ان خیالات کے بارے میں ، کسی نے نہیں کہا کہ وہ غیر اسلامی ہیں۔ اور وہ سائنس داں جو خود کو ”تخلیق پسند“(Creationist) کہتے ہیں، ان کوبھی لوگ سائنس داں ہی مانتے ہیں۔

ممکن ہے یہ بات اب کچھ واضح ہوچلی ہو کہ مذہب اور سائنس چاہے یک جا نہ ہوسکیں ، لیکن ایک دوسرے کی راہ میں ہارج بھی نہیں ہیں۔ فلسفہ ¿ سائنس کے جدید نظریات کو ملحوظ رکھیں تو مذہب کی پابندی سے سائنس کی تکذیب لازم نہیں آتی۔ ہم اگر جدید فلسفہ ¿ سائنس کو اختیار کرلیں تو ہمارے لیے علوم عقلیہ میں ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔