Iqbal Aur Nawjawan by Dr. Zakir Khan Zakir

Articles

اقبال اور نوجوان

ڈاکٹر ذاکر خان

 

حکیمِ مشرق اور نبّاضِ ملت علامہ اقبال کی تفہیم مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ جگنو پکڑتے ہوئے بچے اقبال کی شاعری میں ایک ایسی شخصیت سے روشناس ہوتے ہیں جو ان کے لیے سرور ہی سرور ہے کیف ہی کیف ہے۔ حوصلہ مند نوجوان کلامِ اقبال میں اس شاہین کو تلاش کرتے ہیں جس کی نظریں ہمیشہ اپنے مقصد پر ہوتی ہیں۔ اہلِ تصوف اقبال کی شاعری میں عشقِ حقیقی کے پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ اہلِ مدرسہ کے یہاں کلامِ اقبال عشقِ رسول اور معرفتِ خداوندی کی علامت ہے۔ اہلِ علم ودانش علامہ اقبال کی شاعری میں اپنے مزاج کے مطابق پہلو تراش کر ان کے فلسفے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں۔
یوں توعلامہ اقبال نے ہر عمر کے شخص کو اپنی شخصیت اور شاعری کا اسیر بنایا ہے لیکن خودی، تلقینِ حرکت و عمل، خیالِ شاہین و عقاب اور طائرِ لاہوتی جیسی اصطلاحیں بطورِ خاص نوجوانوں کے لیے استعمال کی ہیں۔
اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس 21مارچ 1932، میں خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کہا تھا کہ
“میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا سیاست سے تعلق نہ ہو”
ان کا بڑا مقصد نوجوانوں کی خوابیدہ روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ اسلام نے انسانی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں کیا کارنامے انجام دیے اور مستقبل میں مزید کیا امکانات ہو سکتے ہیں۔ اقبال کے تصور کے مطابق وہی نئی نسل اور نوجوان کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں جو اپنے اسلاف کی میراث کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اقبال چاہتے تھے کہ نوجوان اپنے زورِ بازو پر انحصار کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی راہیں خود طے کریں ۔ نوجوانوں کی تن آسانی، عیش و عشرت، مغرب کی اندھی تقلید انہیں کچوکے لگاتی رہتی تھی۔ مغربیت کے بڑھتے اثرات کا اندازہ اقبال بہت پہلے ہی لگا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں میں خودی بیدار کرنے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان اپنے آپ کو پہچانیں اور یہ جان لیں کہ وہ کائنات کا کتنا اہم جزو ہے۔ ان کہ یہاں ، یاس و حسرت، محرومی و ناامیدی اور بزدلی و کم ہمتی کا کوئی وجود نہیں۔ وہ یقیں محکم، عمل پیہم ، ثابت قدمی، اولعزمی، بلند حوصلگی، بلند پروازی پر یقین رکھتے تھے۔ اپنی نظم “ایک نوجوان کے نام”میں وہ کہتے ہیں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے اوصاف کو اور اپنی خودی کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اس کی مکمل نشو نما بھی کرتے رہیں ۔ لفظ خودی سے اقبال کی مراد تکبر یا غرور نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں خودی نام ہے احساس کی بیداری کا، جذبۂ خودداری کا، اپنی ذات و صفات کے ادراک کا، عرفانِ نفس کا، خود شناسی کا، خود بینی کا، خود آگاہی کا خدا آگاہی کا، اور لا الہ الا اللہ کے راز۔ وہ کہتے ہیں کہ توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظ ہے۔ نظم ساقی نامہ میں اقبال فرماتے ہیں کہ
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا من و تو سے پاک
اسی نظم میں اقبال نیرنگئ زمانہ میں الجھے ہوئے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا اور اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں یہاں کی ہر چیز فانی ہے ثبات صرف خدا کی ذات کو ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہماری جانیں ہیں۔ دنیاوی زندگی ،دائمی زندگی کے لیے صرف اور صرف ایک تربیت گاہ ہے۔یہ ہماری منزل نہیں بلکہ خودی تک پہنچنے اور اس سے روشناس ہونے کا ایک ذریعہ ہے ۔ اقبال کے مطابق دنیاوی زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں۔ اس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔ لہذا خودی کی فنا اور بقا کا انحصار عمل پر موقوف ہے۔ خودی کو باقی رکھنے کے بعد ہی بلاامتیاز ہم من و تو کا احترام کر سکیں گے کیوں کہ بقائے دوام کے حصول کا انحصار ہماری مسلسل جدو جہد پر ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
علامہ اقبال چاہتے تھے کہ نوجوان خودی کے راز کو پاکر مثلِ شاہین اپنے مقصد پر نظر رکھیں۔انقلاب آفرین ہستی وہ ہوتی ہے جو زمانے کو نئی سوچ دے ، پرانے الفاظ اور خیالات کو مفاہیم کے نئے جہان عطا کرے۔ اقبال سے قبل بھی ہمیں دیگر زبانوں کے شعری سرمائے میں مختلف پرندوں کا ذکر ملتا ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے پرندے کا انتخاب کیا جو آسمانوں پر نظریں رکھنے کے باوجود اپنے اندر درویشی کی صفت رکھتا ہے۔اقبال کے یہاں شاہین وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے یہاں بلبل اور شیلے کے یہاں سکائی لارک کی ہے۔ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سب سے بھی بالاتر ہے۔ اقبال جمال سے زیادہ جلال پسند کرتے ہیں۔ انہیں ایسے پرندوں میں کوئی دلچسپی نہیں جو صرف جمالیاتی اہمیت رکھتے ہوں یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہوں۔آپ کے یہاں شاہین ایک مسلم نوجوان کی علامت ہے۔اس لیے وہ نوجوانوں کو اس شاہین کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جو کبھی مردار نہیں کھاتا۔ انہیں ایک ایسے شاہین کی تلاش ہے جو بلند پروازہو۔ ایک ایسا شاہین جو کبھی باز ، کبھی عقاب، کبھی طائرِ لاہوتی بن آسمان کی وسعتوں کو مسخر کردے۔ایک ایسا شاہین جس کی پرواز آسمان کی وسعتوں کو چیر دے۔ ایک ایسا شاہین جو مشرق سے مغرب تک آسمانوں پر اپنی بادشاہت قائم کردے۔ ایک ایسا شاہین جو اپنے لیے جہانِ تازہ تلاش کرے، افکارِ تازہ کی نمو کرے۔
اقبال کے نزدیک شاہین کے علاوہ کوئی پرندہ نوجوانوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں ہے۔ بالِ جبرئیل کی نظم ” شاہین” میں اقبال یو ں گویا ہوتے ہیں کہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہوں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
علامہ اقبال کا یہ کارنامہ یقیناً یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایک ایسے انسان یا نوجوان کا آئیڈیل ہمارے سامنے پیش کیا جو بقول ظ انصاری مستقبل کی ترقی یافتہ دنیا بنانے اور سجانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایسے ہی نوجوان کو اقبال نے کہیں شاہین، کہیں طائرِ لاہوتی، کہیں مردِ مومن اور کہیں ایسا مسلمان کہا ہے جس کی خودی صورتِ فولاد ہے۔ جو بیک وقت شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی۔ اسی نوجوان کو حرکت و عمل کا درس دے کر اقبال برسہا برس کے سکوت، جمود اور خاموشی کو توڑنا چاہتے تھے۔ وہ نوجوانوں کو مغرب اور مغرب زدہ تہذیب سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ حرکت و عمل کے ذریعے صدیوں کی زخم خوردہ انسانیت کے تنِ مردہ میں روح پھونکنا چاہتے تھے۔وہ عوام الناس کو ظلمت و الحاد کے گڑھوں سے اوپر اٹھا کر ان کے ہاتھوں میں ایمان و یقین کی مشعلیں دینا چاہتے تھے۔ اقبال کے نزدیک کائنات اپنے ہونے کا اظہار مسلسل تبدیلیوں کی صورت میں کرتی ہے۔ یہاں کسی شے، کسی منظر، کسی احساس، کسی قوم اور کسی بھی معاشرتی صورت حال کو قرار نہیں ہے۔ وہ ’’مرغ و ماہی ‘‘ ہوں یا ’’ ماہ و انجم‘‘ یہاں کی ہر شے’’ راہی‘‘ اور ہر چیز’’ مسافر‘‘ ہے۔اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
علامہ اقبال کے فلسفے اور شاعری کا بیشتر حصہ حرکت و تغیر کی اصلیت کو واضح کرتا ہے۔ وہ کائنات کے اصول یعنی حرکت و تغیر کو نوجوانوں کے حق میں ہمیشہ نیک شگون قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حرکت زندگی کی پہچان اور سکون یا جمود موت کی شناخت ہے۔ شاید اسی لئے ہمارے روائتی انداز فکر میں بھی حرکت کو برکت کہا جاتا ہے۔ علامہ نے اس نکتے کی وضاحت بڑے موثر اور بھر پور انداز سے کی ہے۔ مثلاً وہ خضر کی زبانی بندہ مزدور کو یہ پیغام دلواتے ہیں۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اس شعر میں علامہ بزم جہاں کے نئے انداز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نیا انداز وہ معاشرتی، سیاسی اور معاشی حالات ہیں جو ہمارے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں۔ علامہ ہمیں ان حالات کا صحیح شعور اوروقوف پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔اقبال اس دنیاوی زندگی کو مکمل حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے۔وہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نوجوان کے اپنے عمل میں مضمر امکانات کو بروئے کار لانے پر زیادہ زور دیتے ہیں ۔ اقبال اپنی تمام تر امنگیں اور آرزوئیں نوجوانوں سے وابستہ کرتے ہیں ۔ وہ ایک ایسے طبقے کو ہدف بناتے ہیں جس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اقبال کا نوجوان مصلحتوں کے دائرے میں زندگی گزارنے کو غلامی تصور کرتا ہے،بقول اقبال
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
قلزم ہستی سے ابھرا ہے تو مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
علامہ اقبال کی شاعری ،ان کا فلسفہ اور اس میں پوشیدہ رموز آج نہ صرف اہلِ اردو یا اہلِ مشرق کے لیے مینارۂ نور ہیں بلکہ دنیا بھر میں دیگر زبانوں کی یونیورسٹیاں بھی اقبال کے فن سے فیضیاب ہو رہی ہیں۔ اقبال کسی ایک خطے ،کسی ایک علاقے یا کسی ایک سرزمین کے شاعر نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت آفاقی ہے کائناتی ہے۔ شاعرِ مشرق جیسا خطاب بھی اقبال کے بہت معمولی نظر آتا ہے کیوں کہ وہ تو شاعرِ ہستی ہیں، شاعرِ گیتی ہیں۔
***
ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نوجوان شاعر، مترجم اور ابھرتے ہوئے نقاد اور نور الاسلام ہائی جونیئر کالج ، گوونڈی میں انگریزی کے استاد ہیں۔