Iqbaal Sanaash

Articles

آلِ احمد سرور بحیثیت اقبال شناس

قاضی عبیدالرحمن ہاشمی

آلِ احمد سرور ہمارے ان معدودے چند ادیبوں میں ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کے لمحہ ¿ آخر تک شعر و ادب سے گہرا سروکار رکّھا اور اپنی تحریرو ںکے ذریعہ اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔ آزاد، حالی، شبلی، امداد امام اثر اور عبدالرحمان بجنوری وغیرہ کی وساطت سے اردو تذکرہ اور تنقید کی جو روایت ان تک پہنچی تھی اس کی توسیع کا فریضہ انھوں نے اس انداز سے انجام دیا کہ مغربی تنقیدی معیاروں سے واقفیت کے باوجود اپنے معتدل مزاج اور متوازن طبیعت کے باعث مشرقی اندازِ نقد و نظر کو بالقصد ہمیشہ اپنی ترجیحات میں شامل رکھا اور تنقید میں معروضی محاکمہ اور محاسبہ سے شاذ و نادر ہی سروکار رکھا، چنانچہ ایک خصوصیت جو عموماً انشاپردازی سے علاقہ رکھتی ہے اس کے خوگر ہوتے چلے گئے، اغلب ہے کہ اس طرز کا محرک کسی حد تک رشید احمد صدیقی کی تحریریں بھی رہی ہوں، بہرنوع یہی تنقیدی اسلوب سرور صاحب کا نشانِ امتیاز اور بنیادی شناخت کا وسیلہ بن گیا، جس کی دفاع وہ اس طرح کرتے رہے کہ تنقید اپنے پیرایہ ¿ بیان اور لسانی اظہار کے لحاظ نہ صرف یہ کہ تخلیق سے کم رتبہ نہیں ہے بلکہ اپنے اندر لطف و لذت اور ذہنی رغبتوں کا وہی سامان رکھتی ہے جو تمام بہترین نثری تحریروں کا طرہ ¿ امتیاز ہے۔ جو اوّلین صورت میں مسرت اور پھر بصیرت کی ضامن ہوتی ہیں۔
اب جب کہ پہلے کے مقابلے میں اردو میں بھی تنقید کا تصور زیادہ سنجیدہ اور عالمی تناظر میں متن پر مبنی انتہائی ذمہ دارانہ Academicکارگزاری بن گیا ہے اور عمومیت ایک جرمِ عظیم بنتی جارہی ہے، تو سرور صاحب کی قدرے انشائیہ نما تنقیدی تحریروں کا علمی جواز مشکل ہے، جن میں متجسس ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا حل ڈھونڈنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

موجودہ موضوع کے سیاق میں ان تمہیدی کلمات کا جواز یہ ہے کہ گرچہ سرور صاحب اقبال کے فکر و فن پر مسلسل لکھتے رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہاں بھی وہی ہے کہ انھوں نے گرچہ عقیدت کی عینک لگا کر اقبال کو شاعر ملت ثابت کرنے کے لےے مولویانہ طرز استدلال سے ہرگز کام نہیں لیا ہے، لیکن اقبال کی تخلیقی و فنّی بصیرت کے سرچشموں کا سراغ لگانے کے لےے اور شاعر کے نفس کی آنچ سے پگھلتی اور تحلیل ہوتی ہوئی لفظیات و علائم کی منطق کو بھی سمجھنے سمجھانے اور ان کے اندرون میں جھانکنے کی کچھ خاص کوشش نہیں کی ہے، جس کے بہت مستحسن عملی نمونے ہیں قاضی افضال حسین کے بعض مطالعات اقبال میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
چنانچہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ سرور صاحب نے مطالعہ اقبال میں متنی تجزےے اور استفسار سے قطعاً گریز کیا ہے اور بیشتر ان کی فکری و فنّی صلاحیتو ںکے بارے میں اپنے مجموعی تاثر پر ہی اکتفا کیا ہے، تاہم اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالنا چاہےے کہ وہ اقبال فہمی سے قاصر ہیں یا شاعرانہ زبان و بیان کی نزاکتوں، رموز و علایم اور غرض و غایت سے بے خبر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، شاعری میں ان فنّی لوازم کی ضرورت و ماہیت کا انھیں بھرپور شعور ہے، تاہم اپنے مزاج اور ایک خاص نوع کی ذہنی تربیت جو انھیں اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملی تھی، اس سے وہ انحراف نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بغاوت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، تاہم یہ حقیقت ہے کہ اقبال پر ہی لکھی گئی سرور صاحب کی رنگین نثر کے غائر مطالعہ سے کچھ جستہ جستہ فقروں کو ضرور علاحدہ کیا جاسکتا ہے جن سے اقبال کے فنّی سروکار، مرتعش فکر اور برگزیدگی کے نقوش ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر سرور صاحب اپنے ایک مضمون ’اقبال کی معنویت‘ میں اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوو ¿ں پر روشنی ڈالتے ہیں، جن میں اُن کا فن شعر بھی شامل ہے، فرماتے ہیں:
”اقبال کے فن کی معنویت کیا ہے، اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ کہنا ہے کہ فن لفظ کے ذریعہ سے ذات کو کائنات بنانے کا نام ہے اور حسن کی طرح فن بھی ہزار شیوہ ہوتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ فن کے حسن کو اس کے ہر رنگ میں پہچانیں۔“
آگے چل کر فرماتے ہیں:
”اقبال کی شاعری روایت سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے اور پھر بھی ان کی اپنی ایک آواز، اپنا ایک لہجہ اور اپنی ایک دنیا ہے۔ اقبال حالی کے راستے پر چلے مگر ان کے مرشد اوّل غالب ہیں۔ اردو غزل غالب کے اثر سے حدیث دل سے آگے بڑھ کر زندگی کا ورق بن چکی تھی، مگر اقبال نے اسے صحیفہ ¿ کائنات بنا دیا۔ اقبال شاعری میں رمز و ایما کی اہمیت کو جانتے ہیں اور برہنہ حرف نہ گفتن کو کمال گویائی جانتے ہیں مگر اُس پردہ ¿ مینا کو پسند کرتے ہیں جس میں مے مستور بھی ہو اور عریاں بھی۔“

ان اقتباسات کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شاعری کی زبان کے بارے میں سرور صاحب کا موقف واضح ہے اور یقینا رمزیت و ایمائیت ہی اعلا فن کار اور فن کاری کے بنیادی وسائل ہیں، جن سے اقبال نے بھی کام لےے ہیں۔ علاوہ ازیں سرور صاحب کا اقبال کے تعلق سے یہ دعویٰ کہ فن ذات کو کائنات بننے کا نام ہے یا اقبال کی شاعری روایت سے گہرا رشتہ رکھتی ہے، ایسے بلیغ اشارے ہیں جن سے ایلیٹ کے معروف تصورات Escape or Detachment from Personality اور Tradition & Poetry کے مباحث کی گونج بھی صاف سنائی دیتی ہے۔

ایک اور مضمون ’خطابت، شاعری اور اقبال‘ میں سرور صاحب فرماتے ہیں:
”ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے، غنائی، خطابیہ اور ڈرامائی۔ اقبال کے یہاں یہ تینوں آوازیں ملتی ہیں، لیکن دوسری آواز یعنی خطابیہ زیادہ ہے، اس میں اقبال نے شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کےے ہیں— مشرقی شاعری خطابت کی روایت سے آزاد نہیں ہوسکتی، اس لےے کہ اس کا تعلق ایک وسیع حلقہ سے رہے گا۔ اس کے ذریعہ یہ لفظ میں کائنات اور لمحے میں ابدیت دیکھتی دکھاتی رہے گی۔“
آگے چل کر فرماتے ہیں:

”اچھی شاعری خطابت کے آداب ضرور رکھتی ہے۔ اقبال وہ طائر ہیں جس کی آنکھ پرواز میں بھی نشیمن پر رہتی ہے۔ یہ صاف اور واضح طور پر مقصدی شاعری ہے، مگر شاعری ہے اور اعلا درجہ کی شاعری ہے، دانشوری نے اسے تب و تاب عطا کی ہے، اپنی فنّی روایت کے بطن سے ابھری ہے اور اُس نے تجربے بھی کےے ہیں۔“
ان عمومی بیانات میں بھی کچھ تنقیدی اشارے موجود ہیں۔ گرچہ تکرار خیال بھی ہے اور بسااوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ تخلیقی تجربے کی حقیقی معنویت کو کامل غور و فکر کے بعد تحلیل و تجزےے سے برآمد کرنے کے بجائے سرور صاحب شاید پہلے سے کوئی Frame Work بنا لیتے ہیں اور پھر اُس خاکے میں رنگ آمیزی کے لےے اشعار تلاش کرتے اور فیصلہ صادر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے نتائج اکثر ذہن کو پوری طرح کم ہی مطمئن کرپاتے ہیں، تاہم یہ ان کی مجبوری ہے اور اُن سے اس کے برعکس کوئی مطالبہ مناسب نہیں ہے۔ ان کے کئی مضامین مثلاً دانشور اقبال، ’اقبال اور نئی مشرقیت‘ یا ’جدید اور مشرقی اقبال‘ وغیرہ میں اسی Strategy اور کلّیہ سازی کی طرف اُن کا واضح میلان نظر آتا ہے۔

تاہم اس امر کا اعادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تفصیلات سے قطعِ نظر اجزا میں کہیں کہیں سرور صاحب کی تنقیدی ژرف نگاہی خاکستر میں پوشیدہ چنگاری کی مانند اپنی چمک دکھا دیتی ہے اور ان کی عبقریت کا قایل ہونا پڑتا ہے، یوں بھی سرور صاحب Cliches کے ذریعہ اپنی آگہی کو طشت ازبام کرنے سے زیادہ، خود کو مخفی رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ سرور صاحب کے مضمون ’اقبال اور اردو نظم‘ کو جب ہم اس توقع کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ مجموعی طور پر اس سے اقبال کی نظموں کی بُنت (Craftsmanship)، تعمیریت (Architectonics) اور شاعر کے تخلیقی شعور کے بارے میں کسی اہم نکتے کا انکشاف ہوگا تو بلاشبہ مایوسی ہوتی ہے، لیکن مضمون کی قرا ¿ت کے دوران سرور صاحب کی فطانت کے کچھ کوندے ضرور لپک جاتے ہیںجن سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں:

”اقبال کی مختصر اور طویل نظموں کی تعداد کیفیت اور کمیت دونوں کے لحاظ سے اتنی ہے کہ وہ اب تک نظم کے سب سے بڑے شاعر کہے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے اردو نظم کو وسعت، گہرائی، بُعد اور فکری رفعت عطا کی ہے، اِس سے انکار کفر ہوگا۔ انھوں نے گرچہ غزل کو بھی صحیفہ ¿ کائنات بنایا، مگر دراصل وہ نظم کے شاعر ہیں۔“
سرور صاحب اقبال کی نظموں کے حوالے سے آگے چل کر بہت پتے کی بات کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
”بال جبریل میں لینن خدا کے حضور میں، فرشتوں کا گیت، فرمانِ خدا فرشتوں کے نام۔ اگرچہ الگ الگ نظمیں ہیں، مگر ان میں ایک ربط مل جائے گا، طارق کی دعا اور مسجد قرطبہ، قیدخانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمان اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت اور ہسپانیہ میں بھی ایک رشتہ ہے۔ گویا نظموں میں ایک آزاد رشتے، ہیئتوں کے تنوع اور موضوعات کی رنگارنگی، تینوں اقبال کی امتیازی خصوصیات ہیں۔“

ان اقتباسات میں سرور صاحب کی نظر اقبال کی نظموں میں پوشیدہ جس معنوی اور ہیئتی ربط کی جانب گئی ہے، وہ یقینا توجہ کے قابل ہے۔ اسی مضمون میں سرور صاحب کا یہ کہنا کہ نظم ’لالہ ¿ صحرا‘ ایک مکمل علامتی نظم ہے اور اس کی علامت شاہین سے زیادہ فکرانگیز اور بصیرت افروز ہے۔ اس دعویٰ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن صرف بیان کافی نہیں، ثبوت بھی ضروری ہے۔اقبال کو نظم کا سب سے بڑا شاعر کہنے کے بعد سرور صاحب نے اقبال کی غزل کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ پہلے غزل کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
”غزل کی ہیئت میں بحر، قافیہ، ردیف کی مدد سے ایک تجربہ، ایک واردات، ایک حسین لمحہ، ایک دلنواز نکتہ، ایک پراثر لے، ایک حرفِ شیریں، ایک شرارِ معنوی، ایک نغمہ ¿ معرفت، ایک تابناکی ¿ خیال، ایک شعلہ ¿ جوالہ، ایک درد کی لہر، ایک من کی موج، ایک جلوے کی کائنات پیش کی جاتی ہے، لیکن جو کچھ کہا جاتا ہے، اس سے زیادہ خیال کے لےے چھوڑ دیا جاتا ہے۔“

یہ پورا اقتباس جو مرصّع نثر کا اعلا نمونہ ہے اس میں غزل کے آرٹ سے متعلق جس اہم نکتے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق بالکل آخری فقرہ سے ہے جس میں منطقی خلاو ¿ں (Elipses) کی طرف ا شارہ کیاگیا ہے۔ گرچہ مجموعی طور پر یہ ہر قابلِ ذکر شعری تجربے کی اہم خصوصیت ہے لیکن غزل کا آرٹ تو سراسر اخراجِ الفاظ سے ہی عبارت ہے اور اختصار (Brevity) اس کا بنیادی جوہر ہے۔
غزل پر عمومی تبصرے کے بعد سرور صاحب اقبال کی غزل کے اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

”اقبال کی غزل میں سوز بھی ہے اور مستی بھی جمال بھی ہے اور جلال بھی، فکر کا عنصر بھی ہے اور جذبے کا گودا بھی، دلو ںکی کشاد بھی اور نشریت بھی، سازِ، طرب بھی اور فریاد کی ٹیس بھی۔ ان کی مخصوص اصطلاحوں کی وجہ سے یا موڈ کی وحدت کی وجہ سے، بعض اوقات، نظم کی شان ضرور پیدا ہوگئی ہے، مگر جذبے کی آنچ عمومی طور پر انھیں غزل کی زبان کی زبان سے، دور نہیں جانے دیتی۔“
یہاں بھی دیگر باتوں کے ماسوا جس میں Paraphrasing بھی شامل ہے، موڈ کی وحدت کی طرف اشارہ جس کے سبب اقبال کی غزلوں میں، نظم کی شان ہوگئی ہے، وہ نکتہ ہے،جس کی طرف خود فاروقی صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے۔

آگے چل کر غزل میں اقبال کی انفرادیت نشان زد کرتے ہوئے سرور صاحب نے بے حد کارآمد باتیں کی ہیں، فرماتے ہیں:

”مجموعی طور پر (اقبال) کی غزل کا آہنگ شیریں بھی ہے اور رقصاں بھی۔ تلمیحات، تراکیب، استعارات، تشبیہات کی کثرت، باوجود ہیرے کی طرح ترشے ہوئے خیال اور فن پر قدرت کی وجہ سے، ان کی غزلوں کے الفاظ میں زبان پر وہ فتح اور اقلیم معنی پر وہ اقتدار ملتا ہے، جو بڑی شاعری کی پہچان ہے۔“
اقبال کی غزلوں بلکہ اُن کی مجموعی شاعری کی انفرادیت اور امتیاز کو شاید اس سے بہتر طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سرور صاحب کی اقبال شناسی کے ضمن میں مزید زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے صرف ان کے مضمون ’اقبال کا فن- ایک عمومی جائزہ‘ کے حوالے سے چند معروضات پیش کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔
اقبال کی غزلوں اور نظموں میں فنی تدابیر کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے، سرور صاحب فرماتے ہیں:
”اقبال چونکہ غزل کی روایت سے یکسر بلند نہیں ہوسکے، ان کے ہاں طویل نظمیں دراصل خوبصورت ٹکڑوں کا ایک گلدستہ ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بھی نہیں بھولنا چاہےے کہ ایڈگر ایلن پو تو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ طویل نظم کوئی چیز نہیں، یہ مختصر نظموں کاایک مجموعہ ہے۔ اقبال کی وجہ سے اردو نظم جوان ہوئی اور اس میں جوانی کی لغزشیں بھی ہیں، مگر اقبال نے غزل کی دنیا میں جو انقلاب برپا کردیا اور اسے عظمت، گہرائی اور برگزیدگی عطا کی، اس کا اعتراف ضروری ہے۔ اقبال کے ہاں شاعری کی پہلی اور دوسری آوازوں کا تو بھرپور نقش ہے مگر تیسری آواز بھی جبریل و ابلیس میں پورے طنطنے کے ساتھ ملتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے یہاں منظوم فلسفہ بھی ہے۔ مگر خطیبانہ شاعری، مفکرانہ شاعری Epigrammaticشاعری سب کے اعلا نمونے ملتے ہیں۔“
اس سے قطعِ نظر کہ ایلیٹ کی بتائی ہوئی شاعری کی تین آوازوں کا عفریت سرور صاحب کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا، اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اس اقتباس میں بھی سرور صاحب کی اعلا تنقیدی بصیرت اور تفکر کے ارتعاشات موجود ہیں، چنانچہ اقبال کی طویل نظموں کو خوبصورت ٹکڑوں کا گلدستہ کہہ کر، دبے لفظوں میں شاید وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ طویل نظم جس فکری تسلسل، مرتکز تخیل، تحمل، تخلیقی تگ و تاز اور ریاضت کی متقاضی ہوتی ہے، اقبال کی نظمیں اُن Parametersپر پوری نہیں اترتیں۔ سرور صاحب جس پائے کے ادیب اور نقاد ہیں، انھیں یہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے، ہر چند کہ اقبال کی طویل نظموں کے سلسلے میں اسلوب صاحب نے دلائل کے ساتھ اس کے برعکس بھی اپنا نقطہ ¿ نظر پیش کیا ہے، تاہم اس سے اقبال کی شاعرانہ عظمت کی ادنیٰ تحقیق نہیں ہوتی۔

آخر میں صرف یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ سرور صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور دانشور ہونے کی حیثیت سے تنقید میں تمام تر زبان و بیان کی تخصیص کے باوجود، اسے ادبی اور جمالیاتی نثر کا ہی ایک ناگزیر حصہ تصور کرتے ہیں، اس کی ضرورت، وقعت اور اہمیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں، لیکن شاید اس کی بقا اور عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ وہ ’ادب‘ کے حصار ہی میں رہے، حاشیہ پر نہ چلی جائے، اس لےے کہ Marginalised ہونے کی صورت میں سرور صاحب جیسے نقاد اور تنقید کا عظیم خسارہ ہے۔
جیسا کہ دیکھا گیا، سرور صاحب اقبال کی عہدساز شخصیت اور تخلیقی کمالات کے حددرجہ معترف اور قائل ہیں، لیکن اپنی شاعرانہ افتاد طبع اور تاثراتی تنقیدی روےے کے باعث اقبال کے اعلا مابعدالطبیعیاتی تفکر کے عرفان و ادراک کے باوجود ان کے تنقیدی محاکمہ میں تجزیہ، تقابل اور احتساب کے ذریعہ فنی وتخلیقی رمزیت کی گرہ کشائی کرنے سے قاصر بیشتر شاعرانہ خیالات کی بازآفرینی سے ہی سروکار رکھتے ہیں۔ تاہم اس سے انکار ناممکن ہے کہ ان کے بعض تنقیدی اشارے اکثر صورتوں میں عقل کو مہمیزکرتے ہیں۔ جن سے یقینا اقبال شناسی کے نئے دریچے کھلتے اور اقبال فہمی کے مزید امکانات روشن ہوتے ہیں۔