Interview of Shamsur Rahman Farooqui by Nadeem Ahmad

Articles

فن ، زندگی کا تابع ہوتا ہے

شمس الرحمن فاروقی

ندیم احمد:جمالیاتی قدروں کے علاوہ کیا ادب اور آرٹ کی تاریخ میں کسی ایسی قدر کا تصور ممکن ہے جو کلاسیکی اور جدید ادب کی تحریک یا فنکاری پر حاوی نہ ہو، لیکن بہت بڑی حد تک اس میں تخلیقی روح بند ہو؟
شمس الرحمن فاروقی: کسی بھی قدر کو، فن کی قدر کو یہ ممکن نہیں ہے اسے ہم کسی بھی ادبی اصول کی روشنی میں دیکھے بغیر یہ طے کرلیں کہ اس کے اندرتخلیق کی روح بند ہے۔ خود تخلیق کی روح کا فقرہ نہایت گمراہ کن ہے اور میرے خیال میں تخلیق کی روح کا بندہونا اور بھی گمراہ کن ہے۔ گویا فن پارہ کوئی بوتل ہے جس کو آپ کھول دیں تو روح باہر آجائے گی۔ بہر حال بنیادی بات یہ ہے کہ تخلیق ہمیشہ کسی نہ کسی فنی معیار کی ہوتی ہے، چاہے وہ فنی معیار پرانے زمانے کا ہو یا نئے زمانے کا ہو۔
ندیم احمد: زندگی کی جستجو ، نئے توازن اور نئے آہنگ کی تلاش فنکار کو بودلیئر کے Etoile(ستارہ) اور Toile (بادبان)کا سفر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن فنکار کو یہ نیا توازن پوری طرح حاصل نہ ہونے کی صورت میں زندگی کی تلاش موت کی خواہش میں تبدیل ہوجاتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادب اور آرٹ موت کا اعلان کرتا ہے؟
شمس الرحمن فاروقی: توازن کی تلاش تو ہرفنکار کے لیے کوئی بڑی ،بہت بڑی تلاش نہیں ہوتی ہے۔اول تو فرانسیسی ادیبوں کی مثال دینا اور وہ بھی خاص مخصوص حالات کے اندر مثال دینا اردو زبان کے آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی مناسب نہیں معلوم ہوتا لیکن بہر حال اگر آپ نے بودلیئر کی مثال دی ہے تو آپ کو پھر ریمو کا خیال بھی آنا چاہئے جس کی یہاں اصولاً توازن سے انکار بنیاد ہے شاعری کی اور فن کی بھی ۔ توازن ہو یا عدم توازن ہو جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں، فنکار کو دراصل اپنے اندرونی تصورات کا ، تجربات کا اور اپنی ذات میں جو کچھ گذررہی ہے، باہر سے جو کچھ اس کو حاصل ہورہا ہے اس کو جس طرح ممکن ہوسکتا ہے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی توازن کی تلاش بھی کرتا ہے تو وہ توازن الفاظ اور خیالات میں ہوگا۔ اس طرح سے نہیں ہوگا کہ زندگی میں ایک نیا توازن لایا جائے۔ اکثر توزندگی کے توازن سے گھبرا کرکے فن کار یا شاعر کسی اور طرف بھاگنا چاہتا ہے۔ میرؔ نے کہا تھا:
ہم مست میں بھی دیکھا کوئی مزہ نہیں ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے
ظاہر بات ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں توازن سے انکار کیا جارہا ہے یا ایک نئے توازن کی بات کی جارہی ہے۔
ندیم احمد:انسانی اور اخلاقی تعلقات کی سماج میں جو اقدار رائج ہیںان کو شبہ کی نظر سے دیکھنے اور ان کے متعلق اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فنکار اخلاقی مسئلوں اور اقدار کے الجھیڑوں سے یکسر کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن نظریہ اخلاقیات سے جان بچا کر بھاگناایک بہت بڑا فنی مسئلہ بھی پیدا کرتا ہے جو اپنے وسیع تر مفہوم میں نفسیاتی اور حیاتیاتی بھی ہے۔ اخلاقی اقدار و معیار چھوڑنے کو تو چھوڑ دئے جائیں لیکن فن پارے کی تخلیق کے لیے کوئی نہ کوئی معیار تو ہونا چاہئے، وہ کون فراہم کرے گا؟ اخلاقیات کو تو ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ایسی صورت میں فنکار کون سا نظریہ اخلاقیات ڈھونڈنے کی کوشش کرے جس سے وہ خود مطمئن ہو اور دوسروں کو بھی مطمئن کرسکے؟
شمس الرحمن فاروقی: اول تو یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اخلاقیات کو ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخلاقیات کا تصور اب ویسا نہیں،اب دنیا میں کئی طرح کی اخلاقیات رائج ہیں، اور بعض بنیادی باتوں پر اتفاق ہونے کے باوجود اخلاقیات کے نام پر بہت ساری غیر اخلاقی چیزیں بھی ہورہی ہیں۔ لیکن اخلاقی تصورات کی روشنی میں کبھی بھی فن پارے کی خوبی یا خرابی نہیں طے ہوتی ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی فن پارے کو ہم اخلاقی طورپر خراب بھی سمجھیں لیکن پھر بھی ہم اس کے لیے کوشش کریں اور یہ دیکھیں کہ بطور فن پارے کے ، بطور فن کے اور بطور اظہار فن کے اس میں جو خوبصورتیاں ہیں وہ ان نام نہاد غیر اخلاقی تصورات یا اقدار پر حاوی ہوجاتی ہیں۔ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ عسکری صاحب نے لکھا بھی ہے کہ سجاد انصاری ایک زمانے کے بڑے ہونہار ، بڑے اچھے، ابھرتے ہوئے فنکار تھے ان کا جو ڈرامہ تھا’جزا‘ وہ برنارڈ شا کے ڈرامے کی بنیاد پر لکھا گیا تھا لیکن یہ کہ نئے انداز ، نئی طرح سے لکھا گیا تھا۔ اس میں ساری بحث بھی انسان ، گناہ کی اور ثواب کی، اچھائی کی برائی اور خدا آپ کا مواخذہ کرتا ہے، یہ سب اس کی چیزیں ایسی تھیں جو آپ بہت سخت مذہب کی بنیاد پر دیکھیںتو شاید اعتراض کے قابل ٹھہرے۔ لیکن انسانی روح میں جو کشمکش ہے ،انسان کے ذہن میں جو کشمکش ہے۔ا چھے اور برے کی ، تقدیر کی اور جبر کی ان سب کو دیکھتے ہوئے اس ڈرامہ میں ایسے سوال اٹھائے گئے ہیں جن سے کہ کم از کم ہمیں ایک طرح سے معاملہ کر نا پڑے گا۔ بہرحال خیر، مگر یہ بات ہوئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ، اردو ڈپارٹمنٹ میں اس کو رکھا جائے بطور ایک درسی کتاب کے تومولانا عبدالماجد دریابادی کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے اس پر سخت اعتراض کردیا۔ اور سرور صاحب نے اس اعتراض کونہیں مانا۔ اور انھوں نے ، جس کو بورڈ آف اسٹڈیز کہتے ہیں اس کے جلسے میں انھوں نے کہا کہ ہمارا شعبہ ادب کا شعبہ ہے۔ ہم ادبی چیزیں ادبی معیار دیکھ کر پڑھانا چاہتے ہیں۔اگر اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اخلاقی طور پر نامناسب ہیں  تو ہم ان کا تذکرہ کردیں گے طالب علم کو سمجھادیں گے۔ لیکن محض اس بنا پر کہ کسی ایک شخص کو، یا کسی ایک فرقہ کو یا کسی ایک طبقے کو اس کی باتیں پسند نہیں ہیں، ہم اس کتاب کو یا اس فن پارے کو نصاب سے خارج کردیں یہ مناسب نہیں ہے۔ بالکل ایسی ہی بات 1955-1956میں ہوئی جب عسکری صاحب نے طلسمِ ہوشربا کا انتخاب شائع کیا جو بہت دلچسپ انتخاب ہے اور اب بھی اسے بہت اچھا کہنا چاہئے کہ جس میں معاشرے کی عکاسی کے جو رنگ تھے انھوں نے دکھائے تھے۔ اس کے پہلے ایڈیشن میں برصغیر کے مشہور مصور اورافسانہ نگار اور بعد میں سیاست داں حنیف رامے نے تصویریں بنائی تھیں۔ تو ان تصویروں میں بعض تصویروں کو عریاں اور مخرب الاخلاق قرار دیا گیا۔ اور اس بنا پر اس کتاب کی مخالفت کی گئی اور سرور صاحب نے اگرچہ پھر کوشش کی کہ اسے کورس میں آنے دیا جائے لیکن کامیابی نہیں ہوئی، اور وہ کتاب نصاب سے خارج کردی گئی۔ بعد میں وہ کتاب اردو اکیڈمی لکھنؤ نے چھاپی۔ تصویریں اس میں نہیں ہیں۔مطلب میرے کہنے کا یہ ہے ان تمام باتوں کا لب لباب یہ نکلتا ہے کہ فن پارے کو کسی اخلاقی یاکسی غیر فنی معیار کا تابع قرار دینا ظاہر بات ہے یہ سیاسی طور پر اس طبقہ کو جو کہ طاقت کا حامل ہے اور جو چاہتا ہے کہ طاقت حاصل ہو اسے، (اس کے لیے) یقیناً یہ چیز بڑی اچھی ہے کہ وہ ادب کو اپنی بیان کردہ اخلاقیات کا تابع بنانے کی کوشش کرے۔ ہمارے لیے یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اخلاقیات کا کامیاب ہوجانا یا ناکام ہوجانایہ ادب کی کامیابی یا ناکامی کی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔
ندیم احمد: ادب اور آرٹ انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے مگر بعض لوگ ادب اور آرٹ کو زندگی کے شعبوں سے الگ ایک مستقل ہستی سمجھتے ہیں۔ ایک ایسی ہستی جو بجائے خودقابل قدر بھی ہے اپنی حدود کے اندر آزاد اور خود مختار بھی۔ یہ لوگ زندگی کو ادب اور آرٹ کا تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں،زندگی کے کسی اہم شعبے کو باکل آزاد چھوڑ دینا اور اس پر کسی قسم کی اقدار عائد نہ کرنا کہاں تک درست ہے۔ میرے خیال میں ڈی ایچ لارنس جیسے بھاری بھرکم آدمی کے بارے میں ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا کہ ’’فنکار تو بہت زبردست ہے مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اسے دنیا میں بھیجا ہے‘‘ محض تنقیدی بیان نہیں بلکہ ادب اور آرٹ کی اخلاقی معیاروں سے مکمل آزادی کے متعلق سوچنے کا عمل بھی ہے جو آگے چل کر ایلیٹ سے یہ بھی کہلواتا ہے کہ’’ ادبی نقاد کے پاس کسی دینیاتی نظام کا ہونا لازمی ہے‘‘۔ تو اس سلسلے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟ ادب اور آرٹ کی مکمل آزادی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
شمس الرحمن فاروقی: یہ بات جو آپ نے کہی ہے کہ زندگی کو ادب اور آرٹ کا تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں، میں سمجھا نہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے کہ زندگی اور ادب یا آرٹ الگ الگ تو نہیں ہے۔ لیکن زندگی کا تابع بنانے کا مطلب یہی نکلتا ہے۔ یہ ضرورہے کہ جیسا کہ آپ نے بعد میں ایلیٹ کا اور کیا نام ہے اس کا آپ نے لیا ہے کہ ایلیٹ نے لارنس کے بارے میں کہا کہ وہ فنکار تو بہت زبردست ہے لیکن دنیا میں وہ لوگوں کو گمراہ کررہا ہے۔ تو پھر وہی بات ہوئی، اخلاقی معاملہ ہوا کہ ایلیٹ اس بات کو مانتا ہے کہ لارنس بہت بڑا فنکار ہے، بہت بڑا ناول نگار ہے، لیکن چونکہ لارنس کے خیالات سے اس کو اتفاق نہیں ہے لہٰذا اس کی بنا پر وہ اس کو کہتا ہے کہ لارنس دنیا کو گمراہ کررہا ہے۔ ورنہ صحیح معنوں میں دیکھئے تو جس بناء پر کہ لارنس کو گمراہ کن بتارہا ہے، وہ جنسی آزادی وغیرہ کا جو ذکر ہے تواس پورے معاشرے میں جو تبدیلی آئی ہے، مغرب میں وہ ساری کی ساری تھوڑے ہی مغرب کی مرہونِ منت ہے توبیچارہ لارنس کیا کرے گا۔ اس سے پہلے بھی لوگ لکھ چکے ہیں ، اس طرح کی چیزیں جن کو کہ لوگوں نے فحش قرار دیا ہے۔ ہمارے پاس غنا کے بارے میں کتنی بار کہا جاچکا ہے کہ ا س سے ہوشیار رہیں۔ ہمارے ادبیات کے بارے میں لوگ کہتے ہیں ، اس میں بہت زیادہ فحش چیزیں ہیں۔ تو ان سے کون سا اخلاق میں زوال آگیا یا بداخلاقی پھیل گئی۔ فرائڈ کے خیالات نے مغرب کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا اور پھر یہ کہ خود بھی کچھ ترقیاں ایسی ہوگئیں ، مانع حمل چیزیں ایسی آگئیں سامنے جن کی بنا پر جنسی آزادی ممکن ہوسکی۔ اور جنسی عمل میں حصہ لینے والے مرد وعورت کو خطرہ نہ رہا تولیدکا، تو صاحب یہ چیزیں تھیں جن سے کہ یہ چیزیں آئیں اگر آپ اسے مغرب کی بے حیائی اور فحاشی اور عریانی وغیرہ کہئے توبے چارہ لارنس توبہت چھوٹا سا آدمی، اس کی کون سنتا ہے تو یہ سب محض کہنے کی باتیں ہیں۔ زندگی آرٹ کے تابع تو ہوسکتی نہیں بلکہ آرٹ کو زندگی کا تابع بہرحال ہونا پڑتا ہے۔ بس یہی آپ کہہ لیجئے کہ آخر ہم لوگ سمجھتے ہیں آج جو گندی چیزیں ہورہی ہیں، آج بھی ہورہی ہیں،پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ جعفر زٹلی کے زمانے میں آپ دیکھ لیجئے۔ جعفر زٹلی یعنی اردو کی پہلی اور واحد نثرجو ہے شمالی ہند میں وہ جعفر زٹلی کی نثر ہے۔ وہ اتنی فحش ہے کہ جس کوپڑھنا پڑھانا بہت مشکل ہے۔ ہمارے عزیز دوست الوک رائے جو ہندی کے پروفیسر ہیں دلی میں ، بہت لائق آدمی ہیں اور آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ پریم چند کے بیٹے ہیں اور انھوں نے پریم چند کی کتاب کے خلاف اپنی کتاب لکھی ہے۔ تووہ چاہتے تھے کہ اردو میں ایسی نثر جمع کی جائے جس میں کہ مذہبی طور پر نہیںبلکہ غیر مذہبی طور پر بہت سی چیزیں معاشرے کے بارے میں ہوں ، وہ کہتے ہیں ہم لوگوں نے اسے بھلادئے ہیں۔ پرانی اردو کو ہم لوگوں نے بالکل بھلادیا ہے۔ پرانی اردو میں غیر مذہبی اور آزاد رسوم تھے ۔بہرحال مجھ سے انھوں نے کچھ مدد مانگی میں نے اپنے ایک ہم کارجو اردو کے صاحب تھے ان کو اس میں لگادیا کہ آپ ڈھونڈئے ان چیزوں کو میںنے ان کو نشاندہی کی کہ فلاں چیزیں فلاں چیزیں ڈھونڈئے یہ ملیں گی۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ بھئی شمالی ہند میں غیر مذہبی نثرجو ایسی ملتی ہے سب سے پہلی تو وہ جعفر زٹلی کی نثر ہے۔ جو صفحہ تھا میں نے ان کو دیا۔انھوں نے اس کو پڑھ کر سر پکڑ لیا۔ حالانکہ وہ بہت لائق آدمی ہیں لیکن ان کی بھی ہمت نہیں پڑی کہ اس کو اپنے انتخاب میں شامل کرسکیں۔ توآج جو ہم اپنے یہاں فحاشی اور برائی دیکھ رہے ہیں وہ پہلے بھی تھی۔ دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ زندگی کو ہم فن کا تابع بناتے ہیں، ہمیشہ فن زندگی کا تابع ہوتا ہے۔زندگی جیسی ہوتی ہے فن ویسا ہی بنتا ہے۔
ندیم احمد: ایک ایسے دور میں جب لوگ انگریزی شاعری کو شیکسپیئر اور رومانی شاعروں کا مجموعہ سمجھنے لگے تھے ایلیٹ نے لوگوں کو قول و عمل دونوں کے ذریعہ سے احساس دلایا کہ انگریزی شاعری کی روایت جوچوسر سے لے کر ٹینی سن تک آتی ہے بہت وسیع و عریض ہے اور اس روایت سے پوری طرح واقفیت حاصل کئے بغیر بڑا ادب یا بڑی شاعری نہیں پیدا ہوسکتی۔ آپ کے خیال میں اردو ادب پر اس تصور کا اطلاق کن تصرفات کے ساتھ ہوتا ہے اور ان باتوں کو آپ کس طرح سے محسوس کرتے ہیں؟
شمس الرحمن فاروقی: میں سمجھتا ہوں کہ اردو والوں کے لیے غیر ضروری ہے یہ بحث کرنا کہ چوسر اور ٹینی سن تک کون سی روایت آتی ہے۔ یہ تو ایک بہت معمولی بات ہے ۔ افسوس یہ کہ ہم لوگوں کو یہ بڑی نئی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایلیٹ نے کہا۔ آپ نے کچھ چیزیں بیان نہیں کیں ایلیٹ نے کہا تھا کہ وہی فن پارہ سب سے نیا ہوتا ہے جسے کہ اس کے بنانے والے کو پرانے فن پاروں کا پورا پورا احساس و عرفان ہوتا ہے، وہی نئی شاعری پیدا کرسکتا ہے۔ایلیٹ نے کہی یہ بات ، ہم لوگوں نے اس کو پڑھا توہم لوگوں نے یہاںبہت خوشیاں منائیں۔ لیکن افسوس یہ کہ اردو میں ہم لوگ اس بات سے انکار کرتے رہے۔ ہم لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ صاحب اب آپ کی پرانی شاعری ، روایت غیر ضروری نہیں تو بیکار تو ہے ہی اور اس کے بغیر ہم لوگ شاعری کرسکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے، بلکہ ضروری ہے کہ انقطاع پیدا کیا جائے ۔اس میں جب بعض لوگوںنے ایلیٹ کا قول پڑھا تو بہت چونکے ، ارے صاحب ایسا بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے۔ یہ ہمارے یہاں بہت پہلے کہا جاچکا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ متنبی کا جو استاد تھا،جن کے پاس متنبی گیا کہ شعر کہنا ہے اور میں نے بہت کچھ پڑ ھ لیا، مجھے اب اجازت دیجئے کہ شعر کہنا شروع کروں تو انھوں نے کہا ابھی نہیں ابھی تم جاکر دس ہزار شعر یاد کرکے آؤ پرانے استادوں کے۔ اور صاحب وہ گئے اپنی محنت کی اور یاد کرکے آئے۔ اور اب ان سے کہا خلق احمر، خلق احمر استاد کا نام تھاتو متنبی نے جاکر ان سے کہا کہ استاد اب میں نے آپ کا حکم پورا کرلیا ہے اور دس ہزار شعر یاد کرلئے ہیں۔ تو کہا جاؤ ان کو بھلا کر آؤ۔ کہا کیا مطلب۔ کہا ہاں جاؤ بس اس کو بھلاؤ، یاد تو تم نے کرلیا، اب خود تم ان کو اپنے حافظے سے محو کردو۔ خیر اب چونکہ متنبی کو شعر کہنے کا اور شاعر بننے کا بے انتہا شوق تھا اوراس نے کہا چلئے آپ کا حکم مانتے ہیں۔ پھر وہ شہر چھوڑا، پتہ نہیں کسی غار میں گیا، جنگل میں گیا اور پتہ نہیں کہاں گیا دل لگایا اور پوری طرح ان اشعار کو ذہن سے محو کردیا۔ پھر آکے اس نے خلق احمر سے کہا استاد میں نے وہ اشعار بھلادئے۔تب جاکر استاد نے کہا۔ ہاں اب تم شعر کہہ سکتے ہو۔ تو یہ بہت سامنے کی بات ہے۔ ہمارے یہاں تو ہمیشہ سے ہوتا رہا ۔ اب یہ ہوا کہ ہمارے یہاں چونکہ یہ کہہ دیا گیا کہ ہمارا سب شعر مولاناحالیؔ کا مسدس میں جو مصرعہ ہے یہ’’یہ شعر وحکایات کا ناپاک دفتر حقیقت میں سنڈاس سے ہے بدتر‘‘ اب ایسا بھی چل گیا کہ صاحب ہم لوگوں نے کہا سب کو القطع ہی کردو۔ تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ہمارے لیے۔ یہ آپ کو ممکن ہے کہ ایلیٹ کیا کہتے ہیں،اس قول کو آپ بہت بڑی دریافت سمجھیں، دریافت تو نہیں ہے، اچھی بات ہے۔ لیکن اس میں کوئی ہمارے لیے نئی بات نہیں ہے۔
ندیم احمد:’’طلسم ہوشربا‘‘ اور ’’الف لیلیٰ‘‘ جیسی داستانیں ، حافظؔ اور میرؔ کی شاعری اور خسروؔ جیسے فنکار پیدا کرنے والی قوم آج تخلیق سے ڈر رہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ تخلیق ایک دہشت ناک عمل ہے اور اگر یہ ایک بے ضرر کھیل نہ معلوم ہو تو فنکار اس کے پاس بھی نہ پھٹکے۔ لیکن آج ہم اس بے ضرر کھیل کو کھیلنے کی کوشش اور خواہش سے بھی محروم نظر آتے ہیں؟
شمس الرحمن فاروقی:ارے صاحب نہ تخلیق چٹان پر بیٹھتی ہے، نہ دہشت ناک عمل ہے۔ تخلیق سے ڈر کوئی نہیں رہا ہے۔ ڈرائے ضرور جارہے ہیں تخلیق کار۔ لیکن اب کتنا ڈرجائیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ اور ڈرانے والے بہت سے لوگ ہیں جو نئے نئے فلسفے لے کر آتے ہیں۔ کوئی ساختیات لے کے آتا ہے کوئی پسِ ساختیات لے کے آتا ہے۔ کوئی مابعد جدیدیت لے کے آتا ہے کوئی جدیدیت لے کے آتا ہے، کوئی ترقی پسندی لاتا ہے۔ اور اس کے ڈنڈے سے ہانکنا شروع کرتا ہے تو کوئی مانتا نہیں ان باتوں کو۔ شعر تو لوگ وہی کہتے ہیں، افسانہ تو وہی کہتے ہیں جو ان کو اچھا لگتا ہے۔ تو اس کو اتنا ڈرامہ بناکر مت رکھئے۔ یہ ہے کہ جو بات کہنے والی تھی، جو آپ نے نہیں کہی، جو کہنا چاہئے تھی آپ کو جو آج کے تخلیق کار ہیں اگر وہ ڈر رہے ہیں توڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت کچے اور کمزور ہیں ۔ وہ پوری طرح سے تخلیق کے فن سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس کو کہتے ہیں کہ وہ اشیا ء کو تخلیق کی آنکھ سے دیکھنے پر قادر نہیں ہیں۔ وہ موٹی آنکھ سے دیکھتے ہیں، جس آنکھ سے کہ میں دیکھتا ہوں۔ اس سے دیکھتے ہیں کہ جس آنکھ سے عام آدمی دیکھتا ہے۔ دیکھئے ورڈزورتھ جیسا بھی تھا آپ نے پڑھا ہی ہو گالیکن ایک بات وہ بڑے پتے کی کہہ گئے تھے کہ صاحب شاعر وہ ہوتا ہے جو عام لوگوں کی طرح سے ہے لیکن اس کا سوچنے اور دیکھنے اور محسوس کرنے کا طریقہ عام لوگوں سے الگ ہوتا ہے۔ اور ہم لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جو عام لوگ سوچ رہے ہیں ، جو اخبارات میں لکھا جارہا ہے، ٹی وی پر آرہا ہے اسی کو فوراً افسانہ بنادو،ا سی کو نظم بنادو۔ تو اس طرح سے نہیں ہوسکتا ہے نہ۔
ندیم احمد: انسانی تخیل حقیقت کو افسانہ بناتا ہے اور افسانہ بن جانے کے بعد ہی حقیقت میں معنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب اور آرٹ کی بڑی شخصیتوں کو حقیقت کی نسبت افسانوں سے زیادہ شغف رہا ہے۔ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ پچھلے 50سال کی مدت میں ہم نے جو ادب پیدا کیا ہے یا جس قسم کا ادب ہم آج پیدا کررہے ہیں اس میں انسانی تخیل کا عمل اور ردِّعمل ایسے افسانے تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن پر حقیقت کا دھوکا ہو اور جو حقیقت سے زیادہ جاندار ہوں؟
شمس الرحمن فاروقی: بھئی یہ عمل اور ردِ عمل یہ دونوں کیوں لگارہے ہیں آپ۔ ایک توالفاظ کا کم استعمال کرو بھائی۔ اتنا سمجھاتا ہوں تم سب لوگوں کو کہ الفاظ کی قدروقیمت گنو، قدروقیمت سمجھو۔ ان کو پیسے کی طرح گنتے رہا کرو۔ کم ہوگئے تو کہاں خرچ کئے، اب سو روپے کا، پانچ سو روپے کا ، ہزار روپے کا نوٹ بازار میں لے کر جاتے ہو، واپس آتے ہو تو اس کو گنتے ہو کہ کتنا بچ گیا،چار روپے، آٹھ آنے، بارہ آنے بچے ہیں۔اور کہاں کہاں خرچ کئے گئے۔ لفظ کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہے، جو جی میں آئے لکھتے چلے جاتے ہو، خیر چھوڑو وہ الگ بات ہے۔ لیکن اس وقت اصل بات یہ ہے کہ حقیقت سے زیادہ جاندار ہونے سے کیا مراد ہے تمہاری۔ حقیقت کسے کہتے ہیں آخر؟ جو حقیقت شعر میں بیان ہوئی یا افسانے میں بیان ہوتی ہے وہ اس معاملے میں یقیناً جاندار ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے موجود رہتی ہے۔ اور حقیقتیں جتنی بھی ہیں وہ تاریخ میں ہیں یا وہ فلسفے میں ہیں ، کسی جگہ صحیح ، کسی جگہ صحیح نہیںہیں۔ تخلیق میں سچائی جو ہوتی ہے اگر آپ اس سے اس سچائی کا تقاضہ نہ کریں کہ صاحب آم کا پھل میٹھا ہوتا ہے لیکن جب کچا ہوتا ہے تو بڑا کھٹا ہوتا ہے۔ اس طرح کی باتیں جو آج کل شاعری میں لکھی جارہی ہیں ۔ اس طرح کے تقاضے اس سے نہ کریں آپ ،توتخلیق یقینا سچی ہوتی ہے، زیادہ جاندار ہوتی ہے کیونکہ رہتی ہے۔ ارے بھائی ہم توکتنی بار کہہ چکے ہیں کہ کئے نقاد زندہ رہے اور کئے شاعر زندہ رہے آپ گن لیجئے۔ ایک شعر لوگوں کا زندہ رہ جاتا ہے۔ ایک افسانہ زندہ رہ جاتا ہے۔ توتخلیق توجاندار ہمیشہ ہوتی ہے ۔
ندیم احمد: ہمارے یہاں بہت سے ایسے فنکار ہیں جو دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگر تخلیقی سفر میں کچھ دور چلنے کے بعد ان کی سانسیں پھولنے لگیں اور دیکھتے دیکھتے مسلسل چلنے کا عمل تھک کر بیٹھ جانے کے بعد ایک آسان عمل میں تبدیل ہوگیا۔ ان تجربات سے کیا ہم یہ نتیجہ اخذکرسکتے ہیں کہ تخلیقی سفر میں چلنا اور چلتے رہنا ہی سب کچھ ہوتا ہے، پہنچنا نہ پہنچناسب برابر ہے۔
شمس الرحمن فاروقی: جو آپ کہہ رہے ہیں کہ صاحب بہت سے فنکار ہیں دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگر کچھ دور چلنے کے بعد ان کی سانسیں پھولنے لگیں۔ تو میں نے کہا ہے آپ سے کہ بھئی بنیادی بات یہ ہے کہ اگرآپ مفاہمت کرلیں گے، اگر آپ اپنے فن سے یا دنیا سے یا معاشرے سے سمجھوتا کرلیں گے ۔ میں وہی لکھوں گا جوآپ کواچھا لگتا ہے، کہ میں وہی لکھوںگا جو محفوظ ہے، جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے، میں وہی لکھوں گا جس کو پڑھ کر لوگ کہیں کہ ہاں صاحب ٹھیک ہے، آپ اچھا کہتے ہیں، آپ نیک آدمی ہیں تو یہ بات ہے نہ۔ اچھا دوسری بات یہ ہے کہ فنکار کے لیے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ وہ زندگی بھر لکھتارہے۔ بھئی ایسا بھی توہوتا ہے نہ کہ لوگ جلد مرجاتے ہیں۔ تو کیا مطلب ہے کہ جو کچھ انھوں نے لکھا ہے، جو کم لکھا ہے انھوں نے ، اب تاباںؔ جوانی میں مرگئے، تو کیا تاباںؔ کو ہم شاعر نہیں مانیں گے کیونکہ وہ جوانی میں مرگئے اور ہم میرؔ کو اس لیے شاعر مانیں گے کہ وہ بہت دن تک زندہ رہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں بھئی اگرتاباںؔ زندہ رہتے تواگر خدا معلوم زندہ رہتے تو ممکن ہے کہ اور خراب شعر کہتے یا اچھے شعر کہتے۔ توشاعر یا تخلیق کار کی ایک اپنی اندر کی عمر بھی تو ہوتی ہے نہ۔ اس اندر کی عمر کو کیوں نہیں دیکھتے ہو۔ اس اندر کی عمر کو گھٹانے اور بڑھانے والی چیزیں اس کے اندر بھی ہوتی ہیں، اس کے معاشرے میں بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً پڑھتا نہیں اگر وہ مان لو۔ اب پڑھے بغیر توکبھی شعر ہوتا نہیں ہے، افسانہ ہوتا نہیں ہے، ناول ہوتا نہیں ہے، پڑھوگے نہیں توکہاں سے لکھوگے۔ ہم سے ابھی ایک صاحب کہنے لگے کچھ دن پہلے کی بات ہے، ہندی کی محفل تھی۔ میں ہندی والوں میں اکثر بلالیا جاتاہوں۔ توایسے باتیں ہونے لگیں۔افسانے کے بارے میں: کہنے لگے صاحب ہم لوگ کیا کریں۔ہم لوگ تووہی لکھتے ہیں جو کہ ہم سنتے ہیں۔ تو میں نے کہا بھائی ہمارے زمانے میںتو یہ قول تھا کہ ہم وہی لکھتے ہیں جو ہم پڑھتے ہیں۔ توظاہر بات ہے سننے کی بات کروگے، بازار کی زبان سنو گے تو وہی لکھوگے ، اس میں کتنا دم پھر۔ آخر کتنی اچھی بات کہی جناب آڈن نے کہ’’عام زبان جو ہے اس میں شاعری نہیں ہوسکتی۔‘‘ ہم مثلاً ٹیکسی میں بیٹھ رہے ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایئرپورٹ جانا ہے اس میں تو شاعری ممکن نہیں ہے۔ اس میں اطلاع ممکن ہے کہ ائیر پورٹ جانا ہے، کئے گھنٹے میں پہنچیں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو زبان کو آپ اس کے تخلیقی عمل سے نہیں استعمال کریں گے تو جیسے یہ کہ میں نے آپ سے کہا ، بہت سے لوگ معاہدہ کرلیتے ہیں کہ بھئی ہم کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے آپ کو، کوئی بری بات نہیں کہیں گے، کوئی ایسی چیز نہ کریں گے کہ جس سے آپ کے ضمیر کو جناب چونکنا پڑے۔ تویہ بھی ہوسکتا ہے۔
ندیم احمد: موت وحیات، جسم وروح، خیر و شر، عدم اور وجود جیسے مسائل کا ذکرتو ہمارے ادب میں خوب ملتا ہے لیکن مجموعی طورپر یہ مسائل جس انسان سے متعلق ہیں اس کے بارے میں کسی گہرے انکشاف کی کمی ہمارے ادب میں صاف نظر آتی ہے۔ میرؔ کو الگ کردیں تو شاید ہی ہماراکوئی فنکارملارمےؔ اور والیریؔ کے آس پاس بھی پہنچے۔
شمس الرحمن فاروقی: ارے بھائی کاہے کے لیے، اول توہمار ی عمر ہی کتنی ہے۔ اگر آپ ملارمےؔ او روالیریؔ کو اتنے بڑے شاعر مانتے ہیں کہ دنیا کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ہیں تو چلئے میں بھی مان لیتا ہوں، ملارمے ؔکے بارے میں کچھ شک بھی رکھا جاسکتا ہے لیکن چلئے بہرحال شاعر وہ بھی فرانسیسی کاہے۔تو اب میرؔ کے برابررکھ رہے ہیں کم سے کم آپ، توآپ کی عمر ہی کتنی ہے۔ ابھی توجمعہ جمعہ آٹھ دن آپ کو ہوئے ہیں۔ پانچ چھ سو برس آپ کی کل تاریخ ہے۔ اب پانچ چھ سو برسوں میں آپ نے ایک عدد میرؔ پیدا کرلیا تو کیا کم پیدا کرلیا؟ ویسے آپ کے یہاں صرف میرؔ نہیں ہیں۔ آپ کے یہاںتویعنی آپ صرف بڑے لوگوں کا نام لیجئے تو بھی پانچ سات آدمی ایسے ہیں جن کا بڑے فخر سے آپ نام لے سکتے ہیں۔ غالبؔ کا نام لینا پڑے گا آپ کومیر انیسؔ کا نام لینا پڑے گا آپ کو، اقبالؔ کا نام لینا پڑے گا، نظیرؔ اکبر آبادی کا نام لینا پڑے گا،سوداؔ کا نام لینا پڑے گا، دکنی میں بہت کم جانتاہوں لیکن جہاں تک میں نے سنا ہے اور پڑھا ہے نصرتیؔ کا نام ہم کو لینا پڑے گا، وجہیؔ کا نام لینا پڑے گا۔ تو یہ سب بڑے شاعر ہیں، ان کو دنیا میں کسی بھی جگہ بٹھادیجئے یہ شرمندہ نہیں ہوں گے۔ہم سے ایک دفعہ ہمیں یاد ہے ایک دفعہ ایک جلسے میں ہمارے دوست بہت بڑے نقاد ، اللہ جنت نصیب کرے وہ مرحوم ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرؔ کوئی بڑے شاعر تھوڑی ہیں۔ ہم نے کہا بھائی ہم توابھی آج ہی ایک انگریزی رسالے میں ایک مضمون پڑھ آئے ہیں کہ ہیلین کوپر جو کہ معمولی شاعر ہے انگریزی کا ، اسے قرار دیا گیا کہ جینئس تھا۔ تو وہاں تو یہ عالم ہے کہ ان کے یہاں جو درجہ دوم کے شاعر ہیں ان میں بھی ایک معمولی حیثیت رکھنے والے شاعر کو وہ لوگ جینئس کہہ رہے ہیں۔ اور ہم لوگ اپنے منہ سے اپنے بڑے شاعر کو کہہ رہے ہیں کہ وہ بڑا شاعر نہیںتھا۔ تواصل میں ہوتا یہی ہے نہ، کہ اپنی دہی کو کھٹا نہیں کہنا چاہئے پہلے اپنے شاعر کو اپنے آدمی کو دیکھو، بڑا سمجھو اسے ، قدر کرو اس کی پھر اس کے بعد آگے جاؤ۔ ٹھیک ہے والیری بڑا شاعر ہے۔ ہم سے زیادہ والیری کو کون پڑھا ہوگایا عسکری سے زیادہ کس نے پڑھا ہوگا۔ عسکری صاحب تو زندگی بھر بودلیئر اور والیری کو پڑھتے ہی رہ گئے۔ پھر بھی وہ بیدلؔ کے جتنے قائلؔ تھے، جتنے میرؔ کے قائل تھے آپ کو خوب معلوم ہے۔ آپ خود ہی عسکری کے بہت اچھے اسٹوڈینٹ ہیں ، آپ جانتے ہیں۔
ندیم احمد: ہمارے زمانے کے بعض فنکاروں نے زندگی کا اظہار کرنے کے بجائے اظہار کے عمل اور اظہار کے ذرائع کو اظہار کا موضوع بنایا ہے۔ آپ کے خیال میں یہ رویہ کہاں تک درست ہے۔ کیا ادب اور آرٹ کے لیے یہ رویہ کسی صحت مند مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے؟
شمس الرحمن فاروقی: کیا مطلب ہے بھئی اس کا۔ اظہار کا عمل کون بیان کرسکتا ہے؟ اظہار کے ذرائع جوہیں، اس کے موضوع کو کون بیان کرسکتا ہے؟ اظہار کے ذرائع کیا ہیں؟ ریڈیو ہے ٹی وی ہے۔ ارے بھائی! ہر ادیب کی اپنی محدود پرواز ہے۔ جہاں تک پہنچتا ہے پہنچتا ہے۔ اچھا اب اس زمانے میں چونکہ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، تم خوب جانتے ہو، ضمیر اکثر حد تک لوگوں کا یا تو بے کار ہوگیا ہے یا مردہ ہوگیا ہے یا تھا ہی نہیں شاید۔ اب یہ ہے کہ جو چیز چل جائے تو لوگ اس کو مان لیتے ہیں، اس کو شروع کرنے لگتے ہیں، اس کو بڑھانے لگتے ہیں آگے۔ تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن ہے، یہ ہورہا ہے۔ مگرمیں ان چیزوں سے ڈرتا نہیں ہوں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جو بہت بڑی خوبی ہمارے یہاں اردو کے معاشرے میں ہے جو کہ دوسرے معاشروں میں بہت دیر سے آئی کہ جتنا یہ معاشرہ اپنی خود آگاہی رکھتا ہے ،جتنا شعور اس کو اپنے بارے میں ہے، اتنا انگریزی ونگریزی والوں کو بہت بعد میں شعور ہوا۔ یعنی بیسویں صدی کے بارے میں جو شروع میں کتاب لکھی گئی ، بہت مشہور کتاب ہوئی ایلیٹ نام ہے ان کا، تین لیکچر دئے انھوں نے ، بڑے مشہور ہوئے اس زمانے میں کہ بیسویں صدی کے ادب کی کیا خصوصیات ہیں؟ تو پہلے انھوں نے یہی بیان کیا کہ صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت خود آگاہ صدی ہے۔ اجی اگر وہ ہمارے یہاں آکر دیکھتے تو کل سے شاعری شروع ہوئی ہے اور آج جناب لوگ تذکرے لکھ رہے ہیں۔ تذکروں میں شعراء کے نام لکھ رہے ہیں۔ ان کے حالات بیان کررہے ہیں۔ تنقید ان کی کررہے ہیں، ان کا چیستاں کررہے ہیں۔ جھگڑے نمٹا رہے ہیں۔ جتنا ہم لوگ خود آگاہ تھے، اتنا بھلا وہ لوگ کیا خود آگاہ ہوںگے۔ تو اس لیے ٹھیک ہے ۔ ہورہاہے بھئی، کھوٹا سکہ چل رہا ہے، فریبی چل رہے ہیں۔ غلط سلط بھی ہورہا ہے۔ اور میں تو خود ہی کہتاہوں کہ ہورہا ہے اس سے مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ جس چیز سے مجھے خوف ہے، جس چیز کا ذکر نہیں کیا ہے آپ نے اب تک کہ ہم لوگ اپنی زبان کو بھولتے جارہے ہیں۔ ہم لوگ زبان ہندی پڑھ کر آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہندی ، اردو میں گرامر چونکہ ایک ہی ہے، تو زبان بھی ایک ہی ہوگی۔ اسی کو ہم لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہی نہیں کہ جو ہندی کا محاورہ ہے ، اردو میں نہیں ہے یا ہندی میں کسی اور معنی میں ہے، اردو میں کسی اور معنی میں ہے، تو زبان اتنی خراب ہماری ہوگئی ہے۔ جب آپ کے پاس اردو کے جو اتنے اچھے الفاظ ہیں ، جب اسی کو استعمال نہ کریں گے تو اردو میں آپ اچھا اد ب کیسے لکھئے گا؟
ندیم احمد: انسانی زندگی کے متعلق ہر نظرئے کو چند دائمی اور مستقل اقدار فرض کرنا پڑتی ہیں۔ مارکسیت کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ لیکن مارکسیوںکے یہاں مسئلہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے لیے دائمی اقدار بھی معاشی عوامل سے ہی اخذ کئے تھے۔ جدیدیت کو اگر ایک نظریہ تسلیم کریںتو آپ کے خیال میں وہ کون سے عوامل ہیں جن سے جدیدیت نے اپنی دائمی اقدار مستعار لیے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی: بھئی سب سے پہلی بات تو جدیدیت یہی کہتی رہی تھی کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کے اقدار کون سے ہیں۔ آپ کے مارکسی اقدار ہوں تو بڑی اچھی بات ہے۔ ہم نے تو یہاںتک لکھا، میں نے کہ صاحب اگر مان لیجئے کہ کوئی ایسا نظریہ ہو کسی ناول میں جو میرے اصولوں کے بالکل سراسر منافی جاتا ہو تو بھی اگر وہ ناول اچھا ہے تواچھا کہا جائے گا۔ آخر آپ کے سامنے مثال موجود ہے کہ دانتے کا جناب عالی مشہور طربیہ خدا وندیDevine Comedy ، ہم لوگوں نے بھی خوب پڑھا وڑھا اس کو، ترجمے اس کے کئے گئے ٹوٹے پھوٹے جیسے بھی ہوسکتے ہیں۔ آپ کو خوب معلوم ہے اس میں اسلام کے بارے میں اور پیغمبراسلام ؐکے بارے میں کتنی خراب خراب باتیں لکھی گئی ہیں۔ تواگر دائمی اقدار کو پوچھتے ہو توکون سی اقدار اس میںا یسی ہیں جو تمہارے لیے اچھی ہوں۔ تواقدار وقدار نہیں ہوتی اصل میں۔ اقدارتو یہ ہوتی ہیں کہ آدمی کیا کررہا ہے۔ آدمی کے پاس جو خزانہ ہے اب اس نے آپ کو معلوم ہے کہ دانتے نے حضرت شیخ اکبر ابنِ عربی سے اٹھایا توحۃ المسیحا سے کچھ چیزیں اٹھائیں، اور اس نے اس کو اٹھاکرکے اپنے اوپر اتباع کردیا۔ اور اس سے پوری کہانی تیار کرلی انھوں نے اپنی۔یعنی فیضان حاصل کیا اسلام سے اور سب سے زیادہ برا بھلا اس نے اسلام کو کہا۔ تواقدار تو دراصل فنی اقدار ہوتی ہیں نا۔ فن کی اقدار ہوتی ہیں۔
ندیم احمد:1960ء کے بعد ہمارے یہاں جدیدیت کا جو میلان سامنے آیا اس کا اردو کی اصل روایت سے کس حد تک رشتہ تھا۔ جدیدیت کے زیرِِ اثر جو لوگ اردو ادب کے منظر نامے پر ابھرے انہوں نے اردو کی اصل روایت کو اپنی تخلیق میں کس طرح محفوظ کیا ہے اور کیا ہے بھی یا نہیں؟
شمس الرحمن فاروقی: اس میں ظاہر ہے کہ سب سے پہلے یہ بحث کرنا چاہئے ہم لوگوں کوکہ اردو کی اصل اور بنیادی روایت کیا ہے۔ اگر مان لیجئے کہ اصل بنیادی روایت سے مراد لی جائے اردو غزل کی شاعری تومثنوی کہاں جائے گی، قصیدہ کہاں جائے گا، داستانیں کہاں جائیں گی؟ تواس طرح سے ہم لوگوں کے ذہن میں جو تصور ہوتا ہے عام طور پر اور اس کو ہم لوگ اصل روایت یا بنیادی روایت کہتے ہیں تودراصل ایک ذاتی سوچ اور انتخاب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ عام طورپر لوگوں سے پوچھئے تووہ بنیادی اور اصل روایت کا جب ذکر کریں گے صاحب، بہت دور چلے گئے تو نظیر اکبرؔآبادی کا نام لیں گے۔ لیکن فقیرمحمدگویاؔ کا نام نہیں لیںگے مثال کے طور پر ۔ ہجویات یوں ہی بھول جائیں گے۔ تو ادب میں جو کچھ ہوچکا ہے ان سب کو روایت میں شامل سمجھنا چاہئے۔ اور دیکھنا یہ چاہئے جو کچھ ہوا ہے اس کا ادب کے بارے میں کیا تصور اور کیا نظریہ تھا اور جدیدیت کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ اس نے ادب کے بارے میں جو تصورپہلے رائج تھا، پچھلے پچاس ساٹھ برس میں رائج ہوگیا تھا حالیؔ کے زیرِ اثر، ترقی پسندوں کے زیرِاثر، تھوڑا بہت اقبالؔ کے زیرِ اثر کہ ادب کو کسی خاص مقصد کے تحت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہونا چاہئے یا جولوگ کوشاں ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کرناچاہئے۔ یعنی ادب میں، ادبی اقدار اور فنی اقدار کو پسِ پشت ڈالا جائے یا نہ ڈالا جائے تواتنا ضرور دیکھا جائے کہ فنی اقدار اور ادبی اقدار اس وقت تک کارآمد ہیں جب تک وہ سماجی یا سیاسی تبدیلی کی راہ میں معاون ہیں یا ان لوگوں کے زیرِاثر ہیں جو کہ سماجی یا سیاسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
اس میں مشکل یہ آپڑی تھی کہ سماجی تبدیلی اور سیاسی تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی نہیںتھی جو سرسیّد نے، محمد حسین آزاد نے لی تھی وہ کچھ اور تھی اور یہ مراد سجاد ظہیر نے یا احتشام حسین صاحب نے لی وہ کچھ اور تھی تواس جھگڑے میں بہت سارا ادب ہمارا، ہمارے لیے خطرے میں پڑگیا اور کبھی کسی نے ، ادب کے کسی حصے کو غیر صحت مند روایت کہا، کسی نے کہا صاحب یہ روایت ہے ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو دوکام کئے بہر حال بڑے جدیدیت نے۔ ایک یہ کہا کہ سارا ادب روایت میں شامل ہے۔ روایت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو آپ کاٹ چھانٹ کر الگ کردیں اور کہیں صاحب یہ روایت میں ہے ہی نہیں یا یہ ہے لیکن خراب تھا، اس کو ہم کاٹے دیتے ہیں، نکالے دیتے ہیں۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ اس روایت کے پیچھے جو دراصل تصور ہے ادب کا وہ زیادہ ضروری ہے کہ اس کو ہم سمجھیں اور اپنائیں۔یہ نہیں کہ ہم ادب کے لیے باہر سے کوئی مقصد لاکے تعمیر کریںیا کہ داخل کریں۔ تواپنی اپنی حد تک سب لوگوں نے کیا اس کو۔ پرانے لوگوں کے انداز بھی اختیار کئے، پرانے انداز میں نیا رنگ بھی ڈالا۔ بعض لوگوں نے اپنے کو بالکل ہی نیا بنانے کی کوشش کی۔ لیکن پھر معلوم ہوا صاحب یہ نئی چیزیں پہلے ہو بھی چکی ہیں، کسی نہ کسی طورپر ۔ توغزل کے میدان میں خاص کر ہم دیکھتے ہیں۔ اب رہ گیا جو نئے میدان ہیں وہ افسانے کا اور نظم کا ، جو نئے میدان اس معنی میں ہیں کہ ان کے لیے کوئی بہت لمبی روایت اردو میں نہیں موجود تھی۔ تو وہاں زیادہ آزادی کی گنجائش نظر آتی ہے۔ تو اس میں یہ سوال پوچھنا مشکل ہے کہ کس روایت کو اور کہاں تک اس کو اختیار کیا گیا ۔ وہاں تو ظاہر بات ہے کہ روایت بن رہی تھی بلکہ اب بھی بن رہی ہے۔ بہت پہلے مرحوم خلیل الرحمن اعظمی نے کہا تھا کہ ابھی بڑی شاعری کے واقعی جو اظہارات ہیں ان کو پیدا ہونے میں وقت لگے گا۔
ندیم احمد: بعض لوگوں کا جن میںعسکری بھی شامل ہیں یہ خیال ہے کہ جدیدیت مذہب ہو یا اخلاقی معاشرتی زندگی ، ہرجگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو ہی سمجھتی ہے۔ یعنی جدیدیت کی اصل روح یہی انفرادیت پسندی ہے۔ عسکری صاحب نے اپنی کتاب’’جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ میں جدیدیت کو ابلیسیت بتاتے ہوئے یہاں تک کہا کہ پچھلے پانچ سو سال میں مغرب نے گمراہی کی جتنی بھی شکلیں پیدا کی ہیں۔ وہ سب اسی انفرادیت پرستی کے بیج سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ عسکری صاحب والی گفتگو (مطبوعہ’شب خون‘شمارہ؟‘) میں آپ نے اس بارے میں کچھ اشارے کیے ہیں ؟
شمس الرحمن فاروقی: تویہ عسکری صاحب سے پوچھنے کا سوال ہے۔مجھ سے آپ کیوں پوچھتے ہیں؟ میں نے تو اس بات کو بہت بارسمجھادیا ہے کہ عسکری صاحب جدیدیت سے مراد لیتے ہیںInlightmentیعنی روشن فکری کا وہ زمانہ، خاص کر جو سترہویں صدی کے آخر سے شروع ہوتا ہے اور بڑی حد تک دوسری جنگ عظیم تک آتے آتے ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن تب تک اس نے اپنی تمام تر نقصان دہ اور اچھی اور بری چیزیں سب ظاہر کردی تھیں۔ اچھا اس روشن فکری کی مخالفت کرنے والوں میں عسکری صاحب نئے نہیں ہیں۔ اس کی مخالفت کرنے والوں میں اسحاق برلن صاحب جیسے لوگ شامل ہیں، جنھوں نے کہ پوری ایک کتاب لکھی ہے۔ا س کی مخالفت کرنے والوں میں سیّد حسین نصر بھی شامل ہیں، انھوں نے بھی پوری ایک کتاب لکھی ہے۔ توعسکری صاحب کا ایک نظریہ اس معاملہ میں اکیلا نہیں تھا۔ اور جدیدیت ہے، جس کے سلسلے کو ہم مغرب سے بھی جوڑتے ہیں۔اس میں اندھی انفرادیت کا احساس نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ فرد کی ذات اپنی جگہ ایک وجود رکھتی ہے، ایک کائنات رکھتی ہے۔ اور فرد کی ذات کو اظہار کرنے کا حق حاصل ہے۔
ندیم احمد: جب بعض حلقوں کی طرف سے جدیدیت پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اس نے قاری کو پسِ پشت ڈال دیا ہے تو اس میلان کے ہمنواؤں نے جن میں آپ بھی پیش پیش تھے یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا کہ جدیدیت قاری سے اپنے ابلاغ کی سطح کو بلند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدیدیت بہت چھوٹے مکان بنانے کے بجائے ایک بڑا محل تعمیر کرنے پر ایمان رکھتی ہے۔ جدیدیت کے میرِ کارواں کی حیثیت سے ان باتوں کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
شمس الرحمن فاروقی:ظاہر بات ہے کہ یہ کہنا چاہئے تھا کہ جدیدیت قاری کو اہمیت دیتی ہے اور اس کو نظر اندازنہیں کرنا چاہتی۔ اور اس کو نگاہ ترحم اور مربیانہ انداز میں نہیں دیکھتی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اس کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ جدیدیت نے قاری کے ساتھ وہ مربیانہ رویہ نہیں رکھا جو پہلے لوگ رکھتے تھے کہ ہر بات کو تین دفعہ کھول کے جب تک نہ بیان کریں،ان کو یقین نہیں آتا کہ قاری سمجھ سکتا ہے۔ قاری کی ناک پکڑ کر جب تک اس کو چلائیںنہیں وہ چلے گا نہیں۔ جب تک قاری کی گردن میں ہاتھ ڈال کردوڑائیں گے نہیں وہ دوڑے گا نہیں۔ کیا شاعری اور کیا افسانہ دونوں میں عام طور پر یہ بات مشہور تھی کہ صاحب ہم کوہر بات کو بہت صاف صاف نتیجہ بیان کرکے کہنا ہے یعنی قاری بے چارہ ایک بچّہ ہے۔ ایک ناسمجھ ، نافہم جاہل، اگر جاہل نہیں توکم سے کم ایک گنوار قسم کا آدمی ہے، جو ادب کی باریکیوں سے واقف نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ہر بات ہم کھول کھول کے کہیں۔ تو یہ اور بات ہے کہ ہم قاری کو مربیانہ نگاہ سے دیکھیں اس کے اوپر ایک نگاہِ ترحم ڈالیں کے بھئی اچھا۔آپ تو بچے ہیں، آپ تو سمجھتے نہیں،لو یہ ہم سمجھائیں دیتے ہیں آپ کو، ہم نے کیا کہا تھا اس افسانے میں۔ اور ایک یہ ہے کہ ہم افسانہ لکھیں یا شعر کہیں اور اس میں اپنی باتوں کو پورے استدلال سے پیش کریں۔ لیکن ہر جملے اور ہر لفظ اور ہر افسانے اور ہر شعر کی کنجی نہ پیش کردیں کہ لیجئے صاحب یہ کنجی لے جائیے اس سے آپ کا معاملہ حل ہوجائے گا۔ بلکہ ہم اس سے توقع کریں کہ وہ خود اپنی تخلیقی قوت کو استعمال میں لاتے ہوئے ، اس کو پڑھے گا، فن کو پڑھے گا اور اس کے معنی تک پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ورنہ جدیدیت کے بارے میں یہ الزام یا یہ نعرہ کہ اس نے قاری کو پسِ پشت ڈال دیا ، یہ محض ایک فارمولا ہے جیسے بہت سے فارمولے لگائے گئے۔ جدیدیت سماج سے کٹی ہوئی تھی یا کٹی ہوئی ہے،‘‘ جدیدیت نے سماج کو نظر انداز کردیا۔ جدیدیت میں سماجی ذمہ داری کا لفظ گالی کی طرح استعمال ہونے لگا‘ جدیدیت کو ہر طرح کی وابستگی سے انکار ہے،اس طرح کے بہت سے فارمولے ، بہت سے نعرے دیے گئے۔ جو کہ ایک طرح سے جذباتی طور پر خوف پیدا کرنے والے تھے۔ اور اصل چیز کیا تھی وہ کسی نے بھی غور نہیں کیا۔ لہٰذا چل پڑا یہ۔ کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ صاحب جدیدیت نے قاری اور ادب کے درمیان کوئی پل نہیں چھوڑا ، ہم پل بنا رہے ہیں۔ اب ذرا ان سے کوئی جاکر پوچھے کہ جدیدیت ہی کے نام پر آخر’’شب خون ‘‘چالیس سال تک چلتا رہا۔ اور دنیا کے ہر گوشے میںجہاںاردو پڑھی جاتی ہے’شب خون ‘ پڑھا جاتا رہا۔ اور اس کے پڑھنے والے سب پڑھے لکھے اور ادب فہم لوگ ہیں۔ تو جدیدیت نے ان لوگوں کو کہاں سے پیدا کردیا۔ اگر جدیدیت نے قاری کو پسِ پشت ڈال دیا تھا تو یہ لوگ کہاں سے آگئے؟ جدیدیت کے جو بڑے نام میں ہیںپاکستان میں، ہندوستان میں ان کا کلام بار بارچھپتا ہے،ان کے افسانوں کی، ان کی نظموں کی، ان کی غزلوں کی پذیرائی ہوتی ہے۔ مطالعہ ان کا ہوتا ہے ، تو کیوں آخر ہورہا ہے یہ۔ کیا ایسے ہی ہورہا ہے کہ لوگ ان کو سمجھ نہیں رہے ہیں؟


ندیم احمد نئی نسل کے اہم ناقد اور شاعر ہیں۔ فی الحال شعبہ اردو ، کلکتہ یونیورسٹی میں استاذ ہیں۔ یہ انٹرویو انھوں نے رسالہ اردو چینل کے لیے تقریباً دس بارہ سال قبل لیا تھا جو اردو چینل کے انٹرویو نمبر میں شامل بھی ہے۔ اِس انٹرویو میں بعض ایسے مباحث بھی ہیں جو آج بھی اپنی معنویت رکھتے ہیں لہٰذا اسے اِس ویبسائٹ پر بھی اپ لوڈ کردیا گیا ہے۔