Intekhab e kalam Shahid Lateef

Articles

شاہد لطیف


انتخابِ کلام شاہد لطیف

انتخابِ کلام شاہد لطیف

غزلیں
یہ جو ربط رو بہ زوال ہے ، یہ سوال ہے
مجھے اس کا کتنا ملال ہے ؟ یہ سوال ہے
یہ جو سر پہ میرے وبال ہے ، یہ سوال ہے
یہ جو گرد و پیش کا حال ہے ، یہ سوال ہے
مجھے کیا غرض مرے دشمنوں کا ہدف ہے کیا
مرے پاس کون سی ڈھال ہے ؟ یہ سوال ہے
مرے سارے خواب ہیں معتبر ، میں ہوں در بہ در
یہ عروج ہے کہ زوال ہے ؟ یہ سوال ہے
مرے ہاتھ شل ، مرے پائوں شل ، مری عقل گم
کوئی اور اتنا نڈھال ہے ؟ یہ سوال ہے
مرا ماضی کتنا امیر تھا ، میں غریب ہوں
کوئی یہ بھی ماضی و حال ہے ؟ یہ سوال ہے
کوئی ہے جو مجھ سا عظیم ہو ، جو فہیم ہو؟
یہ سوال کوئی سوال ہے ؟ یہ سوال ہے
نئے عہد کی یہ ترقیاں ، یہ تجلیاں
کوئی اس میں میرا کمال ہے ؟ یہ سوال ہے
وہ صدا نہ تھی وہ تو جذب تھا ، وہ تو عشق تھا
مری صف میں کوئی بلالؓ ہے ؟ یہ سوال ہے
٭٭٭
سوچ اندھی ہے ابھی تک علم و فن کے باوجود
ہم برہنہ تن پھرے ہیں پیرہن کے باوجود
روز و شب کی الجھنوں میں اک خیالِ دل نشیں
تازہ دم ہے زندگی ذہنی تھکن کے باوجود
موت اک زندہ حقیقت ، طے شدہ اک حادثہ
زندگی بے دست و پا لاکھوں جتن کے باوجود
ناکشادہ ذہن و دل ، ہاتھوں کے خالی پن کے ساتھ
ہم ادھورے ہی رہے پورے بدن کے باوجود
سب سے ملنا لازمی ہے دوستی کے جرم میں
خوش کلامی شرط ہے دل کی جلن کے باجود
پھول کی سانسوں میں شاہد اپنی سانسیں جوڑ کر
تازگی محسوس کرتے ہیں گھٹن کے باوجود
٭٭٭
ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے
شام سورج کو سمندر میں چھپا دیتی ہے
ایک چہرہ مجھے روزانہ سکوں دیتا ہے
ایک تصویر مجھے روز رُلا دیتی ہے
عیب شہرت میں نہیں اس کا نشہ قاتل ہے
یہ ہوا کتنے چراغوں کو بجھا دیتی ہے
لوگ آتے ہیں ، ٹھہرتے ہیں ، گذر جاتے ہیں
یہ زمیں خود ہی گذرگاہ بنا دیتی ہے
کسی چہرے میں نظر آتا ہے کوئی چہرا
کوئی صورت کسی صورت کا پتہ دیتی ہے
نیل میں راستہ بننا تو ہے دشوار مگر
میری غیرت مرے ہاتھوں میں عصا دیتی ہے
٭٭٭
کوئی لہجہ ، کوئی جملہ ، کوئی چہرا نکل آیا
پرانے طاق کے سامان سے کیا کیا نکل آیا
بظاہر اجنبی بستی سے جب کچھ دیر باتیں کیں
یہاں کی ایک ایک شے سے مرا رشتا نکل آیا
مرے آنسو ہوئے تھے جذب جس مٹی میں ، اب اُس پر
کہیں پودا ، کہیں سبزہ ، کہیں چشما نکل آیا
خدا نے ایک ہی مٹی سے گوندھا سب کو اک جیسا
مگر ہم میں کوئی ادنیٰ ، کوئی اعلیٰ نکل آیا
سبھی سے فاصلہ رکھنے کی عادت تھی ، سو اب بھی ہے
پرایا کون تھا جو شہر میں اپنا نکل آیا
نئے ماحول نے پہچان ہی مشکوک کر ڈالی
جو بے چہرا تھا کل تک اس کے بھی چہرا نکل آیا
٭٭٭

اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی
رو کے مسکرانا بھی ، مسکرا کے رونا بھی
رونقیں تھی شہروں میں ، برکتیں محلوں میں
اب کہاں میسر ہے گھر میں گھر کا ہونا بھی
دل کے کھیل میں ہردم احتیاط لازم ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ورنہ یہ کھلونا بھی
دیدنی ہے ساحل پر یہ غروب کا منظر
بہہ رہا ہے پانی میں آسماں کا سونا بھی
رات ہی کے دامن میں چاند بھی ہیں تارے بھی
رات ہی کی قسمت ہے بے چراغ ہونا بھی
وقت آپڑا ایسا ، وقت ہی نہیں ملتا
چھٹ گیا ہے برسوں سے اپنا رونا دھونا بھی
٭٭٭
لوگ حیران ہیں ہم کیوں یہ کیا کرتے ہیں
زخم کو بھول کے مرہم کا گلا کرتے ہیں
کبھی خوشبو ، کبھی جگنو ، کبھی سبزہ ، کبھی چاند
ایک تیرے لیے کس کس کو خفا کرتے ہیں
ہم تو ڈوبے بھی ، نکل آئے بھی ، پھر ڈوبے بھی
لوگ دریا کو کنارے سے تکا کرتے ہیں
ہیں تو میرے ہی قبیلے کے یہ سب لوگ مگر
میری ہی راہ کو دُشوار کیا کرتے ہیں
ہم چراغ ایسے کہ امید ہی لَو ہے جن کی
روز بجھتے ہیں مگر روز جلا کرتے ہیں
وہ ہمارا در و دیوار سے مل کر رونا
چند ہمسائے تو اب تک بھی ہنسا کرتے ہیں
٭٭٭
کہیں پہ ٹھنڈی ہوائیں ہوں گی کہیں کوئی آبشار ہوگا
کبھی جو ہمراہ چل سکو تو سفر بہت خوشگوار ہوگا
میں شام ہوتے ہی اپنی ساری اُداسیوں کو سمیٹتا ہوں
یہ جانتا ہوں کہ کوئی لمحہ مرے لیے بے قرار ہوگا
عروج کیا ہے زوال کیا ہے ، یہ جان لوگے تو دیکھ لینا
زمانہ آئے گا جب زمانہ قدم قدم پر نثار ہوگا
محبتوں کی ہزار صبحیں ، رفاقتوں کی ہزار شامیں
تمہاری راہوں میں بجھ گئی ہیں ، تمہیں کہاں اعتبار ہوگا