Intekhab E Kalam Mohammad Alvi

Articles

محمد علوی


انتخابِ کلام محمد علوی

 

وقت یہ کیسا آن پڑا ہے
خطرے میں ایمان پڑا ہے

بھوکا ننگا مر رہنے کو
سارا ہندوستان پڑا ہے

اک کونے میں ہم رہتے ہیں
دوسرے میں مہمان پڑا ہے

کون سے ہم اللہ والے ہیں
پیچھے کیوں شیطان پڑا ہے

٭٭٭

ہر چند جاگتے ہیں پہ سوئے ہوئے سے ہیں
سب اپنے اپنے خوابوں میں کھوئے ہوئے سے ہیں

میں شام کے حصار میں جکڑا ہوا سا ہوں
منظر مرے لہو میں ڈبوئے ہوئے سے ہیں

محسوس ہو رہا ہے یہ پھولوں کو دیکھ کر
جیسے تمام رات کے روئے ہوئے سے ہیں

اک ڈور ہی ہے دن کی مہینوں کی سال کی
اس میں کہیں پہ ہم بھی پروئے ہوئے سے ہیں

علوی یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا
سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں

٭٭٭

کوئی موسم ہو بھلے لگتے تھے
دن کہاں اتنے کڑے لگتے تھے

خوش تو پہلے بھی نہیں تھے لیکن
یوں نہ اندر سے بجھے لگتے تھے

روز کے دیکھے ہوئے منظر تھے
پھر بھی ہر روز نئے لگتے تھے
ان دنوں گھر سے عجب رشتہ تھا
سارے دروازے گلے لگتے تھے

رہ سمجھتی تھیں اندھیری گلیاں
لوگ پہچانے ہوئے لگتے تھے

جھیلیں پانی سے بھری رہتی تھیں
سب کے سب پیڑ ہرے لگتے تھے

شہر تھے اونچی فصیلوں والے
ڈر زمانے کے پرے لگتے تھے

باندھ رکھا تھا زمیں نے علوی
ہم مگر پھر بھی اڑے لگتے تھے

٭٭٭

منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے
پہلے بچے بھی کتنے بوڑھے تھے

اک پرندہ سنا رہا تھا غزل
چار چھ پیڑ مل کے سنتے تھے

جن کو سوچا تھا اور دیکھا بھی
ایسے دو چار ہی تو چہرے تھے
اب تو چپ چاپ شام آتی ہے
پہلے چڑیوں کے شور ہوتے تھے

رات اترا تھا شاخ پر اک گل
چار سو خوشبوؤں کے پہرے تھے

آج کی صبح کتنی ہلکی ہے
یاد پڑتا ہے رات روئے تھے

یہ کہاں دوستوں میں آ بیٹھے
ہم تو مرنے کو گھر سے نکلے تھے

یہ بھی دن ہیں کہ آگ گرتی ہے
وہ بھی دن تھے کہ پھول برسے تھے

اب وہ لڑکی نظر نہیں آتی
ہم جسے روز دیکھ لیتے تھے

آنکھیں کھولیں تو کچھ نہ تھا علوی
بند آنکھوں میں لاکھوں جلوے تھے

٭٭٭

سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا
لیکن اسے ذلیل کیا یہ برا کیا

گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں
کرسی نے اس کو دیکھ کے آغوش وا کیا

گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا
پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا

کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اتر پڑے
بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اڑا کیا

اس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا
یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا

چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی دھرا نہیں
آؤ تمہیں بتائیں کہ علوی نے کیا کیا

٭٭٭

اور بازار سے کیا لے جاؤں
پہلی بارش کا مزا لے جاؤں

کچھ تو سوغات دوں گھر والوں کو
رات آنکھوں میں سجا لے جاؤں

گھر میں ساماں تو ہو دلچسپی کا
حادثہ کوئی اٹھا لے جاؤں

اک دیا دیر سے جلتا ہوگا
ساتھ تھوڑی سی ہوا لے جاؤں

کیوں بھٹکتا ہوں غلط راہوں میں
خواب میں اس کا پتہ لے جاؤں

روز کہتا ہے ہوا کا جھونکا
آ تجھے دور اڑا لے جاؤں

آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں

گھر سے جاتا ہوں تو کام آئیں گے
ایک دو اشک بچا لے جاؤں

جیب میں کچھ تو رہے گا علوی
لاؤ تم سب کی دعا لے جاؤں

٭٭٭

ایسا ہوا نہیں ہے پر ایسا نہ ہو کہیں
اس نے مجھے نہ دیکھ کے دیکھا نہ ہو کہیں

قدموں کی چاپ دیر سے آتی ہے کان میں
کوئی مرے خیال میں پھرتا نہ ہو کہیں

سنکی ہوئی ہواؤں میں خوشبو کی آنچ ہے
پتوں میں کوئی پھول دہکتا نہ ہو کہیں

یہ کون جھانکتا ہے کواڑوں کی اوٹ سے
بتی بجھا کے دیکھ سویرا نہ ہو کہیں

علوی خدا کے واسطے گھر میں پڑے رہو
باہر نہ جاؤ پھر کوئی جھگڑا نہ ہو کہیں

٭٭٭