Intekhab e Kalam Jaun Elia

Articles

جون ایلیا


انتخاب ِ کلام جون ایلیا

 

 

ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذابِ جاں سہا، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم آن بہ آن رم بہ رم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدم و ذاتِ کبریا کرب میں ہیں جدا جدا
کیا کہوں ان کا ماجرا جو بھی ہے امتحاں میں ہے

شاخ سے اڑ گیا پرند ہے دلِ شام درد مند
صحن میں ہے ملال سا حزن سا آسماں میں ہے

خود میں بھی بے اماں ہوں میں، تجھ میں بھی بے اماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم وہ جو مری اماں میں ہے

کیسا حساب کیا حساب حالتِ حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے زہر زماں زماں میں ہے

اس کا فراق بھی زیاں اس کا وصال بھی زیاں
ایک عجیب کشمکش حلقۂ بے دلاں میں ہے

بود و نبود کا حساب میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی نہیں میرے عدم کی ہاں میں ہے
—————-

تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا

منشیانِ شہود نے تاحال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا

نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا

دوستو ، ہم نے اپنا حال اسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا

نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا

ہم نے اس شہر دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا
——————–

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے

انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے

بزم ِ شوخی کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو
اسی دنگل میں ہمیں داؤ سکھائے بھی گئے

یادِ ایام کہ اک محفل جاں تھی کہ جہاں
ہاتھ کھینچے بھی گئے اور ملائے بھی گئے

ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشین ِ احوال
روز ہم اس شہر میں دھوم مچائے بھی گئے

یاد مت رکھیو روداد ہمار ی ہرگز
ہم تھے وہ تاج محل جون ؔجو ڈھائے بھی گئے
————-

وہ اہل ِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سر خوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصل رنگ و بو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے
———–

بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے
اک دم سے بھولنا اسے پھر ابتدا سے ہے

یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو
اک حزن دل میں نکہت موج صبا سے ہے

دست شجر کی تحفہ رسانی ہے تابہ دل
اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے

جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی
احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے

دل کی سہولتیں ہیں عجب ، مشکلیں عجب
نا آشنائی سی عجب اک آشنا سے ہے

اس میں کوئی گلہ ہی روا ہے نہ گفتگو
جو بھی یہاں کسی کا سخن ہے وہ جا سے ہے

آئے وہ کس ہنر سے لبوں پر کہ مجھ میں جونؔ
اک خامشی ہے جو مرے شور نوا سے ہے
———————-