I am Bombay by Haider Shamsi

Articles

میں شہرِممبئی ہوں ذرا دیکھ مجھے بھی!

حیدر شمسی


حیدر شمسی
میں شہرِبمبئی ہوں۔ میرا شمار دنیا کے مشہور ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ لوگ مجھے الگ الگ ناموں سے جانتے ہیں۔کوئی مجھے پیار سے بمبئی کہتا ہے تو کوئی بامبے کہہ کر پکارتا ہے۔میں سات بڑے اور چند چھوٹے چھوٹے جزائرکا مجموعہ ہوں ۔ فلمی دنیا میں میری ایک الگ شناخت ہے۔ دنیا مجھے فلم سٹی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ فلمی گیتوں میں میرا نام متعدد جگہ سننے میں آتا ہے۔ یہ ہے بمبئی یہ ہے بمبئی میری جان،ای ہے بمبئی نگریا تو دیکھ ببوا، بمبئی سے آیا میرا دوست اور بمبئی ہم کو جم گئی چند مثالیں ہیں۔1996ء تک میرا نام بامبے رہا پھر ممبا دیوی کے حوالے سے ممبئی ہوا۔ کئی دہائیوں سے میں نے اپنے قدم صحافت میں بھی جمائے ہیں۔ مجھ سے منسوب ممبئی ٹائمزاور ممبئی میرر ایسے اخبارات ہیں جو عالمی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔ میں سال کے بارہ مہینے سیاحوں کو اپنی آغوش میں لئے رہتی ہوں جس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ سمندر نے مجھے تین طرف سے گھیر رکھا ہے۔یہاں کا ساحلِ سمندر چوپارٹی مشہور تفریح گاہ ہے جہاں کی پانی پوری کو لوگ برسوں نہیں بھول پاتے۔پانی پوری کھاتے کھاتے انگلیوں کا دانتوں کے درمیان دب جانا لوگوں کو ہمیشہ پانی پوری کی یاد دلاتا رہتاہے۔
میں دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہوں ۔اسی لیے لوگ مجھے عروس البلاد کے نام سے بھی پکارتے ہیںتاہم بمبئی کے لوگوں کی تیز رفتارزندگیوں نے ان کے دلوں سے میری خوبصورتی کے نشانات مٹا دیے ہیں۔میں سیّاحوں کے لیے جنت یاخوابوں کا شہر ہوںلیکن اہل بمبئی کیلئے بس ایک مصروف ترین جگہ ۔میرے ہر ساحل پر شام الگ الگ منظر پیش کرتی ہے ۔یہ منظر لوگوںکے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑ جاتاہے ۔جس نے مجھے ایک بار قریب سے دیکھ لیاتووہ بار بارمجھ سے ملنے کا متمنی ہوتا ہے۔ میں شہر ہوں دن میں خواب دیکھنے والوں کا، فلمی ادا کاروں کا، مزدوروں کا،مچھواروں کا اور کروڑ پتی تاجروں کا۔میں سب کو اپنے دامن میں پناہ دیتی ہو ۔یہاـںکوئی بھوکا نہیں سوتا ۔ لوگوں کا سفر فٹ پاتھ سے شروع ہوتا ہے اور ترقیوں کے ثریا تک جا پہنچتا ہے۔یہاں لوگ فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر سونے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے ۔میری گود میں بسنے والوں کا سب سے بڑا سرمایہ اُن کے سر پر چھت ہے۔ کسی زمانے میں جب کوئی مجھ سے جدا ہو کر وطن کو لوٹتا تھا تو گاؤں والے اسے اس طرح گھیر لیتے تھے گویاوہ کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق ہے۔ لوگ میرے بارے میں بڑے تجسّس سے پوچھتے تھے جیسے میں دنیا کاآٹھواں عجوبہ ہوں۔
۱۵۳۴ء سے ۱۶۶۱ء تک پرتگالیوں نے مجھ پر راج کیا۔ انھوں نے مجھے بومبے کی جگہ پرتگالی میں Bombaimنام دیا۔پرتگالی بنیادی طور پر اپنے رومن کیتھولک دھرم کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے لہٰذا عیسائی راہبوں اور عیسائی تنظیموں نے کئی کیتھولک چرچ یہاں قائم کیے۔۱۵۳۴ء میں انھوں نے ماہم میںسینٹ مائیکل چرچ قائم کیا جو آج تک موجود ہے اور اسے یہاں کا سب قدیم چرچ مانا جاتا ہے۔۱۶۶۲ء میںبرگنزاکی شادیـ ـ’کنگ چارلس دوم‘سے ہوئی۔ برگنزاکے والدین نے اسے کافی جہیز دیا جس میں میں بھی شامل تھی۔چارلس دوم کو مجھ پر حکومت کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی لیکن اس زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میںکافی عروج پر تھی لہٰذا ایسٹ انڈیانے مجھے چارلس دوم سے کرایہ پر لے لیا ۔
۱۸۵۷ء میں جان ولسن نے میرے نام سے’بمبئی یونیورسٹی ‘قائم کی ۔ پھر اس کے بعد سے لوگوں نے اپنی تعلیمی لیاقت بتانے سے پہلے میرا نام لیناشروع کردیا کہ صاحب میںبمبئی یونیورسٹی سے بی۔ اے ہوں ، ایم۔ اے ہوں،پی ۔ایچ۔ڈی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ میراشمار دنیا کے چند ایسے اہم شہروں میں ہوتا ہے جہاںہمہ وقت طیاروں کی آمدورفت جاری رہتی ہے ۔یہاں۲؍ ایئر پورٹ ہیں۔ ایک نیشنل ایئر پورٹ جسے ڈومیسٹک ایئر پورٹ کہا جاتا ہے اوردوسرا انٹر نیشنل ائیر پورٹ جسے چھتر پتی شیواجی انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے نام سے جا نا جاتا ہے ۔میری بولی بھی ایک منفرد شناخت رکھتی ہے جس کا استعمال فلمی ڈائیلاگ میں بھی کیا جاتا رہا ہے۔یہ بمبیّا لینگویج (بمبییا ہندی/اردو)کے نام سے جانی جاتی ہے جس کا استعمال عام طور پر بازاروں میں ، لوکل ٹرینوںمیں، ہوٹلوں میں، بسوں میں ہوتاہے۔یہ بولی نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ اس میں الفاظ کافی کم ہیں۔ ویسے اس بولی کو مہذب نہیں سمجھا جاتالیکن چونکہ اس سے ممبئی کی شناخت ہوتی ہے اس لئے لوگ بولتے ہیں ۔چند جملے اور الفاظ بطور مثال حاضر خدمت ہیں۔
۱۔ وَٹ لے اِدھر سے ۔ یا سومڑی میں وَٹ لے ۔ (کسی سے چھٹکارا پانے کے لیے)
۲۔ دیڑھ شانے۔ (اوور اسمارٹ بولنے کے لیے بطور طنز )
۳۔ کدھر جا ریلا ہے؟ (کہاں جا رہا ہے ؟)
۴۔ بس کیا یار۔ (کیا یہی دوستی ہے!)
۵۔ لوچا ہوگیا۔ (گڑ بڑی ہوگئی)
۶۔ پتلی گلی سے نکل لے۔ (خاموشی سے چلا جا)
۷۔ چل ہوا آنے دے۔ (میرے راستے سے ہٹ جا / میرے کام میں مداخلت مت کر)
۸۔ ہول دے رہا ہے کیا؟ (ڈرا رہا ہے کیا؟)
۹۔ ہری پتّی۔ ایک بیلو۔ ( سو کی نوٹ)
۱۰۔ بول بچّن ۔ (بڑی بڑی باتیں جس میں کوئی دم نہ ہو)
۱۱۔ ٹائم کھوٹی مت کر۔ (وقت برباد مت کر)
۱۲۔ بنٹائے۔ (دوست)
میرے علاقوں کے نام بھی بڑے نرالے ہیں ۔آیئے میں آپ کو ان کی سیر کراؤں۔ بن پانی کا ’دھوبی تلائو‘ دیکھئے۔بھنڈی کا دور دور تک پتہ نہیں لیکن آپ میرا مشہور بازار’بھنڈی بازار گھومئے۔بن چونے کی بھٹّی ’چونا بھٹّی‘ دیکھئے ،دور دور تک کہیں ٹانکی کا پتہ نہیں پر’دو ٹانکی ‘ دیکھئے۔بن چرچ کا ’چرچ گیٹ ‘دیکھئے۔
میری لوکل ٹرینوں میں سفر کرنا جوئے شیٖر لانے کے مترادف ہے۔یہ لوکل ٹرینیں میرے دل کی دھڑکن ہیں۔ یہ صبح ۴؍ بجے سے رات ۲؍ بجے تک چلتی ہیں ۔مگر نہ تو یہ تھکتی ہیں اور نہ تھکان کا شکوہ کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے بمبئی کی لوکل ٹرین میں سفر نہیں کیا اس نے بمبئی دیکھی ہی نہیں۔اس میں الگ الگ ڈبے ہوتے ہیں۔فرسٹ کلاس ، سیکنڈ کلا س اور عورتوں کے لیے مخصوص کلاس ۔ کچھ ڈبوں میں معذوروں اور بزرگوں کیلئے بھی جگہ مختص ہوتی ہے۔یہ ٹرینیںصرف چند سیکنڈکے لیے ہر اسٹیشن پہ رکتی ہیں۔
۲۴؍ اپریل۱۹۷۳ء میںدادر(بمبئی ) کے نرمل نرسنگ ہوم میں ایک بچے نے جنم لیا ۔ وہ بچہ رمیش تینڈولکر (مراٹھی ناولسٹ )کا لخت جگر ہے اور میری آنکھوں کا تارا ۔ اس نے چھوٹی سی عمر میں بلّا سنبھالا ۔ نہ صرف میرا بلکہ ہندوستان کا نام روشن کر دیا ۔اسے آپ سچن تینڈولکر کے نام سے جانتے ہیں ۔ سچن نے ۱۹۸۹ء میںپہلا انٹرنیشنل میچ پاکستان کے خلاف کراچی میں کھیلا ۔ان کی عمر جب ۱۶ ؍ سال کی تھی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آئے۔ میرا سر فخر سے اونچا ہوگیا کہ میں نے ہندوستان کو ایک بہترین کرکٹر دیا۔
کئی فلمی اداکاروں کی جائے پیدائش میں ہی ہوں ۔ان میں سے ایک نام مینا کماری کا ہے جنہیں ’ملکہ جذبات ‘کہا جاتاتھا۔ مینا کماری کا اصل نام ماہ جبیں بانو تھا ۔وہ ایک بہترین ادا کارہ اور شاعرہ تھیں ۔ ان کی پیدائش ۱؍ اگست۱۹۳۳ء میںدادر (بمبئی )میں ہوئی۔ مشہور ادا کارہ مدھو بالا مینا کماری کی فین تھیں وہ کہتی تھیں کہ ’’مینا کماری کی آوازدوسری ہیروئین کی بہ نسبت کافی پُر کشش ہے ۔‘‘۳۱؍ مارچ ۱۹۷۲ء میںوہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں تا ہم اپنی با کمال ادا کاری کی بدولت وہ آج تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

حیدر شمسی،گوونڈی، ممبئی ۔موبائیل : 09773473150