Gumshuda Shai A Arbic Short Story

Articles

گمشدہ شئے از جمال بنورہ عربی سے ترجمہ شمس الرب خان

جمال بنورہ

 

یا الہی… یہ سب کیسے ہو گیا.. کیا میں ختم ہو چکا ہوں؟…کیا یہ درست ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟.. یہ ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو..میں کسی دوسرے کو مورد الزام کیوں ٹھہراؤں؟ کسی بھی چیز کو بدلنا ممکن نہیں ہے. کسی چیز کی قیمت ہی کیا ہے؟.. نہیں..میں ایسا کیسے سوچ رہا ہوں؟ میں ایسا کیسے کہہ رہا ہوں؟ مایوسی مجھ پر اس حد تک طاری نہیں ہوسکتی. میں خود کو جانتا ہوں..میں خود کو ہمیشہ سے جانتا ہوں..میں جو بھی ہوں، جیسا بھی ہوں اپنی پسند و اختیار سے ہوں..اور مجھے اس کے نتائج کو بھگتنا ہوگا.

اس نے ایک نظر اپنے ارد گرد دوڑائی، وہ اس کے بغل میں سو رہی تھی. عورت کے بغل میں تو مرد ہی سوتا ہے نا..تو میں اس کے بغل میں کیسے سو رہا ہوں؟ یہ میں اس سے کیسے کہوں؟ ہم دونوں کے لیے دو علیحدہ بیڈ ہونے ہی چاہیے..بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ میں دوسرے کمرے میں سوؤں..جب تک میں اس کے ساتھ ایک ہی بستر میں…بلکہ ایک ہی کمرہ میں رہوں گا، میری آنکھوں کو نیند نصیب نہیں ہوگی..یا اللہ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کی پوری آرزو نیند کے حصول میں سمٹ کر رہ جاۓ؟ کیا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے جو تمنا کی زیادہ حقدار ہے؟ اور کسی چیز کی تمنا کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ میری  پوری زندگی عمل پر یقین سے عبارت ہے…میری حیات آزادی کے لیے جد و جہد کرتے ہوۓ اور ظلم سے لڑتے ہوۓ گزری. کوئی چیز بغیر اس کے لیے کام کیے ہوۓ صرف آرزو کے بل پر انجام نہیں پا سکتی.. وہ بھی تو میری آرزو ہی تھی..یہ آرزو بھی آسانی کے ساتھ پوری نہیں ہوئی تھی. اس تک پہونچنے کے لیے مجھے بہت ساری رکاوٹوں کو پار کرنا پڑا تھا.. اس نے بھی نہ نہیں کہا.. لوگوں نے اس سے کہا:

اس کی نظر تمہاری تنخواہ پر ہے..خود تو کچھ کرتا دھرتا ہے نہیں..کبھی جیل جانا تو کبھی جیل سے نکلنا، بس اس کا یہی کام رہ گیا ہے..تم سے عمر میں بھی بڑا ہے..

اس نے ان سے کہا: میں بھی چھوٹی نہیں ہوں.

پھر بھی، وہ تم سے بہت بڑا ہے.

وہ تکمیل مردانگی کی عمر میں ہے.

اس کے ساتھ تمہاری زندگی اجیرن ہو جاۓ گی.. پچھتاؤگی..

میں اس کے تعلق سے مطمئن ہوں..

میں نے اس سے کہا: مطمئن ہو جانا، تبھی مجھ سے شادی کرنا. میری یہی چاہت ہے.

اس نے کہا: کچھ امور کے تعلق سے میری راۓ تم سے مختلف ہے.. لیکن یہ ہماری آپسی سمجھ داری کی راہ میں روڑا نہیں.

کچھ افکار و خیالات..

اس نے میری بات کاٹتے ہوۓ کہا: تم اپنے افکار و خیالات کے سلسلے میں آزاد ہو.

تم سمجھ پاؤگی مجھے؟

میں بھی پڑھی لکھی ہوں. تعلیم کے میدان سے جڑی ہوئی ہوں، اس سے مجھے لوگوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے.

اس نے مزید کہا: میں تمہیں سمجھنے کی کوشش کروں گی.

تمہیں معلوم ہے کہ میری زندگی آسان نہیں ہے.

میں تمہیں تمہارے یقین کے مطابق عمل کرنے سے نہیں روکوں گی..

مجھے یقین تھا کہ اس کے ساتھ میری شادی سراپا نعمت تھی پھر یہ سراپا مصیبت کیوں بن گئی..وہ بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھی، پھر بھی وہ میرے دل میں بس گئی.. آج وہ ضرورت سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہی تھی..میرے سوا کسی اور کو یہ خوبصورتی دکھائی کیسے نہیں دی؟ کیسے وہ غیر شادی شدہ رہی یہانتک کہ میں اس کی زندگی میں آیا..؟ آج اسے دیکھ کر میری شہوت میں پہلے سے زیادہ بہت زیادہ ہیجان کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ کیا اس لیے کہ مجھے اس کی عادت ہو گئی تھی اور آج اس سے محروم ہو گیا ہوں؟ کیوں وہ آج اتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہے کہ برداشت کی تاب نہیں؟ کیوں یہ احساس اس حد تک شدید ہے کہ مجھے کسی پل بھی قرار نہیں؟ میں وہ سپاہی ہوں جسے سالہا سال قید و بند کی صعوبتیں بھی توڑ نہیں پائیں. میں زندگی میں لمحہ بھر کے لیے بھی مایوس نہیں ہوا.. لیکن آج مایوسی کے بادل مجھے گھیر رہے ہیں.. میں وہ جیالا ہوں جس کے دل میں لمحہ بھر کے لیے بھی شک نے اپنا پیر نہیں پسارا.. لیکن اب میری زندگی شک اور عذاب کا جہنم بن چکی ہے…ایسا کہاں ہو رہا ہے؟ قید خانہ سے باہر..میں اتنا دل گرفتہ تو قید خانہ کے اندر بھی نہیں تھا.. کیا وہ مجھے توڑںے میں کامیاب ہو گۓ؟ ایسا نہیں ہو سکتا..کال کوٹھریوں میں بھی رہتے ہوۓ میری زندگی اتنی تاریک نہیں تھی..بلکہ مستقبل کی امیدوں سے روشن تھی.. میں ہمیشہ سے ایک پر امید شخص رہا ہوں، نا امیدی مجھے چھو کر بھی نہیں گزری..ملاقات کے ایام میری زندگی کے سب سے خوش کن ایام ہوتے تھے.. میں اسے صرف دیکھتا رہتا، مجھے دنیا کی کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی، میرا دل اطمینان کا مرقع بن جاتا.. اسے دیکھ کر ہی میرے من میں امید و استقامت کا سمندر ہلوریں مارنے لگتا..بغیر کوئی بات چیت کیے بھی.. اس کا چہرہ سب کچھ بول دیتا..جو کچھ بھی میں سننا چاہتا تھا..خلوص، محبت، اعتماد، امید سب کچھ.. اب وہ احساس مجھ سے روٹھ سا گیا ہے..مجھے کچھ کھویا کھویا سا لگ رہا ہے.. اس کے چہرے کے نقوش میں..اس کے ساتھ میرے رشتے میں.. پتہ نہیں کیوں..درحقیقت مجھے کسی چیز کا علم نہیں رہا..قید خانہ میں، کوئی چیز بھی میرے عزم و استحکام کو متزلزل نہ کر سکی.. ٹارچر روم سے نکلنے کے بعد، ہما یاران زنداں پوچھتے:

کیسا رہا؟

مجھے اپنا تکلیف ظاہر کرنے سے شرم آتی

یہ تو کچھ بھی نہیں تھا..

میں جانتا ہوں کہ یہاں بہت سے لوگ ہیں جو مجھ سے کہیں زیادہ عذاب اور سختیاں جھیل رہے ہیں.. ہر انسان اپنے اپنے عذاب میں مبتلا ہے، ہمیں یہ حق نہیں بنتا کہ ہم اپنے عذاب پر فخر کریں..کیا ہم نے خود ہی اس راہ کو نہیں چنا ہے؟ عذاب کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے برداشت نہ کیا جا سکے.. کچھ لوگ یقین نہیں کریں گے.. لیکن ایسا ممکن ہے اگر انسان ٹھان لے.

اب میرے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے..کیا کسی مرد مجاہد کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ سوال کرے؟ میں خود کو بھی نہیں پہچانتا. میں نہیں جانتا کہ میں ان سب چیزوں پر نادم تھا یا نہیں. اگر میں نادم تھا، تو میری قربانی رائیگاں گئی. میرا پایا جانا ضروری نہیں تھا. نہیں، یہ درست نہیں ہے. میں نادم نہیں ہو سکتا.. مجھے حق ہی نہیں بنتا..میں نے ہر چیز پر غور و فکر کر لیا.. یہ موت سے بدتر نہیں ہے، اگرچہ میں اسے موت جیسا سمجھتا تھا.. میں حق زوجگی ادا کرنے کے  قابل نہ رہا.. لیکن میں اب بھی سرگرم عمل ہوں.. مصروف جد و جہد ہوں..میں مرا تو نہیں..اگرچہ انہوں نے میرے جسم کے ایک عضو کو ناکارہ بنا دیا ہے..میرے جسم کے باقی اجزاء تو کام کر رہے ہیں نا، ابھی بھی میں بہت کچھ کر سکتا ہوں..بہت سے لوگ ہیں جنہیں میری ضرورت ہے..

مجھے سوچ و فکر کے اس سلسلے کو منقطع کرنا پڑے گا..اس طرح تو نیند آنے سے رہی.. وہ اس کی جانب پھر مڑتا ہے..اس کے چہرے پر خود سپردگی سموۓ ہوۓ رنجیدگی کے دھاگے  لہرا رہے تھے، جس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گۓ تھے..

حسرت اس کے دل کو بھنبھوڑ رہی ہے.. یہ حسن و جمال اس کی پہونچ میں ہو کر بھی اس کی گرفت سے باہر ہے. جب سے اس کی قوت نے اس کا ساتھ چھوڑا تھا، اس کے اندر اس جسم کو پانے، اسے خود میں سمو لینے کی خواہش مزید بڑھ گئی تھی. لحاف کے اوپر لپٹی ہوئی اس کی برہنہ ٹانگ دیکھ دیکھ کر اس کا دل کرب کی چکی میں پس رہا تھا.. اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ وہ اب اس کی نہیں رہی، کسی اور کی ہو گئی.. نہیں.. یہ ممکن نہیں.. اسے لگا کہ اس کا سر پھٹ جاۓ گا..یہ خیالات اسے پاگل کر دیں گے.. اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا سر یوں تھام لیا گویا کہ اسے پھٹنے سے روکنا چاہتا ہو.

میں ان خیالات سے کب چھٹکارا پاؤں گا؟ ایک دن مجھے پتہ چلے گا کہ میں غلطی پر تھا. میں ہمیشہ معاملات کے تعلق سے درست اندازہ لگایا کرتا تھا.. پھر مجھے کیا ہو گیا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مرد مجاہد غلطی نہیں کرتا.. ہم سب غلطی کرتے ہیں.. ایک دن مجھے پتہ چلے گا کہ میرے شکوک و شبہات بے محل تھے.. وہ میرے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتی..نہیں، بالکل نہیں..یہ سمجھ سے پرے ہے..میں نے اس کو پیشکش کی تھی کہ میں اس کے راستے سے ہٹ جاتا ہوں.. اس نے مضبوطی کے ساتھ کہا:

میرے لیے کوئی بھی چیز تمہارا بدل نہیں ہے.. مجھے تمہارے سوا کچھ نہیں چاہیے.

کیا وہ سچ کہہ رہی تھی؟

کبھی کبھی وہ اس کے سامنے اپنی ٹانگیں کھول کر بیٹھ جاتی، اس پر وہ اسے ڈانٹتا..

اس طرح مت بیٹھو.

تم میرے شوہر ہو.

خود فراموشی کے عالم میں لوگوں کے سامنے بھی ایسا کر سکتی ہو.

مجھ پر خود فراموشی صرف تمہارے ساتھ ہی طاری ہوتی ہے.

وہ اس سے قریب ہو جاتی ہے، اس کا کپڑا اس کے جسم سے مزید سرک جاتا ہے، وہ پرواہ نہیں کرتی ہے. وہ اپنا چہرہ پھیر لیتا ہے.

خفا ہو گۓ، مورے راجہ!

وہ اسے منانے کی کوشش کرتی ہے..اس کے گال پر چکوٹی کاٹتی ہے..وہ غصہ سے مغلوب ہو کر اس کو تھپڑ رسید کر دیتا ہے، گویا کہ اپنی قوت و طاقت کا اظہار کر کے اپنی بے بسی کا مداوا کرنا چاہتا تھا.. اسے اس کی شدید خواہش ہو رہی تھی..لیکن اسے خدشہ تھا کہ اسے اس کی بے بسی کا احساس ہو جاۓ گا.. وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سانحہ سے جتنا زیادہ ممکن ہو بعد میں واقف ہو..اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ اس کے بعد کیا کرے گی.. کیا اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہو جاۓ گی؟ کیا وہ برداشت کر پاۓ گی؟ اسے یوں محسوس ہوا کہ اپنی بے بسی پر اسے سزا دے گر گویا وہ خود کو سزا دے رہا ہے..اسے خود سے کوفت ہو رہی تھی، لیکن اس کا غصہ وہ اس پر اتار رہا تھا جیسے کہ وہی اس کی وجہ ہو.. اسے یہ کر کے راحت نہیں ملی.. لیکن ذلت اور مردانگی کھونے کے احساس سے اس نے خود کو بچا لیا.

لیکن یہ زیادہ دنوں تک نہیں چلے گا. اس نے رنجیدگی اور وحشت کے عالم میں پوچھا:

تم نے ایسا کیوں کیا؟

میں پریشان ہوں..غمزدہ ہوں.

اس نے اپنے رخسار پر بہہ رہے آنسوؤں کو پونچھ کر کہا:

مجھے لگا ایسا.. تو چاہا کہ تمہارا غم غلط کروں.

مجھ سے دور ہو کر ایسا کر سکتی ہو.

اس سے دور جاتے ہوۓ وہ خاموشی کے ساتھ رو رہی تھی..

اگلے دن، وہ صلح سپاٹا کرنے کی غرض سے آئی.. اس نے اپنا چہرہ پھیر لیا:

کیا تم مجھ سے متنفر ہو گۓ ہو؟

نہیں..

تو آؤ، مان منول کر لیتے ہیں.

اس نے اسے اپنی بانہوں میں لیتے ہوۓ اور اپنے سینہ سے اس کا جسم دباتے ہوۓ کہا.

وہ اکتاہٹ بھرے لہجے میں چیخ پڑا:

کیا میں تمہارے لیے کافی نہ رہا؟

وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی، اس کی نگاہوں میں حیرت و استعجاب کا سمندر تھا.

میں نے ایسا نہیں سوچا.

پھر سوچ کیا رہی ہو تم؟

میں سوچ رہی ہوں کہ تمہیں کیسے خوش کروں..

خوشی مجھ سے کوسوں دور جا چکی ہے..

*****

جب تفتیش کار نے کہا کہ ” میں تمہیں عورتوں کے ساتھ سونے کے لائق ہی نہیں چھوڑوں گا”، تو میں سمجھا مذاق کر رہا ہے، بالکل نا معقول بات ہے.. لیکن اس کے بعد مجھ پر جو گزری..اسے دیکھتے ہوۓ یقین سا ہونے لگا.. قید خانہ میں تھا، تبھی شک ہونے لگا. مجھے لگا کہ میرے ساتھ کوئی غیر طبعی سی چیز ہو رہی ہے. میں نے اپنے جی میں سوچا ہو سکتا ہے کہ عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے ہو رہا ہو..اپنی بیوی سے دور ہوں، یہی وجہ ہو سکتی ہے.. پھر بھی میرا شک روز بروز بڑھتا جا رہا تھا..لیکن میں ماننے کو تیار نہیں تھا..بہت کوشش کی، نہیں ہو پایا، وہ اس کی چھیڑ خانیوں کا جواب دینا بند کر کے بولی:

تھک گۓ ہو.. رہنے دو، کسی دوسری رات کر لیں گے.

اپنی پوری زندگی میں اسے کبھی بھی اتنی ذلت کا احساس نہیں ہوا تھا جتنا اب اس کے سامنے ہو رہا تھا.

وہ اس کی معذوری محسوس کر رہی تھی، لیکن ظاہر کر رہی تھی کہ کچھ نہیں جانتی.. وہ اسے مزید تکلف نہیں دینا چاہتی تھی..وہ اپنا ہاتھ اس کے جسم پر شہوت کے انگارے لیے ہوۓ پھیر رہا تھا..اس کے اندر خواہشات کا آتش  فشاں دہک رہا تھا.. لیکن اس کا احساس جیسے مر چکا تھا..

اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے.. ہم ساتھ رہ سکتے ہیں.. اس کے بغیر بھی..

ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟

وہ چپ رہتی.. وہ جان جاتا.. وہ بھی سمجھ جاتی.. اس پر مایوسی طاری ہو چکی تھی.

وہ شکست خوردہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتا.. اس کا دل اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ معذور ہو چکا ہے.. اس کا خیال تھا کہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے، سب ٹھیک ہو جاۓ گا.

ایک مرتبہ اس نے اس سے کہا:

آج ڈاکٹر کے پاس گئی تھی.

اس کے کان کھڑے ہوگۓ. اس نے پوچھا:

کیوں؟

اس نے شرما کر کہا:

اس بار ماہواری وقت پر نہیں آئی، میں نے سوچا پیٹ سے ہوں.

اس کے اندر کچھ ابلنے لگا، اس نے کہا:

لیکن ہمیں ملے تو ایک لمبا عرصہ ہو گیا.

دو مہینہ پہلے ایک مرتبہ ملے تھے.

مجھے بتاۓ بغیر کیوں گئی؟

وہ غیظ و غضب کے مارے پھٹ رہا تھا.

میں نے سوچا تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا.

اس کا غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا. اس نے کہا:

مجھے یہ برداشت نہیں ہے کہ کوئی اپنا ہاتھ تمھارے جسم پر رکھے..

اس نے چیلنج بھرے لہجے میں کہا:

دعوی تو کرتے ہو ترقی پسند ہونے کا اور ان معاملات میں رجعت پسندانہ رویہ اپناتے ہو، یہ نہیں چلے گا، میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی، کسی عاشق کے پاس نہیں.

اس نے سخت سرد مہری سے کہا:

وہ جب تمہارے جسم کو چھوتا ہوگا، تو تمہیں لذت محسوس ہوتی ہوگی نا. شاید اسی لیے گئی تھی اس کے پاس، خاص طور پر جب کہ ہمارے درمیان اب کچھ ہوتا بھی نہیں ہے..

وہ غصہ سے بھڑک اٹھی:

تم پاگل ہو گۓ ہو.. میرے بارے میں تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟

میں خود کو اسے پھر مارنے سے روک نہیں پایا.. مجھے لگتا تھا کہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہے..

وہ مجھ پر پھٹ پڑی:

کیا تمہیں مجھے مارنے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے تاکہ تم اپنی مردانگی ثابت کر سکو؟

میں نے شرمندگی سے کہا:

تم ٹھیک کہہ رہی ہو.. پتہ نہیں کیوں مجھ سے ایسا ہو گیا..

میں بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میرا بستر کانٹوں سے بھر گیا ہو اور میرا جسم چھلنی ہو رہا ہو..

میں نسوانیت سے لبریز اس کے جسم کو تاکتا، وہ سونے کا دکھاوا کرتی.. کیا یہ دہکتا جسم صبر کر سکتا ہے..؟ کیا اس جسم کی پیاس بجھانے کے لیے کسی دوسرے ہاتھ نے اسے نہیں چھوا ہوگا..؟ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑ جاۓ.. یہ خزانہ جس کا میں مالک تھا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں دوسروں کے ہاتھ اس تک نہ پہونچ جائیں..

اس نے بلند آواز میں پوچھا:

اب تک نہیں سوۓ؟

نہیں.. اور تم؟

میں نہیں سو سکتی.

اسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہو.

کیوں؟

پتہ نہیں کیوں.. شاید تمہاری وجہ سے.

میری وجہ سے.. کیوں؟

میں دیکھ رہی ہوں کہ تم حد درجہ اذیت میں مبتلا ہو..میرا دل پریشان ہے.

اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:

اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں.. میں مرد نہیں رہ گیا..

*****

اس نے سختی کے ساتھ نفی کی:

تم اس شئ کے بغیر بھی مرد ہو.. تمہارے سوا میرا کوئی نہیں ہے.. پھر بھی تم مایوس مت ہو..

اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا.. ہم نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا. حالت ایسی نہیں ہے کہ مکمل طور پر مایوس ہوا جاۓ.. یہ عارضی حالت ہو سکتی ہے.. ڈاکٹروں کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی..

جب وہ لوگ اسے دھمکیاں دے رہے تھے، تو اس نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا:

تم قید خانہ میں اس وقت تک رہو گے جب تک کہ سڑ گل نہ جاؤ..

کیا اب میں اس کے بغیر جی پاؤں گا؟

وہ میرے لیے بہت اہم چیز نہیں تھی.. قید خانہ میں رہتے ہوۓ میں اس کے بغیر سالوں تک رہا. بھلے ہی یہ مجبوری میں تھا، میں برداشت کر سکتا تھا.. اس بارے میں اپنی سوچ پر بھی قابو کر سکتا تھا. بلکہ ایسا میں آخر عمر تک کر سکتا تھا.. اگر میری شادی نہ ہوئی ہوتی.. میری زندگی میں انتہائی اہم کام ہیں.. جن کے لیے میں نے خود کو وقف کر دیا ہے.. اصول کپڑے نہیں ہیں جنہیں جب چاہیں پہن لیں اور جب چاہیں اتار کر رکھ دیں..اصول ہمارے اندر گیرائیوں میں رہتے بستے ہیں..ہمارے ریشہ ریشہ کی گہرائیوں میں پیوست ہوتے ہیں.. جڑ پکڑ چکی ان گہرائیوں سے انہیں اکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہوتا.. اب راہیں تبدیل کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے..جو فیصلہ ہونا تھا، ہو چکا.. واپس لوٹنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا.. اس کے باوجود کچھ لوگ واپسی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں.. جب حد ہو جاتی ہے..رہی بات میری، تو میں کسی حد میں یقین ہی نہیں کرتا.. یہ سب پر لاگو نہیں ہوتا.. لیکن، میرے لیے، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں.. وگرنہ جو ہوا، وہ نہیں ہوتا.. جب میں قید خانہ میں داخل ہوا، میں نے ایک کم عمر لڑکی سے شادی کی تھی.. اب میرے ایک سے زیادہ بیٹے تھے.. میری ہمیشہ سے یہی خواہش تھی.

اس نے کہا: ایک بیٹا کافی ہے.

میں نے کہا: لڑکی بھی ہو، چلے گا…لیکن اکلوتی نہیں ہونی چاہیے..

اس نے کہا: میں چاہتی ہوں بیٹا ہو..تمہاری خاطر..

خواہش اسی کی پوری ہوئی.. اب اس کی عمر پانچ سال ہے.

اب..مزید بیٹے طلب نہیں کر سکتا.. ممکن نہیں رہا.

وہ کہتی ہے:

سب لوگ ہمارے بھائی ہیں.. سبھی بچے ہمارے اپنے بچے ہیں.. میرے نزدیک کوئی فرق نہیں..

اور میں.. میری مردانگی جا چکی ہے..اس کی تلافی کیسے ہو پاۓ گی؟

تم میں سرے سے کوئی کمی ہی واقع نہیں ہوئی ہے.. تم میری نظروں میں ہمیشہ وہی مرد رہو گے جس سے مجھے محبت ہوئی تھی.. میرے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی میں نے تمنا کی تھی.. میری زندگی میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے..

یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں مرد ہی نہیں رہا؟!

میری سماعتوں میں تفتیش کار کی آواز گونجی:

ہم تمہیں بچے پیدا کرنے کے لائق ہی نہیں چھوڑیں گے تاکہ تخریب کار پیدا ہی نہ ہوں..

لیکن ان کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی..

میری بیوی کہتی..

اپنے اردگرد دیکھ لو.. ہماری قوم تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، یہ لوگ چاہے جتنا چیخ چلا لیں. یہ ہماری اپنی اولاد نہیں ہیں تو کیا ہوا..ہماری قوم کے افراد تو ہیں..اس طرح یہ ہمارے اپنے بیٹے بیٹیاں ہیں..

یہ لوگ ہمارے عضو تناسل کو نشانہ بناتے ہیں.. انہیں ہماری قوم کو پھلتا پھولتا دیکھ کر غصہ آتا ہے.. سب سے زیادہ انہیں ہمارا عضو تناسل پریشان کرتا ہے.. وہ اسے نشانہ بنا کر ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم بچے پیدا نہ کر سکیں.. ابھی بھی عزت و مردانگی کے بارے میں ہمارا تصور دونوں رانوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے.. کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی عورت کے لائق نہ رہتے ہوۓ بھی خود کو مرد سمجھے؟

میں تیرا خصیہ نکال کر تیرے ہاتھ میں دے دوں گا، حرامی کی اولاد.

مجھے یقین نہیں ہوا. یہ ایسا نہیں کر سکتا.

اس کے ہاتھ میں نیلے سیال مادہ سے بھری ہوئی ایک سرنج تھی. اس نے سوئی ایک خصیہ میں چبھوئی. مجھے نہیں معلوم اس میں کیا تھا. میرا پورا جسم جیسے کسی آتش زدہ مادہ کے زیر اثر آکر درد سے دہک اٹھا، ایسا لگا جیسے میرے جسم سے کرنٹ کا ننگا تار چھو گیا  ہو.

اس نے پھر کہا: اسی پر بس نہیں ہے..

اس نے ایک لمبے ڈنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا: یہ میں تیرے پچھواڑے میں گھسیڑوں گا..

اس نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیا..میں بیہوش ہو گیا..اس کے بعد کیا ہوا، یہ میں نہیں جانتا..

تفتیش کی دوسری نشست میں اس نے سوال کیا:

شادی شدہ ہے؟

ہاں..

اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے؟

میں نے سوچا یہ کیوں پوچھ رہا ہے.. میں نے جواب کی تلاش میں خود کو نہیں تھکایا.

اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کہا:

عورتوں کے ساتھ سونا پسند ہے؟

میں نے بے پروائی سے کہا:

کون ہوگا جسے پسند نہیں؟

میں تجھے عورتوں کے ساتھ سونے کے لائق ہی نہیں چھوڑوں گا، اگر تم اپنی سرکشی پر یونہی برقرار رہے.

میں سخت اذیت کے باوجود ہنس پڑا.. میں نے اس کو تمسخرانہ اور اہانت آمیز نگاہوں سے دیکھا.

ہنس کیوں رہا ہے؟ سوچ رہا ہے مذاق کر رہا ہوں؟

میں نے چیلنج بھری آواز میں کہا:

تو ایسا نہیں کر سکتا.

ایسا ہی کروں گا.. تو بس دیکھ. یا اعتراف کر لے، اسی میں تیری بھلائی ہے.

تم لوگوں سے کوئی بھی چیز بعید نہیں ہے.

تمہیں سوچنے کی مہلت دیتا ہوں..

بیکار میں خود کو ہلکان مت کر.. جو کرنا ہے، ابھی کر..

اس نے سخت غصہ سے مجھے خوفناک نظروں سے جنونی انداز میں گھورا.

اس کے بعد، ہم تیری بیوی کو اٹھا کر یہاں لائیں گے.. اور اس کے ساتھ تیرے سامنے بدفعلی کریں گے.

میں نے اس کی جانب تمسخر آمیز نگاہوں سے دیکھا.. دل میں اٹھ رہے خدشات کو تھپکی دی..

سوچ کیا ہوگا..

اس نے مجھ سے کہا..

میرے ذہن میں سوچوں کا قافلہ تیزی کے ساتھ دوڑنے لگا..یہ لوگ ضرور مذاق کر رہے ہیں. میں نےسوچا..پھر اپنے سر کو حرکت دی.. اور اپنے دماغ سے خیال کو جھٹک دیا.. کچھ بھی ہو جاۓ.. یہ لوگ چاہے جو کرلیں، میرا موقف نہیں بدلنے والا..مجھے ہر چیز کے لیے تیار رہنا ہوگا..

تجھے کیسا لگے گا جب تو اسے اس حالت میں دیکھے گا..؟

میں نے مضبوطی کے ساتھ کہا:

اس کے لیے میری محبت میں اضافہ ہو جاۓ گا..

سمجھ داری سے کام لے.. کیا سہی میں تو یہ برداشت کر لے گا کہ ہم تیرے سامنے تیری بیوی کے ساتھ بدفعلی کریں؟ تو بھڑوا ہے، تجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا… کم از کم اپنی بیوی کا تو خیال کر.

میں نہ چاہتے ہوۓ بھی ہنس پڑا.. یہ تفتیش کار اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود نکتہ بیں ہے!! انسانی نفسیات کی پرکھ ہے اسے. اپنی خباثتوں کا ٹھیکرا مجھ پر پھوڑنا چاہتا ہے.. ایسا ہونا بعید نہیں تھا..کوئی کام ایسا نہیں ہے جسے یہ نہیں کر سکتے.. لیکن یہ لوگ میری سوچ سے زیادہ ‘انسانیت پرست’ نکلے.. انہوں نے میری بیوی کو بخش دیا..میرے ساتھ جو کیا تھا اسی پر اکتفا کیا..!!

اس نے دوبارہ اپنی بیوی پر نظر ڈالی جو سکون کے ساتھ سو رہی تھی..اس کی ننگی ٹانگ ابھی بھی لحاف کے اوپر  یوں دراز تھی، گویا اس کی بے بسی کا منہ چڑھا رہی تھی.. اس کا فرض  یاد دلا رہی تھی.. اس نے اپنا چہرہ پھیرنا چاہا، لیکن نہیں پھیر پایا.. اس نے تھوڑی دیر کے لیے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں موند لیں..پھر ہاتھ ہٹا کر اسے یک ٹک دیر تک تاکتا رہا..اس کے اندر محبت کی سرکش موجیں تھپیڑیں مارنے لگیں.. اس طرح نہیں چل پاۓ گا.. اس نے اپنے لرزتے ہاتھ کو اس کی جانب بڑھایا.. اس کی ران کو چھوۓ بغیر اس کے نیچے دبے لحاف کو کھینچا..ابھی اس کی ننگی ٹانگ کو ڈھانپ ہی رہا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی..اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں گویا خود کو نیند کے جبڑے سے کھینچ کر نکال رہی ہو..اور خمار آلود آواز میں بولی:

کیا ہوگیا ہے تمہیں؟

خاموش رنجیدگی میں لپٹی ہوئی آواز آئی:

مجھے نیند نہیں آ رہی ہے.

اس نے اپنا ہاتھ بڑھاکر اسے پکڑنے کی کوشش کی:

پاس آؤ نا.

میں نے بھنچی بھنچی سی آواز میں کہا:

مجھے مت چھوؤ.. میں کچھ بھی نہیں رہا.. میرے وجود کا کوئی فائدہ نہ رہا.

وہ جھٹکے سے بستر سے اٹھی اور اس نے کہا:

تم غلط کہہ رہے ہو.

وہ اٹھ کھڑا ہوا، وہ بھی اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی.

غصہ مت ہو..بیٹھو..بات کرتے ہیں..

ہمارے درمیان بات جیسی کسی چیز کی گنجائش بچی ہی نہیں.. ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہم علیحدگی اختیار کر لیں.

اس نے نرمی کے ساتھ اس کا ہاتھ دباتے ہوۓ اسے بستر پر بٹھایا.

اور اگر میں نہ چاہوں، تو؟

میں تمہارے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہتا.

میں تمہارے ساتھ خوش ہوں..

وہ قریب قریب رو پڑا اور اسے سمجھاتے ہوۓ بولا:

میں مرد نہیں بن سکتا..

اس نے غیظ و غضب سے کہا:

مرد صرف بستر پر مرد نہیں ہوتا.

تمہیں میرے ساتھ زندگی بتا کر کیا ملےگا؟

میں نے تمہارے ساتھ شادی صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں کی ہے.. شادی شدہ زندگی اس سے بڑھ کر ہوتی ہے.. میری زندگی کا مقصد اس سے بڑا ہے..ہم دونوں کا ایک مشترک خواب ہے نا کہ ہم دونوں مل کر اس دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنائیں.. یہی ہماری زندگی کا محرک ہے نہ کہ ہمارے درمیان قائم ہونے والے دو پل کے جسمانی تعلقات

لیکن ہمارے درمیان کسی چیز کی کمی بنی رہے گی..

اس نے سرزنش کرتے ہوۓ کہا:

تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟ کیا تم ہر اس چیز کو فراموش کر چکے ہو جو ہمارے درمیان تھی؟ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تاکہ میری زندگی تمہارے ساتھ کٹے..یہ زندگی مجھے مل گئی.. میرے پاس ایک گھر ہے، ایک بیٹا ہے، ایک شوہر ہے جسے میں ٹوٹ کر چاہتی ہوں.. میری زندگی تم سے اور ہمارے بیٹے سے ہوکر گزرتی ہے.. میرا خود کا کام بھی ہے..میرے پاس سب کچھ ہے.. ہر وہ چیز ہے جو ایک عورت چاہتی ہے.. کیا تمہیں یاد ہے وہ پل جب تم نے شادی سے پہلے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تم مطمئن ہو. پھر اب تمہیں ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ خوش نہیں ہوں؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ کوئی چیز تمہارے تعلق سے میرا رویہ تبدیل کردے گی؟

تم مجھے دلاسہ دے رہی ہو..

نہیں.. میں تمہیں دلاسہ نہیں دے رہی ہوں.. تم میرے مرد ہو.. تم جیسے تھے ویسے ہمیشہ رہو گے..تمہاری جگہ کوئی دوسرا مرد ہرگز نہیں لے سکتا..

میری ایک گزارش ہے..ہم علیحدہ کمروں میں سوئیں گے..

نہیں.. میں ہرگز اجازت نہیں دوں گی.. تمہاری جگہ یہاں ہے، میرے بغل میں.. تم میرے شوہر ہو.. اور ہمیشہ رہوگے.. میں تم سے دوری برداشت نہیں کرسکتی..

اس کی کوئی ضرورت نہیں.. مجھے اور عذاب نہ دو.

نا امید مت ہو… ہر چیز کا علاج ہے.

میں تمہیں دیکھ نہیں سکتا، تمہارے سامنے میں اپنی معذوری محسوس کرتا ہوں..

وقت کے ساتھ یہ احساس جاتا رہے گا.

کیا تمہیں ایسا لگتا ہے؟

اس کے بغیر بھی.. تمہاری قربت مجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے. میں کسی بیوہ کے بالمقابل زیادہ خوش نصیب ہوں.

بیوہ ہوتی تو… میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے.

کیا تم نے ان بیوہ عورتوں کے بارے میں نہیں سنا جنہوں نے دوبارہ شادی کرنے سے انکار کر دیا.

اس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا:

خوش قسمت ہے وہ شخص جس کی بیوی تم جیسی ہو.

میں تنہا ایسی نہیں ہوں.. تم لوگ عورتوں کو اچھے سے جانتے نہیں ہو.

میں بھی انہیں خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں.

تم لوگ دوسری چیزوں کو اہمیت دیتے ہو.. تم لوگوں کے لیے عورت ایک کم اہم شئ ہے. تم لوگ اس کے بارے میں اتنا ہی سوچتے ہو جتنا وہ تمہیں تفریح فراہم کرتی ہے.. اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.

لیکن مجھے تمہارے افکار و احساسات کا خیال ہے.. اسی لیے میں اذیت میں مبتلا ہوں..

لیکن تم مجھے نہیں سمجھتے.. تمہاری اذیت کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے..

اس نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا:

کیا تمہیں معلوم ہے.. کہ میرے ذہن و دماغ میں شک کے سائے لہرانے لگے ہیں..؟

کیسا شک؟

میں تم سے سچ کہوں گا.. مجھے خود پر شرمندگی ہورہی ہے.

اس نے دہشت زدہ ہوکر کہا:

مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ تم مجھ پر شک کر رہے ہو، مجھ پر.. تمہاری عقل ٹھکانے تو ہے؟

اس نے کچھ دیر بعد کہا:

جب ہم چہل قدمی کے لیے نکلتے ہیں.. یا جب میں تمہیں صبح کے وقت آراستہ پیراستہ ہوتے اور زیب و زینت اختیار کرتے ہوۓ دیکھتا ہوں.. تو اپنے جی میں سوچتا ہوں.. کہ یہ سب کس کے لیے ہے؟

کیا مجھے اچھا نہیں دکھنا چاہیے؟

ہاں، بالکل، کیوں نہیں! لیکن میرے جی میں آتا ہے کہ ضرور کوئی ہوگا جو تمہیں دیکھتا ہوگا.. تمہاری خواہش رکھتا ہوگا.. کبھی تم پر بھی شہوت کا غلبہ ہوتا ہوگا..

اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اپنے دونوں رخسار کو تھام کر، وہ اس کی آنکھوں میں بغور جھانکنے لگی:

جب تم نہیں رہتے ہو… تو کوئی شہوت بھی نہیں رہتی.. مجھے کسی دوسرے مرد میں رغبت پیدا ہی نہیں ہوسکتی.

اس نے متردد ہوکر کہا.. اس کے لہجے میں بے بسی تھی..

میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں کیا کروں؟

تم وہی کروگے جو ہمیشہ سے کرتے آۓ ہو.. اپنے کام، اپنی جد و جہد میں لگ جاؤ.. کبھی بھی مایوسی کے سامنے ہتھیار مت ڈالنا.. بہت سے لوگ ہیں جنہیں تمہاری ضرورت ہے.. اب تم رک نہیں سکتے.. تم کو حق نہیں بنتا کہ تم اپنے اس طریقہ زندگی پر شرمندہ ہو جسے تم نے خود اپنے لیے منتخب کیا ہے.

نہیں.. میں ہرگز شرمندہ نہیں ہوں گا.. چاہے جو جاۓ.. جب تک تم میرے ساتھ کھڑی ہو.. تم مجھے اعتماد اور امید بخشتی رہوگی.. تمہارے بغیر میں اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا..

میرے بغیر بھی تمہیں اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا.. اپنی خود اعتمادی ہمیشہ برقرار رکھنی ہوگی

اس نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوۓ کہا:

کیا اب نیند آرہی ہے؟ اگر بے چینی اب بھی برقرار ہو، تو میں تمہارے ساتھ صبح تک بیدار رہوں گی.

اس نے نرمی کے ساتھ اس کے ہونٹوں کو چھوتے ہوۓ کہا:

میں کوشش کروں گا.

اس نے اسے ایک بچے کی مانند خود سے چمٹا لیا.. اور خود جاگتے ہوۓ اس کے وجود کو سنبھالے رہی یہاں تک کہ وہ اس کے سینے پر ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا..

**********************

مترجم شمس الرب خان شعبہ عربی ، مہاراشٹر کالج، ممبئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے یہ کہانی عربی زبان سے ترجمہ کی ہے۔