منھ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تھے برے مغبچوں کے تیور لیک
شیخ میخانے سے بھلا کھسکا
داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا
بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا
فیض اے ابر چشم تر سے اٹھا
آج دامن وسیع ہے اس کا
تاب کس کو جو حال میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا
————-
جنوں نے تماشا بنایا ہمیں
رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں
سدا ہم تو کھوئے گئے سے رہے
کبھو آپ میں تم نے پایا ہمیں
یہی تا دم مرگ بیتاب تھے
نہ اس بن تنک صبر آیا ہمیں
شب آنکھوں سے دریا سا بہتا رہا
انھیں نے کنارے لگایا ہمیں
ہمارا نہیں تم کو کچھ پاس رنج
یہ کیا تم نے سمجھا ہے آیا ہمیں
لگی سر سے جوں شمع پا تک گئی
سب اس داغ نے آہ کھایا ہمیں
جلیں پیش و پس جیسے شمع و پتنگ
جلا وہ بھی جن نے جلایا ہمیں
ازل میں ملا کیا نہ عالم کے تئیں
قضا نے یہی دل دلایا ہمیں
رہا تو تو اکثر الم ناک میر
ؔترا طور کچھ خوش نہ آیا ہمیں
———–
الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے
ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے
جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی
ہمیں جی سے مارا تری آرزو نے
نہ بھائیں تجھے میری باتیں وگرنہ
رکھی دھوم شہروں میں اس گفتگو نے
رقیبوں سے سر جوڑ بیٹھو ہو کیونکر
ہمیں تو نہیں دیتے ٹک پاؤں چھونے
پھر اس سال سے پھول سونگھا نہ میں نے
دوانہ کیا تھا مجھے تیری بو نے
مداوا نہ کرنا تھا مشفق ہمارا
جراحت جگر کے لگے دکھنے دونے
کڑھایا کسو کو کھپایا کسو کو
برائی ہی کی سب سے اس خوبرو نے
وہ کسریٰ کہ ہے شور جس کا جہاں میں
پڑے ہیں گے اس کے محل آج سونے
تری چال ٹیڑھی تری بات روکھی
تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے
————-
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے