Ghazals by Akhtar Muslami

Articles

اختر مسلمی


اختر مسلمی کی منتخبہ غزلیں

(۱)
ہر شب تارِ خزاں صبح بہاراں کردیں
خارِ بے جاں کو بھی رشک چمنستاں کردیں

کر کے رنگیں در و دیوار لہو سے اپنے
ہم اگر چاہیں تو زنداں کو گُلستاں کردیں

عیش میں اپنے نہ ہو جن کو غریبوں کا خیال
اُن کے ہر عیش کا شیرازہ پریشاں کردیں

چیخ چیخ اُٹھتے ہیں جس درد کی بیتابی سے
دلِ مظلوم کے اس درد کا درماں کردیں

کر کے باطل کے خدائوں کی خدائی نابود
دوستو آئو علاجِ غمِ دوراں کردیں

ہر طرف بغض و عداوت کی گھٹا چھائی ہے
دہر میں شمعِ محبت کو فروزاں کردیں

ہے اخوّت کا اثر جن کے دلوں سے مفقود
ان درندہ صفت انسانوں کو انساں کردیں

ظلمتِ شب میں بھٹکتا ہے زمانہ اخترؔ
آئو ہر ذرّے کو خورشید درخشاں کردیں
———

(۲)
غم کی خلش بھی رہتی ہے شاید خوشی کے ساتھ
آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اکثر ہنسی کے ساتھ

ظاہر ہے التفاتِ نظر بے رُخی کے ساتھ
لہجے میں ان کے پیار بھی ہے برہمی کے ساتھ

یہ بارگاہِ حُسن ہے اے چشمِ شوق دیکھ
لازم ہے احترام بھی وارفتگی کے ساتھ
آیا کبھی نہ رازِ محبت زبان تک
اتنا ہے مجھ کو ہوش بھی دیوانگی کے ساتھ

غنچے جو ہیں اُداس تو بے رنگ پھول ہیں
رخصت ہوئی بہار بھی شاید کسی کے ساتھ

طے ہوتے مرحلے نہ کبھی راہِ شوق کے
دیوانگی نہ ہوتی اگر آگہی کے ساتھ

ہر گام رہزنوں سے پڑا سابقہ مجھے
جب راستہ چلا ہوں کبھی راستی کے ساتھ

اخترؔ کہوں نہ شعر تو گُھٹ جائے دم مرا
وابستہ زندگی ہے مری شاعری کے ساتھ
———-
(۳)
میں گلہ اگر کروں گا اسے ناروا کہو گے
جو ستم سے مر گیا تو مجھے بے وفا کہو گے

مجھے تم سے ہے جو نسبت اسے اور کیا کہو گے
کرم آشنا نہیں تو ستم آ شنا کہو گے

مرے دل کی اُلجھنوں کو مری چشمِ نم سے پوچھو
میں زباں سے کچھ کہوں گا تو اُسے گلہ کہو گے

یہ نہ جانے کون گذرا ابھی جادئہ نظر سے
وہ عجیب نقش پا ہے کہ تم آئینہ کہو گے

میں تو پوجتا ہوں ناصح کسی بُت کو بُت سمجھ کر
تمہیں سابقہ پڑے گا تو اُسے خدا کہو گے

میں بتا ہی دوں نہ اختر ؔتمہیں رازِ نیک نامی
وہ بُرا نہیں کہے گا جسے تم بھلا کہو گے
———-
(۴)
تری جفا پہ گمانِ وفا کیا میں نے
گناہِ عشق کی یوں جھیل لی سزا میں نے

رہِ وفا میں لٹا کر متاعِ قلب و جگر
کیا ہے تیری محبت کا حق ادا میں نے

ہجومِ غم میں نکل آئی ہے جو آہ کبھی
توکی ہے بے اثری کی بھی پھر دعا میں نے

وفا ہو یا کہ جفا جو بھی مل گیا تم سے
ہر اک کو سینے سے اپنے لگا لیا میں نے

جلا کے دل میں تری شمعِ آرزو اے دوست
ہر اک چراغ تمنّا بجھا دیا میں نے

کسی کی چشم ندامت سے پالیا اخترؔ
تمام حسرت ناکام کا صلہ میں نے
———-

(۵)
رہا نہ ضبطِ غمِ دل اگر تو کیا ہوگا
نہ آہ کا بھی ہوا کچھ اثر تو کیا ہوگا

نہ دیکھ یوں نگہ التفات سے اے دوست
یہ کر گئی جو کہیں دل میں گھر تو کیا ہوگا

یہ تارِ اشکِ مسلسل یہ آہ نیم شبی!
کسی کو ہوگئی اس کی خبر تو کیا ہوگا

متاعِ قلب و نظر جھک کے لوٹ لی اس نے
جو اُٹھ گئی نگہہ فتنہ گر تو کیا ہوگا

مرا نہیں نہ سہی تیرا اختیار تو ہے
رہا نہ دل پہ ترا بھی اثر تو کیا ہوگا

یہ تیری یاد کی محویّتیں ارے توبہ
تو آئے، پھر بھی رہوں بے خبر تو کیا ہوگا

ابھی تو ہیں مہ و انجم ہی زد میں انساں کی
یہ بے خبر، جو ہوا باخبر تو کیا ہوگا

سجی ہے گوہرِ فن سے مری غزل اخترؔ
نہ دے گا داد کوئی کم نظر تو کیا ہوگا
——