Ghalib Academy mein Prof. Naser Ahmad Khan ka Izhar E Kheyal

Articles

غالب اکیڈمی میں ماہانہ ادبی نشست میں پروفیسر نصیر احمد خاں اظہار خیال

پریس ریلیز

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔جس کی صدارت جناب ڈاکٹر جی آر کنول نے فرمائی۔ نشست میں اردو کے مشہور فکشن نگار قاضی عبد الستار کے انتقال پرملال پر تعزیت کا اظہار کیا گیا اس موقع پر پروفیسر نصیر احمد خاں نے اپنے تعلقات کے حوالے سے قاضی عبد الستار کی زندگی اور خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر قاضی عبدالستار اردو اور ہندی دونوں زبانوں سے جڑے ہوئے تھے وہ اردو نثر کے ایک مخصوص طرز کے قصر کا چوتھا ستون تھے۔ رجب علی بیگ سرور،محمد حسین آزاد،ابولکلام آزاد اور قاضی عبدالستار کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔وہ اپنے طرز بیان سے قاری کو باربار پڑھنے پر مجبور کرتے تھے۔وہ نستعلیق قسم کے آدمی تھے اپنی زندگی خوب جئے۔فن میں یکتا تھے اس لیے شہرت اور عزت بھی خوب ملی۔ قاضی عبدالستار نے افسانوں کے علاوہ بہت سے تاریخی ناول لکھے۔ ان کی ناولوں میں ہمارے تاریخ کے سو مناظر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔انھوں نے نثر میں رزم کی روایت قائم کی۔ ان کا رخصت ہونا ہندی اردو کا بہت بڑا نقصان ہے۔حاضرین نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے تعزیت کا اظہار کیا۔ نشست میں چشمہ فاروقی نے اپنا افسانہ فریب مسلسل پڑ ھ کرسنایا اور محمد خلیل نے سائنسی کہانی سردیوں میں جانوروں کی لمبی نیند سنائی اور شعرائے کرام نے اپنے اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا۔ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ؂
بتاؤں کیا کسی کو اپنا مذہب جب مرے دل میں

کہیں کعبہ منور ہے ، کہیں میخانہ روشن ہے

جی آر کنول
ہم کو تو خیر آپ نے برباد کردیا

اب اس کے بعد کہیے ارادہ کدھر کا ہے

ظہیر احمد برنی
ہے درد مرے دل میں نہاں دونوں جہاں کا

ہے فکر رسا میری ادھر اور ادھر بھی

متین امروہوی
راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے

یہ منزل مراد تو بس درد درد ہے

اسد رضا
خوب صورت جو بھی ہوگا مجھ کو دیکھے گا ضرور

آئینے سا میں لگا بیٹھا ہوں اک دیوار سے

سیماب سلطان پوری
یاد اپنوں کی مجھے آئی بہت

کررہا تھا میں غم دل کا حساب

سمیر وششٹھ
پہچان ہوئی اپنے پرائے کی تجھی سے

اے گردش دوراں ترے احسان بہت ہیں

اسرار رازی
شب سیاہ کے منظر ہیں شش جہت میں ابھی

وہ تاب ناک سی لیکن سحر ضروری ہے

عزم سہریاوی
آل نبی کے خشک لبوں تک نہ جاسکا

روئے نہ اپنے آپ پہ آبِ فرات کیوں

درد دہلوی
میں وہ شاعر ہوں جسے ہے گل و رخسار سے بیر

میں فقط شہر کے حالات لکھا کرتا ہوں

فروغ الاسلام
روز و شب خوابوں میں پھر چھپ چھپ کے وہ آنا تیرا

وہ شب فر قت میں ارضِ وصل فرمانا تیرا

دریا جین
وقت مرہم ہے ہر زخم کا، تجربہ ہے بڑوں کا جگر

درد دل سے جدا کیا ہوا،زندگی ٹمٹمانے لگی

شاہد انور
پرندے بھی چہکنا بھول بیٹھے

چمن سہما ہوا ہے باغباں سے

قلم بجنوری
گلستاں جس کو کہا اقبال نے

کیا وہ کوئی اور ہندستاں ہے

ظفر کانپوری
بجزہر اضطرابِ جاں شکایت ختم کرنی ہے

مجھے بے معنی تیرا حلقۂ زنجیر کرنا ہے

حبیب سیفی
مداوا نے درد جگر ڈھونڈتا ہوں

میں صحرا میں کوئی شجر ڈھونڈتا ہوں

سید مسعود الحسن مسعود
زمانے کی حقیقت کیسے اس کو کر گئی گم سم

وہ بچہ سہما بیٹھا ہے ہنسا کے دیکھ لیتے ہیں

نزاکت امروہوی
نشست میں نسیم عباسی، عزیزہ مرزا، طلعت سروہہ،منوج شاشوت نے اپنے کلام پیش کئے۔