GEND,DASA BY AHMAD NADEEM QASMI

Articles

گنڈاسا

احمد ندیم قاسمی

 

 

اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی “چوکیاں” چن لی تھیں۔ “پڑکوڈی” کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھینٹھئے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جا رہا تھا۔ مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوا رہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا، پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے، انہوں نے بجتے ہوئے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوئے بھاگنے لگے اور پھر آناً فاناً سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی۔”مولا کہاں ہے؟”

مولا ہی کا کھیل دیکھنے تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھنچے چلے آئے تھے۔ “مولا کا جوڑی وال تاجا بھی تو نہیں!” دوسرا بھنور پیدا ہوا لوگ پوربی چوکوں کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے، جما ہوا پڑ ٹوٹ گیا۔ منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر مار مار کر بڑھتے ہوئے ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون نہ تھا مگر جب یہ سرگوشی ان کے کانوں میں سیروں بارود بھرا ہوا ایک گولا ایک چکرا دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ لوگ پڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس جانے لگے۔ مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا۔ اس نے پھندنوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ہوئے ڈھول کے گرد بڑے وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر ڈھول کو پوروں سے چھو کر یا علیؓ کا نعرہ لگانے کے لئے ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز ڈھولوں کی دھما دھم چیرتی پھاڑتی اس کے سینے پر گنڈاسا بن کر پڑی مولے” “اے مولے بیٹے۔ تیرا باپ قتل ہو گیا!”

مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا اور پھر ایک دم جیسے اس کے قدموں میں نہتے نکل آئے۔ “رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا ہے گنڈاسے سے!” ان کی ماں کی آواز نے اس کا تعاقب کیا!

پڑ ٹو ٹ گیا۔ ڈھول رک گئے۔ کھلاڑی جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے۔ ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ مولا کے جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں کونڈتے بکھیرتا اڑا جا رہا تھا۔ بہت پیچھے اس کا جوڑی وال تاجا اپنے اور مولا کے کپڑوں کی گٹھڑی سینے سے لگائے آ رہا تھا اور پھر اس کے پیچھے ایک خوف زدہ ہجوم تھا۔ جس گاؤں میں کسی شخص کو ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہو سکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پہناریوں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں کے ریوڑوں کو چیرتا ہوا لپکا جا رہا تھا اور جب وہ رنگے کی چوپال کے بالکل سامنے پہنچا تو سامنے ایک اور ہجوم میں سے پیر نور شاہ نکلے اور مولا کو للکار کر بولے۔ “رک جا مولے!”

مولا لپکا گیا مگر پھر ایک دم جیسے اس کے قدم جکڑ لئے گئے اور وہ بت کی طرح جم کر رہ گیا۔ پیر نور شاہ اس کے قریب آئے اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے۔ “تو آگے نہیں جائے گا مولا!”

ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیر نور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔ پھر بولا “آگے نہیں جاؤں گا پیر جی تو زندہ کیوں رہوں گا؟”۔

“میں کہہ رہا ہوں” پیر جی “میں پر زور دیتے ہوئے دبدبے سے بولے۔”

مولا ہانپنے کے باوجود ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ “تو پھر میرے منہ پر کالک بھی مل ڈالئے اور ناک بھی کاٹ ڈالئے میری، مجھے تو اپنے باپ کے خون کا بدلہ چکانا ہے پیر جی۔ بھیڑ بکریوں کی بات ہوتی تو میں آپ کے کہنے پر یہیں سے پلٹ جاتا۔”

مولا نے گردن کو بڑے زور سے جھٹکا دے کر رنگے کے چوپال کی طرف دیکھا۔ رنگا اور اس کے بیٹے بٹھوں سر گنڈاسے چڑھائے چوپائے پر تنے کھڑے تھے۔ رنگے کا بڑا لڑکا بولا۔

“آؤ بیٹے آؤ۔ گنڈاسے کے ایک ہی وار سے پھٹے ہوئے پیٹ میں سے انتڑیوں کا ڈھیرا نہ اگل ڈالوں تو قادا نام نہیں، میرا گنڈاسا جلد باز ہے اور کبڈی کھیلنے والے لاڈلے بیٹے باپ کے قتل کا بدلا نہیں لیتے، روتے ہیں اور کفن کا لٹھا ڈھونڈنے چلے جاتے ہیں۔”

مولا جیسے بات ختم ہونے کے انتظار میں تھا۔ ایک ہی رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔ مگر اب کبڈی کے میدان کا ہجوم بھی پہنچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اس کے راستے میں حائل ہو گیا تھا۔ جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا اس لئے وہ روکنے والوں کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا مگر پھر جکڑ لیا جاتا۔ ہجوم کا ایک حصہ رنگے اور اس کے تینوں بیٹوں کو بھی روک رہا تھا۔ چار گنڈاسے ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکا رہے تھے کہ اچانک جیسے سارے ہجوم کو سانپ سو نگ گیا۔ پیر نور شاہ قرآن مجید کو دونوں ہاتھوں میں بلند کئے چوپال کی سیٹرھیوں پر آئے اور چلائے۔”اس کلام اللہ کا واسطہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ بدبختو گاؤں کا گاؤں کٹ مرے گا۔ جاؤ تمہیں خدا اور رسولؑ کا واسطہ، قرآن پاک کا واسطہ، جاؤ، چلے جاؤ۔”

لوگ سر جھکا کر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ مولا نے جلدی سے تائے سے پٹکا لے کر ادب سے اپنے گھٹنوں کو چھپا لیا اور سیٹرھیوں پر سے اتر گیا۔ پیر صاحب قرآن مجید کو بغل میں لئے اس کے پاس آئے اور بولے۔”اللہ تعالی تمہیں صبر دے اور آج کے اس نیک کام کا اجر دے۔”

مولا آگے بڑھ گیا۔ تاجا اس کے ساتھ تھا اور جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچے تو مولا نے پلٹ کر رنگے کی چوپال پر ایک نظر ڈالی۔

“تم تو رو رہے ہو مولے؟” تاجے نے بڑے دکھ سے کہا۔

اور مولا نے اپنے ننگے بازو کو آنکھوں پر رگڑ کر کہا۔ “تو کیا اب روؤں بھی نہیں؟”

“لوگ کیا کہیں گے؟” تاجے نے مشورہ دیا۔

“ہاں تاجے!” مولا نے دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا۔ “میں بھی تو یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے باپ کے خون پر مکھیاں اڑ رہی ہیں اور میں یہاں گلی میں ڈورے ہوئے کتے کی طرح دم دبائے بھاگا جا رہا ہوں ماں کے گھٹنے سے لگ کر رونے کے لئے!”

لیکن مولا ماں کے گھٹنے سے لگ کر رویا نہیں۔ وہ گھر کے دالان میں داخل ہوا تو رشتہ دار اس کے باپ کی لاش تھانے اٹھا لے جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ منہ پیٹتی اور بال نوچتی ماں اس کے پاس آئی اور “شرم تو نہیں آتی” کہہ کر منہ پھیر کر لاش کے پاس چلی گئی۔ مولا کے تیور اسی طرح تنے رہے۔ اس نے بڑھ کر باپ کی لاش کو کندھا دیا اور برادری کے ساتھ روانہ ہو گیا۔

اور ابھی لاش تھانے نہیں پہنچی ہو گی کہ رنگے کی چوپال پر قیامت مچ گئی۔ رنگا چوپال کی سیڑھیوں پر سے اترکر سامنے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ کہیں سے ایک گنڈاسا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اس کے پھٹے ہوئے پیٹ سے باہر ابل کر اس کے گھر کی دہلیز پر بھاپ چھوڑنے لگا۔ کافی دیر کو افراتفری کے بعد رنگے کے بیٹے گھوڑوں پر سوار ہو کر رپٹ کے لئے گاؤں سے نکلے، مگر جب وہ تھانے پہنچے تو یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے کہ جس شخص کے خلاف وہ رپٹ لکھوانے آئے ہیں وہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھا تسبیح پر قل ھو اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ تھانے دار کے ساتھ انہوں نے بہت ہیر پھیر کی کوشش کی اور اپنے باپ کا قاتل مولا ہی کو ٹھہرایا مگر تھانیدار نے انہیں سمجھایا کہ “خواہ مخواہ اپنے باپ کے قاتل کو ضائع کر بیٹھو گے، کوئی عقل کی بات کرو۔ ادھر یہ میرے پاس اپنے باپ کے قتل کی رپٹ لکھوا رہا ہے ادھر تمہارے باپ کے پیٹ میں گنڈاسا بھی بھونک آیا ہے۔”

آخر دونوں طرف سے چالان ہوئے، لیکن دونوں قتلوں کا کوئی چشم دید ثبوت نہ ملنے کی بناء پر طرفین بری ہو گئے اور جس روز مولا رہا ہو کر گاؤں میں آیا تو اپنی ماں سے ماتھے پر ایک طویل بوسہ ثبت کرانے کے بعد سب سے پہلے تاجے کے ہاں گیا۔ اسے بھینچ کر گلے لگایا اور کہا۔ “اس روز تم اور تمہارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک رہا ہوتا۔ تمہاری جان کی قسم جب میں نے رنگے کے پیٹ کو کھول کر رکاب میں پاؤں رکھا ہے، آندھی بن گیا خدا کی قسم اسی لئے تو لاش ابھی تھانے بھی نہیں پہنچی تھی کہ میں ہاتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا۔”

سارے گاؤں کو معلوم تھا کہ رنگے کا قاتل مولا ہی ہے، مگر مولے کے چند عزیزوں اور تاجے کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے پھر ایک دن گاؤں میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ مولا کا باپ تو رنگے کے بڑے بیٹے قادر کے گنڈاسے سے مرا تھا رنگا تو صرف ہشکار رہا تھا بیٹوں کو۔ رات کو چوپالوں اور گھروں میں یہ موضوع چلتا رہا اور صبح کو پتہ چلا کہ قادر اپنے کوٹھے کی چھت پر مردہ پایا گیا اور وہ بھی یوں کہ جب اس کے بھائیوں پھلے اور گلے نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا سر لڑھک کر نیچے گرا اور پرنالے تک لڑھکتا چلا گیا، رپٹ لکھوائی اور مولا پھر گرفتار ہو گیا۔ مرچوں کا دھواں پیا، تپتی دوپہروں میں لوہے کی چادر پر کھڑا رہا۔ کتنی راتیں اسے اونگھنے تک نہ دیا گیا مگر وہ اقبالی نہ ہوا اور آخر مہینوں کے بعد رہا ہو کر گاؤں میں آ نکلا اور جب اپنے آنگن میں قدم رکھا تو ماں بھاگی ہو ئی آئی۔ اس کے ماتھے پر طویل بوسہ لیا اور بولی۔ “ابھی دو اور باقی ہیں میرے لال۔ رنگے کا کوئی نام لیوا نہ رہے، تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی۔ میرے دودھ میں تیرے باپ کا خون تھا۔ مولے اور تیرے خون میں میرا دودھ ہے اور تیرے گنڈاسے پر میں نے زنگ نہیں چڑھنے دیا۔ “مولا اب علاقے بھر کی ہیبت بن گیا تھا۔ اس کی مونچھوں میں دو دو بل آ گئے تھے۔ کانوں میں سونے کی بڑی بڑی بالیاں، خوشبودار تیل اس کے لہرئیے بالوں میں آگ کی قلمیں سی جگائے رکھتا تھا۔ ہاتھی دانت کا ہلالی کنگھا اتر کر اس کی کنپٹی پر چمکنے لگا تھا۔ وہ گلیوں میں چلتا تو پٹھے کے تہبند کا کم سے کم آدھا گز تو اس کے عقب میں لوٹتا ہوا جاتا۔ باریک ململ کا پٹکا اس کے کندھے پر پڑا رہتا اور اکثر اس کا سرا گر کر زمین پر گھسٹنے لگتا۔ اور گھسٹتا چلا جاتا۔ مولا کے ہاتھ میں ہمیشہ اس کے قد سے بھی لمبی تلی پلی لٹھ ہوتی اور جب وہ گلی کے کسی موڑ یا کسی چوراہے پر بیٹھتا تو یہ لٹھ جس انداز سے اس کے گھٹنے سے آ لگتی اسی انداز سے لگی رہتی اور گلی میں سے گزرنے والوں کو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مولا کی لٹھ ایک طرف سرکانے کے لئے کہہ سکیں۔ اگر کبھی لٹھ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تن گئی تو لو گ آتے، مولا کی طرف دیکھتے اور پلٹ کر کسی دوسری گلی میں چلے جاتے۔ عورتوں اور بچوں نے تو وہ گلیاں ہی چھوڑ دی تھیں جہاں مولا بیٹھنے کا عادی تھا۔ مشکل یہ تھی کہ مولا کی لٹھ پر سے الانگنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں سے گزر ہوا۔ مولا اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسرے دیوار کو کریدے جا رہا تھا۔ اجنبی آیا اور لٹھ پر سے الانگ گیا۔ ایکا ایکی مولا نے بپھر کر ٹینک میں سے گنڈاسا نکالا اور لٹھ پر چڑھا کر بولا۔”ٹھہر جاؤ چھوکرے، جانتے ہو تم نے کس کی لٹھ الانگی ہے یہ مولا کی لٹھ ہے۔ مولے گنڈاسے والے کی۔”

نوجوان مولا کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بولا۔ “مجھے پتہ نہیں تھا، مولے۔” مولا نے گنڈاسا اتار کر ٹینک میں اڑس لیا اور لٹھ کے ایک سرے کو نوجوان کے پیٹ پر ہلکے سے دبا کر بولا۔ “تو پھر جا کر اپنا کام کر۔” اور پھروہ لٹھ کو یہاں سے وہاں تک پھیلا کر بیٹھ گیا۔

مولا کا لباس، اس کی چال، اس کی مونچھیں اور سب سے زیادہ اس کا لا ابالی انداز، یہ سب پہلے گاؤں کے فیشن میں داخل ہوئے اور پھر علاقے بھر کے فیشن پر اثر انداز ہوئے لیکن مولا کی جو چیز فیشن میں داخل نہ ہو سکی وہ اس کی لانبی لٹھ تھی۔ تیل پلی، پیتل کے کوکوں سے اٹی ہوئی، لوہے کی شاموں میں لپٹی ہوئی، گلیوں کے کنکروں پر بجتی اور یہاں سے وہاں تک پھیل کر آنے والوں کو پلٹا دینے والی لٹھ اور پھر وہ گنڈاسا جس کی میان مولا کی ٹینک تھی اور جس پر اس کی ماں زنگ کا ایک نقطہ تک نہیں دیکھ سکتی تھی۔

لوگ کہتے تھے کہ مولا گلیوں کے نکڑوں پر لٹھ پھیلائے اور گنڈاسا چھپائے گلے اور پھلے کی راہ تکتا ہے۔ قادرے کے قتل اور مولے کی رہائی کے بعد پھلا فوج میں بھرتی ہو کر چلا گیا تھا اور گلے نے علاقہ کے مشہور رسہ گیر چوھدری مظفر الٰہی کے ہاں پناہ لی تھی، جہاں وہ چوھدری کے دوسرے ملازموں کے ساتھ چناب اور راوی پر سے بیل اور گائیں چوری کر کے لاتا۔ چوھدری مظفر اس مال کو منڈیوں میں بیچ کر امیروں، وزیروں اور لیڈروں کی بڑی بڑی دعوتیں کرتا اور اخباروں میں نام چھپواتا اور جب چناب اور راوی کے کھوجی مویشیوں کے کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چوھدری مظفر کے قصبے کے قریب پہنچتے تو جی میں کہتے۔ “ہمارا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا! انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چودھری کے گھر تک جا پہنچے تو پھر کچھ دیر بعد لوگ مویشیوں کی بجائے خود کھوجیوں کا سراغ لگاتے پھریں گے اور لگا نہ پائیں گے۔ وہ چوھدری کے خوف کے مارے قصبے کے ایک طرف سے نکل کر اور تھلوں کے ریتے میں پہنچ کر یہ کہتے ہوئے واپس آ جاتے “کھروں کے نشان یہاں سے غائب ہو رہے ہیں۔”

مولا نے چوھدری مظفر اور اس کے پھیلے ہوئے بازوؤں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اسے کچھ ایسا لگتا تھا کہ جیسے علاقہ بھر میں صرف یہ چوھدری ہی ہے جو اس کی لٹھ الانگ سکتا ہے لیکن فی الحال اسے رنگے کے دونوں بیٹوں کا انتظار تھا۔

تاجے نے بڑے بھائیوں کی طرح مولے کو ڈانٹا “اور کچھ نہیں تو اپنی زمینوں کی نگرانی کر لیا کر، یہ کیا بات ہوئی کہ صبح سے شام تک گلیوں میں لٹھ پھیلائے بیٹھے ہیں اور میراثیوں، نائیوں سے خدمتیں لی جا رہی ہیں۔ تو شاید نہیں جانتا پر جان لے تو اس میں تیرا ہی بھلا ہے کہ مائیں بچوں کو تیرا نام لے کر ڈرانے لگی ہیں، لڑکیاں تو تیرا نام سنتے ہی تھوک دیتی ہیں، کسی کو بد دعا دینی ہو تو کہتی ہیں اللہ کرے تجھے مولا بیاہ کر لے جائے۔ سنتے ہو مولے!”

لیکن مولا تو جس بھٹی میں گودا تھا اس میں پک کر پختہ ہو چکا تھا۔ بولا “ابے جا تاجے اپنا کام کر، گاؤں بھر کی گالیاں سمیٹ کر میرے سامنے ان کا ڈھیر لگانے آیا ہے؟ دوستی رکھنا بڑی جی داری کی بات ہے پٹھے، تیرا جی چھوٹ گیا ہے تو میری آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتا ہے۔ جا اپنا کام کر، میرے گنڈاسے کی پیاس ابھی تک نہیں بجھیجااس نے لاٹھی کو کنکروں پر بجایا اور گلی کے سامنے والے مکان میں میراثی کو بانگ لگائی۔ “ابے اب تک چلم تازہ نہیں کر چکا الو کے پٹھے جا کر گھر والوں کی گود میں سو گیا چلم لا۔”

تاجا پلٹ گیا مگر گلی کے موڑ پر رک گیا اور مڑ کر مولے کو کچھ یوں دیکھا جیسے اس کی جواں مرگی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔

مولا کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا اٹھا اور لٹھ کو اپنے پیچھے گھسیٹتا تاجے کے پاس آ کر بولا دیکھ تاجے مجھے ایسا لگتا ہے تو مجھ پر ترس کھا رہا ہے اس لئے کہ کسی زمانے میں تیری یاری تھی پر اب یہ یاری ٹوٹ گئی ہے تاجے تو میرا ساتھ نہیں دے سکتا تو پھر ایسی یاری کو لے کر چاٹنا ہے۔ میرے باپ کا خون اتنا سستا نہیں تھا کہ رنگے اور اس کے ایک ہی بیٹے کے خون سے حساب چک جائے، میرا گنڈاسا تو ابھی اس کے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں تک پہنچے گا، اس لئے جا اپنا کام کر۔ تیری میری یار ختم۔ اس لئے مجھ پر ترس نہ کھایا کر، کوئی مجھ پر ترس کھائے تو آنچ میرے گنڈاسے پر جا پہنچتی ہے جا۔”

واپس آ کر مولا نے میراثی سے چلم لے کر کش لگایا تو سلفہ ابھر کر بکھر گیا۔ ایک چنگاری مولا کے ہاتھ پر گری اور ایک لمحہ تک وہیں چمکتی رہی۔ میراثی نے چنگاری کو جھاڑنا چاہا تو مولا نے اس کے ہاتھ پر اس زور سے ہاتھ مارا کہ میراثی بل کھا رہ گیا اور ہاتھ کو ران اور پنڈلی میں دبا کر ایک طرف ہٹ گیااور مولا گرجا۔ “ترس کھاتا ہے حرامزادہ۔”

اس نے چلم اٹھا کر سامنے دیوار پر پٹخ دی اور لٹھ اٹھا کر ایک طرف چل دیا۔

لوگوں نے مولا کو ایک نئی گلی کے چوراہے پر بیٹھے دیکھا تو چونکے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ عورتیں سر پر گھڑے رکھے آئیں اور “ہائیں” کرتی واپس چلی گئیں۔ مولا کی لٹھ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور لوگوں کے خیال میں اس پر خون سوار تھا۔

مولا اس وقت دور مسجد کے مینار پر بیٹھی ہوئی چیل کو تکے جا رہا تھا۔ اچانک اسے کنکروں پر لٹھ کے بجنے کی آواز آئی۔ چونک کراس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے اس کی لٹھ اٹھا کر دیوار کے ساتھ رکھ دی ہے اور ان لانبی سرخ مرچوں کو چن رہی ہے جو جھکتے ہوئے اس کے سر پر رکھی ہوئی گٹھڑی میں سے گر گئی تھیں۔ مولا سناٹے میں آگیا لٹھ کو الانگنا تو ایک طرف رہا اس نے یعنی ایک عورت ذات نے لٹھ کو گندے چیتھڑے کی طرح اٹھا کر پرے ڈال دیا ہے اور اب بڑے اطمینان سے مولا کے سامنے بیٹھی مرچیں چن رہی ہے اور جب مولا نے کڑک کر کہا۔ “جانتی ہو تم نے کس کی لاٹھی پر ہاتھ رکھا ہے جانتی ہو میں کون ہوں تو اس نے ہاتھ بلند کر کے چنی ہوئی مرچیں گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے کہا کوئی سڑی لگتے ہو۔”

مولا مارے غصے کے اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی بھی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی سے بولی اسی لئے تو میں نے تمہاری لٹھ تمہارے سر پر نہیں دے ماری ایسے لٹے لٹے سے لگتے تھے مجھے تو تم پر ترس آگیا تھا۔”

“تر س آگیا تھا تمہیں مولا پر؟ مولا دھاڑا۔

“مولا!”لڑکی نے گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور ذرا سی چونکی۔

“ہاں، مولا، گنڈاسے والا” مولا نے ٹھسے سے کہا اور وہ ذرا سی مسکرا کے گلی میں جانے لگی۔ مولا کچھ دیر وہاں چپ چاپ کھڑا رہا اور پھر ایک سانس لے کر دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ لٹھ کو سامنے کی دیوار تک پھیلا لیا تو پرلی طرف سے ادھیڑ عمر کی ایک عورت آتی دکھائی دی۔ مولا کو دیکھ کر ٹھٹکی۔ مولا نے لٹھ اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور بولا۔ “آ جاؤ ماسی، آ جاؤ میں تمہیں کھا تھوڑی جاؤں گا۔”

حواس باختہ عورت آئی اور مولے کے پاس سے گزرتے ہوئے بولی۔ “کیسا جھوٹ بکتے ہیں لوگ، کہتے ہیں جہاں مولا بخش بیٹھا ہو وہاں سے باؤ کتا بھی دبک کر گزرتا ہے، پر تو نے میرے لئے اپنی لٹھ۔”

“کون کہتا ہے؟” مولا اٹھ کھڑا ہوا۔

“سب کہتے ہیں، سارا گاؤں کہتا ہے، ابھی ابھی کنویں پر یہی باتیں ہو رہی تھیں، پر میں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مولا بخش”

لیکن مولا اب تک اس گلی میں لپک کر گیا تھا جس میں ابھی ابھی نوجوان لڑکی گئی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا گیا اور آخر دور لمبی گلی کے سرے پر وہی لڑکی جاتی نظر آئی، وہ بھاگنے لگا۔ آنگنوں میں بیٹھی ہوئی عورتیں دروازوں تک آ گئیں اور بچے چھتوں پر چڑھ گئے۔ مولا کا گلی سے بھاگ کر نکلنا کسی حادثے کا پیش خیمہ سمجھا گیا۔ لڑکی نے بھی مولا کے قدموں کی چاپ سن لی تھی، وہ پلٹی اور پھر وہیں جم کر کھڑ ی رہ گئی۔ اس نے بس اتنا ہی کیا کہ گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھا م لیا، چند مرچیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح اس کے پاؤں پر بکھر گئیں۔

“میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔” مولا پکارا۔ “کچھ نہیں کہوں گا تمہیں۔”

لڑکی بولی۔ “میں ڈر کے نہیں رکی۔ ڈریں میرے دشمن۔”

مولا رک گیا، پھر ہولے ہولے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بولا۔ “بس اتنا بتا دو تم ہو کون؟”

لڑکی ذرا سا مسکرا دی۔

عقب سے کسی بڑھیا کی آواز آئی۔ “یہ رنگے کے چھوٹے بیٹے کی منگیتر راجو ہے، مولا بخش۔”

مولا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راجو کو دیکھنے لگا۔ اسے راجو کے پاس رنگا اور رنگے کا سارا خاندان کھڑا نظر آیا۔ اس کا ہاتھ ٹینک تک گیا اور پھر رسے کی طرح لٹک گیا۔ راجو پلٹ کر بڑی متوازن رفتار سے چلنے لگی۔

مولا نے لاٹھی ایک طرف پھینک دی اور بولا۔ “ٹھہرو راجو، یہ اپنی مرچیں لیتی جاؤ۔”

راجو رک گئی۔ مولا نے جھک کر ایک ایک مرچ چن لی اور پھر اپنے ہاتھ سے انہیں راجو کی گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے بولا۔ “تمہیں مجھ پر ترس آیا تھا نا راجو؟”۔

لیکن راجو ایک دم سنجیدہ ہو گئی اور اپنے راستے پر ہولی۔ مولا بھی واپس جانے لگا۔ کچھ دور ہی گیا تھا کہ بڑھیا نے اسے پکارا۔ “یہ تمہاری لٹھ تو یہیں رکھی رہ گئی مولا بخش!”

مولا پلٹا اور لٹھ لیتے ہوئے بڑھیا سے پوچھا۔

“ماسی! یہ لڑکی راجو کیا یہی کی رہنے والی ہے؟ میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا۔”

“یہیں کی ہے بھی بیٹا اور نہیں بھی۔” بڑھیا بولی۔ “اس کے باپ نے لام میں دونوں بیٹوں کے مرنے کے بعد جب دیکھا کہ وہ روز ہل اٹھا کر اتنی دور کھیتوں میں نہیں جا سکتا تو گاتن والے گھر کی چھت اکھیڑی اور یہاں سے یوں سمجھو کہ کوئی دو ڈھائی کوس دور ایک ڈھوک بنا لی۔ وہیں راجو اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے، تیسرے چوتھے دن گاؤں میں سودا سلف خریدنے آ جاتی ہے اور بس۔”

مولا جواب میں صرف “ہوں” کہہ کر واپس چلا گیا، لیکن گاؤں بھر میں یہ خبر آندھی کی طرح پھیل گئی کہ آج مولا اپنی لٹھ ایک جگہ رکھ کر بھول گیا۔ باتوں باتوں میں راجو کا ایک دو بار نام آیا مگر دب گیا۔ رنگے کے گھرانے اور مولا کے درمیان صرف گنڈاسے کا رشتہ تھا نا اور راجو رنگے ہی کے بیٹے کی منگیتر تھی اور اپنی جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔”

اس واقعہ کے بعد مولا گلیوں سے غائب ہو گیا۔ سارا دن گھر میں بیٹھا لاٹھی سے دالان کی مٹی کریدتا رہتا اور کبھی باہر جاتا بھی تو کھیتوں چراگاہوں میں پھرپھرا کر واپس آ جاتا۔ ماں اس کے رویے پر چونکی مگر صرف چونکنے پر اکتفا کی۔ وہ جانتی تھی کہ مولا کے سر پر بہت سے خون سوار ہیں، وہ بھی جو بہا دئے گئے اور وہ بھی جو بہائے نہ جا سکے۔

یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ نقارے پٹ پٹا کر خاموش ہو گئے تھے۔ گھروں میں سحری کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ دہی بلونے اور توے پر روٹیوں کے پڑنے کی آواز مندروں کی گھنٹیوں کی طرح پر اسرار معلوم ہو رہی تھیں۔ مولا کی ماں بھی چولہا جلائے بیٹھی تھی اور مولا مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر لیٹا آسمان کو گھورے جا رہا تھا۔ یکا یک کسی گلی میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ مولا نے فوراً لٹھ پر گنڈاسا چڑھایا اور چھت پر سے اتر کر گلی میں بھاگا۔ ہر طرف گھروں میں لالٹینیں نکلی آ رہی تھیں اور شور بڑھ رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر مولا کو معلوم ہوا کہ تین مسافر جو نیزوں، برچھیوں سے لیس تھے، بہت سے بیلوں اور گائے بھینسوں کو گلی میں سے ہنکائے لئے جا رہے تھے کہ چوکیدار نے انہیں ٹوکا اور جواب میں انہوں نے چوکیدار کو گالی دے کر کہا کہ یہ مال چوھدری مظفر الٰہی کا ہے، یہ گلی تو خیر ایک ذلیل سے گاؤں کی گلی ہے، چوھدری کا مال تو لاہور کی ٹھنڈک سڑک پر سے بھی گزرے تو کوئی اف نہ کرے۔

مولا کو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے چوھدری مظفر خود، بہ نفسِ نفیس گاؤں کی اس گلی میں کھڑا اس سے گنڈاسا چھیننا چاہتا ہے، کڑک کر بولا۔ “چوری کا یہ مال میرے گاؤں سے نہیں گزرے گا، چاہے یہ چوھدری مظفر کا ہو چاہے لاٹ صاحب کا۔ یہ مال چھوڑ کر چپکے سے اپنی راہ لو اور اپنی جان کے دشمن نہ بنو!” اس نے لٹھ کر جھکا کر گنڈاسے کو لالٹینوں کی روشنی میں چمکایا۔ “جاؤ۔”

مولا گھرے ہوئے مویشیوں کو لٹھ سے ایک طرف ہنکانے لگا۔ “جا کر کہہ دو اپنے چوھدری سے کہ مولا گنڈاسے نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور اب جاؤ اپنا کام کرو۔”

مسافروں نے مولا کے ساتھ سارے ہجوم کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو چپ چاپ کھسک گئے۔ مولا سارے مال کو اپنے گھر لے آیا اور سحری کھاتے ہوئے ماں سے کہا کہ “یہ سب بے زبان ہمارے مہمان ہیں، ان کے مالک پرسوں تک آ نکلیں گے کہیں سے اور گاؤں کی عزت میری عزت ہے ماں۔” مالک دوسرے ہی دن دوپہر کو پہنچ گئے۔۔

یہ غریب کسان اور مزارعے کوسوں کی مسافتیں طے کر کے کھوجیوں کی ناز برداریاں کرتے یہاں تک پہنچے تھے اور یہ سوچتے آ رہے تھے کہ اگر ان کا مال چوھدری کے حلقۂ اثر تک پہنچ گیا تو پھر کیا ہو گا اور جب مولا ان کا مال ان کے حوالے کر رہا تھا تو سارا گاؤں باہر گلی میں جمع ہو گیا تھا اور اس ہجوم میں راجو بھی تھی۔ اس نے اپنے سر پر اینڈوا جما کر مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اور منتشر ہوتے ہوئے ہجوم میں جب راجو مولا کے پاس سے گزری تو مولا نے کہا۔ “آج بہت دنوں بعد گاؤں میں آئی ہو راجو۔”

“کیوں؟” اس نے کچھ یوں کہا جیسے “میں کسی سے ڈرتی تھوڑی ہوں” کا تاثر پیدا کرنا چاہتی ہو۔ میں تو کل آئی تھی اور پرسوں اور ترسوں بھی۔ ترسوں تھوم پیاز خریدنے آئی۔ پرسوں بابا کو حکیم کے پاس لائی، کل ویسے ہی آ گئیں اور آج یہ گھی بیچنے آئی ہوں۔”

“کل ویسے ہی کیوں آ گئیں؟” مولا نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

“ویسے ہی بس جی چاہا آ گئے، سہیلیوں سے ملے اور چلے گئے، کیوں؟”

“ویسے ہی” مولا نے بجھ کر کہا، پھر ایک دم اسے ایک خیال آیا۔ “یہ گھی بیچو گی؟”

“ہاں بیچنا تو ہے، پر تیرے ہاتھ نہیں بیچوں گی۔”

“کیوں؟”

“تیرے ہاتھوں میں میرے رشتہ داروں کا خون ہے۔”

مولا کو ایک دم خیال آیا کہ وہ اپنی لٹھ کو دالان میں اور گنڈاسے کو بستر تلے رکھ کر بھول آیا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چل سی ہونے لگی۔ اس نے گلی میں ایک کنکر اٹھایا اور اسے انگلیوں میں مسلنے لگا۔

راجو جانے کے لئے مڑی تو مولا ایک دم بولا۔ “دیکھو راجو میرے ہاتھوں پر خون ہے ہی اور ان پر ابھی جانے کتنا اور خون چڑھے گا، پر تمہیں گھی بیچنا ہے اور مجھے خریدنا ہے، میرے ہاتھ نہ بیچو، میری ماں کے ہاتھ بیچ دو۔”

راجو کچھ سوچ کر بولی”چلوآؤ”

مولا آگے آگے چلنے لگا۔ جاتے جاتے جانے اسے وہم سا گزرا کہ راجو اس کی پیٹھ اور پٹوں کو گھورے جا رہی ہے۔ ایک دم اس نے مڑ کر دیکھا راجو گلی میں چگتے ہوئے مرغی کے چوزوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہوئی آ رہی تھی۔ وہ فوراً بولا”یہ چوزے میرے ہیں۔”

“ہوں گے۔” راجو بولی۔

مولا اب آنگن میں داخل ہو چکا تھا، بولا “ماں یہ سب گھی خرید لو، میرے مہمان آنے والے ہیں تھوڑے دنوں میں۔”

راجو نے برتن اتار کر اس کے دہانے پر سے کپڑا کھولا تاکہ بڑھیا گھی سونگھ لے، مگر وہ اندر چلی گئی تھی ترازو لینے اور مولا نے دیکھا کہ راجو کی کنپٹیوں پر سنہرے روئیں ہیں اور اس کی پلکیں یوں کمانوں کی طرح مڑی ہوئی ہیں جیسے اٹھیں گی تو اس کی بھنووں کو مس کر لیں گی اور ان پلکوں پر گرد کے ذرے ہیں اور اس کے ناک پر پسینے کے ننھے ننھے سوئی کے ناکے سے قطرے چمک رہے ہیں اور نتھنوں میں کچھ ایسی کیفیت ہے جیسے گھی کے بجائے گلاب کے پھول سونگھ رہی ہو۔ اس کے اوپر ہونٹ کی نازک محراب پر بھی پسینہ ہے اور ٹھوڑی اور نچلے ہونٹ کے درمیان ایک تل ہے جو کچھ یوں اچٹا ہوا لگ رہا ہے جیسے پھونک مارنے سے اڑ جائے گا۔ کانوں میں چاندی کے بندے انگور کے خوشوں کی طرح لس لس کرتے ہوئے لرز رہے ہیں اور ان بندوں میں اس کے بالوں کی ایک لٹ بے طرح الجھی ہوئی ہے۔ مولے گنڈاسے والے کا جی چاہا کہ وہ بڑی نرمی سے اس لٹ کو چھڑا کر راجو کے کانوں کے پیچھے جما دے یا چھڑا کر یونہی چھوڑ دے یا اسے اپنی ہتھیلی پر پھیلا کر ایک ایک بال کو گننے لگے یا

ماں ترازو لے کر آئی تو راجو بولی۔ “پہلے دیکھ لے ماسی، رگڑ کے سونگھ لے۔ آج صبح ہی کو تازہ تازہ مکھن گرم کیا تھا۔ پر سونگھ لے پہلے!”

“نہ بیٹی میں تو نہ سونگھوں گی۔” ماں نے کہا “میرا تو روزہ مکروہ ہوتا ہے!۔”

“لو” مولا نے لٹھ کی ایک طرف گرا دیا۔ پانچوں آہستہ آہستہ ا س کی طرف بڑھنے لگے۔ ہجوم جیسے دیوار سے چمٹ رہ گیا۔ بچے بہت پیچھے ہٹ کر کمہاروں کے آوے پر چڑھ گئے تھے۔

“کیا بات ہے؟” مولا نے گلے سے پوچھا۔

گلا جواب اس کے پاس پہنچ گیا تھا بولا۔

“تم نے چوھدری مظفر کا مال روکا تھا!”

“ہاں” مولا نے بڑے اطمینان سے کہا۔”پھر؟”

گلے نے کنکھیوں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔ چوھدری نے تمہیں اس کا انعام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ انعام ان سارے گاؤں والوں کے سامنے تمہارے حوالے کر دیں۔” “انعام!” مولا چونکا۔ “آخر بات کیا ہے؟”

گلے نے تڑاخ سے ایک چانٹا مولا کے منہ پر مارا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔ “یہ بات ہے۔”

تڑپ کر مولا نے لٹھ اٹھائی، ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں گنڈاسا شعلے کی طرح چمکا، پانچوں نووارد غیر انسانی تیزی سے واپس بھاگے، مگر گلا لاری کے پرلی طرف کنکروں پر پھسل کر گر گیا۔ لپکتا ہوا مولا رک گیا، اٹھا ہوا گنڈاسا جھکا اور جس زاویے پر جھکا تھا وہیں جھکا رہ گیادم بخود ہجوم دیوار سے اچٹ اچٹ کر آگے آ رہا تھا۔ بچے آوے کی راکھ اڑاتے ہوئے اتر آئے، نورا دکان میں سے باہر آگیا۔

گلے نے اپنی انگلیوں اور پنجوں کو زمین میں یوں گاڑ رکھا تھا۔ جیسے دھرتی کے سینہ میں اتر جانا چاہتا ہے اور پھر مولا، جو معلوم ہوتا تھا کچھ دیر کے لئے سکتے میں آگیا ہے، ایک قدم آگے بڑھا، لٹھ کو دور دکان کے سامنے اپنے کھٹولے کی طرف پھینک دیا اور گلے کو بازو سے پکڑ کر بڑی نرمی سے اٹھاتے ہوئے بولاچوھدری کو میرا سلام دینا اور کہنا کہ انعام مل گیا ہے، رسید میں خود پہنچانے آؤ ں گا۔”

اس نے ہولے ہولے گلے کے کپڑے جھاڑے، اس کے ٹوٹے ہوئے طرے کو سیدھا کیا اور بولا۔ “رسید تم ہی کو دے دیتا پر تمہیں تو دولہا بننا ہے ابھی اس لئے جاؤ، اپنا کام کرو”

گلا سر جھکائے ہولے ہولے چلتا گلی میں مڑ گیامولا آہستہ آہستہ کھاٹ کی طرف بڑھا، جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے لوگوں کے قدم پیچھے ہٹ رہے تھے اور جب اس نے کھاٹ پر بیٹھنا چاہا تو کمہاروں کے آوے کی طرف سے اس کی ماں چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی آئی اور مولا کے پاس آ کر نہایت وحشت سے بولنے لگی۔”تجھے گلے نے تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ اٹھا؟ تو نے” وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت دور سے بولی۔ “تو تو رو رہا ہے مولے؟”

مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے بولا “تو کیا اب روؤں بھی نہیں!۔”