From lockdown to lockup by Dr. Salim Khan

Articles

لاک ڈاون سے لاک اپ تک

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا کے غم کی لہر کو لاک ڈاون نے خوشی میں بدل دیا ۔ جمال کے گھر میں اس کی بیوی جمیلہ کے سوا ہر کوئی خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ جمال کے والد کمال صاحب اس لیے خوش تھے کہ پہلی بھر سارے گھر کے لوگ ایک ساتھ جمع تھے ۔ کوئی کہیں آجانہیں رہا تھا ۔ اپنے آپ میں مست لوگ کم ازکم گھر کے اندر تو تھے ۔ اپنی بہو ، بیٹے اور پوتوں و پوتیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر ان کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ کمال صاحب کی اہلیہ افسری بیگم کو خوشی اس بات کی تھی اب گھر کا سارا کام ان کی بہو کو کرنا پڑ رہا تھا۔ جمیلہ بہو بننے سے قبل ٹیچر بن چکی تھی۔ اس لیے گھریلو کاموں سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کے اس کے پاس ہزار بہانے ہوتے تھے ۔ اسکول کے اندر نہایت چاک و چوبند رہنے والی جمیلہ گھر آتے ہی تھک کر چور ہوجاتی تھی ۔
جمیلہ کا ابتداء میں یہ معمول تھا کہ دو پہر کو ساس کے ہاتھ کا بناکھاکر سونا اور شام میں اٹھ کر بچوں کے پرچے جانچنا۔ افسری بیگم پوچھتیں کہ بہو تم پڑھاتی بھی ہو یا امتحان ہی لیتی رہتی ہو تو اس کا جواب ہوتا ۵ کلاسوں کو پڑھاتی ہوں ۔ ہر ایک کا ماہانہ ٹسٹ ہوتا ہے۔ پہلے پرچہ ترتیب دینا ہوتا ہے اور پھر جانچنا اس طرح پورا مہینہ اسی کی نذر ہوجاتا۔ جمیلہ کے ببلو اور ببلی جب اسکول جانے لگے تو ان کے پڑھانے کا کام بڑھ گیا ۔ اسی کے ساتھ محلے بھر کے بچے گھر میں پڑھنے کے لیے آنے لگے ۔ اس طرح چونکہ اضافی آمدنی ہوجاتی تھی اس لیے افسری بیگم نے اسے بھی برداشت کرلیا اور شام کا کھانا بھی خود بنانے لگیں ۔ سچ تو یہ ہے افسری بیگم کو لاک ڈاون کی بدولت پہلی بار اپنی بہو سے خدمت لینے کا موقع ملا تھا ۔
افسری بیگم کی زندگی میں سب سے اچھا وقت سرما اور گرما کی تعطیلات میں آتا ۔ چھٹیوں میں نتائج تقسیم کرنے تک جمیلہ بے حد مصروف رہتی اور اگلے ہی دن اپنے شوہر بچوں سمیت میکے ملکا پور چلی جاتی ۔ افسری بیگم کو اس کا کوئی افسوس نہ ہوتا کیونکہ اول تو ان کے کام کا بوجھ کم ہوجاتا اور ایک دو دن کے اندر ان کی دبیٹیاں اپنے میکے آجاتیں ۔ پھر کیا خدمت ہی خدمت۔ سچ تو یہ ہے کہ کمال صاحب اور افسری بیگم کے لیے وہی سب سے اچھا زمانہ ہواکرتا تھا لیکن اس زمانے نہ جمال موجود ہوتا اور نہ ببلو و ببلی ۔ بچوں کی کمی دادا اور دادی کو بہت کھلتی لیکن وہ بیچارے کر بھی کیا کرسکتے تھے۔ لاک ڈاون نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ اسکول اور ٹیوشن سب بند ہوگئے تھے ۔ بچے خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے ۔ انہیں نہ جانے کس نے بتا دیا تھا کہ اس سال امتحان بھی نہیں ہوں گے اور وہ بغیر کسی ابتلاء وآزمائش کے اگلی کلاس میں ڈھکیل دیئے جائیں گے ۔
ان سب سے زیادہ خوش جمال تھا کیونکہ وہ جس بین الاقوامی کمپنی میں کام کرتا تھا اس کے دفاتر ہانگ کانگ اور سنگاپور سے لے نیویارک اور لاس اینجلس تک پھیلے ہوئے تھے ۔ صبح آنکھ کھلتی تو مشرق بعید کے ای میل اس کے جواب کا منہ کھولے انتظار کررہے ہوتے۔ اس لیے کہ دفتر کا سارا ریکارڈ اس کے کمپیوٹر میں بند تھا اور اس کام مختلف دفاتر کو معلومات فراہم کرنا تھا۔ اس کو بستر پر چائے پیتے ہوئے بھی دوچار ضروری جوابات دینا پڑجاتے تھے۔ دفتر پہنچنے تک ہندوستان اور جنوب ایشیا کا سلسلہ جاری ہوجاتا۔ دوپہر بعد یوروپ سے آنے والے خطوط کا اضافہ ہوجاتا اور شام میں جب ہانگ اور سنگاپور والے سونے کی تیاری کرنے لگتے تو امریکہ بیدار ہوجاتا ۔ یہاں تک کہ بستر پر جانے تک بھی کچھ نہ کچھ کام بچ ہی جاتا تھا ۔
وقت کی چکی میں بری طرح پسنے والا جمال یہ سمجھنے سے قاصر تھاکہ آخر اس کا ہر گاہک اور ہر افسر گھوڑے پر سوار ہوکر کیوں آتا ہے ۔ ان کو اتنی جلدی کیوں ہوا کرتی ہے۔ جیسے اگر یہ معلومات فوراً نہ ملے تو آسمان پھٹ جائے۔ ان گھڑسواروں کو جمال کے ٹاپ کے نیچے روندے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا لیکن کورونا کی وباء نے وقت کا پہیہ روک دیا تھا اور اب وہ گھوڑے بیچ کر سونے لگا تھا ۔ وہ اپنا ایک ایک ارمان نکال رہا تھا ۔ یو ٹیوب پر ایسی ساری ویڈیوز اس نے دیکھ ڈالی تھیں جن سے مستفید ہونا اس کے تصور بھی محال تھا۔ ایسے ایسے دوستوں سے فون اور فیس بک پر رابطہ استوار کرچکا تھا جو ماضی کے دھندلکے میں نہ جانے کہاں کہاں کھوگئے تھے۔
اس بیچ اپنے موبائل میں کھوئے ہوئے جمیل کو جمیلہ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا اب سبزی ترکاری لاوگے یا پھر سے دال چڑھا دوں ۔
جمیل سر اٹھائے بغیر بولا چڑھا دو دال ۔ میں نے کب اعتراض کیا ہے؟
آپ کے اعتراض کی مجھے پروا کب ہے؟ لیکن اب تو بچے بھی دال روٹی کھاتے کھاتے بور ہونے لگے ہیں ۔
تو ان کو سمجھاو کہ لاک ڈاون ہے ۔ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ نہیں مانتے ۔ کہتے ہیں سبزی ترکاری بک رہی ہے۔ دوستوں اور سہیلیوں کے یہاں سب بنتا ہے تو ہمارے یہاں کیوں نہیں بن سکتا؟
جمال کسمساتے ہوئے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا تو افسری بیگم نے پوچھا بیٹے لاک ڈاون میں ایسے منہ اٹھائے کہاں چل دیئے؟
بازار جارہا ہوں امی۔ کچھ سبزی ترکاری لے آوں ۔ بچے روز روز دال چاول کھاتے کھاتے بیزار ہوگئے ہیں ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن کم ازکم ماسک تو لگا لو ۔ میں نے سنا ہے بغیر ماسک کے جانے پر جرمانہ لگتا ہے۔
کمال صاحب بولے جرمانہ کے ساتھ ڈنڈے بھی پڑتے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں حفظ ماتقدم کو طور پر دستانے بھی پہن لو۔
جمال کے باہر نکلنے کے بعد ببلو نے اپنے دادا سے پوچھا ہمارے ابو کو ڈنڈے سے کون مار سکتا ہے؟
کمال صاحب بولے پولس والے اور کون ؟
ببلی نے پوچھا کیا پولس بھی ہماری ٹیچر کی طرح بلاوجہ مار پیٹ کرتی ہے ۔
افسر بیگم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا بیٹی یہ سوال تم اپنی امی سے کرو۔
باورچی خانے سے جمیلہ کی آواز آئی ۔ دادی پوتی میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟
ببلو بولا امی یہ گھچڑی نہیں بریانی ہے ۔ دم بریانی اور سب ہنسنے لگے ۔
جمال نے اپنی بلڈنگ سے نکل کر بازار کی جانب چلتے ہوئے بس اسٹاپ پر دیکھا تو وہاں بنچ پر ایک آدمی سویا ہواتھا ۔ پاس میں جمال کی طرح کورونا سے بے خوف ایک مور ناچ رہا تھا ۔ جمال کبھی خواب میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا اس چہل پہل کے وقت کوئی مور بھی اس طرف آسکتا ہے۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا ۔عام طور پر دن بھر اس بس اسٹاپ پر بھیڑ لگی ہوتی ۔ بسوں کا تانتہ لگا رہتا تھا ۔ ایک نکلتی تو دوسری آتی دکھائی دیتی لیکن اب سب کچھ بدل گیا تھا ۔ بس اسٹاپ کے قریب پہنچ کر جمال نے لیٹے ہوئے نوجوان کو دیکھا تو اس کا پیٹ پیٹھ سے لگا ہواتھا ۔ اس کو فوراً وزیر اعظم کی نصیحت یاد آگئی ۔ ہر انسان دوسرے کا درد محسوس کرے اور اسے کھانے کو دے لیکن اس کا جھولا اس وقت خالی تھا۔ اس کی جیب نوٹ تو تھے لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا تھا ۔
بازار میں جمال نے سبزیوں تین چار گنا بھاو سنے تو اسے وزیر اعلیٰ کی تقریر یاد آگئی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ کسی کو منافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس نے سبزی والے سے کہا خدا سے ڈرو، کم ازکم اس مشکل وقت میں تو لوٹ مار نہ کرو ؟
سبزی فروش بولا صاحب ہم کیا کریں ۔ جو بھاو مال ملتا اسی میں دو پیسہ بڑھا کر بیچتے ہیں ۔ آخر ہمارے بھی تو بال بچے ہیں؟
ارے لیکن یہ بھی کوئی بھاو ہے ؟میں پولس کو شکایت کروں گا ۔
ہم تو کورونا سے نہیں ڈرتے ۔ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر آپ لوگوں کو سیوا کررہے ہیں اوپر سے آپ دھمکا رہے ہیں ۔ لینا ہے لیجیے ورنہ اپنا راستہ ناپیے۔
جمال کو ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہیں جمیلہ نے اس کے ذریعہ انتقام تو نہیں لے لیا لیکن کہاں جمیلہ اور کہاں یہ سبزی والا؟ سبزی ترکاری لے کر لوٹتے ہوئے جمال کو پھل والا دکھائی دیا ۔ وہ پھلوں کے لیے ہفتہ بھر سے ترس گیا تھا ۔ اس نے سیب ، انگور، کیلے اور نہ جانے کیا کیا خرید لیے یہاں تک کہ پھلوں کا تھیلا سبزی سے زیادہ بھاری ہوگیا ۔ اس ناپسندیدہ مہم سے فارغ ہوکر گھر لوٹتے ہوئے جمال جب بس اسٹاپ پر پہنچا تو اسے بنچ پر وہی لڑکا سویا ہوا نظر آیا۔ نیچے ایک کتا بیٹھارال ٹپکا رہا تھا ۔ بے حس و حرکت پڑی ہوئی لاش کو دیکھ جمال کو گمان گزرا کہیں یہ شخص مرمرا تو نہیں گیا۔ اس نے قریب آکر غور سے دیکھا تو سانس چل رہی تھی لیکن پیٹ وہی پیٹھ سے چپکا ہوا تھا۔ جمال نے سوچا اگر یہ کورونا سے نہیں تو بھوک سے مرجائے گا۔ اس نے اپنےبڑے تھیلے سے سیب کی چھوٹی تھیلی نکالی اور اس نوجوان کو جگایا۔
نوجوان نے آنکھ کھولتے ہی پوچھا کون ہو تم ؟ میرے پاس کیوں آئے ہو ؟ مجھ سے کیا چاہیے ؟
مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں تمہیں یہ پھل دے رہا ہوں ۔ تم اسے کھالو۔
پھل ۰۰۰؟پھل مجھے کیوں دینا چاہتے ہو؟؟ ۰۰۰۰تم ہو کون پہلے یہ تو بتاو؟؟ ؟۰۰۰۰۰۰۰کون ہو تم؟ ؟؟؟
تم کو اس سے کیا غرض کہ میں کون ہوں ؟ میں تمہیں پھل دے رہا ہوں ۔ اسے کھاو اور مجھے دعا دو بس۔میں کچھ اور نہیں چاہتا۔
دعا ۰۰۰۰۰دعا ۰۰۰۰۰۰سمجھ گیا ۰۰۰۰۰۰۰سب سمجھ گیا ۰۰۰۰۰۰۰کیا نام ہے تمہارا؟ ۰۰۰۰۰۰پہلے اپنا نام بتاو ؟
جمال کی سمجھ میں اس کی بوکھلاہٹ نہیں آرہی تھی پھر بھی وہ بولا ۔ جمال ۰۰۰۰محمد جمال ہے ۰۰۰۰۰۰نام میرا۔
یہ الفاظ اس پر نوجوان پر بجلی بن کر گرے اور اس نے جمال پر گھونسوں اور مکوں کی برسات کردی ۔ اپنے آپ کو ایک ناگہانی حملے سے بچانے سے قبل جمال بے ہوش ہوچکا تھا ۔ کتا زور زور سے بھونکنے لگا تھا ۔یہ سن آس پاس کی بلڈنگ کے چوکیدار دوڑ پڑے اور اس نوجوان کو دھر دبوچا۔ وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا لیکن بے بس کردیا گیا۔ ان میں ایک واچ میں نے جمال کو پہچان لیا ۔ اتفاق سے وہاں پولس کی گشتی گاڑی پہنچ گئی ۔ چوکیداروں نے اس نوجوان کو پولس کے حوالے کردیا ۔ پولس نے چوراہے پر کھڑے تنہا رکشا کو بس اسٹاپ پر بھجوادیا۔ جمال کا چہرا سوج گیا تھا اورگرنے کے سبب سر پر لگی چوٹ سے خون بہہ رہا تھا ۔ اس رکشا میں ڈال کر قریب ہی جمال کی بلڈنگ تک پہنچایا گیا۔ اس بیچ جمال کو ہوش بھی آگیا اور اپنے چوکیدار کی مدد سے پہنچ گیا۔
جمال کی حالتِ زار دیکھ کر اس کی امی کمال صاحب پر بھڑک گئی ۔ دیکھا آپ کی بدشگونی کا اثر میرے بیٹے پر کیا ہوا ۔
ببلو نے کمال صاحب سے پوچھا دادا جی پولس والوں نے ہمارے ابو کے ساتھ یہ کیوں کیا ؟
ببلی نے امی سے سوال کیا یہ پولس والے ایسے ظالم کیوں ہوتے ہیں ؟
باورچی خانے میں افسری بیگم ہلدی کا لیپ بناتے ہوئے کینہ توز نظروں سے کمال صاحب کو دیکھ رہی تھیں اوروہ احساس جرم کے بوجھ تلے ایک طرف بت بنے کھڑے ہوئےتھے ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا بولیں ۔وہ ایسا محسوس کرنے لگے تھے گویا سارا قصورا انہیں کا ہے۔
جمیلہ نے جلدی چہرہ صاف کیا ۔سر پر لگے زخم پر پٹی باندھتے ہوئے بولی اس کورونا کے زمانے میں تو دماغ ٹھنڈا رکھا کرو۔ کس لڑائی کرلی ؟
جمیل بولا میں نے کسی سے لڑائی نہیں کی ۔ میں تو اسے سیب دینے گیا تھا مگر وہ مجھ پرٹوٹ پڑا۔
کون تھا وہ ؟ کس پر رحم آگیا تھا آپ کو ؟؟ جمیلہ نے پھر سوال کیا
میں نہیں جانتا وہ کون تھا ؟
نہیں جانتے؟ نہیں جانتے تھے تو اس کو سیب دینے کی ضرورت کیا تھی؟
کیسی باتیں کرتی ہو بیگم ؟ کسی بھوکے کو کچھ دینے کے لیے اس کو جاننا ضروری ہوتا ہے کیا؟
جمیلہ بے یقینی سے بولی لیکن کسی کی مدد کرو تو اس کے جواب میں وہ مکےّ تھوڑی نا برساتا ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ آپ کچھ چھپا رہے ہیں؟
میں کیوں چھپاوں بیگم ۔ جاو یہاں سے اور میرا پیچھا چھوڑو ۔ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔
افسری بیگم ہلدی کا لیپ لے آئیں اور بولیں بیٹے سیدھے لیٹ جا۔ میں یہ لگاتی ہوں ابھی آرام ہوجائے گا۔ بہو بیگم تم دودھ میں تھوڑا ہلدی ڈال کر ابال لاو ۔ اس سے یہ سوجن اتر جائے گی ۔ جمیلہ باورچی خانے کے اندر گئی اور جمال لیپ کے لگتے ہی سو گیا ۔ اس بیچ ببلو نے پڑوس میں جاکر اپنے دوست جگو کو سارا ماجراسنادیا جسے اس کے والد آنند شریواستو نے بھی سن لیا ۔
وہ فوراً دوڑ کر کمال صاحب کے پاس آئے اور پرنام کرکے پوچھا انکل یہ جمال بھائی کو کیا ہوگیا ؟ کس درندے نے ان کا یہ حال کردیا ۔
کمال صاحب بولے وہ کہہ رہا تھا کہ کسی نے بس اسٹاپ پر حملہ کردیا ۔
اچھاً لیکن اس نے ایسا مہاپاپ کیوں کیا ؟
جمال نے بتایا کہ وہ تو غریب سمجھ کر مدد کرنے کے لیے گیا تھا مگر اس نامراد ناہنجار نے گھونسوں کی بارش کردی ۔
ارے ! کمال ہے ۔ لگتا ہے چوری چکاری کا چکر ہوگا۔ آج کل لاک ڈاون کی وجہ لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، لوٹ مار بڑھ گئی ۔ کون جانےآگے کیا ہوگا ؟
کمال صاحب بولے لیکن جمال نے تو کہا کہ اس نےروپیہ یا سامان چرانے کی کوشش نہیں کی ۔
شاید اسے موقع نہیں ملا ہوگا۔ خیر کیا وہ حملہ آور بد معاش فرار ہوگیا ؟
جی نہیں اس کوپکڑ پولس کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
یہ بہت اچھا ہوا۔ مقامی تھانیدار میرا دوست ہے۔ میں اس سے ساری حقیقت جان لگا لوں گا اور ایسی سزا دلواوں گا کہ وہ سات جنم تک یاد رکھے گا ۔
جمال نیند سے اٹھا تو بغل والی بلڈنگ سے ڈاکٹراشوک شاہ نے آکر مرہم پٹی کردی اور کچھ گولیاں دے گئے ۔ دوست و احباب کے فون کا تانتہ لگ گیا ۔ ہرکوئی یہی سوال کرتا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا ؟ جمال سب کو دوسرے سوال کا جواب دیتا مجھے نہیں پتہ ۔ اس طرح ایک تحیر پیر پسار رہا تھا۔ کوئی جمال پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن جمال کے پاس ان کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ ان میں سب سے زیادہ بے چینی وکیل شریواستو کو تھی ۔ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا جس میں بلا وجہ کوئی حملہ ہوگیا تھا۔
گھر آکر شریواستو نے پولس تھانے میں فون لگایا اور اردلی سے اپنا تعارف کرا کر کہا کہ انسپکٹر وشواس راو کو فون دے ۔
وشواس راو آواز پہچان کر بولے فرمائیے آنند صاحب لاک ڈاون کے زمانے میں کیسے یاد کیا ؟
شریواستو بولے میں نے ایک چور کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے آپ کو فون کیا ہے جو فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا؟
چور! کون سا چور ؟ شریواستو جی یقین مانیں جب سے کورونا آیا ہے اپنے علاقہ میں چوری کا ایک بھی معاملہ درج نہیں ہوا۔
اچھا ، کل تو میں نے ایک ویڈیو دیکھی کہ ماسک لگا کر اور دستانے پہن کر چوری کی جارہی ہے ۔
ارے شریواستو صاحب وہ اپنی ممبئی کا نہیں بلکہ پونہ کا واقعہ ہے اور چور اپنا چہرہ کورونا کی وجہ سے نہیں چھپاتے اور دستانے وبا کے سبب نہیں پہنتے ۔
اچھا یہ آپ کو کیسے پتہ ؟
کامن سینس وکیل صاحب ۔ آج کل جگہ جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں ۔ آپ نے جووہ ویڈیو دیکھی وہ بھی ایسے ہی ایک پوشیدہ کیمرے کا کمال تھا ۔
لیکن کیمرے کا ماسک سے کیا لینا دینا ؟
ارے بھائی کوئی چور پکڑا جانا نہیں چاہتا اس لیے اپنا چہرہ چھپاتا ہے اور اپنی انگلیوں کا نشان چھپانے کے لیے دستانے پہنتا ہے ۔
یار تب تو چوری کا ڈر کورونا سے زیادہ ہے کیونکہ ایک مستقل اور دوسرا عارضی ہے ۔
جی ہاں لیکن آپ کس چور کی بات کررہے تھے۔
وہی جس کو ابھی دوگھنٹے قبل ٹیگور روڈ چوراہے سے گرفتار کرکے چوکی میں بھیجا گیا۔
اوہو!سمجھ گیا ۰۰۰شریواستو جی وہ چوری کا نہیں بلکہ کوئی معاملہ ہے ۔
اور معاملہ! میں نہیں سمجھا ۔ مجھے تو چوری کی واردات نظر آتی ہے لیکن جمال بھی یہی کہہ رہا ہے اور آپ بھی اس کی تائید کررہے ہیں ۔
جمال کی بات درست ہے لیکن اس کا کیا خیال ہے؟ اس پر کیوں حملہ کیا گیا؟؟
وشواس راو صاحب وشواس کریں وہ کہتا ہے کہ اسے وجہ تو نہیں معلوم لیکن یہ چوری کا معاملہ نہیں ہے ۔
دیکھیے شریواستو صاحب یہ ذرا نازک بات ہے۔ میں نے کمشنر صاحب سے بات کی ہے۔ انہوں نے بھی اس پرخاموشی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے
وہ کیوں؟ ایک آدمی پر جان لیوا حملہ ہوگیا۔ وہ تو خیر جمال اچھا صحتمند آدمی تھا ۔ میرے جیسا دبلا پتلا ہوتا تو بھگوان کو پیارا ہوجاتا ۔
جی ہاں لیکن اگر یہ بات میڈیا میں پھیل جائے تو بدنامی ہوگی اس لیے اسے رفع دفع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تو کیا آپ نے اس بدمعاش کو چھوڑ دیا ہے؟
جی نہیں ، جب تک جمال اجازت نہ دے ہم اس کونہیں چھوڑیں گے۔
ٹھیک ہے اور میں بھی اس کو نہیں چھوڑوں گا۔ جمال میرا بہت اچھا ہم سایہ ہے ۔ میں اس پر ہاتھ اٹھانے والے کو سزا دلا کر رہوں گا۔
آپ کی بات سر آنکھوں پر، مگر یہ تو بتائیے کہ اب جمال کا کیا حال ہے؟
اس کی طبیعت سنبھل رہی ہے۔ ڈاکٹر شاہ کا کہنا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہفتہ دس دن میں پتہ بھی نہیں چلے گا کیا ہوا تھا ۔
ٹھیک ہے تو جب اس کا من کرے آپ مجھے فون کرکے آجائیں ۔ ہم لوگ پولس تھانے میں بات کریں گے ۔
اچھا لیکن تب تک ہم کیا کریں؟
آپ لاک ڈاون میں بند رہیں وہ لاک اپ میں بند رہے گا۔ اسی کے ساتھ فون بند ہوگیا ۔
اس گتھی نے شریواستو کی بے چینی بڑھا دی تھی ۔ وہ جمال اور اس کے گھروالوں سے زیادہ پریشان تھا اور چاہتا تھا کہ جلد ازجلد پولس تھانے میں وشواس راو اور اس بدمعاش سے مل کر اس معمہ کو سلجھائے۔ تین دن بعد جمال قدرے ٹھیک ہوگیا اور شریواستو نے اس کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے تیار کرلیا۔ وہ لوگ پولس تھانے پہنچے تو وشواس راو کو منتظرپایا ۔ اپنے کمرے میں لے جاکروہ جمال سے بولا آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔
شریواستو بیچ میں بول پڑا ۔ صاحب مجھے اس کی وجہ جاننا اور وہ ایف آئی آر دیکھنی ہے ۔ میں جاننا چاہتا ہوں اس پر کون سی دفعات اس پر لگائی گئی ہیں ۔
وشواس راو بولے شریواستو جی دھیرج رکھیے ۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے؟
جمال بولا صاحب مجھے تو صرف وجہ جاننے میں دلچسپی ہے۔ میں تو اس کی مدد کرنے کے لیے گیا تھا ۔
جی ہاں، یہی میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ اس دن کیا ہوا؟
کچھ نہیں۔ میں نے اس کا پچکا ہوا پیٹ دیکھا تو سوچا کہ بھوکا ہوگا ۔ اس لیے اس کو سیب دینے کی پیشکش کی ۔
اچھا تو پھراس کے بعد کیا ہوا؟
اس نے میرا نام پوچھا اور مجھ پر پِل پڑا۔ میں اس غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے بے ہوش ہوگیا ۔
جی ہاں اس نے بھی یہی کہا ہے۔
شریواستو بولے لیکن یہ کیا پاگل پن ہے کہ کوئی مدد کرنے کے لیے آئے تو اس پر ہلہّ بول دیا جائے ۔
یہ سوال میں نے اس سے پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ سیب کے اندر کورونا کا وائرس تھا ۔
یہ سن کر دونوں ہکا بکارہ گئے ۔ کورونا کا وائرس ؟ یہ اس کو کیسے پتہ چل گیا۔جمال نے پوچھا
کیا بتائیں صاحب یہی سوشیل میڈیا کا زہر ۔ اس نے کئی پیغامات اور ویڈیوز دیکھ رکھے تھے جن میں بتایا گیا کہ مسلمان کورونا پھیلا رہے ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ نیند کے اندر خواب میں بھی وہی دیکھ رہا تھا کہ کسی اجنبی نے اس کو جگا کر سیب دے دئیے ۔ نام سن کر اس کا شک یقین میں بدل گیا ۔
جمال کے لیے یہ انکشاف حیرت انگیز تھا لیکن شریواستو خود ایسے پیغامات دیکھ چکے تھے وہ بولے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ زہر اتنا زوداثر ہوگا؟
اب اس کا کیا حال ہے ؟جمال نے سوال کیا ۔
وہ اب اپنی حرکت پر نادم ہے ۔
شریواستو بولے ندامت سے کیا ہوتا ہے ؟ اس کو اپنے کیے کی قرار واقعی سزا بھگتنی پڑے گی۔
وشواس راو بولے ہم بھی اس کو سزا دینا چاہتے ہیں لیکن یہ گزارش ہے کہ اسے ماب لنچنگ کے بجائے صرف مارپیٹ کا معاملہ بنایا جائے تاکہ سرکار کی بدنامی نہ ہو اور فرقہ پرست عناصر اس کا بیجا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
جمال بولا مجھے تو وہ قابلِ رحم لگتا ہے۔ اس بیچارے کا برین واش کیا گیا ہے۔ کیا وہ واقعی نادم ہے۔
وشواس راو نے کہا یہ میرا قیاس ہے ۔ آپ خود اس سے مل کر اس کا فیصلہ کریں ۔آپ چاہیں تو میں اس کو بلوا بھیجوں ۔
جمال بولا جی ہاں اس کو بلوائیے۔ تھوڑی دیر بعد اردلی نے آکر کہا نہال سنگھ نہیں آنا چاہتا ۔ اس کا کہنا ہے مجھے سولی چڑھا دو تب بھی میں نہیں آوں گا۔
وشواس راو نے اٹھتے ہوئے کہا میں اس سے بات کرتا ہوں اور نہال سنگھ کے کوٹھری میں جاکربولے باہر آکر مل لے ۔ وہ بھلا مانس ہے ہاتھ پیر جوڑ تو معاف بھی کرسکتا ہے ورنہ تیری خیر نہیں ہے ۔ پانچ چھے سال تک تو نہ فیصلہ ہوگا اورنہ ضمانت ہوگی ۔ پھر دوچار سال کی جیل ہوجائے گی ۔
نہال بولا جو بھی ہو صاحب میں اس کے سامنے نہیں جاسکتا ۔ کوٹھری کے باہر شریواستو اور جمال یہ گفتگو سن رہے تھے۔
وشواس راو نے کہا پاگل نہ بن ۔ کیوں اپنی جوانی خراب کرتا ہے۔ چل میرے ساتھ ۔ وہ رحمدل انسان لگتا ہے۔
وہ تو ہے لیکن میں ۰۰۰۰۰میں ۰۰۰۰۰کیا میں انسان ہوں ۔ میں انسان نہیں حیوان ہوں ۔
یہ سن کر جمال کی پلکیں نم ہوگئیں ۔ وہ واپس آکر وشواس راو کے کمرے میں بیٹھ گیا کچھ دیر بعد نہال سنگھ بھی سرجھکا کر وہاں پہنچ گیا ۔ جمال نے اس کو دیکھ کر کہا دیکھو نہال غلطی حیوان نہیں کرتا ۔ غلطی انسان سے یا شیطان سے سرزد ہوتی ہے ۔
جی ہاں ۔ شریواستو بولے اس شیطان نے بہت مہا پاپ کیا ہے ۔ اس کو سزا ضرور ملے گی۔
جمال نے کہا نہیں ۔ شیطان اپنی غلطی پر اڑ جاتا ہے اور انسان نادم ہوتا ہے ۔ یہ شیطان نہیں انسان ہے۔
یہ جملہ سن کر نہال آگے بڑھا اور جمال کے قدموں پر گرگیا ۔ اس نے کہا صاحب آپ انسان نہیں بھگوان ہیں ۔
جمال نے اس کا کندھا پکڑ اٹھا یا اور کہا نہیں نہال میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں ۔ انسان کی غلطی انسان معاف کردیتا ہے لیکن دیکھو آئندہ اس راکشس سے بچ کر رہنا جس نے تمہیں شیطان بنانے کی کوشش کی ۔یہ کہہ کر جمال لاک اپ سے نکل کر لاک ڈاون کی جانب چل پڑے۔
———————————————————–