Daman e Yazdaan Chaak a Short Story by Ansari Afzaal Ahmad

Articles

دامنِ یزداں چاک

انصاری افضال احمد

رات کا پچھلا پہر تھا … میرے سامنے نئے افسانے کا ادھورا مسودہ پڑا ہوا تھا ، میں بالوں میں انگلیاں دیئے ہوئے مسلسل مرکزی کردار کے اختتام کے بارے میں سوچ رہا تھا ، بیوی کی بے حیائی، بے وفائی، دوسرے مردوں سے کھلے عام معاشقہ، مرکزی کردار کی بے روزگاری، بے بسی، بیوی کا اچھی تنخواہ پر کام کرنا، گھر میں آفس کے لوگوں کو کام کے بہانے سے لانا اور بے حیائی کرنا… مرکزی کردار کو کیا کرنا چاہیے؟؟ طلاق دے کر دوسری لڑکی تلاش کر لے؟؟ مگر اس سے بھی شاید دل دریدہ زخموں کا مداوا نہ ہو سکے اور یہ تو ایک سیدھا سا اختتام ہوگا، اس میں نہ کوئی کرب آزارافسانوی رنگ ہوگا نہ پڑھنے والے کے لیے کوئی دلچسپی… پھر؟؟؟ پھر کیا کرنا چاہیے اسے؟؟ یہ سوچتے ہوئے میرے ماتھے کی رگیں تن گئیں، مٹھیاں بھنچی ہوئیں اور سانسیں چڑھی ہوئی تھیں پھر اچانک ایک خیال سا ذہن میں آیا… ہاں اسے خودکشی کرنا ہوگی تاکہ انجام افسانوی اور چونکا دینے والا ہو .. اور ویسے بھی موت سے کردار کے سارے دکھوں کا مداوا ہوجاتاہے… موت زندگی کا سب سے بہترین حسن ہے۔موت سارے دکھوں کا اپنے خوبصورت ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر اپنے چاہنے والوں کو رہائی دیتی ہے.. ہاں اسے یقیناً مر ہی جانا چاہیے.. یہ سوچتے ہوئے میں نے آنکھیں موند لیں.. اچانک کچھ آوازوں کے شور سے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا.. کمرا مختلف نوع کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا، ہر طرف پرچھائیاں اور سائے لہرا رہے تھے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے مگر ایک ساتھ آتی ہوئی آوازوں کے سبب میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا .. میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی، جسم سے جیسے پسینے کی دھاریں پھوٹ رہی تھیں، سانسیں تنی ہوئی تھیں ٹیبل لیمپ کی روشنی ہلکی ہلکی سی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اسے شاید روشنی کہنا بھی غلط تھا یہ تو ایک ایسا اندھیرا تھا جسے تھوڑی سے روشنی نے اور گھنا کر دیا تھا…. مسلسل آوازیں جب میری برداشت کے باہر ہونے لگیں تو میں اچانک پھٹ پڑا… “خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ !!!کون ہو تم لوگ؟ اور میرے کمرے میں کیوں گھس آئے ہو ؟ ” میں تم لوگوں کو جانتا تک نہیں” ۔۔ کون ہو تم لوگ”
میرا خاموش ہونا تھا کہ آواز کی بھنبناہٹوں کا شور غالب آگیا. ان میں غصیلی آوازیں بھی تھیں، تکرار اور اضطراب سے بھری آوازیں بھی، کچھ آوازیں خود میں بے انتہا درد سموئے ہوئی تھیں تو کچھ گریہ وزاری کر رہی تھیں… اس مرتبہ میں حلق پھاڑ کر چینخا… “چپ ہو جاو!!… چپ ہوجاؤ!!!… کیوں میری جان کے گاہک بنے ہوئے ہو؟اگر تم لوگ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو تو ایک ایک کر کے مجھ سے بات کرو! ” یہ کہنا تھا کہ کمرے میں دل کو دہلا دینے والا گمبھیر سناٹا چھا گیا اور سایوں کی بھیڑ میں سے ایک سایہ آگے آ گیا.. ” ہاں کہو! کیا کہنا چاہتے ہو؟ اور تم کون ہو یہ بھی مجھے بتاؤ؟؟ ” ” میں کون ہوں؟؟” ایک کھرکھراتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “تم مجھے نہیں جانتے؟ تم نے مجھے زندگی دی، تمہاری ہی مرضی کے مطابق میں نے وہ زندگی گزاری!!اور تم نے ہی مری مرضی کے خلاف مجھ پر موت مسلط کر دی!! جس کہانی میں تم نے مجھے جنم دیا تھا، میں اس کے دوسرے کرداروں سے بے انتہا محبت کرتا تھا! ٹھیک ہے میری بیوی میری بے روزگاری کی وجہ سے مجھے کوستی رہتی تھی، یہ بھی درست ہے کہ میرا لڑکا مجھے ہمیشہ اس بات کا طعنہ دیتا تھا کہ میں نے اسے ایک اچھی اور معیاری زندگی نہیں دی، لیکن کیا تمہیں نہیں معلوم انہیں کرداروں میں میری چھ سال کی ایک بچی تھی.. جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، میں جب گھر آتا تو میرے پیروں سے لپٹ جاتی، اپنی توتلی زبان میں مجھے دن بھر کی معصوم سی باتیں بتاتی، تم اگر میرے اندر جی رہے ہوتے تو تم جان پاتے کہ اس کی محبت ساری نفرتوں پر حاوی تھی، میں اس کے لیے جینا چاہتا تھا، مگر تم……!!.! اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی.. “مگر تم میرے خدا بن بیٹھے، تمھیں تو میری کہانی کا درد بھرا اختتام چاہیے تھا، تا کہ لوگ تمھیں سراہیں.. اور تم نے اپنے لالچ کے چلتے میرے حق میں موت کا فیصلہ سنا دیا، تم نے مجھے خود کشی پر مجبور کر دیا ” ” میں نے مجبور کیا ؟ ” ” ہاں تم نے!! لوگوں نے اسے خودکشی سمجھا ہوگا ! مگر میں جانتا ہوں کہ یہ قتل تھا، اور تم میرے قاتل ہو!! تم ہوتے کون ہو میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے؟ کیا صرف اس لئے کہ تم نے مجھے تخلیق کیا ہے؟ “
” میرے لحاظ سے جو فیصلہ میں نے لکھا تھا ، وہ درست تھا ” میں نے اپنے دفاع کی کمزور سی کوشش کی.. ” اس نے سبھوں کے ساتھ ایک سا برتاؤ کیا ہے ” ایک منمناتی ہوئی آواز میرے کانوں میں آئی اور ایک سایہ بھیڑ سے نکل کر سامنے آ گیا… ” میں ایک عفیفہ تھی، شوہر کی شراب کی لت، اس کی بیماری، بچوں کی کثرت نے مجھے توڑ تو دیا تھا مگر پھر بھی میں اپنے حوصلے کے سہارے ان مصائب کا سامنا کیا مگر میری اس مجبوری اور میری خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر تم نے مجھے کوٹھے پر بٹھا دیا، مجھے جسم فروشی پر مجبور کیا… ” ” میں نے مجبور کیا؟؟” “ہاں تم نے…..!! کیوں کہ تم کہتے ہو ‘چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے۔ اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے۔ تمہارے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ تمہاری ہیروئن چکلے کی ایک طوائف ہو سکتی ہے۔ تمہیں اور تمہارے پڑھنے والوں کو میری مشقت بھری با عزت زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے تم نے مجھے چکلے پر بٹھا دیا، تم نے اگر میرے کردار کو جیا ہوتا، جیسا تمہارا دعوی ہے، تو شاید تم میرے لیے چکلے کا انتخاب نہ کرتے، لیکن تم تو ہمارے خالق ہو تمہیں ہمارے جذبات اور احساسات سے کیا لینا، تمہیں تو صرف اپنی تحریروں پر داد بٹورنی ہوتی ہے، میری عصمت کا سودا کرنے والے تم ہو، تم نے میری دلالی کی ہے، میرے جسم کو فروخت کر کے تم نے دولت، عزت اور شہرت کمائی ہے.
میری جانب اٹھنے والی غلیظ نگاہیں اور میری جانب لپکنے والے ہاتھ تمہارے تھے، تم کیا سمجھتے ہو کہ میری عصمت کے لٹنے کا الزام تم دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاؤ گے؟؟ ”
” سنو! میں نے تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی ہے، مجھے لگا کہ ایسے حالات میں شاید یہی ہونا چاہیے تھا “میں نے دفاع کی ایک کمزور سی کوشش کی…
” یہی ہونا چاہیے تھا؟؟ تم ہوتے کون ہو میرا اگلا قدم طے کرنے والے؟؟ چکلہ اور کوٹھا تم مرد ذات کے دماغوں میں گھسا ہوا ہے، جتنی نجاست اور غلاظت تمہارے دماغوں میں بھری ہوئی ہے اتنی تو ان کوٹھوں پر بھی نہیں ہوتی،بلکہ کوٹھے تو تم لوگوں کے ذہنی بیت الخلاء کا کام کرتے ہیں، جہاں تم اپنی گندگیاں اگل کر معاشرے میں سفید پوش بنے پھرتے ہو.. اچانک ایک پھٹے پھٹے سے سائے نے اس عورت کو پیچھے کیا اور خود آگے آ گیا اور نہایت درد ناک آواز میں چلانے لگا، اس کی شکل میں پہچانتا تھا، میں نے بھی چلّا کر کہا..
“ارے تمہیں تو میں بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں، تم میری آخری کہانی کے کردار تھے، تم جو ایک مذہبی جنونی تھے تم نے ایک بھرے چوک پر خود کو بم سے اڑا لیا تھا اور بے شمار معصوموں کی جان لی تھی “
“میں نے خود کو بم سے اڑایا تھا؟؟؛ ارے میں تو مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والا ایک عام سا نوجوان تھا، جو خود بھی جینا چاہتا تھا اور دوسروں کو بھی جینے دینا چاہتا تھا مگر تم نے میرے جسم ہر بم باندھ کر مجھے بھرے چوک میں اڑا دیا، تم جو کرداروں کے لہو سے اپنی کہانیوں میں رنگ بھرتے ہو، آہوں اور سسکیوں سے اس کا راگ سنوارتے ہو… کیا تمہارے پاس دریائے نیل سے آنے والے امن کے حوالے نہیں تھے؟ کیا تم نے برگد کے نیچے بیٹھے اس شخص کی انسان سے انسان کی محبت کے پیغام کو نہیں سنا جس نے امن اور محبت کے لیے اپنا سب کچھ تیاگ دیا تھا؟ کیا تم تک مردوں کو زندہ کرنے والے کا پیغام امن نہیں پہنچا؟؟ وہ جو مردوں کو زندہ کرکے مسیحائی کرتا تھا اور تم جو زندوں کو مردہ بنانے پر تلے ہوئے ہو.. کیا تمہارے کانوں میں رس گھولتی ہوئی بانسری کی وہ آوازیں نہیں آئیں جس نے جانوروں کو بھی محبت کی ڈور سے باندھ دیا تھا ؟ ہاں تم سنتے بھی تو کیسے سنتے!! تم دیکھتے بھی تو کیسے دیکھتے!! ان میں تمہارے اور تمہارے قارئین کے لیے دلچسپی کہاں تھی!!! تم نے تو ان قوموں سے سیکھا جنھوں نے دنیا کو لکیروں، زاویوں، رنگوں، نسلوں، زبانوں اور دھرموں میں تقسیم کیا، تم بھی تو انہیں کے علم بردار ہو، تمہیں کیا ہوجاتا اگر تم مجھے میرے اصلی کردار میں پیش کر دیتے؟ ہاں شاید تمہاری کہانی کا رنگ چلا جاتا کیونکہ امن کا پرچم بھی سفید ہوتا ہے”…
اچانک سایوں کی بھیڑ میں سے ایک سایہ آگے سرک آیا،اس کی آنکھوں میں موت کا خوف رقص کر رہا تھا اس نے فضا میں مکے لہرائے اور بلند آواز سے کہنے لگا.. “تمہیں تو اس نے انجام تک پہنچا دیا مگر میرا انجام ہونا باقی ہے، میری ادھوری کہانی اس کی میز پر رکھی ہوئی ہے، اور اس نے مجھے میرا انجام نہیں بتایا ہے،لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ میرے لیے بھی موت ہی چنے گا، سن رہے ہو تم؟؟ بتاؤ مجھے تم نے میرے لیے کیا چنا ہے؟؟ “
رفتہ رفتہ میرے سارے کردار سامنے سے ہٹتے چلے گئے، اب میرے سامنے ایک ہی کردار تھا جو مجھ سے سوال کر تھا کہ میں نے اس کے لیے کیا چنا ہے…
” ہاں تم نے صحیح سوچا ہے، موت ہی تمہارے غموں کا مداوا ہے “
” یہ تو تمہارا فیصلہ ہے… قلمکار!..!! تم اپنے حصے کی موت مجھ پر لادنا چاہتے ہو…مگر آج نہیں!! آج قلم وہی ہوگا اور کاغذ بھی وہی اور فیصلہ بھی وہی مگر لکھنے والے ہاتھ اور کردار بدل جائیں گے… ”
رات کا سیاہ اندھیرا چھٹ چکا ہے ، سورج کی پہلی کرن ابھی ابھی اندرداخل ہوئی ہے۔ کلائیوں سے بہنے والے خون نے کاغذ پر پھیلی سیاہی کو مٹاکر ادھوری کہانی کو مکمل کردیا ہے.
————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔