Condolence A Short Story by William Faulkner

Articles

تعزیت

ولیم فاکنر

مس ایمیلی گریرسن کی آخری رسومات کے موقع پر شہر کے تقریباً سبھی لوگ آئے ۔مرد حضرات فوت ہونے والی ایمیلی کا آخری دیدار کرنے کی غرض سے اور خواتین اس کے مکان کو اندر سے دیکھنے کا تجسس لے کر۔دس برس سے مکان کی دیکھ بھال کرنے والا صرف ایک نوکرتھا۔وہ مالی کا کام بھی کرتا اور باورچی کا بھی۔
وہ ایک بڑا ساچوکون مکان تھا،جس پر ایک بار رنگ وروغن چڑھایاگیاتھا۔ساتویں دہائی میں سب سے بہترین ڈیزائن کا انتخاب کرکے اسے تعمیر کیا گیاتھا۔اس پر ایک بڑا سا گنبد ،پچی کاری اور منقش بالکونیاں تھیں۔وہ مکان ساتویں دہائی میں شہر کی سب سے عمدہ سڑک پر تعمیر ہواتھا۔اس کے پڑوس میں باعزت لوگوں کے مکانوں کی جگہ اب گیریج،اور سوت کتائی کی صنعتیں تھیں۔صرف مس ایمبلی کا اکلوتا مکان رہ گیا تھا۔مس ایمیلی کے مزاج کے سامنے کاٹن ویگنوں اور گیسولین پمپوں کی ایک نہ چلی۔وہ مکان بھی سب کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔اور اب مس ایمیلی بھی ان باعزت لوگوں کے درمیان پہنچ گئی تھی جن کی قبریں جیفرسن کی جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی نظربند اور گمنام قبروں کے درمیان ہی تھیں۔وہ قبریں دیودار کے اونچے درختوں سے ڈھکی تھیں۔
مس ایمیلی کی زندگی صدیوں سے جاری رسم،فرض اوراحتیاط کی بہترین مثال تھی۔اس کی زندگی کی اہمیت ۱۸۹۴ء میں اس روز سے بڑھ گئی تھی جس روز شہر کے میئر کرنل سارتورس نے اس کے تمام ٹیکس معاف کردیے تھے۔یہ کرنل سارتورس وہی تھے جنھوں نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ کوئی نیگرو عورت بغیر اسکارف کے سڑک پر دکھائی نہیں دینی چاہئے۔ٹیکس معافی کا حکم اس کے والد کے انتقال کے بعد بھی قائم رہا۔مس ایمیلی کو اگر یہ احساس ہوجاتا کہ اس پر رحم کیا گیا ہے تو وہ اسے کبھی منظور نہیں کرتی۔کرنل سارتورس نے اس کے لیے ایک کہانی گھڑی تھی۔ان کے مطابق مس ایمیلی کے والد نے شہر کی انتظامیہ کو قرض دیا تھا،جسے شہری انتظامیہ لوٹانے کا خواہش مند تھا۔
اس قسم کی کہانی گھڑنا کرنل سارتورس کی پیڑھی اوراعلیٰ دماغ رکھنے والے شخص کے ہی بس کی بات تھی اور کوئی عورت ہی اس طرح کی بات پر یقین کرسکتی تھی۔جب اگلی پیڑھی کے لوگ جدید خیالات لے کر میئر اور مجسٹریٹ بنے،تو انتظامیہ میں کچھ بد گمانی پیداہوئی۔نئے سال کی پہلی تاریخ کو انھوں نے اسے ایک نوٹس بھیجا۔جس میں ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔فروری کا مہینہ آگیا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔انھوں نے اسے اپنے ذاتی خرچ پر شیرف کے دفتر پہنچنے سے متعلق ایک رسمی پیغام ارسال کیا۔اگلے ہفتے میئر نے بذات خود ایک چٹھی لکھی کہ وہ آئے یا پھر اسے لینے کے لیے وہ اپنی کار روانہ کرسکتا ہے۔جواب میں اسے ایک بوسیدہ کاغذ پر پھیکی سیاہی سے مگر خوشخط تحریر میں ایک رقعہ موصول ہوا،جس میں تحریرتھا کہ وہ اب زیادہ تر باہر نہیں نکلتی۔کسی نوٹ کے بنا نوٹس بھی اس کے ساتھ نتھی تھا۔
مجسٹریٹ نے ایک مخصوص میٹنگ طلب کی۔مس ایمیلی کے لیے مقررہ ایک ڈیپوٹیشن نے جاکر دروازے پر دستک دی۔آٹھ دس سال قبل اس نے چینی پینٹنگ کلاس لیناچھوڑدیاتھا۔ تب سے اس مکان میں کوئی مہمان نہیں آیا تھا۔بوڑھا نیگرو انھیں اندھیرے ہال میں لے آیا۔جس میں سے سیڑھیاں اوپری منزل تک جاتی تھیں۔سیڑھیوں پر بھی اندھیرے کی دبیز چادر تنی ہوئی تھی۔ وہاں گردوغبار اورعجیب سی بو قوتِ سامہ سے ٹکرارہی تھی۔نیگرو انھیں’پارلر‘میں لے گیا۔جہاں بھاری بھر کم فرنیچر موجود تھا اور اس پر چمڑا مڑھا ہواتھا۔نیگرو نے کھڑکی کا پردہ سرکادیا۔اب وہ دیکھ سکتے تھے کہ چمڑا پھٹاہوا ہے۔وہ بیٹھ گئے۔اندر داخل ہوتی ہوئی روشنی کی لکیر میں گرد کے ذرات تیررہے تھے۔ فرنیچر پر جمی ہوئی گرد بھی اس میں شامل ہوکر ان کی جانگھوں کے نزدیک آہستگی سے داخل ہوگئی تھی۔آتش دان کے قریب ایک اسٹینڈ رکھا ہواتھا جس پر سونے کا ملمع چڑھا ہوا تھا۔لیکن اس کی چمک ماند پڑگئی تھی۔اس اسٹینڈ پرمس ایمیلی کے والد کی رنگین تصویر رکھی ہوئی تھی۔
مس ایمیلی کے آتے ہی وہ کھڑے ہوگئے۔وہ ایک کالی ،چھوٹے قد کی موٹی عورت تھی۔ اس کے گلے میں سونے کی ایک پتلی زنجیر تھی۔جو کمر تک لمبی تھی اور بیلٹ میں دھنسی ہوئی تھی۔اس کا ماتھا ماندپڑے ہوئے سونے کی طرح تھا۔وہ آبنوس کی چھڑی پر جھکی ہوئی تھی۔ اس کا قد چھوٹا سا تھا لیکن اس میں کچھ خاص بات تھی۔شاید بات یہی تھی کہ کسی دوسرے کا ایسابدن ہوتا تو وہ صرف موٹاپا کہلاتا۔اس کے بدن میں ٹھہرائو تھا۔وہ پھولی ہوئی دکھائی دیتی تھی جیسے کوئی ساکت پانی میں کافی دیر تک ڈوبا ہواہو۔اس کے بدن میں پیلا پن تھا۔
آنے والوں نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔اس دوران اس کی آنکھیں ان کے چہروں پر گھومتی رہیں۔چربی زدہ چہرے پر اس کی آنکھیں کوئلے کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی طرح لگ رہی تھیں۔جیسے وہ ٹکڑے گندھے ہوئے آٹے کے ڈھیر میں دھنسے ہوئے ہوں۔اس نے انھیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔وہ دروازے میں کھڑے کھڑے سنتی رہی۔جو شخص بول رہا تھا پھر وہ لڑکھڑاکر چپ ہوگیا۔انھیں گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دی جو سونے کی زنجیر کی کنارے جڑی ہوئی تھی اور نظر نہیں آرہی تھی۔مس ایمیلی نے سرد اور روکھے لہجے میں کہا،’’جیفرسن میں مجھ پرکوئی ٹیکس نہیں ہے۔کرنل سارتورس مجھے سمجھاچکے ہیں۔تم میں سے اگر کوئی چاہے تو وہ شہری انتظامیہ کے ریکارڈ کودیکھ کر معلوم کرسکتا ہے۔اس طرح تمھیں اطمینان ہوجائے گا۔‘‘
’’ہم ریکارڈ دیکھ چکے ہیں۔ہم شہر کے افسران ہیں،مس ایمیلی!آپ کو شیریف کا دستخط شدہ نوٹس موصول ہواہوگا؟‘‘
’’ہاں،مجھے ایک کاغذ ملا تھا۔‘‘مس ایمیلی نے کہا۔’’شاید وہ سمجھتا ہو اپنے آپ کو شریف ، جیفرسن لیکن مجھے کوئی ٹیکس ادا کرنا نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن دیکھیے اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ہمیں اپنا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کرنل سارتورس سے ملیے۔مجھے جیفرسن میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا ہے۔‘‘
’’لیکن ،مس ایمیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کرنل سارتورس سے ملیے۔(کرنل سارتورس کو فوت ہوئے تقریباًدس برس ہوچکے تھے) مجھے جیفرسن کوکوئی ٹیکس نہیں دینا ہے،ٹاب!‘‘نیگروحاضر ہوا۔
’’ان شریف لوگوں کو باہر کا راستہ دکھائو۔‘‘
اس طرح اس نے انھیں شکست دے دی۔بالکل اسی طرح جیسے بووالے واقعہ سے پہلے وہ تیس برس تک ان کے والدین کو شکست دیتی آئی تھی۔اس کے والد کے انتقال کے دو سال بعد اس کے عاشق کے اسے چھوڑکر چلے جانے کے فوراً بعد کا یہ واقعہ ہے۔اس کے عاشق کے بارے میں ہمیں اعتماد تھا کہ وہ اس سے شادی کرلے گا۔اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ باہر بہت کم جاتی تھی۔عاشق کے چلے جانے کے بعد تو لوگوں نے اسے باہر نکلتے ہی نہیں دیکھا تھا۔کچھ خواتین نے اس کے قریب جانے کی ہمت جٹائی لیکن وہ ان سے ملی نہیں۔اس مکان میں زندگی کی علامت اکلوتا نیگروتھا۔وہ اس وقت خاصا جوان تھا اور بازار کی ٹوکری لیے آتے جاتے دکھائی دیتا تھا۔
’’آخر کیسے ایک آدمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی آدمی باورچی خانہ کی دیکھ بھال کرسکتا ہے؟‘‘ خواتین کہتیں۔اس لیے انھیں کوئی حیرت نہیں ہوئی جب بو تیز ہوگئی۔گھنی آبادی والے علاقے اور قدآور ،طاقت ور گریرسنوں کے درمیان وہ بو ایک دوسری کڑی بن گئی تھی۔
ایک پڑوسی عورت نے اسی سالہ میئر جج اسٹیونس کے حضور شکایت درج کی۔‘‘
’’لیکن اس سلسے میں میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
’’کیوں؟آپ اس سے کہہ نہیں سکتے کہ یہ سب بند کرے۔‘‘اس عورت نے کہا،’’کیا کوئی قانون نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘میئر نے جواب دیا۔
’’ممکن ہے کہ اس کے نیگرو نوکر نے احاطے میں کوئی سانپ یاچوہا ماردیا ہو۔میں اس بارے میں اس سے بات کروں گا۔‘‘اگلے روز اس کے پاس دو مزید شکایتیں درج ہوئیں۔ایک آدمی نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کا اظہار یوں کیا،’’ہمیں در حقیقت اس بارے میں کچھ کرنا ہوگا،’’میئر صاحب!میں مس ایمیلی کو پریشان کرنا نہیں چاہتا۔ہمارے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘
اس رات ججوں کی میٹنگ ہوئی۔وہ چار لوگ تھے،تین بوڑھے اور ایک نوجوان،جو نئی پیڑھی کا نمائندہ تھا۔
’’سیدھی سی بات ہے۔‘‘اس نے کہا،’’مس ایمیلی کو پیغام بھیجیں کہ وہ اپنی جگہ صاف کرادے۔ اس کام کے لیے وقت کا تعین کردیا جائے اور اگر اس دوران یہ کام نہیں کرواتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا بکواس کررہے ہیں جناب!‘‘جج اسٹیونس نے کہا،’’کیا تم عورت کی یہ کہہ کر بے عزتی کروگے کہ اس کے چہرے سے بدبو آتی ہے۔‘‘
اس لیے اگلی رات،آدھی رات کے بعد چار آدمی دبے پائوں مس ایمیلی کے لان میں داخل ہوئے۔دیواروں کے نیچے اور تہہ خانے کے دروازوں کو سونگھتے ہوئے انھوں نے چکر لگایا۔ اس دوران ان میں سے ایک آدمی اپنے کندھے پر لٹکے ہوئے جھولے سے فرش پر کوئی چیز چھڑکتا جارہا تھا جیسے کھیت میں بیج بورہا ہو۔انھوں نے تہہ خانوں کے دروازے کھولے اور اندر چونا چھڑک دیا۔ مکان کے چاروں طرف انھوں نے یہی کیا۔لوٹتے وقت جب وہ لان کو پار کررہے تھے،ہمیشہ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی کھڑکی پراجالا ہوا۔مس ایمیلی وہاں تن کر بیٹھی تھی۔پیچھے سے آرہے اجالے میں اس کا بدن بت کی طرح ساکت لگ رہا تھا۔وہ لوگ چپ چاپ لان پر رینگتے ہوئے باہر سڑک پر نکل آئے۔جہاں اڑتی ہوئی ٹڈیوں کا سایہ ان پر پڑرہاتھا۔دوتین روز کے بعد بوآنا بند ہوگئی تھی۔اس واقعے کے بعد لوگ اس کے حالات سن کر دکھی ہوئے۔ہمارے شہر کے لوگ یاد کرتے تھے کہ کیسے اس کی عظیم چاچی بوڑھی ویاٹ اپنی زندگی کے آخری ایا م میں پوری طرح پاگل ہوگئی تھی۔ان کا ماننا تھا کہ گریرمنوں نے کبھی بھی اپنا قد نیچا نہیں کیااور وہ اس عظمت کے مستحق بھی تھے۔کوئی بھی جوان آدمی مس ایمیلی کے قابل نہیں تھااور ہوتا بھی کیسے؟
ہم کئی بار ایک تخئیلی منظر کو یاد کرتے۔جیسے وہ ’ئیبے لیوں‘ہو۔پسِ منظر میں سفید لباس میں لپٹی ایک نازک سی مس ایمیلی ہے،آگے اس کے والد کھڑے ہیں،اندھیرے میں ایک کرخت شکل ابھررہی ہے۔ان کی پیٹھ مس ایمیلی کی طرف ہے اور ان کے ہاتھوں میں چابک ہے۔وہ دونوں پیچھے کی جانب کھلنے والے دروازے کی درمیان جیسے فریم ہوگئے ہوں۔اس لیے تیس سال کی عمر ہونے کے بعد بھی اس کی تنہائی سے ہم سب اداس رہتے تھے۔اور کچھ کرنا چاہتے تھے۔اپنی چاچی کے پاگل پن کی وجہ سے وہ بہترین موقع گنوانہیں سکتی تھی۔لیکن ایسے مواقع آئے ہی نہیں۔
سننے میںآیا کہ اس کے والد کی موت کے بعد مکان اسی حالت میں مل گیا ہے۔اس سے لوگوں کو خوشی ہوئی۔آخر کار وہ مس ایمیلی کے لیے ہمدردی تو جتاسکتے تھے۔اب وہ اکیلی ہی اس حقیقی دنیا میں رہ گئی تھی۔اس کے والد کے انتقال سے ایک روز بعد سبھی عورتیں اس کے پاس گئیں اور اس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔اور اس کی مدد کی جیسا کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔مس ایمیلی ان سے دروازے پر ملی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے وہی کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔چہرہ غم اور افسوس سے عاری تھا۔اس نے بتایا کہ اس کے والد مرے نہیں ہیں۔تین دنوں تک وہ اسی بات پر اڑی رہی۔ اس دوران وزیروں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی اور ڈاکٹروں نے اسے لاش کی جانچ کرنے کے لیے کہا۔قانون اور طاقت کا استعمال ہونے سے قبل ہی وہ مان گئی اور انھوں نے اس کے والد کوجس قدر ممکن تھا دفن کردیا۔
ہم یہ تونہیں کہتے کہ اس وقت وہ پاگل تھی۔ہم جانتے تھے کہ ایسی حرکت تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ہمیں وہ سارے جوان یادآئے جنھیں اس کے والد نے بھگادیاتھا۔ایسی حالت میں جب کچھ بھی نہیں بچا تھا،اسے اپنے والد سے وفاداری کا اظہار تو کرنا ہی تھا جس نے اس کے ساتھ دھوکہ دیا تھا اور لوگ چاہتے بھی یہی تھے۔
وہ طویل عرصے تک بیمار رہی۔ہم نے اسے دوبارہ دیکھا،اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔وہ کسی دوشیزہ سی لگ رہی تھی۔ایک نظر میں وہ چرچ کی رنگین کھڑکیوں میں جڑی پریوں کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔
شہر میں فٹ پاتھوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے دیے جاچکے تھے۔اور گرمیوں میں اس کے والد کی موت کے بعد کام شروع ہوگیاتھا۔تعمیراتی کمپنی،نیگروں،خچروں اورمشینوں کے ساتھ وارد ہوگئی تھی۔ اس میں امریکہ کا رہنے والا فورمین ہومر بیٹن بھی تھا۔وہ سیاہ فام اور چست آدمی تھا۔اس کی آواز اونچی اور آنکھیں چہرے سے زیادہ ہلکی تھیں۔چھوٹے بچوں کی ایک ٹولی اس بھیڑ کے آگے پیچھے چلتی ۔ وہ ان گالیوں کو سنتے جو فورمین نیگروں کو دیتا تھا۔وہ پھاوڑے ،کدال چلاتے نیگروں کا گیت بھی سنتے۔ جلد ہی فورمین ہومر بیٹن کی سب سے پہچان ہوگئی۔کسی چوراہے میں کھڑے لوگوں کی قہقہے کی آوازیں گونجتیں۔اس سے پتہ چل جاتا کہ وہاں فورمین موجود ہوگا۔حال ہی کی بات تھی۔ہم نے دیکھا کہ وہ اور مس ایمیلی پیلے رنگ کی پہیوں والی بگھی میں بیٹھ کر اتوار کی دوپہر میں گھومنے نکلتے۔بگھی میں جتے ہوئے دونوں گھوڑوں کا رنگ لال بھورا تھا۔دونوں گھوڑے کافی چست تھے۔
پہلے ہم خوش ہوئے کہ چلو اب مس ایمیلی کا دل بہل جائے گا۔کیوں کہ سبھی عورتیں کہتیں، ’’گریرسن کی یقینی طور پر شامی علاقے کے رہنے والے ایک مزدور سے دوستی اچھی رہے گی۔‘‘لیکن اور بھی تو لوگ تھے،جیسے بوڑھے۔وہ کہتے کہ ایک خاندانی عورت کے لیے غم اتنی بڑی وجہ نہیں کہ وہ اپنی تہذیب کو بھول جائے۔حالانکہ یہ بات انھوں نے لفظـ’تہذیب‘کے بنا ادا کی تھی۔انھوں نے صرف یہی کہا،’’بیچاری ایمیلی‘‘اس کے رشتہ داروں کو یہاں آنا چاہئے۔‘‘
البامہ میں اس کی کوئی رشتہ دار تھی،لیکن برسوں پہلے پاگل اور بوڑھی ویاٹ کی جائیداد کے معاملے میں ان بن ہوگئی تھی۔اور دو خاندانوں کے درمیان تب سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔اس خاندان سے آخری رسومات کی ادائیگی کے وقت کوئی شریک بھی نہیں ہوا تھا،اور جیسے ہی بوڑھے لوگوں نے کہا،بے چاری ایمیلی ،کانا پھوسی شروع ہوگئی۔’’کیا تمہارے خیال میں یہی حقیقت ہے؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے کہتے تھے،’’یقینی طور پر ایسا ہی ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘اتوار کی دوپہر کی دھوپ کی وجہ سے کھڑکیوں پر پردے ڈالے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ریشم اور ساٹن کا کپڑالے کر بیٹھے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کپڑوں کی سرسراہٹ سنی جاسکتی تھی۔سڑک پر بگھی کی آواز اور گھوڑوں کے دلکی چال کی آواز گونجتی تھی۔’’بے چاری ایمیلی!‘‘
مس ایمیلی اپنی گردن کو تان کر چلتی تھی۔اس وقت بھی ہم سوچتے تھے کہ اسے محبت ہوگئی ہے۔جیسا کہ وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ قابل احترام بننا چاہ رہی ہو۔یاپھر وہ اس بارے میں یہ ظاہر کرنا چاہتی ہوکہ اسے سمجھنا بے حد مشکل ہے۔جیسا کہ وہ ایک مرتبہ آرسینک خرید لائی جو چوہوں کا زہر ہوتا ہے۔لوگوں کے’’بے چاری ایمیلی‘‘کہنے کے ایک سال سے اوپر ہوجانے کے بعد کا یہ واقعہ تھا۔اسی دوران اس کی دو رشتہ دار آئی ہوئی تھیں۔
’’میں کوئی زہر چاہتی ہوں۔‘‘اس نے کیمسٹ سے کہا۔تب وہ تیس سال کے آس پاس کی ایک کمزور عورت تھی۔پہلے سے بھی زیادہ دبلی۔اس کی آنکھیں کالی اورسرد ہوگئی تھیں۔چہرے کی چربی کانوں کے اوپری کناروں اور آنکھوں کے گڑھوں تک کھنچ آئی تھی۔لائٹ ہائوس کی دیکھ ریکھ کرنے والے کا چہرہ جیسے ہوسکتا ہے،ویسا ہی مس ایمیلی کا چہرہ تھا۔
’’میں کوئی زہر چاہتی ہوں۔‘‘اس نے کیمسٹ سے دوبارہ کہا۔
’’ضرور مس ایمیلی،کیا چاہئے؟چوہوں کا یا کوئی اور؟میں چاہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تمہارے پاس جو سب سے بہتر ہو۔وہ دے دو۔اس کے اقسام کی میں پرواہ نہیں کرتی۔‘‘
کیمسٹ نے بہت سے نام گنوائے۔’’وہ کسی بھی چیز کو ختم کرسکتا ہے،یہاں تک کہ ہاتھی کو بھی ۔لیکن آپ کو جوچاہئے،اس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آرسینک،‘‘مس ایمیلی نے کہا،’’کیا یہ بہتر ہے؟‘‘
’’کیا،آرسینک ؟جی ہاں میڈم!لیکن آپ کو جو چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مجھے آرسینک ہی چاہئے۔‘‘
کیمسٹ نے اسے سرتاپیر دیکھا۔اس نے بھی اسے پلٹ کردیکھا۔وہ بالکل مطمئن کھڑی تھی۔اس کا چہرہ تنے ہوئے جھنڈے کی طرح لگتا تھا۔’’کیوں،آخر کیوں؟‘‘کیمسٹ نے کہا۔’’مانا کہ آپ کو یہی چاہئے،لیکن قانون کے لحاظ سے آپ کو بتانا پڑے گا کہ اس کا استعمال آپ کس طرح کریں گی؟‘‘
مس ایمیلی اسے بس گھورتی رہی۔اس کا سر تھوڑا سا پیچھے جھک گیا۔تاکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔وہ دوسری طرف دیکھنے لگا اور مڑا۔اس نے آرسینک نکالا اور پیک کردیا۔کائونٹر پر سامان رکھنے والے نیگرولڑکے نے یہ پیکٹ لاکر دیا۔کیمسٹ لوٹ کر نہیں آیا۔گھر پر مس ایمیلی نے پیکٹ کھولا۔ڈبے پر ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کی تصویر کے نیچے لکھا تھا،’’چوہوں کے لیے۔‘‘
اس لیے اگلے روز ہم سب نے کہا،’’وہ خود کو ختم کرلے گی۔‘‘اور پھر ہم نے سوچا کہ یہی سب سے اچھا رہے گا۔ ہومر بیٹن کے ساتھ جب وہ پہلے پہل دیکھی گئی تھی۔ہم نے کہا،’’وہ اس سے شادی کرلے گی‘‘۔پھر ہم نے کہا،’’وہ ابھی اسے اور بھی پریشان کرے گی۔‘‘کیوں کہ ہومر نے خود کہا تھا کہ وہ آدمیوں کو پسند کرتا ہے۔اور سب کو پتہ تھا کہ اس نے ایلکو کے کلب میں لڑکوں کے ساتھ شراب پی تھی۔شاید نشے کی حالت میں وہ کہہ گیا تھا،کہ وہ شادی کرنے والاآدمی نہیں ہے۔
بعد میں اتوار کی دوپہر میں چمکتی ہوئی بگھی میں بیٹھ کر سڑک سے گزرتے ہوئے ہم سب نے پردوں کے پیچھے سے دیکھا اور کہا،’’بے چاری ایمیلی۔‘‘مس ایمیلی کا سر اونچا اور تنا ہوا تھا اور ہومر بیٹن اپنی کلغی والی ٹوپی پہنے ،دانتوں میں سگار ،پیلے دستانے ،ہاتھوں میں لگام اور چابک دبائے ہوئے۔
تب کچھ کچھ عورتوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ شہر والوں کی بے عزتی کا معاملہ ہے اور نوجوانوں پر اس کا برا اثر پڑے گا۔آدمی اس معاملے میں دخل اندازی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن عورتوں نے بیسپٹ منسٹر(ایمیلی کے لوگ ایپس کوپال تھے)کو مس ایمیلی سے بات کرنے کے لیے مجبور کیا۔اس بات چیت کے دوران کیا کچھ ہوا یہ راز اس منسٹر نے کبھی نہیں کھولا۔لیکن اس نے وہاں دوبارہ جانے سے انکار کردیاتھا۔اگلے اتوار کو مس ایمیلی اور ہومر بیٹن پھر سڑک پر دکھائی دیئے اور اس کے اگلے روز منسٹر کی بیوی نے البامہ میں مس ایمیلی کے رشتہ داروں کو خط روانہ کیا۔
اس طرح اس کے رشتے کی بہنیں پھر ایک بار پہنچ گئیں اور ہم انتظار کرنے لگے کہ اب آگے کیا ہوتا ہے؟پہلے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔تب ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ شادی کرنے والے ہیں۔ہمیں پتہ چلا کہ مس ایمیلی جوہری کی دکان میں گئی تھی اور اس نے سنگھار کے لیے چاندی کا سیٹ خریدا تھا جس کی ہر چیز پر اس نے ایچ بی کھدوایا۔دو دن بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ ان سب کپڑوں کو خرید لائی جو آدمی پہنتے ہیں۔ان میں نائٹ شرٹ بھی تھا۔اور ہم نے کہا،’’وہ شادی کرچکے ہیں۔‘‘ہمیں خوشی ہوئی تھی۔کیوں کہ رشتے کی دونوں بہنیں مس ایمیلی سے کچھ زیادہ ہی گریرسن ثابت ہوئی تھی۔
اس لیے ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔جب ہومر بیٹن سڑکیں بن جانے کے بعد چلا گیا تھا۔ ہمیں ذرا سی مایوسی ہوئی۔لیکن کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ہم نے سوچا شاید وہ مس ایمیلی کو وہاں لے جانے کی تیاری کے لیے پہلے خود چلاگیا ہوگا۔یا پھر رشتے کی بہنوں نے اسے چھٹکاراپانے کا ایک موقع دیا ہوگا۔(اس کے بعد لوگوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔جس میں ان بہنوں کو گھیرنے کا منصوبہ بنایا گیا جیسا کہ ہم سب مس ایمیلی کے خیرخواہ تھے)وہ دونوں ایک ہفتے بعد لوٹ گئیں۔جو کہ طے شدہ تھا۔ اور جیسا کہ ہم اندازہ لگا رہے تھے،ہومر بیٹن شہر واپس آگیا۔ایک پڑوسی نے شام کے دھندلکے میں نیگرو کو اس کے لیے باورچی خانے کا دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا۔
اور اس طرح ہم نے اس وقت آخری بار مس ایمیلی اور ہومر بیٹن کو دیکھا۔نیگروبازار کی ٹوکری لیے آتا جاتا،لیکن اصل دروازہ بند ہی رہتا۔کبھی کبھار چند لمحوں کے لیے ایمیلی کو ہم کھڑکی کے پاس دیکھ لیتے۔جس طرح سے کہ وہ تب دکھائی دی تھی جب چوناچھڑکنے کے لیے وہاں کچھ لوگ گئے تھے۔تقریباً چھ مہینوں تک وہ سڑک پر دکھائی نہیں دی۔پھر ہمیں محسوس ہوا کہ یہ بھی تو فطری بات تھی، اس کے والد کی وجہ سے اس کی زندگی میں کئی بار روڑے اٹکائے گئے اور وہ اس طرح بھیانک تھے کہ موت بھی آنے سے کتراتی تھی۔
اگلی بار جب مس ایمیلی دکھائی دی تو وہ موٹی ہوگئی تھی۔اور اس کے بال پک گئے تھے۔ آگے کچھ سالوں کے بعد بال پک کر سلیٹی ہوگئے تھے اور مڑنے لگے تھے۔آخر میں جب وہ مڑنا بند ہوگئے تو ان کا رنگ جگہ جگہ گہرا سلیٹی ہوگیا۔چوہتر برس کی عمر میں جب اس کی موت ہوئی تب بھی وہ بال کسی زندہ انسان کے بالوں کی طرح گہرے سلیٹی ہی تھے۔
تب سے اس کے گھر کا دروازہ بند رہا۔ان چھ سات برس کو چھوڑکر جس وقت وہ چالیس کے آس پاس تھی اور چینی پینٹنگ کی کلاس لیتی تھی۔نیچے کے کمروں میں سے ایک کو اس نے اسٹوڈیو میں تبدیل کرلیا تھا۔کرنل سارتورس کے ہم عصروں کی بیٹیاں اور پوتیاں پابندی کے ساتھ اس کی کلاس میں روانہ کی جاتیں۔اسی دوران اس کے سارے ٹیکس معاف کردیے گئے تھے۔
پھر نئی پیڑھی نے شہر کا انتظام سنبھالا۔اس وقت تک یہ نسل پینٹنگ سے دور ہوچکی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچوں کو رنگ ڈبوں اور اکتادینے والے برشوں سے دور کردیا۔اور اس کے پاس بھیجنا بند کردیا۔تب سے سامنے کا دروازہ بند تھا،اور بند ہی رہا۔جب شہر میں مفت ڈاک تقسیم کرنے کا نظام رائج ہوا تب اکیلے مس ایمیلی نے اپنے دروازے پر دھات کے بنے باکس لگانے سے منع کردیا۔وہ کسی کی بات سنتی ہی نہیں تھی۔
دن بدن،ماہ در ماہ،سال در سال ہم نے نیگرو کو بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھا اور خمیدہ کمر دیکھتے رہے۔ وہ بازار کی ٹوکری لیے آتا جاتا۔ہر دسمبر کو ہم مس ایمیلی کے نام ٹیکس کا نوٹس روانہ کرتے جو ڈاک کے ذریعے واپس آجاتا۔کبھی کبھار ہم اسے زینے کی کھڑکیوں میں دیکھ لیتے وہ کسی مجسمے کی طرح نظر آتی۔ایسا لگتا کہ وہ ہماری طرف دیکھ رہی ہے یا نہیں بھی۔طے کرنا مشکل تھا۔اس نے مکان کی اوپری منزل پر کنڈی چڑھا دی تھی۔اس طرح نسل در نسل سب کے ساتھ چلتی رہی۔ پیاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت کرنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ضدی۔
اور اس طرح اس کی موت ہوگئی۔پرچھائیوں اور گرد سے اٹے مکان میں وہ بیمار پڑی ۔ اسے دیکھنے والااکلوتا شخص لزرتا کانپتا نیگرو تھا۔ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ بیمار تھی۔ہم نے نیگرو سے معلومات حاصل کرنا بہت دنوں سے چھوڑدیاتھا۔وہ بھی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ممکن ہے مس ایمیلی سے بھی نہیں۔کیوں کہ اس کی آواز کرخت ہوگئی تھی اور زنگ آلود ہوگئی تھی۔جیسا کہ اس کا غلط استعمال ہواہو۔
مس ایمیلی نے نیچے کے ایک کمرے میں رکھے اخروٹ کی لکڑی کے بھاری پلنگ پر آخری سانس لی۔اس پلنگ پر پردے لگے ہوئے تھے۔اس کا سلیٹی سر اس تکیے پرپڑا تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ اور سورج کی مناسب روشنی نہ ملنے کے سبب پیلا اور گندا ہوگیا تھا۔
وہاں سب سے پہلے پہنچنے والی عورتوں کو نیگرو سامنے والے دروازے پر ملا۔ اس نے انھیں اندر آنے دیا۔ان کی آوازیں گھٹی گھٹی نکل رہی تھیں۔وہ جلدی جلدی اور تجسس سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔انھیں اندر پہنچانے کے بعد نیگرو غائب ہوگیا۔وہ سیدھا مکان کے اندر گیا اور پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔دوبارہ وہ دکھائی نہیں دیا۔
رشتے کی دونوں بہنیں جلد ہی پہنچ گئیں۔انھوں نے دوسرے روز آخری رسومات ادا کیں۔ پھولوں کے ڈھیر کے نیچے پڑی مس ایمیلی کو دیکھنے سارا شہر امڈ پڑاتھا۔تابوت کے پاس اسٹینڈ پر اس کے والد کا رنگین چہرہ فکر میں ڈوبا ہوا نظرا آرہا تھا۔عورتیں ماتم کررہی تھیں اور وہ عجیب لگ رہی تھیں۔کچھ بے حد بوڑھے لوگ پورچ اور برآمدے میں کھڑے تھے۔ان میں سے کئی اپنا ماتمی لباس پہنے ہوئے تھے۔وہ مس ایمیلی کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔جیسے وہ ان کی ہم عصر رہی ہو۔وہ اس طرح ظاہر کررہے تھے جیسے انھوں نے اس کے ساتھ رقص کیا ہو یا پھر اس سے شادی کی پیشکش کی ہو۔وہ وقت کے احتساب میں کئی غلطیاں کررہے تھے جیسا کہ اکثر بوڑھے کرتے ہیں۔ جن کے لیے ماضی کوئی ختم ہو نے والی سڑک نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھاس کا میدان ہے جسے سردی کبھی چھوبھی نہ پائے۔اس ماضی سے انھیں الگ کرکے رکھ دیا گیاتھا۔
ہمیں پہلے سے ہی علم تھا کہ سیڑھیوں کے اوپر وہاں ایک کمرہ ہے جسے چالیس برس سے کوئی نہیں دیکھ پایا تھا اور جسے اب کھلنا ہی تھا۔لوگوں نے اسے کمرے سے پہلے مس ایمیلی کی تدفین تک انتظار کیا۔
دروازہ توڑنے سے شوروغوغہ ہورہا تھا۔اسے توڑنے کی وجہ سے کمرے میں گرد و غبار اڑنے لگاتھا۔گرد کی ایک مہین تہہ جیسا کہ کسی مزار پر پڑی ہوتی ہے اس کمرے کی ہر ایک چیزپر جمی ہوئی تھی۔یہ کمرہ اس طرح سجا دھجا تھا جیسے کوئی شادی کا جشن ہو۔چاروں طرف دھول کی حکمرانی تھی۔ گلاب کی اڑی ہوئی رنگت والے جھالر دار پردوں پر،اسی رنگت کی روشنی پر،سنگھار دان پر، کرسٹل کے مجسمے پر اور چاندی کے زیورات پر،جن کی پالش ماند پڑچکی تھی۔یہاں تک کہ چاندی کا مونوگرام بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ان چیزوںکے درمیان ایک کالر اور ٹائی بھی پڑی ہوئی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ انھیں تھوڑی ہی دیر قبل ہٹایا گیا ہے۔ انھیں جب اٹھایا گیا تو اس جگہ جمی ہوئی گرد سے آدھے چاند کی تصویر بن گئی تھی۔کرسی پر سوٹ لٹکا ہوا تھا،اچھی طرح تہہ کیاہوا۔ کرسی کے نیچے ایک جوڑی ہلکے جوتے اور الگ پڑے ہوئے موزے تھے۔
آدمی خود بستر پر لیٹا تھا۔
کافی دیر تک ہم حواس باختہ کھڑے رہے۔انتہائی گہری اور زندگی سے معمور مسکان پر نظر گڑائے۔یہ بات طے تھی کہ وہ کسی کو بانہوں میں بھرنے والی حالت میں پڑاتھا۔لیکن اب اسے ابدی نیند نے جالیا تھا۔جو محبت سے بھی زیادہ ثبات رکھتی تھی اور اس کے انکار کو بھی پیچھے چھوڑسکتی تھی۔ جو کچھ بھی اس کے ختم ہوچکے بدن اور گائون میں بچا تھا وہ اس بستر سے بری طرح چپک گیا تھا جس پر وہ لیٹا تھااور اس کے اوپر اور اس کی بغل میں پڑے تکیے کے اوپر انتظارکے گرد وغبار کی دبیز تہہ جم گئی تھی۔پھر ہماری نظر دوسرے تکیے پر کسی کے سر رکھنے سے بنے گڑھے پر پڑی۔ہم میں سے کسی نے اس تکیے سے کچھ اٹھایا اور ہم سب آگے بڑھ کر اسے دیکھنے کے لیے جھکے۔وہ ایک لمبا،گہرے سلیٹی رنگ کا بال تھا جو بے جان تھا اور دھول سے اٹا ہوا۔اس سے تیز بو آرہی تھی۔
٭٭٭

ولیم فاکنر ۱۸۹۷ء میں مسیسیپی ،امریکہ میںپیدا ہوئے اور ۱۹۶۱ء میں انتقال فرمایا۔ انہیں ۱۹۴۹ء میں نوبل انعام دیا گیا۔انھوں نے زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا تھا۔وہ مختلف کاموں سے وابستہ رہے۔فوجی بنے،کتابوں کی دکان میں نوکری کی،پوسٹ ماسٹر رہے ساتھ ہی بڑھئی کا کام بھی کیا۔گھروں میں رنگ و روغن کرتے رہے۔کچھ عرصے تک ہالی ووڈ کی فلموں کے اسکرپٹ بھی قلمبند کرتے رہے۔ ’’سینکچوری‘‘ناول پر انہیں نوبل سے نوازا گیا۔ان کی تصانیف میں دَ ماربل فان،سولجرس پے،مسکیو روز، دَ سائونڈاینڈ فیوری،سارٹریج،ایچ آئی لے ڈائنگ،لائن اِن اگست،دَ آن وین کوشڈ وغیرہ ہیں۔