Bharpai a Hindi Story by Rata Shuk’l

Articles

بھرپائی

رتا شکل

 

وقت کی دھند کو چیرتا ہوا وہ سیاہ آبنوسی چہرہ نہ جانے کیوں باربار سروجنی کے ذہن میں دہکتا ہوا سوال بن کر اٹک جارہاتھا،’’ببونی ہو،ہمار کو بھُلاگئی لو؟‘‘
ملکی محلہ کے جلال الدین میاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھویں جماعت میں سروجنی کو اسکول کا منہ دیکھنا نصیب ہوا تھا،تب پورے گھر کے لوگ جمع ہوئے تھے۔حقّے کی پیچوان سنبھالتے پہلوان دادا جی،چوبیس گھنٹے بابوجی کے ساتھ دالان میں بیٹھ کر دونوں ٹانگیں ہلاتے،سرگوشیاں کرتے شینچر ماما،سپاری کے باریک ٹکڑوں کو سروتے سے کاٹنے کا جھوٹ موٹ سوانگ کرتی کرخدار آواز والی بینگا بوا اور دور رسوئی گھر میں چکلے بیلن کی کھٹ پٹ ،پتیلی کی کھدبد کے ساتھ اپنے آپ میں کھوئی ہوئی سزا یافتہ قیدی کی شکل میں بیٹھی اماںکی وہ فریادی شبیہ۔’’بچی تیری قسمت میں اسکول کی پڑھائی ہوگی تو بڑے میاں کا دل پسیجے گا ضرور! ہم نے مہاویر جی کو چونّی کا پرساد بھاکھ دیاہے۔‘‘
شچی نواس ماما جب دیکھو تب شنی کی ساڑھے ساتی بن کر اس گھر میں براجمان رہتے۔’’لو بھلا،ہمارے پاہُن جی تو ٹھہرے میش راشی کے۔اب انہیں کیا پتہ،بڑھتی عمر کی چھوکریوں کو منہ زور گھوڑیوں کی طرح لگام کیسے دی جاتی ہے۔ہماری چارچار بیٹیاں ہیں،مجال ہے جو کوئی کسی بات کے لیے منہ کھولنے کی جرأت کرے۔‘‘
بینگا بوا کو نیہر روگ تھا۔اماں کے پرانوں میں انہیں دیکھتے ہی ڈرکی جھرجھری سماجاتی۔ ’’جب دیکھو تب ڈولچی لیے باپ کی چوکھٹ پر حاضر!رام جانے ان کا آدمی،مرد مانس ہے یا بالکل زنخہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینگا بواکا ہٹلری انداز کیا کمال کا ہوا کرتاتھا۔آتے ہی پورے گھر کا رائی رتی معائنہ۔ ’’بڑکی کی تین تین فراکیں ہیں۔اب سال بھرتو اس کے کپڑے لتے کا نام مت لینا۔منجھلی کے لیے نئی ہوائی چپل؟ باپ کی کمائی فالتو ہوئی ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوٹی کی سا نس چل رہی ہے تو اس میں بڑے اسپتال کے ڈاگڈر کی کیا ضرورت ہے؟پیاز کا رس شہد میں گھول کر چٹادو۔رگھو کے لیے اسکول کی دو قمیض کافی ہیں۔نئی کتابیں کیوں بھلا؟پڑوس کے لڑکے دھیرو سے مانگ کر پڑھ لے گا نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اماں کی طرف سے ذرا بھی غلطی ہوجائے تو پہلوان دادا کے دالان میں فوراً سے پیشتر پیشی ہوتی،’’بینگا نے سب بتایا ہے،خوب فضول خرچی ہورہی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!شیو جتن چودھری نے ٹریکٹر میں بھرکراناج بھجوادیا ہے کیا؟خبردار،گن کر روٹیاں بنائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بھی فالتوروٹی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہی تو کمانے والا ہے ہمارا بچوا اور مت بھمبا کی طرح چھ چھ بیٹیاں۔‘‘
ایسی گھنگھور کھینچاتانی میں اماں کے بجرنگ بلی نے سچ مچ اپنا اثر دکھایا تھا،’’تو پڑھنا چاہتی ہے؟‘‘
’’اری او سروجنی نائیڈو کی اوتار،ہم تجھی سے پوچھ رہے ہیں۔‘‘بینگا بوا کی زبان پر سرسوتی براجی تھی۔چھوکری سچ مچ دماغ والی ہے اور رام کی دیاسے اپنے علاقے میں لڑکیوں کا اسکول کھل گیا ہے۔ مگر، یہ اتنی دور جائے گی کیسے؟‘‘
سروجنی نے فوراً جواب دینے کی گستاخی کرڈالی تھی،’’چتھرو چودھری،پھینکن سنگھ، امیبا چاچا سب کی لڑکیاں ٹولی بنا کر پیدل ہی تو جاتی ہیں۔ہم بھی انہیں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سامنے بیٹھے بزرگ غرّا اُٹھے تھے،’’چتھرو،بھینکن،امیبا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کل کو یہ کہوگی کہ وہ چھوکریاں نٹوا ناچ دیکھنے جاتی ہیں سو ہم بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینگا بوا کی کنجی آنکھوں کا قرضدار ہونا پڑاتھا سروجنی کو۔’’ارے نہیں بابوجی،اپنے ملکی محلے کا جلال الدین ہے نا،اس نے ٹم ٹم بیچ کر رکشہ خریدلیا ہے۔کل ہی تو اسٹیشن پر ملاتھا۔ہماری رائے ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘
جلال الدین کو طلب کیا گیا تھا۔کوئلے سے بھی زیادہ کالی رنگت والے جلال الدین کی چندھیائی ہوئی آنکھوں میں انوکھی کسک تھی۔’’ببونی خاطر فکر مت کریں سرکار۔آنکھ کی پُتلی ایسن حفاظت سے مدرسہ لے جائب لے آئب۔‘‘
نویں جماعت سے لے کر میٹرک تک کے وہ دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
جلال الدین چاچا کا چارخانے والا مٹ میلا گمچھا پھاٹک کے اس پار لہراتا۔رکشہ کی ٹن ٹن گھنٹی سنائی پڑتی اور سروجنی دونوں چوٹیاں ہلاتی بھاگ کر رکشہ میں سوار ہوجاتی۔
’’جلالو چاچا،ہم آگئے۔‘‘
’’چلیں ببونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’چلیے۔‘‘
بینگا بوا نے آگاہ کر رکھا تھا،’’خبردار ،اس کلوٹے کے ہاتھ کی کوئی بھی چیز بالکل مت لینا۔‘‘
سروجنی نے پہلی بار اصرارکیاتھا،’’چاچا ،آپ کے گمچھے میں کیا بندھا ہوا ہے؟‘‘
’’ارے کچھ نہیں ببونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں،کچھ تو ہے،بتائیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘جلال الدین چاچا نے پوٹلی کھول دی تھی۔
’’باپ رے ،اتنے بڑے بڑے رس بھرے بیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ببونی،بینگا بہن دیکھ لے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں چاچا،آپ دیجئے نہ۔ہماری ساری سہیلیاں خوش ہوجائیں گی۔‘‘
بیلااور مادھوری نے سیانے پن سے تاکید کی تھی،ہم لوگ ساری پوٹلی چٹ کرگئے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ جلالو چاچا اپنے بال بچو ں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن اس سے بھی بڑی پوٹلی حاضر تھی۔سروجنی نے اپنے ہاتھ روک لیے تھے، ’’چاچا آپ کے بال بچوں کا حصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘گھنے کالے بادلوں کے بیچ چھپی بجلی نے قہقہہ لگایا تھا۔ ’’ارے نہیں ببونی،یہ سوغات تو تمہارے لیے ہے۔‘‘
’’لیکن اتنے سارے بیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
رکشہ کی چال دھیمی کرتے ہوئے جلال الدین میاں نے خلاصہ کیاتھا۔’’ملکی محلے کے دائیں بازو بڑاسا قبرستان ہے۔ہماری پردادی بڑی نیک خاتون تھیں ببونی۔ہمارے پردادا کے انتقال کے بعد سے قبرستان کے سامنے والی مسجد ہی ان کی پناہ گاہ ہوگئی تھی۔دن بھر باغیچے میں رہتیں۔ اپنے مرحوم شوہر کی قبر کو یک ٹک دیکھتی رہتیں۔یہ بیر انہیں کی اگائی ہوئی بیری کے ہیں ببونی۔ظہور بخش مولوی صاحب کی کھلی اجازت ہے،ہم جب چاہیں،جتنے چاہیں بیر وہاں سے لاسکتے ہیں۔بدلے میں تمہاری چاچی وہاں محنت مزدوری کردیتی ہیں۔لو اب یقین ہوگیانا!‘‘
دروازے پر بے وقت دستک ہوئی تھی۔شریمتی سروجنی شری منت نے دروازہ کھولا تھا۔ مڑے تڑے ادھ میلے کرتے کی ڈوریا آستین سے پیشانی پر ابھری ہوئی پسینے کی بوندوں کو باربار پونچھتا کون کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
’’آپ کس کو کھوج رہے ہیں؟‘‘
بے وقت باسی ہوچکے اس آبنوسی چہرے پر جانی پہچانی ہنسی کی بجلی کوند کر بکھر گئی تھی۔ ملکی محلے کے جلا ل الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تو کیاتم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر آداب کیا تھا۔’’آپا،میں احسان ہوں۔ان کا بڑابیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کھلے دروازے کے اندر پناہ لیتے ہی احسان میاں نے سکون کی سانس لی تھی۔’’شکر ہے اﷲ تعالیٰ کا۔ہم تو کھوجتے کھوجتے پریشان ہوگئے تھے۔رکشہ والے نے ناحق دس روپے کی چپت لگادی۔‘‘
روٹی کا پہلا نوالہ توڑتے ہی احسان چہک اٹھے تھے،’’ارے آپا،ہم تو بھول ہی گئے۔ابّا نے خاص طور پر آپ کے لیے یہ چھوٹی سی سوغات اور یہ خط بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
چٹھی کے حرف در حرف سے نَیہر کی بھولی بسری یادوں کی سب سے میٹھی تاثیر جِلا پارہی تھی۔
’’ببونی کو معلوم ہوکہ خدا کے کرم سے احسان میاں کو آپ ہی کے شہر میں نوکری مل گئی ہے۔ان کو ابھی اچھے برے کی تمیز نہیں ہے۔آپ عالم فاضل ٹھہریں،انہیں اونچ نیچ کا علم دیں گی۔‘‘
آپ کا ہی چاچا
ننھی شیلی اسکول سے لوٹی،تو احسان ماموں کے ہاتھوں سے میٹھے بیر کی پوٹلی پاکر پھولی نہیں سمارہی تھی۔’’ماں تم تو اپنے بچپن کے دنوں کی کہانی سنایا کرتی تھیں نا۔ پکے بیر کی کہانی،باغیچہ اگاتی جمیلہ دادی کی کہانی،ان بیروں کا ذائقہ بالکل ویسا ہی ہے۔‘‘
احسان میاں کے پاس بیٹھی شیلی توجہ سے سن رہی تھی،’’صرف بیر ہی کیوں،آم،مہووا، جامن، کٹہل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارے کے سارے درخت ہوبہو ویسے ہی موجود ہیں۔اچھا بول تو بچی ہمارے ساتھ تیواری پور چلو گی؟‘‘
احسان میاں مہینہ بھر ان کے گھر رہے تھے۔
’’مدرسے کے بڑے صاحب سے بات ہوگئی ہے آپا۔اکائونٹ سیکشن کے گنیش بابو کوارٹر خالی کرکے گائوں جارہے ہیں۔ان کا وہ کوارٹر ہمارے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شیلی کے پاپا شری دھر واجپئی نے مذاقاً کہاتھا،’’احسان بھائی،اس بار گائوں سے لوٹو تو دلہن کو لانا مت بھولنا۔یہ عید تو وہ ہمارے ساتھ ہی گزاریں۔کیوں سروجنی؟‘‘
احسان کے ساتھ سروجنی کے بچپن کے وہ دن جیسے پھر سے لوٹ آئے تھے۔بینگا بوا کی پرانی عادت تھی،اچانک کوئی خوفناک خواب دیکھنے کے انداز میں کبھی کبھار بے حد چوکنا ہو اٹھتیں، ’’نہیں ، میٹرک کی پڑھائی بہت ہے،اس کے بعد گھر سنبھالے،رسوئی کا انتظام دیکھے۔‘‘
وظیفے کی پہلی رقم دیکھ کرسروجنی کے ننھے سے بٹوے کا دل بلیوںاچھل رہا تھا۔ایک مشت پانچ سو روپے۔’’جلالو چاچا۔‘‘
’’کیا بات ہے ببونی؟‘‘
’’ہمیں ذرا چوک تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی چلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پہلی بار اکیلے اسنیہی پٹواری کی دکان تک جانے کی ہمت کی تھی سروجنی نے۔ بڑی والی ٹکولی کی دو پتیاں،اماں کی کلائیوں کے ناپ کی ڈھائی انچ والی لہٹی،سریش نریش کے لیے لیمن چوس کی ڈھیر ساری گولیاں اور جلالو چاچا کے لیے پالش چڑھی جستے کی صورتی دانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ببونی،جلدی کر۔بینگا بوا کو معلوم ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
احسان میاں نے بتایا تھا،’’آپا،وہ صورتی دانی ایک دن ہم سے کہیں گم ہوگئی تھی۔گھر بھر کی آفت آگئی تھی سمجھئے۔موم جامے کی تہہ میں پڑی تھی۔ابّا نے دھو پونچھ کر اپنی جیب میں رکھی تب کہیں سکون کی سانس لی۔ہمیشہ کہتے ہیں ببونی کی نشانی ہے،آخری دم تک ساتھ رہے گی۔‘‘
بینگا بوا بہت بیمار تھیں۔کھانے کی نالی میں کوئی اندرونی زخم تھا شاید۔دن بھر بے تحاشہ چلاتی رہتیں۔اناج کا ایک دانہ ہضم نہیں کرسکتی تھیں۔جلال الدین چاچا نے مشورہ دیا تھا،’’ناریل پانی پلایا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
بینگا بوا کو کسی نے نہیں بتایا تھا۔جلال الدین چاچا نے اپنی روزانہ ڈیوٹی باندھ رکھی تھی۔ قبرستان کے بغیچے سے پانچ کچے ناریل توڑ لاتے،تیز دھار والی چھری سے اوپر کا چھلکا نکالتے اورگمچھے سے پونچھ کر بڑی احتیاط سے تھماتے،’’لو ببونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بینگا بہن ٹھیک ہوجائیں اور کیا؟‘‘
بینگا بوا کی انتھک خدمت کی تھی سروجنی نے۔پہلوان دادا کی پنچایت بینگا بوا کے کمرے میں جمی تھی،’’کچھ بھی کہو،جلال الدین نے رکشہ والے کا نہیں بلکہ گھر کے فرد کا دھرم نبھایا ہے۔بینگا وہ تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔‘‘
کیسی عجیب التجا کی تھی جلال الدین چاچا نے،’’بینگا بہن،زمانہ بدل گیاہے۔ ببونی آگے پڑھنا چاہتی ہے۔اﷲ کے کرم سے وظیفہ تو طے ہے۔مناسب سمجھیں تو ببونی کا داخلہ کالج میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اماں کی آنکھیں پہلی بار کھل کر برسنے کے لیے بیتاب تھیں۔’’ممتا کی کوئی ذات پات نہیں ہوتی جلال الدین بھیّا،پچھلے جنم میں ضرور ہمارا تمہارا کوئی گہرا ناطہ رہا ہوگا۔ایک اپنا سری نواس ہے، کہنے کو کوکھ جایا بھائی اور کرنی سات دشمنوں کی۔ہمارے بال بچو ں کے لیے تو کنس کااوتار ہی سمجھواسے۔جب دیکھو تب کاٹنے کترنے کی لت لیے سر پر سواررہتا ہے۔نہ گھر سے دتکارتے بنتا ہے،نہ ڈھنگ کے چار بول بتیانے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
سروجنی نے یونیورسٹی کے گذشتہ ریکارڈ توڑتے ہوئے اول درجے سے بی اے پاس کیا تھا۔ سری نواس ماما اس کے لیے کیسا اوٹ پٹانگ رشتہ لے کر آئے تھے۔’’لڑکے کی سوتیلی ماں ہے تو کیا ہوا،کون سا اس کے ساتھ زندگی بھر رہنا ہے۔لڑکا مِل میں نوکری کرتا ہے،ہزاروں روپے کی پگار ہے۔ سروجنی کو بہت خوش رکھے گا۔‘‘
بینگا بوا نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔بابوجی خاموش تھے۔اماں نے اعتراض کیا تھا، ’’سوتیلی ماں،سوتیلے نند،دیور!نا،اس گھر کی بات دوبارہ یہاں نہیں چلے۔‘‘
جلال الدین چاچا کی سگی بہن بیٹہا میں بیاہی تھی۔وہ وہاں سے مصدقہ خبر لائے تھے۔ ’’لڑکا دیکھنے دکھانے میں معمولی سا ہے۔اپنی ببونی کے لائق تو ہر گز نہیں ہے۔سنا ہے کچھ بری عادتیں بھی ہیں۔ سری نواس ماما کے بہکاوے میں آکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سری نواس ماما برسوں روٹھے رہے ۔سروجنی کی پرنسپل یشودا واجپئی نے اپنے اکلوتے بیٹے شری دھر کے لیے سروجنی کو پسند کیا تھا۔’’آپ لوگوں کو کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔یہ شادی نہایت سادگی سے ہوگی۔‘‘
شری دھر کے ساتھ پٹنہ جانے والی ریل گاڑی میں بیٹھی تو جلال الدین چاچا کی اداس نگاہیں بڑی خاموشی سے دور تک پیچھا کرتی چلی آئی تھیں۔’’ببونی ہماری طرف سے یہ چھوٹا سا تحفہ۔‘‘
چارخانے کے نئے گمچھے میں بندھی سلمہ تاروں والی لال چُنری اور چھوٹی سی پوٹلی میں رس بھرے بیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شری دھر نے مذاقاًکہاتھا،’’اتنی بڑی ہوگئیں ،کیا اب بھی بیر چراکر کھانے کی عادت بنی ہوئی ہے؟‘‘
احسان میاں کو بڑے مدرسے کے کیمپس میں کوارٹر مل گیاتھا۔سری نواس ماما نے بینگا بوا کے دماغ میں شک کا بیج بودیاتھا۔’’جلال الدین کا بڑا بیٹا اکائونٹنٹ ہوگیاہے اورسروجنی کے شہر گیا ہے۔اس کا سروجنی کے گھر میں مہینوں رہنا،ساتھ کھانا پینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
اماں کے خط سے ساری باتیں معلوم ہوئی تھیں۔’’سروجنی کو معلوم ہو کہ بینگا بوا ایک دم سے سری نواس کی باتوں میں آگئی ہیں۔تمہارے خاندان کے ساتھ احسان کا میل جول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شری دھر کو بے حد غصہ آیاتھا۔’’انسانیت کا ناطہ ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہے اور پھر تمہارے میکے والوں کو ہمارے نجی معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ تم آج ہی انہیں خط لکھ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
احسان اپنی ڈیوٹی میں دن رات مصروف ہوکر رہ گئے تھے۔نوشابہ دلہن اور پیارے پیارے گول مٹول سے تین بچے۔گلشن،ارمان اور آرزو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیچ بیچ میں شیلی یوں ہی مچل اٹھتی۔’’پاپا،ہمیں احسان ماموں کے یہاں چھوڑآئیے نا!آج اتوار ہے گلشن کے ساتھ کھیلیں گے، آرزو کو جھولے میں جھلائیںگے اور ارمان کی پتنگ لوٹیں گے۔خوب مزہ آئے گا نا!‘‘
شری دھر کی ماں جی نے بتایا تھا،’’ناحق ہی خون کے رشتوں کی دہائی دیتے پھرتے ہیں لوگ! تمہیں بتائوں بہو،راون کی اشوک واٹیکابن کر رہ گئی تھی ہماری زندگی۔مانگ کو سونا پن جھیلتے اپنی سسرال کے اس آنگن میں ساس،جٹھانی کا وہ راکشس پن کیسے برداشت کیاتھا، وہ کہانی مت پوچھو۔تمہارے سسرجی کے ساتھی وکیل سہیل بھائی نے اپنے بل بوتے پر مقدمہ لڑاتھا۔ سسرال کی بے شمار دولت میں شری دھر برابر کے حصہ دار ہوئے تھے۔جٹھانی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا تھا۔ ضرور اس رانڈ کا اس مُسلّے کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سروجنی کو پتہ تھا۔گذشتہ نوراتری میں بوڑھے سہیل چاچا کمر پر ہاتھ رکھے ان کی ڈیوڑھی پر حاضر تھے۔’’تم نہیں پہچانوگی بہو،اپنی ساس کو خبر کردے،بلیہار گائوں کے سہیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شری دھر ننھے بچے کی طرح ان کی گود میں دُبک گئے تھے۔’’سہیل چاچا،یہ گٹھیا کا روگ کب سے لگابیٹھے؟اب مہینہ بھر تو یہاں سے جانے کا نام مت لیجئے۔پہلے نئی بہو کے ہاتھ کی بنی چائے پی جیئے۔اماں سے باتیں کیجئے،تب تک ہم آئوٹ ڈور کے مریضوں کو دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
پانچوں وقت نماز کی پابندی کرنے والے سہیل چاچا آنکھ موند کر پوری یکسوئی کے ساتھ کالی جی کا بھجن گاتے تو سروجنی کا من جانے کیوں اندر سے گنگا جمنی ہواُٹھتا۔
’’یہ سب شری دھر کے والد کی صحبت کا اثر ہے بیٹا۔جھوٹ نہیں کہوں گا بیٹا،ہمارے والدین سنسکرت پڑھنے کے سخت خلاف تھے۔فارسی تہذیب کا بول بالا تھا ہمارے یہاں۔ لیکن ہمارے یار پدم دھر واجپئی نے مشورہ دیا تھا۔تم سنسکرت پڑھو،تمہارا اس جانب رجحان ہے۔دیکھ لینا سہیل تم سے بڑھ کر اس مضمون میں کوئی عالم نہیں ہوگا اس پورے گائوں میں۔‘‘
شری دھر کی ماں بتایا کرتی تھیں،’’سہیل کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔دھرم ایمان قرآن کے ساتھ اور علم کا سارا احساس وید،پُران،شریمدبھگوت کے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘آگے کی پڑھائی کے لیے کلکتہ کے ڈگری کالج میں داخلہ لینے گئے تھے۔لوٹے تو ایک بھیانک صدمہ ساتھ تھا،’’وہاں کے تِری پُنڈھاریوں نے سیدھے سیدھے مجھے خارج کردیا تھا۔‘‘
پدم دھر کے ہاتھ سے سوٹالے کر ان کے پیچھے بے تحاشہ لپکے تھے سہیل۔’’تمہاری ہی سکھائی راہ پر چلے تھے ہم۔ہاتھ آگے کرو۔ہم کہتے ہیں ہاتھ آگے کرو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سوٹے کی مارسے پدم دھرپل بھرکے لیے تلملا کررہ گئے تھے۔سہیل بڑبڑاتے جارہے تھے، ’’دیکھا،اس سے کہیں زیادہ چوٹ اپنی نازک روح پر جھیل آئے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! پتہ ہے تِری کے’نیتی شتکم‘سے سوال پوچھے گئے تھے۔ہم نے درست جواب دیے۔والمیکی رامائن کا شلوک غلط بول گئے تھے پنڈت۔ہم نے درست کرنا چاہا تو ہمیں پر برس پڑے۔آخر کاربورڈ کے ایک رکن نے صاف انکار کردیا۔ اس طرح کا کیس ہمارے سامنے پہلی بار آرہاہے۔ہمیں گورننگ باڈی سے خصوصی اجازت لینی ہوگی۔ ہمارے انتظام کا سوال ہے۔سنسکرت کالج کے بورڈنگ میں آپ کی رہائش نا ممکن ہے۔‘‘پدم دھر ہتھیلی کی چوٹ بھول کر سہیل کی آنکھوں میں اُمڈ آئے درد کا رِسائو خاموشی سے جھیلتے رہے۔’’تمہارا مجرم میں ہوں سہیل بھائی،جیسا بھی ہو یہ پرائسچت مجھے ہی کرنا ہوگا۔‘‘
حیدرآباد کے لا کالج میں داخلہ لینے کے لیے دونوں دوست ایک ساتھ روانہ ہوئے تھے۔ بیلہار والوں نے پدم دھر کے پورے خاندان کو پانی پی پی کر کوسا تھا،’’ذات پات،کل خاندان، سب کا بیڑا غرق۔بتائو بھلا،پنڈتوں کی نسل میں یہ کیا ہورہا ہے؟اس مشٹنڈے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، اس کا چھوا پانی پینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پدم دھر کے والد شیوادھرواجپئی نے گائوں سے ہجرت کرلی تھی۔’’ملکینی انہیں بتادو، ان کے گھر میں ہمیں اپنی بیٹی نہیں بیاہنی۔آٹھوں انگ میں چندن لیپ اور رات میں ہریا کلال کے دارو کے ساتھ ساتھ اس کی کلٹا ہرارو کا سنگ۔یہی ہے ان کی پروہتائی؟تھوہے ان کے چھل کپٹ پر۔ سہیل انسان ہے۔دیکھنا ایک دن وہی ان کا محافظ بن کر ان بھوکے بھیڑیوں سے تمہارے خاندان کا بچائوکرے گا۔‘‘
کیسی آنسوئوں بھری بدائی لی تھی سہیل چاچا نے۔’’چھوٹو کی بہو شہر کی پڑھی لکھی ہے۔ جب دیکھو تب گھر میں مہابھارت شروع۔ایسے میں تمہاری چاچی جان تو قرآن کی آیتیں پڑھ کر دلی سکون حاصل کرلیتی ہیں اور ہم خود سدرشن چکر بنے اپنی کوٹھری سے چیمبر تک،احاطے سے گنگا کے کچھار تک بے مطلب بھٹکتے رہتے ہیں۔وہ بٹوارہ چاہتی ہیں اور اپنے انجینئر خاوند کے ساتھ دوبئی جاکر بس جانا چاہتی ہیں۔پیسہ کمانا ان دونوں کا شغل ہے۔یشودا بہن،اولاد کی عدالت میں والدین ہی سب سے بڑے گنہگار ٹھہرائے جاتے ہیں۔بدلتے وقت کی مار ہم سب کو جھیلنی ہے نا!پدم دھر کی بہو کو دیکھ لیا،من کی مراد پوری ہوئی۔کون جانے کب اوپر والے کا بلاوا آجائے!‘‘
شیلی کی پیدائش کے دو سال بعد سہیل چاچا نے آنکھیں موندیں تھیں۔شری دھر دیر تک گم سم بیٹھے رہے تھے۔اس روز گھر میں چولہا نہیں جلاتھا۔
سری نواس ماما پورے علاقے میں زہر پھیلاتے رہے۔’’کہنے کو میری سگی بھانجی ہے،لیکن سارا دھرم کرم بھلاکر پوری طرح سے سنسکار بھرشٹ ہوچکی ہے۔پہلے سے ہی اس کی بُری عادتیں جگ ظاہر تھیں۔اس جلال الدین کا چھوا بیر کھاتی تھی۔اس کے بچوں سے پیار کرتی تھی۔ہماری بہن ٹھہری نری گائے۔بالکل سورداس جیسی اور بہنوئی جھوٹ موٹ فقیر داس بنے سارا تماشہ دیکھتے رہے۔ہماری بیٹی ہوتی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سری نواس ماما کی کالی کلوٹی بڑی بیٹی سات پردوں میں رکھی جاتی تھی۔میٹرک کے بعد پڑھائی لکھائی بند۔چھت پر اکیلی نہ جائے۔باغ بغیچے میں گھومنے کی قطعی اجازت نہیں۔ اپنی کوٹھری میں تھوڑی دیر بھی اکیلی بیٹھی رہتی تو گھر بھر میں کہرام مچ جایا ۔’’پھول کماری،باہر نکلو۔سب کے ساتھ آنگن میں بیٹھو۔‘‘
جٹیلا مامی بات بات پر پھول کماری کا جھونٹا پکڑ کر دوڑتی۔’’بند کوٹھری میں ساج سنگھار کررہی تھی۔کس کے لیے؟شیتل پائی کے نیچے یہ کون سی پوتھی ہے؟دیکھوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارنگا سدا بیرج کی پریم کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجی او پھول کے باپو سن رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
اسی پھول کماری نے ایک دن سچ مچ قہر برسانے والا کام کرڈالاتھا۔
سری نواس ماما نیم پاگل کی صورت بنائے سروجنی کی چوکھٹ پر کھڑے تھے۔دھاڑیں مارکر روتے ہوئے کسی طرح انہوں نے اس کہانی کو دہرایا تھا۔’’سروجنی،ہماری توپگڑی ہی لٹ گئی۔ ہماری عزت سربازار نیلام ہوگئی۔‘‘
شری دھر نے دھیان سے ساری باتیں سنی تھیں۔’’پچیس برس کی لڑکی ،اپنی مرضی سے وہ کسی بھی لڑکے کا ہاتھ تھام سکتی ہے۔ماما جی،آپ لوگوں نے اسے پنجرے میں بند کرکے رکھاتھا۔ آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی تھا۔‘‘
پھول کماری اور اس کا عیسائی شوہر جوزف سروجنی کے شہرآگئے تھے۔فارمیسی کی پڑھائی کرکے جوزف نے دوا کی دکان شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔سری نواس ماما اس کے گھر کا پورا پتہ لے کر شری دھر سے مدد مانگنے آئے تھے۔
’’داماد بابو،یہاں کے ایس پی سے آپ کی دوستی ہے۔ان سے کہیے،ایک بار پھول کماری کو اس کرسچن کے گھر سے نکلواکر ہمارے حوالے کردے۔ بعد میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
شری دھر نے صاف انکار کردیاتھا۔’’ان دونوں کی شادی قانونی طور پر جائز ہے۔ آپ یا ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے۔ہماری بات مانیئے ماما جی،پھول کو معافی دے دیجئے۔ دونوں کی زندگی اچھی گزرے گی۔‘‘
مگر ماما اگیا بیتال بن کر الٹے پائوں واپس لوٹے تھے۔ جاتے جاتے سروجنی کو چھلنی کرنا نہیں بھولے تھے۔
’’تیرے کلیجے میں خوب ٹھنڈک پڑی ہوگی۔خاندان کو بٹّہ لگانے والی۔آج سے ہمارا سارا سروکار ختم اور اس کلوٹی کا پاپ تو بھگوان بھی معاف نہیں کریں گے،شنکر جی کا ترشول اس پر ٹوٹے گا۔‘‘
شری دھر نے سروجنی کی ڈھارس بندھائی تھی،’’گرجنے والے بادل ہے تمہارے ماما۔ ایسا ڈھکوسلے باز آدمی آج تک ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔بھئی داددینی ہوگی پھول کماری کی ہمت کو۔اگلے اتوار اس جوڑی کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ہم خود چلیں گے انہیں دعوت دینے۔‘‘
احسان میاں کی ترقی ہوئی تھی۔چیف اکائونٹنٹ کا عہدہ!ارمان سائیکل کی تیز رفتار کے ساتھ آندھی کی شکل میں گیٹ میں داخل ہوا تھا۔’’پھو پھی،پھوپھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں ہیں آپ؟ بھئی، اتنی دور سے خوشخبری دینے کے لیے چلے آرہے ہیں ہم۔گائوں سے دادا جان آئے ہیں اورابّا نے فوراً اطلاع دینے کے لیے کہا ہے۔‘‘
دوسرے روز سانجھ کے جھُٹ پُٹے میں جلال الدین چاچا کا جھکا ہوا بدن دروازے پر حاضر تھا۔
’’کیسی ہو ببونی؟‘‘
’’ارے چاچا آپ!‘‘
سفید لٹھے کا جھک دھلاپاجامہ،ادھی کا کرتہ اور ہاتھ میں چھڑی تھامے جلال الدین کی ہنسی ویسے ہی پُر اثر تھی۔
’’آئیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر آئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹھیے نا چاچا!‘‘لاکھ منت سماجت کے باوجود انہوں نے صوفے پر بیٹھنا قبول نہیںکیا۔’’نہیں،نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چٹائی ہی ٹھیک ہے ببونی۔‘‘
ارمان اور شیلی بیچ بیچ میں چُہل کرتے جارہے تھے۔’’دادا جی،بجلی کی چمک والے آپ کے دانت تو ویسے ہی ہیں۔‘‘
’’ارے کہاں بچی۔وقت کی ریت چڑھ گئی۔نیچے کے سارے دانت جھڑ گئے۔‘‘
’’اور آپ کے بال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’قبرستان میں تیری دادی کے سرہانے دھر آیا ہوں۔کچھ دن باقی ہیں،وہیں جانا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے سوچا کہ ہماری کوئی نشانی کیوں نہ پہلے سے ہی وہاں پہنچادی جائے۔‘‘
شیلی کا بال ہٹ دیکھنے لائق تھا،’’داداجی،ہمیں قبرستان کے بھوتوں کی کہانی سنائیے نا!‘‘
’’ارے نہیں بچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں کہاں کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جھوٹ نہیں۔آپ ہماری اماں کو ڈھیر ساری کہانیاں سناچکے ہیں۔اب ہماری باری ہے۔‘‘
’’لو بھلا،کل کو یہ بچی کہے گی کہ اس کی بٹیا کو بھی کہانی سنائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘سروجنی کے ہاتھ سے کھیر کی رکابی تھامتے ہوئے جلال الدین میاں کی بوڑھی پلکوں پر نمی کی ڈھیر ساری پرتیں بچھ گئیں تھیں۔’’کس سوچ میں ڈوب گئے چاچا۔سچ مچ شیلی کے بیاہ میں آپ کو ہمارے ساتھ رہنا ہوگا، یہاں بہت کچھ سنبھالنا ہوگا۔‘‘
چارخانے کا گمچھا آنکھوں پر دھرتے ہوئے جلال الدین چاچا یکبارگی بکھرگئے۔ ’’احسان میاں کے بارے میں ایک بات بتانی تھی ببونی۔ترقی تو انہیں مل گئی ہے،لیکن وہ اندر ہی اندر کسی سازش کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔کسی سے کچھ کہتے نہیں،لیکن پہلے والا سکون ان کے چہرے سے ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیاہے۔ہمیں ڈر ہے کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سروجنی نے ان کی ڈھارس بندھائی،’’شری دھر دورے سے لوٹ آئیں گے تب ہم لوگ احسان بھائی سے ملیں گے،ان سے ساری باتیں صاف صاف پوچھیں گے۔آپ فکر مت کیجئے چاچا!‘‘
احسان میاں نے قبول کیا تھا،اکائونٹ سیکشن کا کالی سنگھ بہت دنوں سے پیچھے پڑاہواتھا۔ اس کے بچپن کے دوست شکونی لال نے اعلیٰ مد رسے کی بیس سالہ نوکری میں خاص عہدوں پر فائز رہتے ہوئے بڑی چالاکی سے مدرسے کی رقم کا گول مال کیا تھا۔کتابوں کی خریداری،امتحان کے پرچوں کی خرید و فروخت،تیسرے درجے کے طالبِ علم کو اول درجہ دلانے کی سازش بھری دوڑ بھاگ۔کالی سنگھ کا بہت زیادہ دبائو تھا۔’’آپ کو اپنے پرسنٹیج سے مطلب ہونا چاہیے احسان میاں! شکونی لال کے یہ تمام بل پاس ہوجائیں تو یک مشت رقم آپ کے گھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
احسان میاں نے منع کردیاتھا۔بدنیتی بھرا کوئی کام وہ نہیں کریں گے۔چاہے جو ہوجائے۔
کالی سنگھ نے دھمکی دی تھی،’’کالو پہلوان کا نام سنا ہے نا؟اس مدرسے کے اعلیٰ حاکم کا گریبان اس کی مٹھی میں رہتا ہے۔اپنی ترقی پر اس طرح مت اترائو احسان!تمہاری یہ سیٹ بدلواکر تمہیں اندھیرے میں گم نہیں کردیا تو میرا نام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اس وقت احسان میاں نے ذرا بھی دھیان نہیں دیاتھا،کوئی احتیاط نہیں برتی تھی۔جلال الدین میاں کے گائوں لوٹ جانے کے بعد احسان میاں پر گھات لگاکر حملہ کیا گیاتھا۔سر پر چھُرے کا گہرا گھائو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوزف کی دکان سے تھوڑی دور میڈیکل چوراہے پر وہ واردات ہوئی تھی۔ جوزف نے پہچان لیاتھا۔’’ارے یہ تو اپنے احسان میاں ہیں۔‘‘
احسان کوئی بھی بیان دینے سے کترارہے تھے۔’’نہیں گہرا اندھیرا تھا،کسی کو پہچاننے کا سوال ہی کہاں اٹھتا ہے۔‘‘
’’کسی پر آپ کا شک و شبہ؟‘‘
’’ہم نے کہانا،ہمارا کوئی بھی دشمن نہیں ہے۔‘‘
احسان میاں نے خود بخود فیصلہ کیاتھا،’’سر میری ڈیسک بدل دی جائے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’میری صحت ٹھیک نہیں رہتی سر،لگاتار چکر آتے رہتے ہیں۔ڈاکٹروں نے دماغی مشقت سے پرہیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘احسان میاں کا تبادلہ دوسرے محکمہ میں کردیاگیاتھا۔سروجنی اور شری دھر نے راحت کی سانس لی تھی۔
نوشابہ پیر بابا کے مزار پر منت مانگ کر سیدھے ان کے یہاں آئی تھی،’’انہیں سمجھائیے ببونی،رات برات گھر سے باہر نہ رہا کریں۔‘‘
’’کیوں،کیا بات ہے بھابھی،ان لوگوں نے پھر کچھ ایسی ویسی حرکت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ببونی،اب تو بات الٹی ہوگئی ہے۔شکونی لال مٹھائی کا ڈبہ لیے آیا تھا۔آرزو باہر نکلی تو اس نے آرزو کی کلائی پکڑلی تھی۔ہم تو سکتہ میں آگئے تھے۔کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا نہ کریں؟‘‘
مٹھائی کا ڈبہ آنگن میں پڑی چوکی پر رکھ کر شکونی لال فوراً سے پیشتر واپس لوٹ گیاتھا۔ احسان میاں نے ایک جھٹکے میں سب کچھ طے کرلیا تھا۔شکونی لال کے آفس میں جان بوجھ کر کی گئی ان کی وہ ملاقات،دارو کے اڈے پر اپنے پیسوں سے دارو پلانا اور نشے میں دُھت شکونی لال کی دونوں کلائیوں کو توڑکر ادھ مری حالت میں چوراہے پر چھوڑتے ہوئے اطمینان سے ان کی وہ گھر واپسی۔نوشابہ کو کھٹکا لگاتھا،لیکن احسان میاں کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر وہ خاموش رہ گئی تھی۔زندگی بہ دستور جاری تھی۔آرزو نے کالج میں داخلہ لے لیاتھا۔گلشن اور ارمان نے باری باری اسے پہنچانے اور گھر لانے کا ذمہ اٹھایا لیاتھا۔احسان اس کی شادی کے لیے بے حد فکر مند ہوچلے تھے۔’’شری دھر بھائی،آپ کی جان پہچان میں کوئی لڑکا ہوتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
گلشن نے آکر وہ بری خبر دی تھی،’’ارمان کل رات سے غائب ہے پھوپھی!امّی اور آرزو کا روروکر بُرا حال ہوگیا ہے۔ابّا پورے شہر کا چپہ چپہ چھان آئے ہیں۔‘‘
آرزو نے چپکے سے نوشابہ کو بتایاتھا ،کالی سنگھ کے چچیرے بھائی بیرونے کالج کے احاطے میں اس کا راستہ روک لیاتھا۔’’اپنی مرضی سے ہمارے ساتھ چلو،ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
آرزو کے شور مچانے پر کئی لڑکیاں جمع ہوگئیں تھیں اور بیرو وہاں سے چپ چاپ کھسک گیا تھا۔ جاتے جاتے اس نے گلشن اور ارمان کودیکھ لینے کی دھمکیاں دی تھیں۔تین دنوں بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیمپس کے پاس والے اجاڑکنوئیں سے ارمان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔پچاس ساٹھ خاندان والے اس احاطے میں ایسا زبردست مجمع اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیاتھا۔
احسان میاں کا دکھ آسمان چھورہا تھا۔کالی سنگھ،شکونی لال اور ان کے دوسرے ساتھی لاش کو جتنی جلدی ہوسکے ٹھکانے لگانے کے چکر میں تھے۔’’جانے والا تو چلاگیا۔اب بلاوجہ چیرپھاڑ کرواکے لاش کی بے حرمتی کس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’گلشن اپنے ابا کو سمجھائو۔جی کڑاکے لاش کو دفنانے کی تیاری کریں۔‘‘
پولیس انسپکٹر نے کیس بنایا تھا۔’’لڑکے کو نشہ کرنے کی عادت تھی،اسی حالت میں کنوئیں کی اور گیااور پھسل کر نیچے گرپڑا۔‘‘
احسان کے کندھے پر شکونی لال کا ہاتھ تھا،’’جو ہوگیا سو ہوگیا۔تمہارے جگر کے ٹکڑے کو لوٹایا نہیں جاسکتا نا! احسان بھائی لو،یہ تھوڑے سے روپے رکھو۔ہماری جانب سے مدد کے طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سینہ کوبی کرتے ہوئے نوشابہ کی آنکھوں میں خون کے قطرے تیرنے لگے۔’’ارمان کے ابّا،روپے نہیں،کالے ناگ ہیں یہ!تمہارے بیٹے کا خون ہواہے!رسولِ پاک کی قسم ،میت نہیں اٹھے گی۔پہلے سروجنی بی بی کو بلائو۔ان کے خاوند کہاں گئے۔کوئی تو انہیں بتائو،ان کے لاڈلے ارمان کو کس بے دردی سے مارا ہے ظالموں نے!‘‘
شری دھر کو دیکھتے ہی کالی سنگھ اور شکونی لال اپنے اپنے کوارٹر کی جانب کھسک لیے۔لاش کو پوسٹ مارٹم گھر لے جانے کے لیے گاڑی کی تلاش ہونے لگی۔کسی نے دبی آواز میں بتایا،کالی سنگھ نے نئی گاڑی خریدی ہے۔
جھگڑو چپراسی منہ لٹکائے لوٹ آیاتھا۔’’مردے کو لے جانے کے لیے کالی سنگھ اپنی گاڑی ہرگز نہیں دے گا۔احسان میاں سے کتنے فائدے اٹھائے ہیں اس نے۔‘‘
کالی سنگھ نے راتوں رات بیرو کو شہر سے باہر روانہ کردیاتھا۔ایس پی انل چترویدی نے آرزو کا بیان لیا تھا۔شراب کے اڈے پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیرو پکڑاگیا۔ پہلی مار کے ساتھ ہی اس نے سارا سچ قبول کرلیا۔کالی سنگھ اور شکونی لال نے بیرو کے ساتھ مل کر یہ بھیانک سازش رچی تھی۔
’’احسان ہماری ترقی کے راستے کاروڑہ ہے۔ایمانداری کا سارا ٹھیکہ اس کم بخت نے اپنے اوپر لے رکھا ہے۔اس کے رہتے اوپری آمدنی کا ذریعہ ہوہی نہیں سکتا۔تو کچھ ایسا کیا جائے کہ اس کی زندگی اجیرن بن جائے۔‘‘
بیرو کا منصوبہ دوسراتھا،رات کے اندھیرے میں آرزو کو اٹھواکر نیپال اڑالے جانا۔لیکن ارمان سائے کی طرح بہن کے ساتھ رہتاتھا۔آرزو نے اس دن کے بارے میں ارمان سے اشارتاً کہاتھا۔ارمان بہن کو گھر پہنچا کر الٹے پائوں باہر چلاگیاتھا اور نوشابہ کا انتظار ہمیشہ کے لیے گھر کے گوشے گوشے میں ٹھہر کررہ گیاتھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ آئینے کی طرح صاف تھی۔ارمان کے سر پر کسی ہتھیار سے وار کیاگیا تھا۔اندرونی چوٹ سے اس کی آنتیں پھٹ گئی تھیں،خون کاا ندرونی رسائو اس کی موت کا سبب بن گیا تھا۔نیم بے ہوشی کی حالت میں بیرو کے آدمی رات کے اندھیرے میں اسے اجاڑکنوئیں میںڈال آئے تھے۔
بیرو نے بتایا تھا،’’ان لوگوں کی منشا اسے جان سے مارنے کی نہیں تھی،لیکن کالی سنگھ اور شکونی لال نے للکارہ تھا،’’سنپولا ہے،بچ کر جانے نہ پائے!اس کے گھر والے زندہ نرک کی آگ میں جھلستے رہیں گے،تب پتہ چلے گا کہ کالی سنگھ سے الجھنے کا انجام کیاہوتا ہے!‘‘
سروجنی حیرت زدہ تھی۔وہی کالی سنگھ گھنٹہ بھر قبل کیسی ماتمی صورت بنائے احسان کا سب سے قریبی ہونے کا دم بھررہاتھااور شکونی لال کا رہ رہ کر اپنی آنکھوں پر رومال دھرنا۔مکّاری کی اس سے بڑھ کر دوسری کوئی مثال ہوسکتی ہے بھلا؟
شری دھر کے دوست انل چترویدی نے بڑی مستعدی سے کاروائی کی تھی۔کالی سنگھ اور شکونی کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کھوج شروع ہوئی تھی۔بیرو اور اس کے ساتھیوں نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
قبرستان تک جانے والے چند لوگوں میں شری دھر بھی تھے۔ارمان کو مٹی دے کر آدھی رات کو سب لوگ گھر لوٹے تھے۔احسان اور نوشابہ کی ڈھارس بندھانے کے لیے کسی کے پاس الفاظ نہیں تھے۔
گلشن چپکے سے سروجنی کے پاس آبیٹھاتھا،’’پھوپھی،ایک بات پوچھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ سب لوگوں نے ہمیں انسان بننا سکھایااور بیرو کے ماں باپ نے؟کیا اس کی پیدائش ایسی ہی بُری حرکتوں کے لیے ہوئی تھی؟کتنی بے رحمی سے ہمارے بھائی کا قتل کیا اس نے! قانون اسے بخش دے مگر ہم اسے معاف کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘
دیر تک خاموش بیٹھے احسان میاں کی آواز کسی گہری سرنگ سے آتی ہوئی سی لگ رہی تھی، ’’اپنے آپ پر قابو رکھو بیٹے۔‘‘
’’کیسا قابو ابّو،ان شیطانوں نے ہم سے ہمارا بھائی چھین لیا اور آپ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آپا ،اس سرپھرے کو سمجھائیے تو۔ہمارے بچے کی موت اسی روپ میں آنی تھی۔ قسمت کا قہر ہم پر ٹوٹناتھا۔جوہوگیا،سوہوگیا۔‘‘ایک لمحہ سروجنی کو ایسا لگا تھا جیسے جلال الدین میاں قبر سے اٹھ کر ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے ہوگئے ہوں۔’’ببونی،گلشن کو سمجھائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ ظالم کا کبھی مددگار نہیں ہوسکتا۔قیامت کے دن سب کا حساب ہوگا۔حوصلہ رکھو لوگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
احسان میاں اپنی رو میں بہتے جارہے تھے۔’’کالی سنگھ کا آدمی پچھواڑے کھڑا دھمکیاں دے چکا ہے۔بیان واپس لو،تھانے میں جاکر کہو کہ ارمان کو نشیلی دوائوں کی لت تھی،وہ خود بخود کنوئیں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
سب کچھ سن لینے کے بعد شری دھرنے فیصلہ کرلیا تھا،’’احسان بھائی،آپ لوگ مہینے بھر کے لیے گائوں چلے جائیں۔اس درمیان ہم آپ کے تبادلے کی کوشش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
پیٹیاں اور بستر سمیٹ کر احسان میاں جیپ پر سوارہوچکے تھے۔ڈرائیور کی سیٹ پر شری دھر بیٹھے تھے۔
اچانک احسان نے ذرا تیز آواز میں کہاتھا،’’شری دھر بھائی ایک منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ دھیرے سے نیچے اترے تھے۔’’آپا ایک بات کہنی تھی۔ابّا نے ہمیں آپ کی پناہ میں بھیجا تھا۔ پندرہ برس بیت گئے۔قدرت کا کھیل ،ہماری واپسی اسی روپ میں ہونی تھی شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا چلتے ہیں،کہے سنے کی معافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اسی رات ایک بار پھر جلا ل الدین کو ایک دم سامنے دیکھاتھا سروجنی نے۔’’سوگئی کیا ببونی؟ ایک پتے کی بات بتانے آئے ہیں ہم!اﷲ بڑا رحم و کرم والا ہے۔سارا حساب کتاب یہیں چُکتا ہوجائے گا، دیکھ لینا تم!ہمارے ارمان کی روح قبر میں تڑپ رہی ہے۔ان قاتلوں کو کبھی چین کی نیند نصیب نہیں ہوگی۔‘‘
وہ خوفناک خبر شری دھر نے سنائی تھی۔’’بیرو ،کالی سنگھ اور شکونی لال کو پولیس جیپ میں ہزاری باغ جیل لے جایا جارہا تھا۔کیسا بھیانک حادثہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سامنے سے آتے ہوئے ٹرک کے ساتھ جیپ کی سیدھی ٹکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیرو اورشکونی لال کی لاشیں پہچاننے کے قابل نہیں رہ گئی تھیں، کالی سنگھ اپنے لوتھڑا ہوچکے جسم کا درد بھُگتتا آخری سانسیں گن رہا تھا۔‘‘
گلشن کا پہلا خط مہینے بھر بعد ملاتھا۔
’’پھوپھی،ابا نہیں رہے۔ارمان بھائی کا صدمہ انہیں لے ڈوبا۔اپنے انتقال سے قبل ظالموں کے صفائے کی خبر سن لی تھی انہوں نے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امّی کہلوار ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے بچے کھچے دن اسی قبرستان سے لگے بغیچے کی دیکھ بھال میں گزارنا چاہتی ہیں۔آپ ہمارے لیے دعا کرتی رہیں گی۔آرزو کی شادی اور اپنی پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں کے لیے فکر مند ہیں ہم!
ایک بات تو لکھنا بھول ہی گئے پھوپھی! ابّا کی زبان پر آخری لفظ آپ کے لیے تھے۔‘‘
کیسا عجیب سا سکون اپنی آنکھوں میں لیے احسان میاں اپنی منہ بولی بہن سروجنی کی اور مخاطب تھے،’’اﷲ کا فیصلہ دیکھ لیانا آپا!اس نے بھرپائی کردی۔اب ہم چین کی نیند سو سکیں گے۔ ارمان ہمیں بلارہے ہیں آپا،انہیں ہماری ضرورت ہے۔اچھا ،رُخصت ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!


ہندی کہانی

ترجمہ: قاسم ندیم