Bhagmati by Imran Jameel

Articles

بَھاگ مَتی

عمران جمیل

 

“امّاں اِی ہم سے نہ ہوے” بھاگمتی نے اپنا میلا کچیلا گھاگرا کمر میں اُڑس کر منہ بناتے ہوئے کہا۔ دھونکنی کے پاس گھنٹوں کالے دھوئیں اور تیز بُو کے درمیان بیٹھے رہنے سے اُسکا دماغ بھی انگارے پر رکھے تانبے کی طرح تپ رہا تھا۔ گردن کے پاس سے کمر تک رنگین کترنوں سے سِلی گئی کانچلی اُس پر ٹنکی چمکیلی ٹِکلیاں اور موتی کام پھیکے پڑنے بعد بھی کپڑے پر ایسے جمے ہوئے تھے جیسے وہ اُس کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہتے ہوں۔ بھاگمتی کے مرجھائے جواب سے اماں ٹھٹک گئیں۔ بھٹّی کی تپن سے جُھلستا ان کا گورارنگ گرم لوہے کی طرح انگارہ ہوگیا۔ امّاں کی بھرّائی آواز جب کانوں میں پڑتی تو ڈھولک کی تھاپ پر الاؤ کے گِرد رقص کرتی آوازوں کے لوک گیت یاد آجاتے۔ امّاں نے دنیا دیکھی تھی۔ کچھ سوچتے ہی اُن کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ پڑے۔ بھاگمتی امّاں سے نظریں چار نہیں کرسکی اُسمیں ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ اپنے جواب کو پھر سے دوہرا سکے۔ ٹھاکروں نے چمیلی سے بیاہ ہوتا دیکھ چھوٹے مالک اور چمیلی کو حویلی کے صدر دروازے پر جھولتا ڈال دیا تھا تاکہ قصبے کے لوگ کچھ دن اُس جوڑے کو بےجان لٹکتا دیکھ سکیں آخر اُن کی مریَادا کی بات جو تھی اُنہیں گاڈیا برادری کی کسی لڑکی کا حویلی کی ٹھاکرائن بننے کا خواب بالکل بھی نہ بھایا۔ اُس رات جس نے بھی اپنے سینے میں دل کو محسوس کرنا چاہا چمیلی اور چھوٹے مالک کو لوہے کے ہُک سے اُتارنا چاہا تو اُن کا بھی وہی انجام ہوا جس انجام سے چمیلی اور چھوٹے مالک اپنے پیروں سے ہمیشہ کے لئے زمین کھو بیٹھے تھے۔ بھاگمتی کو ہڈیوں میں اُترتی سرد رات کے وہ لمحے اب بھی یاد ہیں جب امّاں نے دلدوز چیخوں کے ساتھ جس میں ایک دہشت کی للکار تھی چمیلی کی رسی کو تیز چھرے سے کاٹا اُسے چھاتی سے چمٹائے بجلی کی طرح گرجی تھی۔ اُس دن  امّاں کی چینخ سے کچھ وقت تک اُسے کچھ بھی سنائی نہ دیا اُسے لگا کہ وہ ریت کے دریا میں اکیلی کھڑی ہے اور ریتیلے غبار کے جھکّڑوں سے اُسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ امّاں کی چینخ کی گونج کے ساتھ ہی زبان نکالی ہوئی وحشتناک آنکھوں سے دیکھتی ہوئی ماتا کے سینکڑوں روپ اُسے اُس دن اماں کےآس پاس ہی محسوس ہوئے۔ لمبے تڑنگے، مونچھوں پر تاؤ دیتے، انگارہ برساتی آنکھوں والے رائفل سے نشانہ سادھے ہوئے ٹھاکر بھی اُس ٹھٹھرتی رات کو بوکھلائے ہوئے میمنے لگے۔ رائفل کی جگہ اُنکے ہاتھوں میں اُسے پشکر میلے کا تنتنا دکھائی پڑ رہا تھا۔ دوڑتے بھاگتے ملازم دُم دبائے کتّوں کی سی حرکت کرتے نظر آرہے تھے۔ نہ جانے کیا بات تھی امّاں کی آواز میں وہ کبھی لجاجت سے بھی پکارتیں  تو اُس میں بھی ہلکی سی دہاڑ کی جھلک صاف محسوس ہوتی۔ امّاں مسکراتی تو تھیں لیکن اُنکی چمکتی آنکھیں ویسی ہی سپاٹ نظر آتیں مانو کوئی بڑا سا محل اپنے مکینوں کے بناء اُجاڑ کھنڈر ہوگیا ہو۔ امّاں کی چبھتی نظروں کو اپنے وجود میں گڑتا دیکھ بھاگمتی کو لگا کہ اُس کے بیزاری بھرے روّیے میں اُس کا دخل نہیں تھا۔ اُسے وہم سا ہونے لگا کہ شاید اُس نےسوتے میں کچھ بڑبڑا دیا ہو۔ وہ زنانہ حصے کے پاس مٹکوں کے ڈھیر کے ایک جانب بُت بنی گنگ سی بیٹھی رہی۔ زنانہ حصے کو رنگین پتھروں اور چمکیلی ٹِکلیوں سے ٹانکے گئے پردے سے بانٹا گیا تھا۔ تیرتھ یاترا پر گئے بسواس کمار کے رکھے گئے مٹکوں سے اُن پر کی گئی گلکاریوں سے اُسے انسیت سی ہوگئی تھی۔ اکثر وہ اُن مٹکوں پر بناے گئے پھولوں کے سنگ خود کو تتلی جیسا اڑتا ہوا دیکھتی پھر کہیں سے کوئی کالا بھونرا آجاتا  اُسکے نازک پَر زخمی ہوجاتے اور وہ چونک پڑتی۔ آج بھی امّاں کی نظروں کی تپش سے بچنے کے لئے وہ مٹکوں کی آڑ میں سمٹ کر بیٹھ گئی۔ نظر پھر پھولوں پر جا پڑی بھونرے کا خیال آتے ہی اُسے اپنے نازک پَر چِھلے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ مَٹ میلے گھاگرے کا بڑا سا حصہ اسکے پیچ و تاب کھاتے گورے ہاتھوں سے مَسلا جارہا تھا۔ دھونکنی بجھی ہوئی تھی پھر بھی اُس نے اپنے ماتھے کے ٹھنڈے قطروں کو زمین پر مٹی میں جذب ہوتے دیکھا۔ چھن کی آواز سے وہ بیٹھے بیٹھے چونک پڑی۔ وہ سوچنے لگی کہ اُس کے ہاتھوں میں تو تیز دھار کی چھریاں بھی نہیں تھیں نا ہی پاس میں رکھی پانی سے بھری کوئی ناند تھی۔ پھر یہ چھن کی آواز کیسی؟؟  ٹھیک ہے امّاں وہ منمنائی۔ لیکن وہاں امّاں موجود ہوتیں تو سنتیں۔ مٹی کو گھورتے اُسکی نظریں ایک جگہ مرکوز ہوگئیں۔ ریت سے چھوٹے چھوٹے دائرے بڑے ہوتے گئے اور اُسکے چہرے پر چھانے لگے۔ وہ وہیں بْت بنی بیٹھی رہ گئی۔
“تھارے ہاتھوں میں اِی لال چوڑیاں خوب جچے گی” حویلی کی جاگیر کے ایک کنارے دور ٹیکری کی اوٹ میں اُسکے زانووں پر سر رکھے مانو پرتاپ سنگھ نے اپنی گمبھیر آواز میں اُس سے کہا۔ بھاگمتی مانو سنگھ کی شرارت بھری نظروں کی تپش کو اپنے اندر اُترتا محسوس کررہی تھی وہ من ہی من میں اپنے اندر کی عورت کے وجود کو سکیڑنے لگی۔ سرسراتی ہوا کے خوشگوار جھونکوں سے اُسکے گھنگریالے اخروٹی رنگت کے بال رخساروں پر اٹھکیلیاں کررہے تھے۔ مچلتے دل کو سنبھالتے ہوئے وہ بول اُٹھی،
“دیکھ مانو یہ سب عسکیہ باتیں جانے دے پہلے یہ تو بتا کہ ہم سادی کیسے کرپا ویں گے حویلی کے لوگ تو…!” بھاگمتی اپنی بات پوری بھی نہیں کرپائی تھی کہ مانو نے تڑپ کر اُسکے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا رخساروں سے شرارت کرتی لٹوں کو ہٹاتے ہوئے وہ فوراً اُٹھ بیٹھا، پاس پڑے خنجر کو اُٹھا کر پٹکے میں اُڑَس لیا، کاندھے تک جھولتے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا چرمی جوتوں میں اپنے پیروں کو ڈالا اور بھاگمتی کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ایک سمت چل پڑا۔ مانو کے ایسے پُراعتما برتاؤ سے وہ ہمیشہ کھل اُٹھتی۔ اسکی لوویں سرخ ہوجاتیں۔  دل  بے نام سی خوشیوں سے بھر اُٹھتا۔ چند برس پہلے بھاگمتی کا باپ چترنجن اپنے قبیلے کی بقا کے لئے ٹھاکروں سے بےجگری سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ لڑائی کے تیسرے دن پَو پھٹتے ہی سورج آگ اگلنے لگا تھا۔ ریتیلی زمین اپنی تپن سے ڈھیٹ بنی تنہا لڑتے چترنجن کی گرمی سے لوہا لے رہی تھی۔ اَن گنت لاشوں کے ڈھیر پر مسکراتے ہوئے چترنجن نے اپنے پران دئیے۔ خون آلود دھول مٹی کے ساتھ قبیلے کے نازک ارمانوں کی چتا بھی ٹھاکروں کے غیض و غضب میں بھسم ہوتی گئی۔ اُس دن کچھ بھی تو نہ بچا تھا قبیلے میں، ہر طرف خون ہی خون، انسانی جسموں کے چیتھڑے، گھروں کے برتن، اوزار اور اُنکی عزتیں بکھری پڑی تھیں۔ پامالی کا جاں گسل احساس گاڈیا  قبیلے کی روح میں چھانے لگا۔ وہ امّاں ہی تو تھیں جنکے حوصلوں اور رعب دار برتاؤ سے قبیلے کی مرتی روح میں پھر سے جان پڑتی گئی۔ ریتیلی زمین پر رات کے الاؤ روشن ہونے لگے، رات رانیاں لہک لہک کر گیت گانے لگیں۔ اُسے آج بھی یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو امّاں نے بہت سمجھایا لیکن چمیلی اب سب سمجھانے بجھانے کے مرحلوں سے آگے بڑھ چکی تھی۔ دیویندر پرتاپ سنگھ اُسکی کل کائنات بن چکا تھا۔ پھر ہڈیوں میں خون جما دینے والی وہ رات بھی آئی جب حویلی کے صدر دروازے سے امّاں چنگھاڑتے ہوئے چمیلی کی لاش کو اپنے سینے سے چمٹا کر گھر لائی تھیں۔ بھاگمتی سب بھول جانا چاہتی تھی۔ بچپن سے ان سارے بھید بھاؤ سے وہ اوب چکی تھی۔
“کیا ہم لوہاروں کے کوئی سپنے نہیں..؟”
 “کیا ہم چاندی کی تھال میں پروسے گئے کھانے کبھی نہیں کھا سکتے؟” پھر اپنے قدموں سے زمین کھسک جانے کے خیال سے وہ فوراً اپنے سر کو جھٹکتی. چمیلی کا مسکراتا دمکتا چہرہ اسکی کھنکتی ہوئی ہنسی کی مسحور کن بازگشت سے وہ اکثر خیالوں کی اُن تہوں تک جاپہنچتی جہاں بھید بھاؤ کے زخموں کو مندمل کرنے میں چمیلی اور اُسکے بچپن کی خوبصورت یادیں تھیں۔ وہ دھونکنی کے پیٹ میں سانس بھرتے بھرتے اپنے کچے گھر کے دالان سے حویلی کے اونچے درو ویوار کو، مہنگی لکڑیوں سے بنے دروازوں، اُن دروازوں کے اوپر رنگین کانچ کے ٹکڑوں سے جَڑے محرابوں کو دیکھتی پھر کچھ سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا دیتی اُس کی مسکراہٹ کے پیچھے تمتماتے جذبوں کی کسی کو بھنک نہیں تھی۔
“ایسے گھور گھور کر زمین میں چھید کرے گی کیا” امّاں کی کرخت آواز اچانک اُسکے کانوں سے ٹکرائی دائرے چھوٹے ہوتے ہوئے نکتہ بن کر زمین میں کہیں مدغم ہوگئے۔ چمیلی کی یادیں  کبھی ریت گھڑی کے خالی ہوتے حصے کی طرح لگتی جیسے ہی اُسے یہ محسوس ہوتا اُسے لگتا  کہ پھولوں کے رنگ اُڑ چکے ہیں وہی پھول جنہیں چند گَملوں میں کبھی چمیلی نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔ وہ فوراً لپک کر ریت گھڑی کو اُلٹا رکھ کر یادوں کو پھر سے کشید کرنے لگتی۔ آج کے دن کا اُسے بے صبری سے انتظار تھا اُسے آج ٹیکری کے پیچھے مانو پرتاپ سے ملنا تھا۔ آج صبح سے اُسے موسم بہت بھلا لگ رہا تھا۔ آسمان میں اُڑتے پرندوں کی چہکار میں اُسے مدھم گیت کی لے سنائی دے رہی تھی۔ پھر امّاں کی چتاونی بھی جیسے ہی یاد آئی اُسکے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
 “نہیں نہیں اب اور انتظار نہیں” حویلی کی شادی میں وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ خوب جم کر ناچی تھی وہاں کی عورتوں کی سنہری ساڑیاں، اُنکے مہنگے رنگین زیورات سے اُس دن نظریں ہٹتی نہ تھی۔ ریتیلے قصبے میں یوں تو ہریالی بَس نام کی تھی لیکن حویلی کے لمبے صحن میں ہریالی سے سایے بنے ہوئے تھے۔ وہاں کے قیمتی فانوس، رنگین جگ مگ کرتے جھومر، سرخ دبیز قالین اور طرح طرح کے کھانے اُسکی نظروں سے ہٹتے نہ تھے۔
“آخر یہ سورج کب ڈھلے گا. جو بھی ہو مجھے آج جانا ہی ہے اب اور انتظار نہیں ہوتا” وہ بدبدائی۔ امّاں کے سونے والے حصے پراُس نے اُچٹتی نگاہ ڈالی دل زوروں سے دھک دھک کئے جارہا تھا امّاں چلم سے شغل کرکے ہلکے بدن کے ساتھ آسمان کی سیرپر جاچکی تھیں. وہ لپک کر اُٹھی ٹھنڈے پانی کے کئی چھپاکے منہ پر تیزی سے مارے، کپڑوں پر نظر دوڑائی، شیشے پر نظریں گاڑے بالوں کو کس کر باندھا۔ کاجل کی گاڑھی لیکر آنکھوں کے گرد پھیرا۔ نازک زنجیر سے بندھے رنگین پتھروں سے جَڑے ہوئے چھوٹے سے گولے کو مانگ سے گذار کر ماتھے پر لٹکایا۔ دونوں ہاتھوں کی بیچ کی انگلیوں سے سنہری زنجیر سے بندھے “ہاتھ پھول” کو پہنا۔  چمکتے “باجو بند” کو بازو میں کسا۔ بیچ کی انگلی میں آئینوں سے جَڑی آرسی پہنی۔ ماتھے اور ٹھڈّی پر پکے رنگ سے کچھ نقطے بنائے۔ سورج زردی مائل ہوکر پہاڑیوں کے پیچھے چھپنے کی تیاریوں میں تھا۔ ریشمی کپڑے، آرام و آسائش مہنگے زیور اُسکے خیالوں میں پھر گھومنے لگے ان خیالوں سے سر جھٹک کر ملگجی روشنی میں وہ تیز قدموں سے چلتی گئی۔ اُس کی سرمئی آنکھوں میں عجیب سا عزم جھلک رہا تھا۔ ٹھنڈے پسینے کے قطروں کے سنگ اُسکے چہرے پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ مانو کے پاس پہنچ کر ہی اُسکی سانسوں کا طوفان تھما۔ آسمان سیاہ ہوچکا تھا۔ تارے پوری آب وتاب سے چمک رہے تھے۔ اب رخصت کا وقت تھا مانو کو اُس نے اپنے سینے سے کس کر جکڑ رکھا تھا ایک بیخودی تھی یا کوئی باؤلا پن۔ دور الاؤ کے گرد رقص میں ڈوبیں رات رانیوں کے گیت تیز بہت تیز ہوتے جارہے تھے۔  مانو اچانک اُس کے بازووں میں جھول گیا۔ بھاگمتی نے بہت سکون سے اسے خود سے الگ کیا مانو کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا وہ دھڑام سے گرا اور ساکت ہوگیا۔