Aurat by Rasheed JahaN

Articles

عورت

رشید جہاں

ڈاکٹر رشید جہاں (25 اگست، 1905ء – 29 جولائی، 1952ء)،  اردو کی ایک ترقی پسند مصنفہ، قصہ گو، افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں، جنہوں نے خواتین کی طرف سے تحریری اردو ادب کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ پیشے سے ایک ڈاکٹر تھیں۔

ڈاکٹر رشید جہاں کا تعلق علی گڑھ کے ایک روشن خیال خاندان سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ علی گڑھ کے مشہور تعلیم اور مصنف اور علی گڑھ خواتین کالج کے بانیوں میں سے ایک تھے، جنہیں ادب و تعلیم میں سن 1964ء میں حکومت ہند کی طرف سے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ میں تعلیم نسواں کا پہلا اسکول اور کالج قائم کیا تھا جو آج بھی عبد اللہ گرلس کالج کے نام سے معروف ہے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک ادارہ ہے۔ ان کی والدہ وحید شاہجہاں بیگم بھی بہت روشن خیال تھیں اور ایک رسالہ ’خاتون‘ نکالتی تھیں۔ جس کا مقصد مسلم خواتین میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ لکھنؤ کے مشہور ازا بیلا تھوبرون کالج میں کروا دیا گیا تھا۔ وہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی کے لارڈ ہارڈنگ میڈیکل کالج میں داخل ہوئیں اور وہاں سے سنہ 1934ء میں ڈاکٹر بن کر نکلیں۔ سنہ 1934ء میں ہی ان کی شادی محمود الظفر کے ساتھ ہوئی جو اردو کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ امرتسر کے اسلامیہ کالج میں پرنسپل بھی تھے۔ وہیں ڈاکٹر رشید جہاں کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوئی اور وہ با قاعدہ ترقی پسند تحریک کی سرگرم رکن بن گئیں۔

رشید جہاں پہلی بار 1932ء میں زیر بحث آئیں جب ان کے افسانوں اور ڈرامے کا مجموعہ ‘‘انگارے’’ شائع ہوا۔ افسانہ نگاری انہوں نے اپنی شادی سے پہلے سے شروع کر دی تھی، اور سنہ 1931ء میں سجاد ظہیر کی ادارت میں ” انگارے “ کی اشاعت ہوئی تو اس میں ان کا افسانہ ’ پردے کے پیچھے ‘ اور’ دلی کی سیر ‘ شامل تھا۔ کیونکہ ان کے افسانے اس وقت کے سماج میں رائج بنیاد پرستی اور جنسی اخلاقیات کے لیے چیلنج تھے۔ ’ انگارے‘ کی اشاعت کے بعد اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا تھا اور جگہ جگہ اس کی کاپیاں جلا دی گئی تھیں۔ بعد میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کی کاپیاں ضبط کر لی گئی تھیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں ایک رسالہ ” چنگاری “ کی بھی مدیرہ تھیں جس کا مقصد خواتین میں ذہنی بیداری پیدا کرنا تھا۔ لکھنﺅ کے دوران میں قیام انہوں نے کئی ڈرامے لکھے اور انہیں اسٹیج بھی کیا۔ ان کا افسانوی مجموعہ ” عورت“ اور دوسرا 1937ء میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ دوسرا افسانوی مجموعہ ان کے انتقال کے بعد ’ شعلہ جوالہ ‘ کے عنوان سے سنہ 1968ء میں اور تیسرا ’ وہ اور دوسرے افسانے ‘ سنہ 1977ء میں شائع ہوا۔

عورت

کردار

مولوی عتیق اللہ

فاطمہ: مولوی عتیق اللہ کی بیوی

عزیز:جوان مرد۔ فاطمہ کا ایک ماموں زاد بھائی۔

قدیر:جوان مرد۔ عزیز کا چھوٹا بھائی۔

ممانی:عزیز و قدیر کی ماں۔

کرایہ دارنی:ایک عورت مع بچہ

ایک ملازم عورت

بڑی بی:عتیق اللہ کی ملازم ماما۔

ایک  اور عورت

لڑکا سات آٹھ سال کا

 

وقت:ظہر اور عصر کے درمیان۔

جگہ:فاطمہ کا گھر۔

(ایک بڑا سا دالان ہے۔ اس کے دونوں طرف تخت بچھے ہوئے ہیں۔ ان پر سفید چاندنی بچھی ہے۔ گاؤ تکیے لگے ہوئے ہیں۔ بیچ میں ایک پلنگ ہے۔ اس پر ایک بچھونا لپٹا ہوا سرہانے کی طرف رکھا ہے جس کو عتیق اللہ گاؤ تکیہ کی طرح استعمال کرتا ہے۔ پلنگ کے ایک طرف حقہ ہے  اور دوسری طرف اگالدان۔ سامنے کے تخت پر فاطمہ بیٹھی سی رہی ہے۔ پاندان تھالی کسنہ  اور بغچی اس کے چاروں طرف ہیں۔ زمین پر فرش نہیں ہے۔ دو تین پیڑھیاں پڑی ہوئی ہیں۔ دالان کی دیواروں میں جگہ جگہ طاق بنے ہوئے ہیں  اور ان پر تانبے  اور چینی کے برتن سجے ہوئے ہیں۔ الٹے ہاتھ کی طرف باہر سے اندر آنے کا دروازہ ہے اس پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہے  اور سیدھے ہاتھ کو پیچھے کی طرف زینہ کا دروازہ ہے۔اسٹیج کے پیچھے دو دروازے ہیں جو کمرے میں کھلتے ہیں۔ ایک دروازہ بند  ہے  اور ایک کھلا۔)

 

عتیق اللہ:(حقہ گڑگڑاتے ہوئے) میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میری دوسری شادی کا تم پر کیا اثر پڑے گا۔ گھربار، روزمرہ کا خرچ سب کچھ تمہارے ہی ہاتھ میں رہے گا۔ میں کتنی بار کہہ بھی چکا ہوں کہ تم دونوں کا برابر خیال رکھوں گا۔۔۔ جب تمہارے بچے ہی نہ جئیں تو مجبوراً مجھ کو دوسرا نکاح کرنا پڑ رہا ہے۔

فاطمہ:(منہ اونچا کر کے) بچے نہیں جیتے تو کیا میں ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالتی ہوں  اور  جب اللہ میاں کی مرضی ہی نہیں ہے کہ ہمارے جیتے جاگتے بچے ہوں تو اس میں  میرا کیا بس ہے؟ اور خدا کی مرضی کے آگے چل کس کی سکتی ہے؟جو دوسری عورت کے بچے بھی مر گئے تو تم کیا کر لو گے؟

عتیق:انسان کم از کم اپنی طرف سے سب کوشش کر دیکھے۔ میری عمر اب چالیس برس کی ہو گئی  اور اب تک کوئی جیتا بچہ نہیں ہے۔ اولاد بڑھاپے کی لاٹھی ہے  اور اسی وجہ سے شریعت نے بھی یہ حکم دیا ہے کہ اگر عورت بانجھ ہویا اس کی اولاد نہ جیتی ہو تو مرد دوسری شادی کر سکتا ہے۔

فاطمہ:یہ بچے نہ جینے کی شریعت میں نے آج ہی سنی ہے !تم جو شریعت نہ بناؤ وہ کم ہے۔ میں خدانخواستہ کوئی بانجھ نہیں ہوں دس بارہ بچے پورے  اور  کچے ملا کر ہوئے اب کوئی نہیں رہا تو اس میں کون سا میرا قصور ہے کہ مجھ کو سزا دی جائے !دنیا بھرکو تم تعویذ دیتے ہو، آخر تمہارا علم کس دن کام آئے گا۔

عتیق:یہی تومیں تم کو برابر بتا رہا ہوں کہ پچھلی جمعرات کو خواب میں مجھ سے ایک بزرگ نے کہا کہ اس عورت سے تیرے جیتے بچے نہیں ہو سکتے۔ دوسری شادی کرتا کہ تیری دلی مراد بر آئے۔ جب خدا ہی کا حکم نہ ہو تو۔۔۔

فاطمہ:بنتے تو تم بڑے مولوی ہو۔ ساری دنیا تمہارا ادب کرتی ہے۔ فتویٰ لکھواتی ہے لیکن خدا کی قسم تمہارے یہ من گھڑت خواب میرا دل جلا کر خاک کر دیتے ہیں۔ اب تمہارے جھوٹ مجھ پر اثر نہیں کرتے۔ ابھی یہ کہہ رہے تھے کہ مہینوں سے ایک مرید میرے پیچھے پڑ رہا ہے کہ میری لڑکی سے شادی کر لو۔ اب جمعرات کو بزرگ بھی خواب میں کہہ گئے۔ سچ کیوں نہیں کہتے کہ وہ لڑکی بیمار تھی۔ آپ جن اتارنے گئے تھے جن تو اتر گیا۔ اب اس کی جگہ خود لینا چاہتے ہو۔(بگڑ کر) شادی کرنی ہے تو کر لو مجھ سے پوچھ کر اور کون  سا کام کرتے ہو۔ لیکن جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت؟

عتیق:(حقہ جھٹک کر) عجیب عورت ہے خاوند کو جھوٹا کہتی ہے جب ہی تو تمہارے بچے مر جاتے ہیں۔

فاطمہ:خیر اب دوسری جو۔۔۔

(ایک عورت تنگ پائجامہ میں داخل ہوتی ہے۔ میلا برقع اوڑھے ہے اس کی گود میں ایک چھوٹا بچہ ہے۔ وہ بھی ماں کی طرح میلا ہے  اور گلے میں تعویذوں کا ہار پہنے ہوئے ہے۔ عورت کو دیکھ کر فاطمہ  اور  عتیق اللہ چپ ہو جاتے ہیں۔ فاطمہ سینے لگتی ہے  اور عتیق اللہ حقہ گڑگڑاتے ہیں۔ عورت آگے بڑھ کر پہلے عتیق کو اور پھر فاطمہ کو سلام کرتی ہے  اور  پلنگ  اور  تخت کے درمیان پیڑھی پر بیٹھ جاتی ہے۔)

عتیق:کہو بچہ تو اچھا ہے۔

عورت:حضور کی مہربانی ہے۔ ابھی چھوٹے میاں کہاں اچھے ہیں۔ خوب بخار چڑھ رہا ہے چونک چونک پڑتے ہیں۔ کوئی دوسرا تعویذ تجویز کر دیجئے  اور  مولوی صاحب، بیوی نے کہا ہے کہ بڑی مہربانی ہو گی جو بچہ کو ایک دفعہ شام کو پھر دیکھ لیں۔

عتیق:(بھویں سکیڑ کر) بھئی!میں کسی کے یہاں گھڑی گھڑی  جانا تو پسند کرتا نہیں ہوں۔ خاص کر ضعیف  الاعتقاد لوگوں کے یہاں۔(حقہ کا کش لے کر)ان کے میاں بڑے انگریز بنتے ہیں۔ بھئی!اپنی بیگم صاحب سے کہہ دینا کہ اگر انھوں نے انگریزی دوا دی تو پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

عورت:اے حضور کر کیوں نہیں سکتے خدا کے حکم سے آپ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہزار بیوی چلائیں۔ لیکن میاں کسی موئے ڈاکٹر  کو لے ہی آئے۔ اس نے رینڈی  کا تیل بتایا، نسخہ لکھا  اور  بدہضمی بتا گیا۔

عتیق:(طنزیہ ہنسی سے) بدہضمی!بدہضمی کی خوب کہی۔ اس پر تو سایہ ہے۔ (تھوڑی خفگی سے) بھئی ہمارا علاج کرنا تھا تو انگریزی دوا کیوں دی گئی۔ میں اب ہرگز نہیں جانے کا۔ اگر ان کا دل چاہے تو بچے کو یہیں لے آئیں۔

عورت:(پیڑھی کو آگے کھسکا کر) مولوی صاحب، دواتو ابھی نہیں دی۔ لیکن تیل تو میاں نے اپنے سامنے ہی پلا دیا تھا۔ بیوی نے یہی کہا ہے کہ آپ خفا مت ہو جائیے کیا کرتی مجبور تھی۔ میاں کے آگے کچھ نہ چلی  اور  حضور بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ ’’بچہ اٹھنے کے قابل نہیں ہے ورنہ میں خود آپ کو تکلیف دینے کی جرأت نہ کرتی  اور اس کو یہیں آپ کے قدموں میں لا ڈالتی۔‘‘ تکلیف تو حضور کو بہت ہو گی جب کہیں سواری لے کر حاضر ہو جاؤں۔

عتیق:اونہوں !اس معصوم بچے کی جان کی مجھ کو خود فکر ہے ورنہ میں نہ کسی کے گھر جاؤں  اور نہ ان لوگوں کا علاج کروں؟ جو میرا حکم نہیں مانتے۔ اگر  ان کافروں کی دوا پلانا تھی تو مجھے ناحق دق کیا۔

عورت:حضور اب کیا کریں؟مردوں سے بس نہیں چلتا۔ ورنہ بیوی کو تو آپ پر وہ اعتقاد ہے  اور ہونا بھی چاہئے اب دیکھئے۔(بچہ کی طرف اشارہ کرتی ہے)میرے بچے کے دانت یوں ہی آپ کے تعویذوں کی بدولت نکل رہے ہیں نہ بخار ہوا نہ آنکھیں دکھیں۔ آپ کی کرامت کی تعریف تو ہر کسی سے سن لو۔

عتیق:میری اس میں کوئی تعریف نہیں ہے۔ اللہ کا کلام ہے۔ اسی کا سب ظہور ہے۔

عورت:لیکن مولوی صاحب!ہر ایک کوئی اللہ کے کلام کو سمجھتا کب ہے؟ (پیڑھی  اور آگے کھسکا کر) اب دیکھئے نیم کی گلی میں بھی ایک مولوی ہیں۔ بس منہ نہ کھلوائیے۔۔۔

(باہر سے کوئی زور سے کنڈی کھٹکھٹاتا ہے۔)

عتیق:کون ہے؟

(کنڈی کا شور جاری رہتا ہے۔)

عتیق:(عورت سے) ذرا جا کر دیکھنا کہ کون ہے؟

(عورت بچے کو چھوڑ کر باہر جاتی ہے۔)

فاطمہ:(جلے ہوئے لہجے میں)علاج ہو ڈاکٹر  کا بدہضمی ہے۔ جلاب دیا گیا ہے۔ بخار اسی سے اتر جائے گا نام مولوی صاحب کا ہو جائے گا۔ انھیں ڈھکوسلوں سے تو لوگ تمہارے معتقد ہوتے ہیں۔۔۔

(عورت ایک خط لے کر داخل ہوتی ہے۔ فاطمہ چپ ہو جاتی ہے۔ عتیق خط لے کر پڑھتا ہے۔)

عتیق:(فاطمہ سے)لو تمہارے نام تمہاری ممانی کا خط ہے وہ آج شام کو پھر آئیں گی(عورت سے) اچھا بیٹی! اب تم جاؤ۔ مغرب سے پہلے سواری لے آنا۔

(عورت سلام کر کے بچے کو اٹھا کر رخصت ہوتی ہے۔)

عتیق:یہ تمہاری ممانی ابھی چار روز ہوئے تو آئی تھیں۔ کیا ان کو اپنے گھر کچھ کام نہیں ہے؟اب یہ ہوا نئی چلی ہے کہ عورتیں دو دن جم کر گھر نہیں بیٹھتیں۔

فاطمہ:اگر گھڑی دو گھڑی کو وہ آ جاتی ہیں۔ تو تمہارا کیا  بگاڑ جاتی ہیں؟

عتیق:ان کے لڑکے بھی ضرور آئیں گے تم کو ان سے درحقیقت پردہ کرنا چاہئے۔

فاطمہ:کیوں؟وہ دونوں مجھ سے چھوٹے ہیں دوسرے برسوں کے بعد تو اب پھر دہلی آ کر  رہنا شروع کیا ہے۔ میں تو صورتیں دیکھنے کو ترس گئی تھی۔ اب میں ان سے پردہ کروں گی؟

عتیق:تمہارے ان ماموں کے گھر کا ڈھنگ مجھ کو بالکل  پسند نہیں ہے۔ انسان گھر سے باہر رہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے پرانے طریقے چھوڑ دے  اور کرسٹان بن جائے۔ لڑکوں کو جب  دیکھو کر سٹان بنے پھر تے ہیں لڑکے تو لڑکے بڑھاپے میں تمہاری ممانی نے بھی ساڑھی باندھنی سیکھی ہے؟

فاطمہ:بڑھاپے میں تو نہیں ، ممانی جان ہمیشہ سے ساڑھی باندھتی ہیں۔ شادی ہو کروہ ماموں جان کے ساتھ پردیس چلی گئی تھیں  اور وہیں رہیں خدا جنت نصیب کرے۔ جب تک چھوٹے ماموں زندہ رہے یہ ساتھ ہی رہیں۔ ان کی ملنے والیاں بہت سی ہندو ہی تھیں۔ (بگڑ کر) تو آخر ساڑھی میں کیا برائی ہے؟

عتیق:برائی کیوں نہیں ہے !ایک تو اپنا اسلامی لباس چھوڑنا  اور پھر کافروں سے دوستی کرنا یہ کہاں کی شرافت ہے؟خیر ماں کو چھوڑو لیکن یہ ان کے دونوں صاحبزادے جو انگریزی لباس میں اینٹھتے پھر تے ہیں اس کے آخر کیا معنی ہیں؟(ذرا دیر ٹھہر کر) اول تو وہ لوگ نامحرم ہیں۔ دوسرے میری مرضی نہیں ہے کہ تم قدیر  اور عزیز کے سامنے آؤ۔

فاطمہ:تمہیں تو بس ایک بات کی ضد ہو جاتی ہے میرے بڑے ماموں ہیں ان کے بڑے لڑکے کے میں سامنے آتی ہوں وہ تمہارے دوست  اور  معتقد ہیں تو وہ بڑے محرم ہو گئے۔ تم خود ان کو بلاتے ہو اور وہ یوں بھی آتے ہیں۔ وہ نامحرم نہ ہوئے؟قدیر اور عزیز جن سے وہی رشتہ ہے وہ نامحرم ہو گئے۔ آخر مجھے بھی بتاؤ۔

عتیق:مجھے ہر بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے شوہر کا حکم بیوی کو بغیر حیل و حجت کے ماننا فرض ہے۔ لیکن تم ہو کہ  ہر بات میں سوال و جواب کرتی ہو۔ اگر جواب چاہتی ہو توسنو۔

ان دونوں لڑکوں کے چال چلن بالکل ٹھیک نہیں ہیں ان کا ایمان نہیں رہا مذہب نہیں رہا خدا  اور  رسول کا کچھ بھی خوف ان کے دل میں نہیں ہے۔ شراب یہ پئیں ،  بد گوشت کھائیں (جوش میں اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں) ان سے زیادہ  اور کون بدمعاش ہو گا! دوسروں کی شریف عورتوں پر نگاہ ڈالتے ہیں کافر کہیں کے !

فاطمہ:(غصہ سے)خدا نہ کرے وہ کافر کیوں ہونے لگے۔ کسی کو کافر کہنا بڑے ثواب کا کام ہے؟تم بھی پرانے مردے اکھاڑنے لگے۔ نگاہ ڈالی؟ تمہاری بہن کہاں کی ایسی نیک ہیں !قدیر نگوڑے نے کیا نگاہ ڈالی اس کی عمری تھی یہی تو خیال کیا تھا کہ تمہاری بہن سے شادی کرے۔ شادی کرنے کی خواہش تو کوئی بری نگاہ نہیں ہے۔

عتیق:نہیں بہت اچھی نگاہ ہے گھر میں آ کر پرائی لڑکی سے جھانکا تاکی کریں یہ کہاں کی شرافت ہے؟

فاطمہ:جھانکا تاکی کس نے کی؟تمہاری بہن مانگ پٹی کر کے خود اپنا جلوہ دکھانے کھڑی ہو جاتی تھیں۔ کون سی ایسی ننھی تھیں قدیر تو سے عمر میں کچھ بڑی ہی ہیں۔ وہ تو پھر لڑکا تھا انھیں اپنی ناک کا کچھ خیال نہ ہوا۔ بچارے قدیر ہی پرکیا ہے۔ اپنے گریبان میں منہ ڈالو۔ اب خود جو کنیز فاطمہ پر لٹو ہو اور مجھ  پر بچوں کے نہ جینے کا الزام رکھتے ہو۔(بگڑ کر) اپنی برائی کسی کو نظر نہیں آتی۔

عتیق:استغفراللہ!کنیز کے والدین خود مجھ کو نجیب الطرفین سمجھ کر بہت خوشامد کے ساتھ شادی کر رہے ہیں۔

فاطمہ:ہاں تمہاری یہ نجیب الطرفینی نہ معلوم کس کس کی قسمت پھڑوائے گی۔ اسی پر تو اللہ بخشے ابا نے مجھے بھی قربان کر دیا۔۔۔ (گھرکی ماما داخل ہوتی ہے فاطمہ بغیر رکے ہوئے مڑ کراس سے بات کرنا شروع کرتی ہے۔) دیکھنا بڑی بی؟تم نے چلتے وقت نہ باورچی خانہ میں جھاڑو دی مکھیاں بھنک رہی ہیں  اور اب اتنی دیر کر کے تم آئی ہو۔

ماما:(قریب آ کر پیڑھی  پر بیٹھ جاتی ہے)ہاں بیوی!تھوڑی دیر ہو گئی۔ ذرا کی ذرا ہمسائی کے ہاں چلی گئی تھی اس کی لڑکی سسرال سے آئی ہوئی ہے۔ کم بخت باتوں میں ایسی بیٹھی کہ وقت کا دھیان نہ رہا! (تھوڑی دیر ٹھہر کر)بیوی ذرا ایک ٹکڑا پان کا دینا۔۔۔ پیسہ دو گی کچھ سودا منگانا ہے یا کھانا کہیں باہر سے آ جائے گا؟

فاطمہ:(پان دیتے ہوئے طنزاً) اسے کھانے کی تم پرواہ نہ کرو خدا تمہارے مولوی صاحب کو زندہ رکھے۔ مفت کا پلاؤ قورمہ روز حاضر ہے۔ آج ایک مرید کے ہاں شادی ہے وہاں سے آ جائے گا۔تم اس وقت سونف جو دھوپ میں سوکھ رہی ہے اس کو چن کر کوٹ دو کل چٹکی بناؤں گی۔

(ماما اٹھ کر جانے لگتی ہے۔)

فاطمہ: اور سنو بڑی بی!برتن اچھی طرح دھونا۔ باورچی خانہ میں جھاڑو بھی دینی ہے ذرا جلدی کرو۔ پھر ممانی آ جائیں گی۔

عتیق:(ڈکار لے کر)بڑی بی ذرا پانی پلاتی جانا۔۔۔

فاطمہ:(باٹ کاٹ کر) اے تم جاؤ اپنا کام کرو پانی مل جائے گا۔

(فاطمہ اٹھ کر جاتی ہے  اور کٹورے میں پانی لا کر عتیق اللہ پاس زور سے رکھ دیتی ہے  اور واپس جانے لگتی ہے۔)

عتیق:(پانی کا کٹورا ہاتھ میں لے کر) یہ قدیر دو برس سے وکالت کر رہے ہیں کچھ کما بھی لیتے ہیں؟

فاطمہ:(واپس تخت پر بیٹھ کر)کماتے نہیں تویوں ہی۔ ہر کسی کے سامنے تمہاری طرح ہاتھ تو نہیں پھیلاتے۔

عتیق:اگر کما رہے ہیں تو شادی کیوں نہیں کرتے؟

فاطمہ:شادی بھی ہو جائے گی کیا جلدی ہے۔ ابھی جوان ہے کوئی بڈھا تو نہیں ہے۔ کہتا ہے اپنی پسند کی کروں گا۔ میں تو خدا کا شکر کرتی ہوں کہ تمہاری بہن سے نہیں ہوئی۔ لڑکے کی قسمت پھوٹ جاتی۔ اب تو تمہیں بھی لالچ آتا ہو گا!

عتیق:(سیدھے بیٹھ کر) اس کافر کا کیا منہ تھا کہ میری بہن لے جاتا۔ میری زندگی میں تو ایسا  ہو نہیں سکتا تھا۔

فاطمہ:خیر وہ کافر سہی نیچ ذات سہی اس میں تو سب ہی برائیاں ہیں۔ وہ تمہاری بہن جو سیدوں میں گئی ہیں وہ کون سی سکھ میں ہیں؟

عتیق:کچھ نہیں تو ہڈی توہے پھر وہ لوگ۔۔۔

فاطمہ:اے ہے قدیر کی ہڈی اتنی بری تھی تو تم نے قدیر کے خاندان میں بیاہ کیوں رچایا تھا؟

عتیق:میں نے کیوں رچایا تھا تمہارے والد میرے اباکے اتنے معتقد تھے کہ انھوں نے خود خوشامد کر کے تمہاری شادی کی۔

فاطمہ:خیر میرے ابا جان نے تو تمہارے ، تمہارے ابا، سب کے ہاتھ پیر  جوڑ کر میری قسمت پھوڑ دی۔ اب یہ جو بیاہ رچا رہے ہو تو یہ کون سی سیدانی ہیں؟اب تو تم ماشاء اللہ چالیس برس کے ہو۔ کوئی بچہ نہیں۔ اب تو اپنی نسل کا خیال کرو۔

عتیق:آخر اس بک بک سے فائدہ؟

(فاطمہ بقچی میں سے کپڑا اٹھا کر سینے لگتی ہے۔)

عتیق:(تھوڑی، خاموشی کے بعد) یہ اوپر کے کرایہ دار کو میرا ارادہ ہے اٹھا دوں۔

فاطمہ:(تڑخ کر)کیوں؟میرا مکان ہے۔ اول تو کرایہ آتا ہے۔ دوسرے کرایہ دارنی بڑی نیک ہے۔ اچھے برے وقت کی ساتھی ہے۔ میں تو اس کرایہ دار کو کبھی نہ اٹھنے دوں گی۔

عتیق:آخر آج کل تمہیں کیا ہو گیا ہے ، ہر بات پر بحث  اور انکا رہے۔

(ایک سات آٹھ سال کا لڑکا ایک سینی خوان پوش سے ڈھکی ہوئی سرپر لے کر داخل ہوتا ہے  اور جب بولتا ہے تو جلدی جلدی)

لڑکا:سلام ملانی جی یہ بیوی نے حصہ بھیجا ہے طشتری خالی کر دو۔

فاطمہ:کہاں سے لایا ہے  اور کس بات کا ہے؟

لڑکا:پنڈت کے کوچہ سے آئی ہے۔ یہ طشتری خالی کر دو۔

فاطمہ:کرتے ہیں۔ ذرا دم لے لو آج کیا ہوا تھا جو مٹھائی آئی ہے۔

لڑکا:بہت سی بیویاں آئی تھیں۔

فاطمہ:ارے بچے !پنڈت کے کوچہ میں تو بہت سے لوگ رہتے ہیں۔ کچھ پتہ تو بتا۔

لڑکا:جی املی والے گھر سے آئی ہے۔

عتیق:آخر اس سے کیا بحث ہے !کہیں سے آئی ہو، مٹھائی سے غرض ہے کسی مرید کے ہاں سے آئی ہو گی۔۔۔ یہ طشتری تو بہت خوبصورت ہے۔ (لڑکے سے) جا اپنی بیوی سے کہنا کہ مٹھائی تو ملانی جی کے واسطے ہے  اور طشتری مولوی صاحب نے رکھ لی۔

فاطمہ:تو سینی بھی رکھ لو وہ کیوں چھوڑتے ہو وہ تو زیادہ قیمتی ہے !

لڑکا:(ڈر کر)طشتری تو بیوی نے منگائی ہے نہیں تو ماریں گی۔

عتیق:جا، جو ہم نے کہا ہے کہہ دیجو، پھر نہیں ماریں گی۔

(لڑکا چپ  کھڑا رہتا ہے ، جاتا نہیں۔)

عتیق:(زور سے) ارے جاتا کیوں نہیں؟

(لڑکا آہستہ آہستہ چلتا ہے  اور مڑ مڑ کر طشتری کو دیکھتا جاتا ہے۔)

عتیق:ذرا دکھانا کیا مٹھائی ہے۔

(فاطمہ جھک کر طشتری آگے بڑھا دیتی ہے۔ عتیق ایک ڈلی اٹھا کر کھانے لگتا ہے۔)

فاطمہ:دیکھو!ابھی تمہاری طبیعت خراب تھی، اب یہ ثقیل مٹھائی کھانے لگے۔ اب شام کو شادی کا کھانا کھاؤ گے۔ بیمار ہو گے یا نہیں؟خیر مجھے کیا !

فاطمہ:(طشتری اٹھا کر)  اور لو گے یابس۔

عتیق:(ایک  اور ڈلی لے کر)بس  اور نہیں چاہئے۔

(فاطمہ مٹھائی لے کر اندر چلی جاتی ہے۔ عتیق مٹھائی ختم کر کے اس کے ٹکڑے پلنگ پرسے چن چن  کر کھاتا جاتا ہے  اور ڈکاریں لیتا جاتا ہے۔ ایک عورت برقعہ میں لپٹی ہوئی ادھر ادھر دیکھتی داخل ہوتی ہے۔ سلام کر کے کھڑی رہتی ہے۔)

عورت:ملانی جی کہاں ہیں؟

عتیق:(چاروں طرف دیکھ کر) اندر ہیں کیوں؟

عورت:مولوی صاحب میں مرزا حیدر بیگ کے یہاں سے آئی ہوں۔ باہر بیٹھک میں چلئے تو کہوں۔

عتیق:(انگڑائی لے کر)نہیں یہیں کہو وہ تو اندر ہیں۔

(عورت پیڑھی پر بیٹھ جاتی ہے۔)

عورت:مولوی صاحب!لڑکی والے کہتے ہیں کہ آپ پیغام دے کر چپ ہو گئے آج کل ان کے ہاں ایک  اور نسبت آئی ہوئی ہے۔ لیکن پہلے آپ کے یہاں سے ہاں یانا ہو جائے تو پھر دوسرے کو جواب دیا جائے۔

عتیق:(جلدی سے بیٹھ جاتا ہے) نہیں نہیں ان سے کہنا کہ دوسری جگہ فوراً انکار کر دیں اب تک تومیں خود سوچ میں تھا کہ آیا میں دوسری شادی کروں یا نہیں۔ لیکن اب تو اس  کا کچھ سوال ہی نہیں رہا۔ مجھے خواب میں بشارت ہوئی ہے کہ دوسری شادی کر تو میں کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہوں۔ حیدر بیگ سے کہنا کہ انشاء اللہ بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔

(فاطمہ پیچھے سے آ جاتی ہے  اور خاموش کھڑے ہو کر سنتی ہے۔)

عورت:اللہ خوش رکھے ہمارے میاں تو خود کہتے ہیں کہ وہ عورتیں خوش قسمت ہیں جن کو آپ جیسا میاں ملے وہ یہ سن کر بہت خوش ہوں گے۔ وہ آپ کے بڑے پابند ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ جیسا نیک  اور خداپرست آدمی انھوں نے آج تک نہیں دیکھا۔ بیوی کہتی ہیں ہزار کچھ  ہو تو پھر سوکن ہی ہے۔

عتیق:ارے ان ے کہنا اس بات کا بالکل خیال نہ کریں میری بیوی خود میرے پیچھے پڑ رہی ہے۔ کہتی ہے کہ  اور شادی کر لو تا کہ بچے جیتے پیدا ہوں۔ ان کی بغیر مرضی کے میں خود ایسا کام نہ کرتا۔ دوسرے وہ لڑنے جھگڑنے والی بھی نہیں۔ جب اس کے بچے ہی نہ جئیں تو وہ  اور میں دونوں مجبور ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو چار شادیوں کا حکم دیا ہے اس میں کسی کے ساتھ بے انصافی بھی نہیں ہے۔

عورت:یہی تو میاں بھی کہتے ہیں کہ جب مرد دونوں کو برابر سمجھے تو دو شادیاں کرنا تو ثواب ہے۔ مولوی صاحب اللہ رکھے وہ رہیں گی کہاں؟

عتیق:اوپر کوٹھے  پر کرایہ دار کو ہٹا کر اس کو درست کروا دوں گا۔

فاطمہ:(غصہ میں آگے بڑھ کر)کرایہ دار ہٹ جائے گا۔ مجال ہے کرایہ دار کی کہ ہٹ جائے میرے باپ کا دیا ہوا مکان ہے اس میں سے تم تو تم تمہارے جنات بھی کرایہ دار کو نہیں ہٹا سکتے  اور تم۔۔۔

عتیق:(غصہ کو دباتے ہوئے آہستگی سے) اس بک بک کی کیا ضرورت ہے؟ جو کچھ کہنا ہے مجھ سے بعد میں کہنا۔

فاطمہ:کیوں؟کیا مجھے کسی کا ڈر ہے۔۔۔

(عتیق عورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ جلدی سے چلی جاتی ہے۔)

عتیق:(تن کر) کیوں جی؟یہ تمہاری کیا حرکت ہے؟(نہایت غضبناک آواز میں)اس طرح بات کے بیچ میں کود پڑنا اس کے کیا معنی؟ کیا تمہارے ہوش و حواس بالکل خبط ہو گئے؟

فاطمہ:(بلند آواز سے) میری کیا حرکت ہے؟تمہیں جھوٹ بولتے شرم نہ آئی۔لگے الٹے چیخنے !تم اپنے کو سمجھتے کیا ہو؟میرے گھر میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ میں چپ بیٹھی سنا کروں؟

عتیق:(غصہ  اور بڑھ گیا ہے) اور تم کیا چیز ہو؟بڑی بڑی نیک عورتوں پر سوکنیں آئی ہیں  اور انھوں نے اف تک نہ کی۔ اپنے خاوند کی خدمت میں عمر کاٹ دی۔(چیخ کر)تو نہایت گنہگار  اور بدترین عورت ہے۔ مجھ کو خفا کر کے اپنے لئے جہنم تیار کر رہی ہے۔

فاطمہ:(غصہ سے کانپتی ہوئی آواز میں) اور تم  خود کون سے نیک ہو تم کون سے جنت میں چلے جاؤ گے۔ ایک دوزخ نہیں مجھ کو ہزار دوزخیں منظور ہیں۔ لیکن کان کھول کر سن لو۔ اس گھر میں وہ تمہاری بیوی ہرگز نہیں گھس سکتی۔

عتیق:(طیش میں آ کر کھڑا ہو جاتا ہے)تیری بکواس بند نہیں ہو گی؟ اگر تجھ کو خدا  اور  رسول  اور اپنے خاوند کا جو تیرا مجازی خدا ہے ڈر نہیں ہے۔ توتو نہایت ذلیل بدترین  اور نجس ہستی ہے۔ تیری اس بک بک سے میں شادی روک نہ دوں گا۔ دوسرا نکاح کروں گا پر کروں گا ا ور وہ اسی گھر میں رہے گی  اور تیرا درجہ کتے سے بدتر جس قابل کہ توہے ہو گا۔

(یہ حکم لگا کر عتیق باہر کی طرف چلتا ہے۔)

فاطمہ:(چیخ کر اور آگے بڑھ کر)تو یہ بھی سنتے جاؤ، تمہاری مولویت تمہاری عزت سب خاک میں ملا دوں گی  اور تمہاری اس معشوقہ کو یہاں نہ گھسنے دوں گی۔میں کسی بھیک منگے سید کی بیٹی نہیں ہوں کہ تم سے ڈر جاؤں۔

عتیق:(مڑ کر)اے ناہنجار دوزخی عورت اگر تو بات نہیں سمجھتی تو یہ  تو سمجھتی ہے۔

(فاطمہ کے منہ پر زور سے طمانچہ مارتا ہے  اور پھر باہر کی طرف چلا جاتا ہے۔)

فاطمہ:(غصہ سے دیوانی ہو جاتی ہے  اور دانت پیس کر مولوی کا کرتا پکڑ لیتی ہے۔)مارتے ہو تو ٹھیک سے مارو خدا  اور اس کے رسول کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تمہاری عزت تمہاری حقیقت خاک میں ملا کر نہ چھوڑی ہو تومیں حمید بیگ کی بیٹی نہیں کسی بھنگی کی ہوں گی۔

(عتیق کرتا چھڑا کر غصہ سے کانپتا ہوا باہر چلا جاتا ہے۔)

فاطمہ:(بے بس ہو کر)جاتے کہاں ہو۔ بڑے مولوی بنے ہیں۔ جھوٹے بے ایمان کہیں کے !

(فاطمہ ڈوپٹے میں منہ چھپا کر سسکیوں سے روتی ہے زینے پرسے کسی کے اترنے کی آواز آتی ہے !ایک عورت پہلے سر نکال کر جھانکتی ہے پھر سامنے آتی ہے۔)

کرایہ دارنی:اے ہے ملانی جی کیا ہوا؟یہ رونے کیوں لگیں؟خیر تو ہے؟

(کرایہ دارنی پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور بازو پکڑ کر فاطمہ کو تخت پر بٹھا دیتی ہے۔)

کرایہ دارنی:کچھ کہو تو آخر کیا بات ہے۔ آج مولوی صاحب بہت زور زور سے خفا ہو رہے تھے ! اوپر تک آواز آ رہی تھی بتاؤ تو کیا ہوا؟

فاطمہ:(سسکیاں  لے کر)دوسرا بیاہ، بیاہ کر رہے ہیں۔۔۔  اور مجھے مارا (جوش سے) اے خدا تو ایسے بے ایمانوں کو غارت کر۔۔۔

کرایہ دارنی:مارا مولوی صاحب نے !نہیں تمہیں میری قسم سچ بتانا؟

فاطمہ:(آنچل سے منہ پونچھ کر) خیر ان کو بھی پتہ چل جائے گا۔ یہ نہ سمجھ لیں کہ بن باپ بھائی کی ہے۔ جو دل چاہے گا۔۔۔

کرایہ دارنی:اے جبھی کوٹھا خالی کرنے کو کہہ رہے تھے۔ میں بھی تو کہوں آخر بات کیا ہے؟

فاطمہ:(سسکی لے کر اور آنسو پونچھ کر)کوٹھا خالی کرنے کو؟یہ کب کہا؟

کرایہ دارنی:کل رات کو ان سے کہا تھا۔

فاطمہ:ابھی تو وہ آئی بھی نہیں کہ ہاتھ اٹھنے لگا  اور جب آ جائے گی تو نہ معلوم کیا  حشر ہو گا۔ خیر انھیں بھی معلوم ہو جائے گا۔ کرایہ دار سے کہہ دینا کہ گھر خالی نہ کریں۔

کرایہ دارنی:ارے توبہ کرو ملانی جی وہ بھلا مولوی صاحب کا کہنا مانیں گے کہ تمہارا؟

(گھرکی ماما بھی آ کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور  رحم کی نگاہ سے فاطمہ کو دیکھتی ہے۔)

ماما:آج تو مولوی صاحب پر بڑا جلال تھا۔

کرایہ دارنی:دیکھو پانچوں انگلیاں منہ پر بن رہی ہیں۔

ماما:ہاہ  اتنے بڑے مولوی ہیں  اور عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

(فاطمہ آنسو پونچھتی ہے۔)

کرایہ دارنی:پہلے تو کبھی نہیں مارا۔ اب یہ نئی شادی جوکر رہے ہیں خدا کی قسم مولوی ہو یا کوئی۔ مرد کے تیور بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ اب کسی کو اچھا لگے یا برا ان مولوی کی باتیں تو مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتیں !

فاطمہ:(ہاتھ پھیلا کر)اے خدا یہ کہاں کا انصاف ہے؟ایک آنکھ میں تو لہر بہر  اور  دوسری میں میں  تیرا یہ قہر!تو نے ہم عورتوں کو اتنا بے بس کیوں بنایا ہے۔ (تھوڑی دیر ٹھہر کر) چاہے کچھ ہو جائے اس تھپڑ اور اس شادی کا بدلہ تومیں ضرور لوں گی، لو یہ بھی میرا قصور ہے کہ بچے مر گئے !

کرایہ دارنی:اے ہاں کوئی بھی عورت ایسی ہو گی جس کو اپنے بچوں کے مرنے کا غم نہ ہو۔ایک تو ان کا غم اٹھاؤ، دوسرے میاں کی مار کھاؤ، یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ تو آج صبح سے مکان ڈھونڈ رہے ہیں۔

ماما:تین بچے تو کھیلتے  مالتے چلے گئے۔ پھر تو سب ایسے ہی ہوئے۔

کرایہ دارنی:سب کو تو مولوی صاحب تعویذ دیتے ہیں۔ علاج کرتے ہیں۔ جن پکڑتے ہیں۔ بیوی کا علاج کیوں نہیں کرتے۔

فاطمہ:علاج کرتے ہیں خاک!سب ڈھکوسلے بازی ہے۔ روپیہ ٹھگنے کے ڈھنگ ہیں بدنیت مٹھائی تو مٹھائی طشتری تک کھا جاتے ہیں۔

کرایہ دارنی:تو آج میں بتاتی ہوں کہ جب میں ان سے یہی کہتی ہوں تو ہمیشہ لڑنے لگتے ہیں کہ اس میں مولوی صاحب کا کیا بس ہے۔ انھوں نے تو سب جتن کر لیے۔ جب اللہ میاں ہی کی مرضی نہیں ہے تو وہ کیا کریں۔

ماما:اے بیوی بس کرو کب تک روئے جاؤ گی۔(خود بھی آنسو پونچھتی ہے) تمہاری قسمت ہی ایسی پھوٹی ہوئی ہے۔ سوکن آئے تو آئے مار بھی کھانے لگیں۔ مولوی صاحب ایسے تو نہ تھے چیختے چلاتے تو ہمیشہ سے ہیں ہاتھ اٹھاتے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

(باہر سے کہار پکارتے ہیں۔)

کہار:سواری اترو الو۔۔۔ سواری اتر والو۔

(ماما آنسو پونچھ کر کھڑی ہو جاتی ہے  اور آہستہ آہستہ باہر کی طرف جاتی ہے۔)

ماما:چیخے کا ہے کو جاتا ہے آ تو رہے ہیں۔

کرایہ دارنی:جنے کون آیا ہے؟

فاطمہ:ممانی ہوں گی۔

(ممانی کلف دار خوب پھولی ہوئی ساڑھی پہنے ہوئے داخل ہوتی ہے۔ کرایہ دارنی سلام کرتی ہے وہ سر سے جواب دے کر فاطمہ کی طرف بڑھتی ہے فاطمہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہتی ہے۔)

ممانی:کیوں بیٹی فاطمہ کیا طبیعت اچھی نہیں ہے (اور قریب آ کر) یہ رو کیوں رہی ہو کیا بات ہے؟

(فاطمہ کھڑے ہو کر ممانی سے لپٹ جاتی ہے  اور پھر سسکیوں سے رونے لگتی ہے۔)

ممانی:(کرایہ دارنی سے)خیر تو ہے کیا ہوا؟

کرایہ دارنی:مولوی صاحب نے مارا۔

ممانی:ہیں !کیا !مارا!آخر کس بات پر؟

ممانی:فاطمہ، اے بیٹی بس کرو۔ کچھ کہو تو۔

(سہارا دے کر بٹھا دیتی ہے  اور خود بھی تخت پر بیٹھ جاتی ہے۔)

(ایک مرد کی آواز باہر سے آتی ہے۔)

آواز:بڑی بی۔ بڑی بی۔ میں آ سکتا ہوں۔

ممانی:کون؟عزیز؟آ جاؤ۔

کرایہ دارنی:ذرا ٹھہرئیے۔ میں تو چلی جاؤں۔

(عزیز اندر آتا ہے لیکن غیر عورت کو دیکھ کر واپس جانے لگتا ہے۔)

ممانی:ذرا ٹھہرو ابھی پردہ ہوا جاتا ہے۔

(کرایہ دارنی جلدی سے چلی جاتی ہے۔)

ممانی:اب آ جاؤ۔

(ایک جوان لڑکا شیروانی  اور پائجامہ پہنے داخل ہوتا ہے ، آ کر کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے۔)

فاطمہ:(آنسو پونچھ کر)بیٹھ جاؤ میاں یہ سامنے پلنگ تو پڑا ہے۔

عزیز:آپا جان کیا ہوا؟

فاطمہ: بھائی کیا بتاؤں جس کے باپ بھائی نہ ہوں۔ اس کی یہی بے قدری  اور  یہی حشر ہو گا۔

عزیز:اب آپ شکایتیں تو رہنے دیجئے۔ پہلے اپنی تکلیف تو بتائیے۔

(ممانی گال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔)

عزیز:(جھک کر منہ دیکھتا ہے) ہیں یہ آپ کا منہ لال کیوں ہو رہا ہے؟

فاطمہ:لال کیسے ہو رہا ہے۔ خدا کی، قسمت کی، شوہر کی سب کی مار مجھ پر ہے  اور کیا ہے۔

عزیز:آپا جان کچھ تو بتائیے؟

فاطمہ:ہوا کیا دوسری شادی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں تیرے بچے نہیں جیتے دوسرا بیاہ کروں گا۔

ممانی:دوسرا بیاہ؟

فاطمہ:جی ہاں دوسرا بیاہ۔  اور میرے یہ کہنے پر کہ میں اپنے  گھر میں ان کی نئی بیوی کو گھسنے نہیں دوں گی۔ بہت چیخے چلائے  اور میرے منہ پر زور سے تھپڑ مارا۔

ممانی:لو اور سنو گھر تمہارا ہے تمہارے باپ کا دیا ہوا ہے ان کو اس میں لانے کا حق ہی کیا ہے۔ ایسا ہی شوق ہے تو اور گھر لے کراس میں رکھیں۔

عزیز:ان کو دوسری شادی اس حالت میں جبکہ بیوی موجود ہے کرنے کا حق کیا ہے؟

ممانی:حق کی بات تو یہ ہے ، میاں کہ وہ مرد ہیں ان کو کون روک سکتا ہے؟ خداوند کریم، رسول پاک، شریعت، قوم، سب کی طرف سے اجازت ہے۔ ایک چھوڑ وہ ابھی تین شادیاں  اور کر سکتے ہیں۔ مصیبت تو عورتوں کی ہے۔

فاطمہ: اور پھر کہتے ہیں کہ دونوں کے ساتھ ایک سا سلوک کروں گا۔ ایک سا خیال رکھوں گا۔ ابھی تو وہ آئی بھی نہیں ہے۔

عزیز:کیا یہ بھی کہتے تھے کہ ایک سی محبت بھی کروں گا۔ خیال  اور محبت میں تو بڑا فرق ہے۔

ممانی:محبت کون برابر کر سکتا ہے؟پہلی تو ہمیشہ دل سے اتری ہوئی ہوتی ہے۔ محبت برابر کرنے کا دعویٰ تو بڑے بڑے نہیں کر سکے۔ یہ بچارے تو صرف مولوی ہیں۔

فاطمہ:یہ تو دنیا میں اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں کہ بڑی بڑی نیک عورتوں پر سوکنیں آئی ہیں  اور انھوں نے اف تک نہ کی۔

عزیز:(ہنس کر) غلط تھوڑے ہی کہتے ہیں عورتوں پرہی سوکنیں آتی ہیں کوئی گائے بھینس پر تو نہیں۔

فاطمہ:میاں جب عورت ہوتے تب۔۔۔

ممانی:اے  اور کیا انھیں کیا  قدر ہے عورت کی جان کو بس اتنا سمجھتے ہیں کہ کھانا کپڑا دے دیا تو بہت کیا۔ میاں بہت اللہ والے ہوئے تو ایک رات ایک بیوی کے ہاں جا رہے دوسری رات دوسری بیوی کے پاس۔ بس عورتیں نہ ہوئیں میاں کے کھلونے ہو گئیں۔ جس سے جی چاہا کھیل لیا۔ قصور کس کا ہے جو دونوں عورتیں ایکا کر لیں تو مرد کیا کر سکتا ہے؟

عزیز:مردان دونوں کو چھوڑ کر تیسری شادی کر سکتا ہے۔

ممانی:دوسے میرا مطلب کوئی دوسے تھوڑا ہی ہے۔ میرا مطلب عورتوں سے ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہم ہیں ہی بدقسمت جب اللہ ہی نے مرد کو بڑا رتبہ دیا ہے تو۔۔۔

فاطمہ:رہنے بھی دو ممانی جان!اپنے مطلب کی یہ سب کتابیں مردوں نے لکھی ہیں ، مذہبوں کے بنانے والے شریعتیں  اور قانون بنانے والے سب مرد ہی تو تھے۔ مردوں کی آسانی کی سب باتیں لکھ گئے۔ عورتوں کے دلوں کی انھیں کیا خبر عورت ہوتے تو سمجھتے۔

ممانی: توبہ کرو بیٹی توبہ!اپنے غصہ میں کفر تو نہ بکو!وہ لوگ اللہ کے پیارے تھے ہماری کیا مجال ہے کہ ہم ان کے فعلوں یا حرکتوں کو جانچیں  اور  پرکھیں وہ بے گناہ  اور پاک ہستیاں تھیں اب انھوں نے جو کیا تو خیر۔ یہ دوسرے مردوں کی۔۔۔

عزیز:یہ تو نہایت بے انصافی کی بات ہے اماں جان کہ آپ مولوی صاحب کو حقوق کی ادائیگی کے لیے برا کہتی ہیں۔ میں تو ان کی بہت تعریف کرتا ہوں۔۔۔

ممانی:تمہارا کیا ہے تم جو نہ کہو۔۔۔

(باہر سے کنڈی کھٹکتی ہے  اور ساتھ ہی ایک مرد کی آواز آتی ہے۔)

آواز:کیا میں آ سکتا ہوں؟

عزیز:لیجئے آپا جان قدیر بھائی بھی آ گئے۔

(اٹھ کر پردہ کھولتا ہے۔)

عزیز:آ جاؤ قدیر بھائی میدان بالکل صاف ہے۔

(قدیر سوٹ میں داخل ہوتا ہے۔)

قدیر:آداب عرض آپا جان کیوں کیا بات ہے سب چپ کیوں ہو گئے۔ کیا میری برائی ہو رہی تھی۔ جبھی تو میرے کان بھی جل رہے ہیں۔

عزیز:نہیں تمہارا ذکر نہیں تھا۔ یہاں تو مولوی صاحب کی تعریف ہو رہی تھی کم از کم میں تو کر رہی رہا تھا۔

قدیر:یہ تو نہایت دلچسپ بات ہے۔ کیوں کیا آج کل مولوی صاحب پھر کوئی پیش گوئیاں فرما رہے ہیں۔

فاطمہ:پیش گوئیاں تو نہیں ہاں خواب ضرور دیکھا ہے۔

قدیر:شکر ہے کہ معراج کی ہمت نہ ہوئی۔

ممانی:تم دونوں بھائیوں کو ہر وقت ہنسی مذاق سوجھتا ہے کبھی تو کسی دوسرے کی مصیبت کا خیال کیا کرو۔

قدیر:مصیبت۔ مصیبت کس پر پڑی؟

ممانی:بہن پر سوکن آ رہی ہے  اور تمہیں ہنسی کی سوجھ رہی ہے۔

قدیر:واللہ مجھ کو بالکل خبر نہیں تھی بہت افسوس کی بات ہے۔ لیکن یہ خبر تو بالکل نئی ہے۔ ابھی تو پچھلے ہفتے جب میں آیا تھا تو اس کا کوئی ذکر نہ تھا۔

فاطمہ:مجھے خود تین دن ہوئے انھوں نے بتایا۔

قدیر:تو مولوی صاحب کی برات کب ہے؟کیا گھوڑے پر سوار ہو کر دلہن لینے جائیں گے۔ معاف کیجئے آپا جان میں بغیر ہنسے نہیں رہ سکتا۔ (خوب ہنستا ہے) اب کس خوش قسمت کو یہ عہدہ مل رہا ہے۔

فاطمہ:ان کے ایک مرید کی لڑکی ہے۔

قدیر:اچھا تو پھر سب کچھ بتائیے۔

ممانی:بتائیے کیا۔ پہلے تم ہنس تولو۔ شادی کریں گے بیوی کو اسی گھر میں رکھیں گے۔ اس نے منع کیا کہ میرا گھر ہے میں یہاں آنے نہ دوں گی تو اسے مارا۔

قدیر:مارا!سچ بتائیے آپا جان۔ اب ان کی یہ ہمت بھی ہو گئی کہ آپ پر ہاتھ اٹھانے لگے  اور تعجب ہے کہ آپ جیسی غیرت مند عورت نے ان کی مار کس طرح کھا لی۔

فاطمہ:کیا کرتی میاں !زبردست کا ٹھینگا سرپر۔ کیا میں بھی مارتی؟

عزیز:کیوں نہیں !اس میں شبہ نہیں کہ مولوی صاحب کشتی میں جیت جاتے لیکن پھر بھی دو ایک ہاتھ آپ کو بھی آزما لینے چاہئے تھے۔

ممانی:پھر تمہارا وہی مذاق۔

قدیر:اماں جان آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ یہ مذاق کی بات ہے؟میں تو نہایت سنجیدگی سے بات کر رہا ہوں  اور آپ اس کو مذاق میں لئے جاتی ہیں۔ آپا جان مولوی صاحب کی اس قسم کی مردانہ حرکات پر کون بغیر ہنسے رہ سکتا  ہے۔ لیکن یہ سوچ کر بہت غصہ آ رہا ہے کہ آپ کیوں ایسی بے بس صورت بنا کر رونے بیٹھ گئیں۔

فاطمہ: بھائی میں بے والی وارث عورت ان کا کیا کر سکتی ہوں۔

قدیر:بے والی وارث!آپ کوئی بچہ توہے نہیں کہ آپ کو سہارے کی ضرورت ہو جب تک انسان اپنے اوپر بھروسہ نہیں کرتا  اور اپنا وارث آپ نہیں بن جاتا دنیا میں کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔

ممانی:خیر میاں !یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ایک پردہ نشین، شریف عورت بغیر وارث مرد کے کیا کر سکتی ہے؟

فاطمہ:ہاں ممانی جان ذرا آپ ہی انصاف سے کہئے۔

قدیر:اس میں برا ماننے کی بات نہیں ہے۔ آپ سے جو ہمدردی مجھ کو ہے اس کو بیان کر کے اس ہمدردی کے جوش کو کھونا ہے ، لیکن آپ ہی بتائیے کہ آپ کیا کریں گی؟کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں بھی اماں جان  اور  عزیز کی طرح آپ کے ساتھ مل کر رونے لگوں؟

عزیز:تم میرا نام نہ لو۔ میں تو بچارے مولوی صاحب کے لئے لڑ رہا تھا کہ آخر وہ کیوں نہ دوسری شادی کریں میرا خود چار بیویاں رکھنے کا ارادہ ہے۔

ممانی:اے ہے تمہارے ایسے فقرے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ پہلے تمہیں ایک جڑ جائے تو جاننا!

قدیر:آپا جان، آپ سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ کرنا کیا چاہتی ہیں  اور  ہم کس طرح آپ کی مدد کر سکتے ہیں؟

فاطمہ:میں یہ نہیں چاہتی کہ وہ میرے گھر میں قدم رکھے۔ ان کا جہاں جی چاہے رکھیں۔(گود پھیلا کر) یا اللہ اس کے بھی بچے اس طرح ہو ہو کر مریں۔ جیسا کہ میرے اوپر بچوں کی موت کا الزام تھوپا ہے انھیں بھی تو کچھ خبر ہو۔

قدیر:یہ کوسنے کاٹنے سے تو کچھ ہوتا نہیں ہے کام کی بات کیجئے۔ بس آپ اتنا ہی چاہتی ہیں کہ وہ یہاں نہ آئے؟فرض کیجئے کہ انھوں نے آپ کو کہنا نہ مانا تو آپ کیا کریں گی۔

ممانی:بچاری کیا کرے گی،  یہی نہ کہ رو دھوکر بیٹھ رہے گی۔

فاطمہ:میں رو دھو کر نہ بیٹھوں گی۔ میں ساری دنیا سارے محلہ کو شور مچا کر بتا دوں گی کہ یہ مظلوم پر کیسا ظلم کر رہے ہیں۔

قدیر:اس سے کیا ہو گا۔ وہ گھر پر رہنے ہی لگے گی۔ آپ کا شور چالیس گز تک بھی نہ پہنچے گا۔

فاطمہ:(جوش سے) کیا عدالت، کچہری سب ختم ہو گئے۔ کیا کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ میں اسے اپنے مکان میں گھسنے نہ دوں !

قدیر:جی ہاں قانون توہے۔ کیونکہ یہ آپ کا ذاتی مکان ہے۔ آپ اس کو یہاں آنے سے روک سکتی ہیں۔ کیوں آپ کی ہمت بھی کچہری جانے کی ہو گی؟

فاطمہ:اگر یہ اس کو یہاں لے آئے ، تو خدا کی قسم سب کچھ کر کے دکھا دوں گی۔

ممانی:(ڈر کر)بیٹی خدا کا نام بے کار نہ لو ابھی غصہ ہے۔ جب ہوش میں آؤ گی تو رنج ہو گا۔ دوسرے شریفوں کے ہاں کچہری عدالت نہیں ہوتے۔

قدیر:نہیں ہوتے تواب ہونے چاہئیں۔ اماں جان آپ کیوں ان کی ہمت کو پست کئے دیتی ہیں؟

ممانی:ہمت پست کئے دیتی ہوں؟تم کہاں کے ایسے بزرگ نکلے ہو۔ ابھی تو فاطمہ کی ماں جیتی بیٹھی ہیں وہ اتنی ناراض ہوں گی کہ خدا کی پناہ  اور  سچی بات تو یہ ہے کہ کچہری عدالت کے تومیں بھی خلاف ہوں۔

عزیز:اماں جان۔ کون کچہری عدالت بلا ضرورت کے کرتا ہے؟ ابھی آپ کی دوکان کا کرایہ نہ ملے تو آپ نالش کریں گی یا نہیں؟

ممانی:اے لڑکو!کیا  تمہارا دماغ پھر گیا ہے؟ کیا سچ مچ بہن کو عدالت چڑھاؤ گے؟

قدیر:ہم نہیں چڑھائیں گے ، ہاں ، اگر آپا جان ہماری مدد مانگیں گی توہم ان کی ہر ہر طرح مدد کریں گے ! اور آپ کی طرح کہ بیٹی روکر صبر کر لو نہیں کہیں گے۔ اچھا یہ بحث تو رہی۔ اب یہ بتائیے کہ ان کے دل میں ایک دم شادی کرنے کی کیونکر سمائی؟

فاطمہ:کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی نہیں ہے کہ میرے بچے جئیں خواب میں کوئی بزرگ کہہ گئے ہیں کہ دوسری کر جب تیرے بچے جئیں گے۔

قدیر:یہ مولویت بھی کیا آسان پیشہ ہے بچے نہ جئیں اپنے قصور سے  اور  اللہ کا حکم ہو گیا!

فاطمہ:اب تین تو پل پلا کر ایک دم چیچک کی نذر ہو گئے۔دو دن میں گود جھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔

قدیر:وہ بھی انھیں کی مہربانی ٹیکے نہ لگوانے دیئے ہوں گے۔

فاطمہ:ٹیکے ان غریبوں کے کہاں لگے تھے انگریزی دوا تو اس گھر میں آ نہیں سکتی۔ لیکن یہ بعد کے یا تو مرے ہوئے پیدا ہوئے۔ یا تو پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔یہ تو میری قسمت کا قصور ہے  اور میرے ہی گناہ سامنے آتے ہیں۔

قدیر:قسمت بے چاری کو آپ اتنا نہ روئیے۔  اور نہ کوئی گناہ آپ نے کئے  اور  نہ گناہ کرنے کا موقع آپ کو ملا۔ آپ کو اتنے بچوں کی موت کا باعث بھی یہی مولوی صاحب ہیں۔ آج میں یہی بتانے کو حاضر ہوا تھا۔ اس دن جو آپ کا خون  ڈاکٹر  اقبال نے لیا تھا اس کا جواب آ گیا ہے۔ اس کے متعلق تنہائی میں کہوں گا۔

فاطمہ:تنہائی کی کیا ضرورت ہے؟ممانی جان سے یا عزیز سے کیا کوئی پردہ ہے۔

قدیر:خیر آپ کی مرضی، صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ میرے دوست ڈاکٹر  اقبال کہہ رہے تھے کہ اگر آپ کا علاج ہو تو جیتا بچہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ مولوی صاحب کا علاج بھی ساتھ ہو۔

فاطمہ:وہ تو انگریزی علاج ہرگز نہیں کریں گے۔ ہاں چھپ چھپا کر میں کروا لیتی۔ لیکن اب وہ دوسرا بیاہ کر رہے ہیں میری وہ سنیں گے لیکن میاں کو آخر بیماری کیا ہے؟

قدیر:جی اس کو گرمی کی بیماری کہتے ہیں۔

فاطمہ:کیا کہا قدیر میاں !یہ نجس بیماری مجھ کو!نہیں میاں کچھ غلطی ہو گئی ہو گی۔ میرے تو پشتوں میں بھی یہ بیماری نہیں ہے۔

قدیر:آپ کونہ سہی مولوی صاحب کوہو گی۔

ممانی:توبہ کرو توبہ!مولوی ہیں ہزار ظلم کریں ، مولوی لوگ ایسا کام نہیں کرتے۔

عزیز:کیا آپ سب مولویوں کے پیچھے پیچھے پھر تی ہیں؟

فاطمہ:یقین تو مجھے بھی نہیں آتا۔

قدیر:اب یقین آپ نہ کریں تو دوسری بات ہے۔ مولوی صاحب کا مجھے علم نہیں ان کے خون کا معائنہ ہوا نہیں ہے۔ لیکن آپ کو یہ بیماری ضرور ہے۔

فاطمہ:میاں مجھے کہاں سے لگ گئی۔

قدیر:میرے خیال میں تو مولوی صاحب سے ہی لگی ہو گی۔

فاطمہ:(ایک دم جوش سے) قدیر میاں اگر تمہاری بات ٹھیک ہو گی  اور  میرے بچوں کے خون کے ذمہ دار ہوں گے۔ تومیں چاہے عمر بھر  سڑک پر بھیک ہی کیوں نہ مانگوں ان کو ان کی نئی نویلی دلہن کو مزہ چکھا دوں گی۔ ممانی جان آپ میرے زیوروں کا صندوقچہ لیتی جائیے۔ نہ معلوم مجھے کب ضرورت پڑ جائے  اور یہ مکانوں  اور دوکانوں کے کاغذات بھی۔

ممانی:اے بیٹی یہ بہت ذمہ داری کی بات ہے تم اپنی ماں کے پاس لے جا کر رکھو اور۔۔۔

فاطمہ:ممانی جان آپ اماں کو جانتی ہیں۔ وہ ان کے آگے میری کب سنتی ہیں جو یہ کہتے ہیں وہ کرتی ہیں۔ کوئی بیٹیوں سے کیا محبت کرے گا۔ جو وہ داماد سے کرتی ہیں اگر یہ کہیں گے کہ تو جائداد دوسری عورت کے نام لکھ دے تواماں کہیں گی لکھ دے۔ ان کاتو یہ کہنا ہے کہ مرو اور بھرو۔

قدیر:آپا جان، اگر آپ کو میرا بھروسہ  ہو تومیں رکھنے کو تیار ہوں اماں بھی پھوپھی جان سے کم تھوڑی ہیں یہ بھی یہی کہیں گی کہ مرو اور بھرو۔

فاطمہ:میاں خدا تمہیں خوش رکھے ابھی اندر سے جا کر لاتی ہوں۔

(چلی جاتی ہے۔)

ممانی:قدیر تمہیں کیا ہو گیا ہے پرائے معاملہ میں تم کیوں پڑتے ہو مولوی صاحب ویسے ہی تمہارے دشمن ہیں اب تم کوئی بچہ تو ہو نہیں۔۔۔

عزیز:اماں جان جب وہ مدد مانگ رہی ہیں تو یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ ان کی مدد نہ کی جائے۔

ممانی: اور باتیں بڑی انسانیت کی کرتے ہو۔ اس کی ماں زندہ ہیں بڑے ماموں زندہ ہیں۔ چچا  اور  ان کی اولاد موجود ہے تمہیں بیچ میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔

قدیر:ان کی اماں ، ماموں ، چچا، آپ سب آخر میں یہی کریں گے کہ اسی دوزخ میں دھکا دے دیں گے۔ جب وہ اپنے گھر میں مولوی صاحب کی نئی بیوی کا آنا نہیں چاہتیں  اور یقیناً مولوی صاحب اس کو یہاں لا کر رکھیں گے تو پھر کیوں نہ ان کی مدد کی جائے۔

ممانی: اور جو کل عتیق اللہ نے دعویٰ کر دیا کہ میری بیوی کو بھگا کر لے گئے؟

قدیر:بیوی کوئی ایسی بچہ نہیں ہے۔ چوری سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہم کیوں لے جائیں گے ہاں اگر وہ خود آئیں گی توہم اپنا دروازہ بند نہیں کریں گے۔

ممانی:تم دونوں بھائی جو کبھی میرا کہنا مان لو یہی نئی روشنی ہے۔ اچھا چپ رہو وہ آ رہی ہے۔

(فاطمہ صندوقچہ لے کر واپس آتی ہے۔)

فاطمہ:لو میاں زیور روپیہ جو کچھ بھی ہے یہ ہے  اور کچھ اماں کے پاس ہے۔

قدیر:(صندوقچہ اٹھا کر) یہ تو پتھر ہے کیا اس میں سونے کی اینٹیں بھری ہیں۔

فاطمہ:نہیں میاں ، سونے کی اینٹیں کہاں سے آئیں اب آپ لوگ لے ہی جائیے۔ آتے ہی ہوں گے۔ عزیز کل صبح پھر ہوتے جانا کچھ کاغذات  اور  دینے ہیں۔

ممانی۔:بیٹی میری ہمت تولے جانے کی ہے نہیں۔

قدیر:اماں جان میں آپ کی ڈولی میں رکھے دیتا ہوں آپ لے کرچلی ہی جائیے۔

(صندوقچہ لے کر چلا جاتا ہے۔)

ممانی:یہ بھی تم لوگوں کی کوئی بات ہے۔

عزیز:اماں جان اب دیکھئے وہ آ گئے تو یہ صندوقچہ بھی جائے گا  اور ان کا زیور دوسری کومل جائے گا۔ ابھی تو آپ کہہ رہی تھیں کہ مصیبت میں کام نہیں آتے۔

(قدیر واپس آ جاتا ہے ممانی کھڑی ہو جاتی ہیں۔)

ممانی:اچھا بیٹی اب آج کل بڑے بوڑھوں کی سنتا کون ہے۔ خدا کرے خوش رہو۔ اللہ عتیق کا دل پھیر دے  اور میں ساتھ خیر کے تمہاری امانت تمہیں سونپ جاؤں۔ یہ بڑے ذمہ داری کا کام ہے۔

(مولوی عتیق اللہ کھنکھارتا  ہوا داخل ہوتا ہے سب خاموش ہو جاتے ہیں۔)

عتیق:السلام علیکم۔

قدیر و عزیز:آداب عرض!

عتیق:تو کیا مجھ کو دیکھ کر آپ سب واپس جانے لگے۔

ممانی:نہیں اب جاہی رہے تھے۔ جب آپ آئے تومیں خدا حافظ ہی کہہ رہی تھی۔

(لڑکوں کی طرف دیکھ کر منہ بناتی ہے جس کا مطلب ہے کہ تمہیں خدا سمجھے۔)

قدیر:میں تو صرف  آپا جان کے معالج کی طرف سے آیا تھا۔ اب معافی چاہتا ہوں۔ آداب عرض ہے آپا جان، (عتیق سے)آداب عرض۔

عزیز:آداب عرض۔

ممانی:(فاطمہ کو گلے لگا کر چپکے سے) بیٹی جو کچھ بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا۔

(علاوہ عتیق کے سب لوگ باہر جاتے ہیں۔ فاطمہ دروازے تک جاتی ہے وہاں سب پھر ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں۔ فاطمہ واپسی پر بلا عتیق اللہ کی طرف دیکھے ہوئے دوسری طرف چلتی ہے۔)

عتیق:آج ہی میں نے تم سے کہا تھا کہ ان دونوں بھائیوں کے سامنے نہ ہونا تم نے میری حکم عدولی کیوں کی؟

(فاطمہ کھڑی ہو کر غصہ سے مولوی صاحب کو گھور کر دیکھتی ہے  اور  بلا جواب دیئے پھر سے چلنا شروع کر دیتی ہے۔)

عتیق:یہ قدیر کس معالج  کا ذکر کر رہا تھا؟مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہیں کوئی بیماری ہے  اور بلا میری اجازت لئے تمہاری کس طرح مجال ہوئی۔

فاطمہ:(کھڑی ہو کر) مجھے کون سی بیماری ہے وہی جوتم نے لگائی ہے  اور  تمہیں ہو جو میرے معصوم بچوں کے قاتل ہو۔ خونی کہیں کے !جس سے میرا دل چاہے گا علاج کرواؤں گی۔ اب مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہت تمہارے حکم مان لئے۔

عتیق:یہ کیا بدزبانی ہے !یہ ذرا اپنے دو ماموں زاد بھائیوں کے زور پر نہ رہنا  اور  آج سے یہ لوگ میرے گھر پر گھس تولیں۔

فاطمہ:تمہارا گھر!کبھی پشتوں میں بھی گھر دیکھے تھے۔ بھک منگے کہیں کے ! جب تک میں زندہ ہوں۔ یہ لوگ مجھ سے نہیں چھوٹ سکتے۔ تم چھٹ جاؤ یہ نہیں چھٹیں گے۔ بڑے آئے۔۔۔

عتیق:(طیش میں)قسم ہے مجھے اپنے پروردگار کی تجھے اس بدزبانی کا مزہ نہ چکھایا ہو تو بات کیا ہے۔ تم سخت سے سخت سزا کے قابل ہو، منحوس عورت، تجھے ابھی تک عبرت نہیں ہوئی، تجھے وہ سزا دی  ہو کہ تو بھی یاد کرے۔۔۔

(عتیق غصہ میں بھرا ہوا تخت سے اتر کر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ سیدھا ہاتھ مارنے کے لئے اونچا اٹھائے ہوئے فاطمہ کی طرف بڑھتا ہے۔)

فاطمہ:(غصہ ضبط کرتے ہوئے دانت پیس کر) ذرا سنبھل کے میں کہتی ہوں کہ بیٹھ جاؤ اگر اپنی عزت کی خیر چاہتے ہو!اگر  اس دفعہ تم نے ہاتھ اٹھایا۔۔۔  تومیں ذمہ دار نہیں ہوں۔

(فاطمہ بھی ایک دو قدم آگے بڑھتی ہے۔ عتیق ایک سیکنڈ تو کھڑا رہتا ہے۔ اس کا سیدھا ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے گرتا ہے پھر دو قدم پیچھے لے کر واپس تخت یا پلنگ  پر بیٹھ جاتا ہے۔)

فاطمہ:(عتیق کے تخت پر بیٹھنے کے بعد) بڑے مرد بنتے ہیں۔۔۔ چلے ہیں دوسرا بیاہ کرنے !

(دوسری طرف چلتی ہے۔)

(پردہ گرتا ہے)